Express News:
2025-07-25@02:52:14 GMT

پینشن کےلیے ترستے حق دار اور بے حس حکمران

اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT

(تحریر: سیدہ عبیرہ حسین)

پہلے زمانے میں حساس دل رکھنے والے لوگ ہوا کرتے تھے جو پڑوسیوں کے حقوق، رشتے داروں، بہن بھائیوں کے حقوق اچھی طرح جانتے تھے۔ نوکری ایمانداری سے کرتے تھے، حرام کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے، رشوت سے دور بھاگتے تھے۔ تبھی ان کی اولاد فرمانبردار، تمیزدار اور شریف ہوا کرتی تھیں۔

مگر افسوس صد افسوس اب ٹرینڈ بدل چکا ہے۔ لوگ لالچ کے گڑھے میں ایسا گرے کہ نہ پڑوسی یاد رہے نہ رشتے دار۔ یاد ہے تو صرف اور صرف پیسہ براؤن نیلے ہرے قائداعظم۔ ورنہ قائداعظم کو کون یاد رکھتا ہے کہ کس طرح ان کی محنت سے اس وطن کا حصول ممکن ہوا۔ آج ہر ادارے میں رشوت خور منافق لوگ کثرت سے ملتے ہیں جس طرح پرانے زمانے میں شریف ہوا کرتے تھے۔

لوگوں کے حقوق غصب کرنا عام بات ہے اور مزے کی بات یہ کہ پشیمانی بھی نہیں۔ جس طرح ان کے آباواجداد منوں مٹی تلے جا سوئے اسی طرح آج ہر شخص کا ضمیر بھی منوں مٹی تلے دب کے حادثاتی موت مارا جاچکا۔ ورنہ انہیں احساس ہوتا کہ 30، 35 سال اپنا خون پسینہ ایک کرکے سردی گرمی خزاں بہار کی پرواہ کیے بغیر آنے والی نسلوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے والوں کے اپنے بھی بچے ہیں، گھر ہیں۔ گھر چلانے کےلیے پیسے کی ضرورت پڑتی ہے۔

جب نوکری میں ہوتا ہے تو اکاؤنٹنٹ جنرل سندھ کا ادارہ جہاں اس کی تنخواہ کا ریکارڈ موجود ہوتا ہے، کتنی بیسک سیلری ہے، کتنی گروس، کتنا جی پی فنڈ کٹے گا، کتنا ہوگیا ہے، کون کون سے الاؤنسز ملیں گے، کون سے نہیں؟ سب ریکارڈ موجود ہوتا ہے۔ سیلری کون سے بینک میں جاتی ہے؟ سب کچھ وہاں ایک رہکارڈ میں لکھا ہوتا ہے جس کی ہر ماہ تفصیل کی ایک پے سلپ ملتی ہے جس میں سب ریکارڈ شو ہوتا ہے۔ مگرریٹارئرمنٹ کے بعد اس کے واجبات کا حصول اس قدر مشکل بنادیا گیا کہ اسے اپنے ہی پیسے لینے کےلیے کبھی سیکریٹری کے پاس تو کبھی ڈائریکٹر کے پاس تو کبھی ریجنل ڈائریکٹر کے پاس دھکے کھانے پڑتے ہیں۔

مگر فائل مہینوں آگے بڑھتی ہی نہیں جب تک اس میں قائداعظم کے کتھئی نیلے ہرے لال رنگ کے پہیے نہ لگیں۔ پینشن بھی بیسک پر چلتی ہے۔ میرا سوال اس ملک کی حکومت میں بیٹھے راشی کرپٹ حکمراںوں سے ہے کہ کیا بھوک صرف آپ کو لگتی ہے؟ عیش صرف آپ کے بچوں کا حق ہے؟ گاڑی میں صرف آپ گھوم سکتے ہیں؟ اچھے ہوٹلوں میں کھانا صرف آپ کھا سکتے ہیں؟ برانڈڈ کپڑے، جوتے، گھڑی، چشمے آپ لگاسکتے ہیں؟ وہ شخص جس کی بدولت آپ اس مقام تک آئے، ترقی کی منزلیں طے کیں، وہ ریٹائرڈ ہوکر دفتروں کے دھکے صرف اس لیے کھاتا ہے کہ اس کے واجبات ملیں تو اس کے گھر راشن آسکے، اس کے بچوں کی فیسیں، گھر کا کرایہ، دوا وغیرہ کا انتظام ہو۔

