عورت کی کردار کشی اور استحصال کی وجہ بے پردگی یا کچھ اور
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
کیا مکمل پردہ یا حجاب ہی عورت کے تحفظ کی ضمانت ہے؟ کیا عورت کے کردار پہ اٹھنے والی انگلیاں صرف اس کی بے پردگی کے باعث ہیں؟
یہ سوال یوں تو مختلف تناظر میں بیسیوں بار ہی اٹھائے گئے ہیں، مگرعورت مارچ اور حیا مارچ کے بعد سے خصوصاً یہ بحث ہر طرف ہی شروع ہوچکی ہے۔
غور کریں تو یہ سمجھنے میں زیادہ دقت نہیں ہوتی کہ ہمارے معاشرے میں عورتوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے زیادتی یا تشدد کے واقعات کی اصل وجہ بے پردگی ہے یا کچھ اور ہے۔
میری ایک سہیلی ہے، جو کہ پردے کی بے حد پابند ہے۔ میں اکثر اوقات اس سے پوچھا کرتی ہوں کہ کیا تمہیں وہ سب تجربہ کرنا پڑ رہا ہے جو بے پردہ خواتین یا عام زبان میں بولڈ لڑکیوں کو فیس کرنا پڑتا ہے؟
مجھے یہ جان کر کوئی خاص حیرت نہیں ہوئی کہ کچھ کم سہی مگر وہ بھی کسی نہ کسی کی اخلاقی پسماندگی کا شکار ضرور ہوتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ وہ ایک خاص ماحول میں اس چیز کا نشانہ بنتی ہے۔
ہمارے ایک رشتہ دار اپنی بیٹی کو عبایا پہننے سے اس لیے منع کرتے ہیں کہ پردے والی لڑکیوں کو زیادہ گھورا یا تاڑا جاتا ہے، بلکہ پورا سکین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کسی طرح دیکھ ہی لیا جائے کہ پردے کے پیچھے کیا چھپا ہے۔
یہاں میں نے پردے کے معاملے پہ پہلے سوال اس لیے اٹھایا ہے کہ معاشرے میں اگر عورت کے ساتھ کوئی زیادتی، کوئی ہراسمنٹ یا کسی بھی قسم کے واقعات ہو رہے ہوتے ہیں تو پہلا مدعا یہی اٹھایا جاتا ہے کہ لڑکی پردہ دار تھی یا نہیں؟
بالفرض اگر یہ زیادتی کے واقعات بے پردگی کے باعث ہی ہو رہے ہیں تو یہ کمسن بچے بچیاں اس درندگی کا شکار کیونکر بن رہے ہیں؟ یہاں تک کہ نوزائیدہ بچے بھی۔
بلکہ اب تو جنس کی بھی تمیز نہیں بچی اور رشتوں کا تقدس تک پامال کیا جا رہا ہے۔ ہرعمر، ہر قسم، ہر رنگ، ہر لباس میں کبھی بھی کوئی بھی کسی کی بھی ہوس کا نشانہ بن سکتا ہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ وجہ بے پردگی نہیں، بلکہ ذہنی غلاظت، جہالت، ناپختگی، تعلیم و تربیت کی کمی اور ماحول میں بڑھتی ہوئی فرسٹریشن ہے۔ اور اگر اس سے زیادہ گہرائی میں دیکھا جائے تو پھر یہ ہوس کا کھیل ہے جو کہ ذہن و روح کو پستی میں دھکیل چکا ہے۔ انسان اپنی حد سے گر کر درندے بن چکے ہیں اور یہ درندے اپنی ہوس کی تکمیل میں صحیح غلط کی تمیز بھول چکے ہوتے ہیں۔
