روسی تیل پر سخت امریکی پابندیاں کسی امن معاہدے میں مدد دے سکیں گی؟
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
ویب ڈیسک —
امریکہ نے جمعے کو روس کی تیل اور گیس سے آمدنی کو نشانہ بناتے ہوئے یوکرین جنگ کے دوران اب تک کی سخت ترین پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے ۔
خبر رساں ادارے "رائٹرز” کے مطابق ان پابندیوں کا مقصد یوکرین اور آنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو روس کے ساتھ یوکرین جنگ کے خاتمے کی جانب ممکنہ امن معاہدے کے مذاکرات میں فائدہ دینا ہے۔
ماہرین کے مطابق نئی پابندیوں کا مقصد روس کی اس آمدنی کے ذرائع کو سکیٹرنا ہے جس سے وہ یوکرین میں جنگ جاری رکھے ہوئے ہے ۔
فروری 2022 میں روسی حملے سے شروع ہونے والی اس جنگ میں ہزاروں افراد ہلاک اور زخمی ہوگئے ہیں جبکہ شہروں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے۔
یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے ایکس پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں کہا کہ جمعہ کو اعلان کردہ اقدامات ماسکو کو "ایک اہم دھچکا” پہنچائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا، "روس تیل سے جتنی کم آمدنی حاصل کرے گا، اتنی ہی جلد امن بحال ہو جائے گا۔”
وائٹ ہاؤس کے اقتصادی اور قومی سلامتی کے امور کے ایک اعلیٰ مشیر دلیپ سنگھ نے ایک بیان میں کہا کہ یہ اقدامات "روس کے توانائی کے شعبے پر اب تک کی سب سے اہم پابندیاں ہیں جو کہ صدر ولادیمیر پوٹن کی جنگ کے لیے آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔”
امریکہ کے محکمہ خزانہ نے جن کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی ہیں ان میں Gazprom Neft SIBN.
اس کے علاوہ روسی تیل کو سمندری راستوں سے برآمد کرنے میں استعمال ہونے ولے 183 بحری جہازوں پر بھی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔
ان میں سے بہت سے جہاز اس بیڑے میں شامل ہیں جسے "شیڈو فلیٹ” کہا جاتا ہے۔ ان میں شامل عمر رسیدہ ٹینکروں کو غیر مغربی کمپنیاں چلاتی ہیں۔
ان پابندیوں کا اطلاق ان نیٹ ورکس پر بھی ہو گا جو پیٹرولیم کی تجارت کرتے ہیں۔
رائٹرز کے مطابق ان میں سے بہت سے ٹینکرز بھارت اور چین کو تیل بھیجنے کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ سال 2022 میں گروپ آف سیون ممالک کی طرف سے مقرر کی گئی قیمت کی حد نے روسی تیل کی تجارت کو یورپ سے ایشیا میں منتقل کر دیا ہے۔
ان میں کچھ ٹینکرز ایسے بھی ہیں جنہیں روسی اور ایرانی تیل بھیجنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
امریکی محکمہ خزانہ نے اس شق کو بھی منسوخ کر دیا جس کے تحت روسی بینکوں پر پابندیوں کے باعث توانائی کی ادائیگیوں کے عمل میں درمیانی کردار ادا کرنے والوں کو استثنیٰ دیا گیا تھا۔
ایک امریکی اہلکار نے صحافیوں کو بتایا کہ اگر ان پابندیوں کا اچھی طرح اطلاق ہوتا ہے تو روس کو ہر ماہ اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔
اہلکار کے مطابق تیل کی پیداوار اور تقسیم کے سلسلے میں کوئی ایسا کام نہیں جن پر ان پابندیوں کا اطلاق نہ ہوتا ہو۔ لہذا امریکہ کو یقین ہے کہ روس کی ان پابندیوں سے بچنے کی کوشش اسے بہت مہنگی پڑے گی۔
