Express News:
2025-11-05@03:00:53 GMT

پینشن کےلیے ترستے حق دار اور بے حس حکمران

اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT

(تحریر: سیدہ عبیرہ حسین)

پہلے زمانے میں حساس دل رکھنے والے لوگ ہوا کرتے تھے جو پڑوسیوں کے حقوق، رشتے داروں، بہن بھائیوں کے حقوق اچھی طرح جانتے تھے۔ نوکری ایمانداری سے کرتے تھے، حرام کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے، رشوت سے دور بھاگتے تھے۔ تبھی ان کی اولاد فرمانبردار، تمیزدار اور شریف ہوا کرتی تھیں۔

مگر افسوس صد افسوس اب ٹرینڈ بدل چکا ہے۔ لوگ لالچ کے گڑھے میں ایسا گرے کہ نہ پڑوسی یاد رہے نہ رشتے دار۔ یاد ہے تو صرف اور صرف پیسہ براؤن نیلے ہرے قائداعظم۔ ورنہ قائداعظم کو کون یاد رکھتا ہے کہ کس طرح ان کی محنت سے اس وطن کا حصول ممکن ہوا۔ آج ہر ادارے میں رشوت خور منافق لوگ کثرت سے ملتے ہیں جس طرح پرانے زمانے میں شریف ہوا کرتے تھے۔

لوگوں کے حقوق غصب کرنا عام بات ہے اور مزے کی بات یہ کہ پشیمانی بھی نہیں۔ جس طرح ان کے آباواجداد منوں مٹی تلے جا سوئے اسی طرح آج ہر شخص کا ضمیر بھی منوں مٹی تلے دب کے حادثاتی موت مارا جاچکا۔ ورنہ انہیں احساس ہوتا کہ 30، 35 سال اپنا خون پسینہ ایک کرکے سردی گرمی خزاں بہار کی پرواہ کیے بغیر آنے والی نسلوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے والوں کے اپنے بھی بچے ہیں، گھر ہیں۔ گھر چلانے کےلیے پیسے کی ضرورت پڑتی ہے۔

جب نوکری میں ہوتا ہے تو اکاؤنٹنٹ جنرل سندھ کا ادارہ جہاں اس کی تنخواہ کا ریکارڈ موجود ہوتا ہے، کتنی بیسک سیلری ہے، کتنی گروس، کتنا جی پی فنڈ کٹے گا، کتنا ہوگیا ہے، کون کون سے الاؤنسز ملیں گے، کون سے نہیں؟ سب ریکارڈ موجود ہوتا ہے۔ سیلری کون سے بینک میں جاتی ہے؟ سب کچھ وہاں ایک رہکارڈ میں لکھا ہوتا ہے جس کی ہر ماہ تفصیل کی ایک پے سلپ ملتی ہے جس میں سب ریکارڈ شو ہوتا ہے۔ مگرریٹارئرمنٹ کے بعد اس کے واجبات کا حصول اس قدر مشکل بنادیا گیا کہ اسے اپنے ہی پیسے لینے کےلیے کبھی سیکریٹری کے پاس تو کبھی ڈائریکٹر کے پاس تو کبھی ریجنل ڈائریکٹر کے پاس دھکے کھانے پڑتے ہیں۔

مگر فائل مہینوں آگے بڑھتی ہی نہیں جب تک اس میں قائداعظم کے کتھئی نیلے ہرے لال رنگ کے پہیے نہ لگیں۔ پینشن بھی بیسک پر چلتی ہے۔ میرا سوال اس ملک کی حکومت میں بیٹھے راشی کرپٹ حکمراںوں سے ہے کہ کیا بھوک صرف آپ کو لگتی ہے؟ عیش صرف آپ کے بچوں کا حق ہے؟ گاڑی میں صرف آپ گھوم سکتے ہیں؟ اچھے ہوٹلوں میں کھانا صرف آپ کھا سکتے ہیں؟ برانڈڈ کپڑے، جوتے، گھڑی، چشمے آپ لگاسکتے ہیں؟ وہ شخص جس کی بدولت آپ اس مقام تک آئے، ترقی کی منزلیں طے کیں، وہ ریٹائرڈ ہوکر دفتروں کے دھکے صرف اس لیے کھاتا ہے کہ اس کے واجبات ملیں تو اس کے گھر راشن آسکے، اس کے بچوں کی فیسیں، گھر کا کرایہ، دوا وغیرہ کا انتظام ہو۔