اب یہاں صرف پردہ ہی واحد ایسی وجہ نہیں جس کی بنیاد پہ یہاں کردار کا سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے، بلکہ خواتین کے اور بہت سے ایکشنز ان کے کردار کی کمزوری کا باعث سمجھے جاتے ہیں، جیسا کہ کسی کے معاشی طور پہ مستحکم ہونے کی خواہش، گھر سے باہر نکل کر ملازمت کرنے کی خواہش، آزاد اور پر اعتماد رویہ، اپنی پسند سے زندگی کے دیگر فیصلے کرنے کی جسارت یا مرد کے خلاف زیادتی پہ آواز اٹھانے کی ہمت کرنا وغیرہ۔
عورت کے کردار کو چھاننا اور تولنا ایک عام عادت بن چکی ہے، عورت کے کردار پر انگلی اٹھانے کی وجوہات تو باآسانی ڈھونڈ لی جاتی ہیں۔
میری ایک کولیگ کو 2بار طلاق ہوئی، اب اس کے بارے میں یہ چہ مگوئیاں کی جاتی ہیں کہ چلو ایک جگہ تو مسائل ہوسکتے ہیں یا لوگ برے ہوسکتے ہیں، لیکن دوسری شادی کا انجام بھی ایسا ہی کیونکر ہوا! یعنی لڑکی ہی میں کوئی عیب ہوگا۔
خاص طور پہ عورت کا کردار ڈسکس کرنا اس معاشرے میں ایک دلچسپ موضوع سمجھا جاتا ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ مردوں سے زیادہ عورتیں دوسری عورتوں کے اعمال کا حساب لگاتی نظر آتی ہیں، جو انتہائی غلیظ عمل ہے۔ یاد رہے کہ عورت کے کردار پہ تمہت لگانا اور اسے مشکوک بنا دینا بہت آسان ہوگا، لیکن اس کا خمیازہ ان بیچاریوں کو ناحق ساری عمر بھگتنا پڑتا ہے۔
کچھ پسماندہ سوچ کے حامل افراد یہی سمجھتے ہیں کہ وہی معاشرے کے ٹھیکیدار ہیں، جنہوں نے یہ تجزیہ کرنے اور سدھارنے کا ٹھیکہ اٹھایا ہوا ہے۔ جب کہ وہ خود کسی قابل نہیں ہوتے۔
یہاں تو وہ لوگ بھی بڑھ چڑھ کے ایسے مباحثوں اور تنقید میں حصہ لے رہے ہوتے ہیں جن کو اپنے گھر کی عورتوں کا حال تک پوچھنے کی زحمت نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر علی شریعتی کا ایک قول اکثر میرے ذہن میں گردش کرتا ہے۔
کہتے ہیں کہ ’مُجھے ایک عورت کو دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے، جب اُس کی ساکھ پر دھبہ لگتا ہے تو وہ اُسے مٹانےکے لیے ’داڑھی‘ نہیں رکھ سکتی‘۔ عام طور پہ مرد جب شریف ہوتے ہیں یا شریف بننے کی ایکٹینگ کرتے ہیں تو سب سے پہلے داڑھی بڑھا لیتے ہیں۔
عورت کا معاملہ ذرا مشکل ہے، وہ اگر ایک بار شک کے کٹہرے میں آ جائیں تو ان کا نکلنا مشکل بنا دیا جاتا ہے اور اگر نکلنا بھی چاہیں تو اس کے لیے ان کو کڑی محنت کرنا پڑتی ہے، اور محنت کا نتیجہ صفر بھی ہوسکتا ہے۔
میری سہیلی کا کہنا تھا کہ عورت داڑھی تو نہیں رکھ سکتی، مگر عبایا اور حجاب تو کرسکتی ہے۔ وہ اس جملے کا مفہوم تو سمجھا گئی، مگر اس کے پیچھے چھپی بات تک نہیں پہنچی۔
مسئلہ عبایا کا تو ہے ہی نہیں، مسئلہ تو اس سوچ کا ہے جو ناحق بھی عورت کو مجرم اس لیے بناتی ہے کہ مرد اس پہ ایک درجہ فوقیت رکھتا ہے۔