یہ بڑے بڑے بیورو کریٹ، ایوانوں میں بیٹھے ہمارے ہی ووٹوں سے منتخب ہوکر آنے والے حکمران، اس ظلم کے خلاف کوئی ایکشن کیوں نہیں لیتے؟ کیوں استادوں سے استادی دکھا کر ان کی پینشن گریجویٹی کی فائلیں صرف اس لیے چھپائی جاتی ہیں کہ وہ ملنے والے پیسوں میں سے انہیں بھی بھاری حصہ دیں۔ اے جی سندھ کے پاس ریکارڈ موجود ہونے کے باوجود ہر چیز کا ریکارڈ مانگ کر استادوں کو تنگ کیوں کیا جاتا ہے؟ ہر بار نئے اعتراضات لگا کر آفسز کے دھکے کھانے پر کیوں مجبور کیا جاتا ہے؟ پھر ہم کہتے ہیں ہمارا ملک ترقی نہیں کرتا۔

جس قوم کے استاد تیس پینتیس سال پڑھانے کے بعد اپنے واجبات کے حصول کےلیے دھکے کھائیں اور ایک سال یا اس سے بھی زیادہ عرصے میں اس کے پیسوں کا حصول ممکن ہو تو تف ہے ایسے اداروں پر جو استاد کی تذلیل کرتے ہیں۔ پھر وہ معاشرے بھی زلیل و خوار ہوتے ہیں جو استاد کو روز آفسوں کے دھکے کھلاتے ہیں۔

میری حکام بالا سے درخواست ہے خدارا سسٹم کو بدلیں۔ حقدار کو اس کا حق دینے میں مہینوں یا سال نہ لگائیں۔ واجبات کا حصول آسان بنائیں۔ جب تک واجبات کلیئر نہ ہوں کم از کم اس کی پینشن تو پوری ادا کردیں۔ جبکہ قانون جاری ہوچکا کہ کسی کی پینشن نہیں روکی جائے گی۔ آج اگر ڈائریکٹوریٹ کا دورہ کریں تو ہزاروں ریٹائرڈ افراد کی فائلیں دفتروں میں دھول میں اٹی ہوئی ملیں گی جن پر دستخط کروانے کےلیے مہینوں ایک استاد رل رہا ہے۔ آخر کیوں؟

اس پروسیس کو آسان کیوں نہیں بنایا جاتا؟ جبکہ اکاؤنٹنٹ جنرل سندھ میں سب ریکارڈ موجود ہے تو جلد از جلد تمام کاغذی کارروائی مکمل کرکے ان کے واجبات کلیئر کیوں نہیں کیے جاتے؟ حکام بالا، سپریم کورٹ اس پر قانونی ایکشن لے اور پینشن اور واجبات کا حصول ممکن بنانے کےلیے ایک تاریخ مقرر کریں کہ ڈائریکٹوریٹ میں کسی کی بھی پینشن کی فائل 15 دن سے زیادہ رکے گی تو جرمانہ لگے گا، باقی ادارے بھی ایک مہینے کے اندر اندر پابند ہوں گے کہ کسی کے بھی کاغذات روکے نہیں جائیں گے، فوری سائن کرکے اے جی سندھ کو بھیجے جائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ریکارڈ موجود ہوتا ہے کا حصول کے پاس

پڑھیں:

ڈراموں میں زبردستی اور جبر کو رومانس بنایا جا رہا ہے، صحیفہ جبار خٹک

صحیفہ جبار خٹک نے کہا ہے کہ ریٹنگز کی خاطر ڈرامے جبر اور ظلم جیسے موضوعات کو رومانوی انداز میں دکھا رہے ہیں۔حال ہی میں انسٹاگرام پر صحیفہ جبار نے ایک اسٹوری شیئر کی، جس میں انہوں نے پاکستانی ڈراموں میں خواتین کی غیر حقیقی نمائندگی اور جبر و ظلم جیسے موضوعات کو رومانوی انداز میں پیش کیے جانے پر شدید تنقید کی ہے۔صحیفہ جبار نے لکھا کہ کیا واقعی پاکستانی گھروں میں خواتین روزانہ ساڑھیاں پہنتی ہیں؟ کیا وہ ہر روز اتنا میک اپ کرتی ہیں؟ ہمارے ڈراموں میں یہ سب دکھانے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے؟انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کی اکثریتی آبادی کا تعلق نچلے یا متوسط طبقے سے ہے، جہاں روزمرہ زندگی میں مہنگے کپڑے پہننا عام بات نہیں ہے۔اداکارہ نے مزید کہا کہ ہمارے ڈراموں میں غلط طرزِ زندگی دکھایا جا رہا ہے اور ایسا پیش کیا جا رہا ہے جیسے ہر عورت اسی انداز میں زندگی گزارتی ہو۔اداکارہ نے ڈراما سیریلز کے بار بار دہرائے جانے والے مواد کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جیسے کہ ساس بہو کی لڑائیاں، مظلوم عورت کا عزت بچانے کی جدوجہد اور ظلم کو رومانی انداز میں دکھانا۔انہوں نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ ڈراموں کی کہانیاں ایک جیسی کیوں ہو گئی ہیں؟ ہر کہانی میں ایک ہی بات کیوں ہوتی ہے؟ ہر لڑکی اپنی عزت کی وضاحت کیوں دیتی ہے؟ ہر ساس اپنی بہو پر ظلم کیوں کرتی ہے؟ ہر رشتہ زبردستی اور جبر پر کیوں مبنی دکھایا جا رہا ہے؟اداکارہ کے مطابق جبری شادی، ناپسندیدہ تعلق اور شوہر کا بیوی پر ظلم، یہ سب کچھ کئی ڈراموں میں اس طرح دکھایا جا رہا ہے جیسے یہ محبت کا حصہ ہو یا جیسے یہ سب عام اور قابلِ قبول بات ہو۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ سب آخر کیوں ہو رہا ہے؟ صرف ریٹنگز کے لیے؟ یا ہم واقعی اپنے معاشرے کو مزید خراب کر رہے ہیں؟

متعلقہ مضامین

  • ڈراموں میں زبردستی اور جبر کو رومانس بنایا جا رہا ہے، صحیفہ جبار خٹک
  • سوشل میڈیا اور ہم
  • سرجری یافلرز، کومل میر کا چہرہ کیوں بدلا؟ اداکارہ نے سب کچھ بتادیا
  • کے الیکٹرک نے سندھ حکومت کے واجبات کی ادائیگی شروع کر دی
  • معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!
  • عاشر وجاہت نے ہانیہ عامر سے دُوری کیوں اختیار کی؟
  • بھارت کو 4 گھنٹے میں ہرا دیا، دہشتگردی کو 40 سال میں شکست کیوں نہیں دی جا سکی؟ مولانا فضل الرحمن
  • کے الیکٹرک نے سندھ حکومت کے واجبات کی ادائیگی شروع کر دی، سوا اب روپے جمع کرا دیئے
  • حمیرا کا مالک مکان سے کیا تنازع تھا، واجبات کتنے تھے؟ حیران کن انکشافات
  • مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ لوگ موسیٰ کو بشریٰ کا بیٹا کیوں کہہ رہے ہیں وہ خاور مانیکا کا بیٹاہے : مریم ریاض وٹو