روس کی گیس پرام کمپنی نے امریکی اقدام کے ردعمل میں کہا کہ یہ پابندیاں غیر منصفانہ اور ناجائز ہیں اور وہ اپنا کام انجام دیتی رہے گی۔
تیل کی سپلائی اب امریکہ کے لیے کوئی مسئلہ نہیںپابندیوں کے نئے امریکی اقدامات سے متاثر ہونے والی کمپنیوں کو توانائی کے لین دین کو مکمل کرنے کے لیے 12 مارچ تک کی مہلت دی گئی ہے۔
اس چھوٹ کے باوجود روس کے تیل کی تجارت اور بھارت کے تیل صاف کرنے کے کام سے وابستہ ذرائع نے کہا ہے کہ پابندیاں بڑے خریداروں بھارت اور چین کو روسی تیل کی برآمدات میں شدید رکاوٹ ڈالیں گی۔
روس پر تازہ ترین پابندیوں کے اعلان سے پہلے تیل کی عالمی قیمتوں میں تین فیصد سے زیادہ کا اضافہ دیکھا گیا جبکہ برینٹ خام تیل کی قیمت 80 ڈالر فی بیرل کے قریب پہنچ گئی کیونکہ ایک دستاویز کے ذریعہ ان پابندیوں کی تفصیلات یورپ اور ایشیا کے تاجروں کو پہلیے ہی پہنچائی گئ تھیں۔
محکمہ خارجہ میں توانائی کے وسائل کے لیے امریکی نائب سیکریٹری جیفری پوئیٹ نے کہا کہ اس سال امریکہ، گیانا، کینیڈا اور برازیل سے تیل کی نئی سپلائی مارکیٹ میں آنے کی توقع ہے۔
ان کے مطابق ممکنہ طور پر مشرق وسطیٰ سے بھی مزید تیل آئے گا اور یوں روس کی طرف سے سپلائی کی کمی کو پورا کیا جاسکے گا۔
واشنگٹن کی یہ پابندیاں یوکرین جنگ کے تناظر میں ایک وسیع تر کوشش کا حصہ ہیں۔
جو بائیڈن حکومت نے روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے کیف کو 64 بلین ڈالر کی فوجی امداد فراہم کی ہے۔
امریکی امداد میں اس ہفتےدیے گئے فضائی دفاعی میزائلوں اور لڑاکا طیاروں کے لیے معاون آلات کے لیے 500 ملین ڈالر بھی شامل ہیں۔
اس سے قبل نومبر میں امریکہ نے روس کے عالمی تجارت کے سب سے بڑے گیس پرام بینک سمیت مالی اداروں اور روسی تیل کی تجارت میں شامل درجنوں آئل ٹینکڑوں پر بھی پابندیوں کا اعلان کیا تھا۔
مستقبل میں ان پابندیوں کا خاتمہ کانگریس کے ذریعہ ممکن ہوگا
بائیڈن حکومت کے ایک عہدیدار نے کہا کہ اس بات کا انحصار "مکمل طور پر” نو منتخب ری پبلیکن صدر ٹرمپ پر ہے کہ وہ ڈیموکریٹک بائیڈن کے دور میں عائد پابندیاں کب اور کن شرائط پر اٹھا سکتے ہیں۔
لیکن، عہدیدار کے مطابق، ٹرمپ کو ایسا کرنے کے لیے کانگریس کو مطلع کرنا ہوگا اور اس سے منظوری لینا ہوگی۔
اس ضمن میں بات کرتے ہوئے قانونی فرم "Hughes Hubbard Reed” کے ایک پارٹنر جیریمی پینر کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ ٹرمپ کے لوگ آئیں گے اور خاموشی سے وہ بائیڈن کے سب اقدام الٹا دیں گے۔
وہ کہتے ہیں،” کانگریس کو اس میں شامل ہونا پڑے گا۔”
رائٹرز کے مطابق ٹرمپ کی واپسی نے روس کی یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے ایک سفارتی حل ڈھونڈنے کی امید کو جنم دیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ یوکرین کو فوری امن کے قیام کے لیے ایک بھاری قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔
منتخب صدر کی ٹرانزیشن ٹیم نے رائٹرز کی طرف سے اس معاملے پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا خبر بنانے تک کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
(اس خبر میں شامل معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں)