ایک بار کی تہمت ساری عمر کے لیے ایک عورت کو کٹہرے میں کھڑا کر دیتی ہے۔ قصور ان عورتوں کا بھی انہی مردوں جتنا ہے جو اپنی ہم جنسوں کے خلاف ایسے رویے کو تقویت دیتی ہیں۔
یہ بات تو اب اس معاشرے پہ کھل جانی چاہیے کہ جو گھناؤنے جرائم اس وقت یہاں سرزد ہو رہے ہیں، ان کی وجہ بے پردگی نہیں بلکہ درندگی ہے۔ بے شک پردہ دین کا جزو ہے اور اس کی اہمیت سے انکار نہیں۔ اس میں مصلحت بھی ہے اور تحفظ بھی، مگر ہمیں تو یہاں درندگی کا سامنا ہے اور درندے عمر، جنس، پردہ یہاں تک کہ رشتے بھی نہیں دیکھتے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: خواتین عورت کے کردار وجہ بے پردگی ہیں کہ کے لیے ہے اور ہیں تو
پڑھیں:
تین سال پہلے کے نرخ اب؟
جس دن وزیراعظم نے بجلی کے بلوں میں ’’باتصویر‘‘ کمی کا اعلان کیا اس سے اگلے دن ہم اخبارات کا بے چینی سے انتظار کررہے تھے کہ ’’لازم وملزوم‘‘ اس پر کیا بیان آئے گا؟
’’لازم وملزوم‘‘خیبر پختون خوا کے اخبارات کا وہ کام ہے جو معاون خصوصی برائے اطلاعات کو مستقل طورپر الاٹ کی جا چکی ہے یہ جگہ پہلے صفحے کے عین بیچوں بیچ دائیں طرف واقع ہے نہ ایک انچ ادھر نہ ایک انچ ادھر۔ سرکاری جگہ میں معاون خصوصی کے ’’عہدوں‘‘ ڈگریوں سے مزین گل افشانی ہوتی ہے ۔ عین ممکن ہے کہ وزیراعظم ، صدر ، گورنر ،وزیراعلیٰ کے بیانات میں ناغہ ہوجائے لیکن ڈگریوں، عہدوں اور تصویر سے مزین اس شاعری میں ناغہ نہیں ہوسکتا ہے اوراس دن بھی ناغہ نہیں ہوا تھا لیکن جو بیان آیا تھا اس نے ہمیں حیران پریشان ، ناطقہ سربگریبان اورخامہ انگشت بدندان کردیا تھا کہ ’’بجلی اورپٹرولیم کے نرخوں میں جس نے یہ کمی کی تھی وہ جیل میں پڑا ہے ‘‘
ظاہرہے کہ یہ بہت بڑا انکشاف بلکہ کشاف الاکشاف تھا، بجلی اورپٹرولیم وغیرہ میں ’’جس ‘‘ نے کمی کی تھی وہ سال ڈیڑھ سال سے جیل میں ہے ، اس سے پہلے بھی اسلام آباد پر چڑھائیوں میں مصروف تھے یعنیکل ملا کر اگر وہ نرخوں میں ’’کمی‘‘ کرچکے تھے تو اسے تین سال کا عرصہ تو یقیناً گزرا ہے تو یہ کمی اب تک کہاں تھی ؟ اتنی دیر سے کیوں پہنچی ، ہمارا خیال ہے یہ ’’کمی ‘‘ کسی خرگوش کی پیٹھ پر سوار کی گئی تھی اگر کچھوے کی پیٹھ پر ہوتی تو پھر بھی سال چھ مہینے میں اسے پہنچ جانا چاہیے تھا لیکن سلسلہ مواصلات یقیناً ’’خرگوش‘‘ تھا جو کہیں کسی درخت کے سائے میں یاکسی اے سی کمرے میں سو گیا ہوگا ۔
اس پر ہمیں وہ شخص یاد آیا جس کا ذکر ہم نے کہیں کیا بھی ہے ۔ وہ پڑوس کے گاؤں سے ہمارے پاس اپنی شاعری سنانے آتا تھا کیوں کہ اس کاکہنا تھا کہ صرف ہم ہی اس کی شاعری کو سمجھتے ہیں ، ایک بات اس نے یہ بتائی تھی کہ اس نے بینظیر بھٹو پر ایک نظم لکھی تھی جس کے عوض پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے پانچ لاکھ روپے کی پیش کش کی تھی لیکن میں نے رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمہاری نظر میں بینظیر کی قیمت صرف پانچ لاکھ روپے کی ہے اورمیری نظر میں اس کی قیمت قارون کے سارے خزانوں سے بھی زیادہ ہے ۔دوسری بات یہ کہ جب ہم نے جان چھڑا نے کے لیے کہا کہ ہم ایک جنازے میں جارہے ہیں، دو نوجوان بھائی ایک روڈایکیسڈنٹ میں مرے ہیں اوریہ بات سچ تھی ۔ تو اس نے کہا اگر کوئی جیب میں ’’پریزیڈنٹ پن‘‘ رکھے تو اسے کوئی حادثہ پیش نہیں آسکتا۔لیکن اس کا تیسرا نظریہ یا دعویٰ ہم نے آپ کو نہیں بتایا ہے ، اس کا دعویٰ تھا کہ رحمان بابا کادیوان اصل میں میرا دیوان ہے ۔میں نے جب رحمان بابا اوراس کے زمانے کی بات کی تو اس نے کہا کہ وہ اس جنم سے پہلے رحمان بابا کے زمانے میں بھی پیدا ہوا تھا بلکہ رحمان بابا میرا شاگرد ہوا کرتا اورمجھ پر جب بھی ’’آمد‘‘ طاری ہوجاتی تھی،رحمان بابا اسے لکھنے لگتا تھا ۔پھر ایک خاتون کے عشق میں جب اس کے بھائیوں نے مجھے مرتبہ شہادت پر پہنچایا تو میرا کلام رحمان بابا کے پاس رہ گیا ۔ لیکن اس نے خود یہ خیانت نہیں کی تھی بلکہ جب وہ فوت ہوگیا تھا اوراس کے سامان میں چند تصویر بتاں کے ساتھ یہ کلام بھی نکل آیا تو لوگوں میں اس کا یہ کلام مشہورہوگیا۔دراصل کچھ غلطی میری بھی تھی کہ میں اپنے کلام میں تخلص نہیں استعمال کرتا تھا کیوں کہ ہم دونوں کا نام رحمان تھا۔
ہمارا خیال ہے کہ یہ بجلی وجلی کے نرخوں کاچکر بھی کچھ ایسا ہی ہے کام بلکہ کارنامہ اس کا تھاجو جیل میں ہے اوربیچارا دیسی گھی میں دیسی مرغ کھانے پر مجبور ہے ۔خیر اس کا بدلہ تو ہم لے کر رہیں گے اوران مینڈیٹ چوروں کو اس سے ڈبل عرصہ دیسی مر غ اوردیسی گھی کھلائیں گے جو انھوں نے ’’بانی‘‘ کو کھلائے ہیں ۔
اوراس بیان پر ہمیں پکا پکا یقین اس لیے ہے کہ ہمارے معاون خصوصی برائے اطلاعات کبھی جھوٹ نہیں بولتے اورجو بھی بولتے ہیں سچ بولتے ہیں اوریہ صرف ہم نہیں کہہ رہے بلکہ صوبہ خیر پخیرکا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ان کے بیانات ’’سچ‘‘ کاسرچشمہ ہوتے ہیں ، خاص طورپر وہ جو کچھ پنجاب اوروفاق کی مینڈیٹ چورحکومتوں کے بارے میں بولتے ہیں ۔
ویسے یہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ ان کے بیانات پڑھ پڑھ کر اوراس میں حد سے زیادہ سچائی پاکر لوگ الٹیاں کرنے لگ گئے ہیں کیوں کہ ملاوٹ کے عادی معدے اتنی خالص سچائیاں ہضم نہیں کرپارہے ہیں
سچ بڑھے یاگھٹے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہیں نہیں