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل ان پابندیوں کا کے مطابق کی تجارت کے لیے جنگ کے روس کی کہا کہ روس کے
پڑھیں:
امریکا اور برطانیہ کے ’جوہری معاہدے‘ میں کیا کچھ شامل ہے؟
برطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اربوں پاؤنڈ مالیت کا معاہدہ کیا ہے جس کے تحت دونوں ممالک میں جدید جوہری توانائی کو فروغ دیا جائے گا۔
الجزیرہ کے مطابق یہ معاہدہ "اٹلانٹک پارٹنرشپ فار ایڈوانسڈ نیوکلیئر انرجی" کے نام سے جانا جا رہا ہے جس کا مقصد نئے ری ایکٹرز کی تعمیر کو تیز کرنا اور توانائی کے بڑے صارف شعبوں، خصوصاً مصنوعی ذہانت کے ڈیٹا سینٹرز، کو کم کاربن اور قابلِ بھروسہ بجلی فراہم کرنا ہے۔
اس معاہدے کے تحت برطانیہ کی سب سے بڑی توانائی کمپنی ’سینٹریکا‘ کے ساتھ امریکی ادارے ایکس انرجی مل کر شمال مشرقی انگلینڈ کے شہر ہارٹلی پول میں 12 جدید ماڈیولر ری ایکٹرز تعمیر کرے گی۔
یہ منصوبہ 15 لاکھ گھروں کو بجلی فراہم کرنے اور 2,500 ملازمتیں پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکی کمپنی ہولٹیک، فرانسیسی ادارہ ای ڈی ایف انرجی اور برطانوی سرمایہ کاری فرم ٹریٹیکس مشترکہ طور پر نوٹنگھم شائر میں چھوٹے ماڈیولر ری ایکٹرز (SMRs) سے چلنے والے ڈیٹا سینٹرز تعمیر کریں گے۔
اس منصوبے کی مالیت تقریباً 11 ارب پاؤنڈ (15 ارب ڈالر) بتائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ، برطانوی رولز رائس اور امریکی بی ڈبلیو ایکس ٹی کے درمیان جاری تعاون کو بھی مزید وسعت دی جائے گی۔
برطانیہ کے پرانے جوہری پلانٹس فی الحال برطانیہ میں 8 جوہری پاور اسٹیشنز موجود ہیں جن میں سے 5 بجلی پیدا کر رہے ہیں جب کہ 3 بند ہوچکے ہیں اور ڈی کمیشننگ کے مرحلے میں ہیں۔
یہ زیادہ تر 1960 اور 1980 کی دہائی میں تعمیر ہوئے تھے اور اب اپنی مدتِ کار کے اختتامی مرحلے پر ہیں۔ موجودہ توانائی صورتحال برطانیہ اپنی بجلی کا تقریباً 15 فیصد جوہری توانائی سے حاصل کرتا ہے جو 1990 کی دہائی کے وسط میں 25 فیصد سے زائد تھی۔
خیال رہے کہ 2024 میں پہلی مرتبہ ہوا سے پیدا ہونے والی توانائی (ونڈ پاور) نے ملک کا سب سے بڑا بجلی کا ذریعہ بن کر گیس سے بجلی پیدا کرنے کے عمل کو پیچھے چھوڑ دیا تھا جو کُل بجلی کا تقریباً 30 فیصد ہے۔
امریکا کے لیے یہ معاہدہ نہ صرف امریکی جوہری ٹیکنالوجی کی برآمدات کو بڑھائے گا بلکہ برطانوی اور امریکی کمپنیوں کے درمیان تجارتی تعلقات کو بھی مضبوط کرے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پورے پروگرام سے 40 ارب پاؤنڈ (54 ارب ڈالر) کی معاشی قدر پیدا ہونے کا امکان ہے۔
دنیا بھر میں ایڈوانسڈ نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی مانگ 2050 تک تیزی سے بڑھنے کی توقع ہے۔
امریکا میں بھی جوہری توانائی کی طلب 100 گیگا واٹ سے بڑھ کر 400 گیگا واٹ تک پہنچنے کا اندازہ لگایا جا رہا ہے جس کے لیے صدر ٹرمپ نے ملک کی جوہری پیداواری صلاحیت کو چار گنا کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
عالمی اوسط کے مطابق ایک جوہری ری ایکٹر کی تعمیر میں تقریباً 7 سال لگتے ہیں تاہم چین میں یہ مدت پانچ سے چھ سال ہے جبکہ جاپان نے ماضی میں کچھ ری ایکٹرز صرف تین سے چار سال میں مکمل کیے تھے۔