یہ بڑے بڑے بیورو کریٹ، ایوانوں میں بیٹھے ہمارے ہی ووٹوں سے منتخب ہوکر آنے والے حکمران، اس ظلم کے خلاف کوئی ایکشن کیوں نہیں لیتے؟ کیوں استادوں سے استادی دکھا کر ان کی پینشن گریجویٹی کی فائلیں صرف اس لیے چھپائی جاتی ہیں کہ وہ ملنے والے پیسوں میں سے انہیں بھی بھاری حصہ دیں۔ اے جی سندھ کے پاس ریکارڈ موجود ہونے کے باوجود ہر چیز کا ریکارڈ مانگ کر استادوں کو تنگ کیوں کیا جاتا ہے؟ ہر بار نئے اعتراضات لگا کر آفسز کے دھکے کھانے پر کیوں مجبور کیا جاتا ہے؟ پھر ہم کہتے ہیں ہمارا ملک ترقی نہیں کرتا۔

جس قوم کے استاد تیس پینتیس سال پڑھانے کے بعد اپنے واجبات کے حصول کےلیے دھکے کھائیں اور ایک سال یا اس سے بھی زیادہ عرصے میں اس کے پیسوں کا حصول ممکن ہو تو تف ہے ایسے اداروں پر جو استاد کی تذلیل کرتے ہیں۔ پھر وہ معاشرے بھی زلیل و خوار ہوتے ہیں جو استاد کو روز آفسوں کے دھکے کھلاتے ہیں۔

میری حکام بالا سے درخواست ہے خدارا سسٹم کو بدلیں۔ حقدار کو اس کا حق دینے میں مہینوں یا سال نہ لگائیں۔ واجبات کا حصول آسان بنائیں۔ جب تک واجبات کلیئر نہ ہوں کم از کم اس کی پینشن تو پوری ادا کردیں۔ جبکہ قانون جاری ہوچکا کہ کسی کی پینشن نہیں روکی جائے گی۔ آج اگر ڈائریکٹوریٹ کا دورہ کریں تو ہزاروں ریٹائرڈ افراد کی فائلیں دفتروں میں دھول میں اٹی ہوئی ملیں گی جن پر دستخط کروانے کےلیے مہینوں ایک استاد رل رہا ہے۔ آخر کیوں؟

اس پروسیس کو آسان کیوں نہیں بنایا جاتا؟ جبکہ اکاؤنٹنٹ جنرل سندھ میں سب ریکارڈ موجود ہے تو جلد از جلد تمام کاغذی کارروائی مکمل کرکے ان کے واجبات کلیئر کیوں نہیں کیے جاتے؟ حکام بالا، سپریم کورٹ اس پر قانونی ایکشن لے اور پینشن اور واجبات کا حصول ممکن بنانے کےلیے ایک تاریخ مقرر کریں کہ ڈائریکٹوریٹ میں کسی کی بھی پینشن کی فائل 15 دن سے زیادہ رکے گی تو جرمانہ لگے گا، باقی ادارے بھی ایک مہینے کے اندر اندر پابند ہوں گے کہ کسی کے بھی کاغذات روکے نہیں جائیں گے، فوری سائن کرکے اے جی سندھ کو بھیجے جائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ریکارڈ موجود ہوتا ہے کا حصول کے پاس

پڑھیں:

بلیاں بھی انسانوں کی طرح مختلف مزاج رکھتی ہیں، ہر بلی دوست کیوں نہیں بنتی؟

راولپنڈی کے علاقے گلبرگ کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں موجود گھر کے صحن میں قدم رکھتے ہی ایک چھوٹی مگر جاندار دنیا نے میرا استقبال کیا۔ کالی، بھوری، سفید اور سرمئی رنگ کی بلیاں صحن میں چھلانگیں لگاتیں، ایک دوسرے کے پیچھے دوڑتیں اور کبھی کھیل کے نشے میں ایک دوسرے پر جھپٹتی نظر آئیں۔ ہر بلی کی حرکات میں ایک الگ شخصیت چھپی ہوئی تھی۔

کچھ بلیاں میری طرف لپکیں، جیسے یہ مجھے برسوں سے جانتی ہوں، اور کچھ اپنی چھوٹی چھوٹی شرارتوں میں مصروف، جیسے دنیا کی ہر خوشی ان کی آنکھوں میں بسی ہو۔

مزید پڑھیں: بلیاں گھاس کیوں کھاتی ہیں؟ طویل تحقیق کے بعد حیران کن وجہ سامنے آگئی

ایک سرمئی بلی ایک کونے میں بیٹھی اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی، بالکل جیسے صحن کی نگرانی کررہی ہو، اور ہر چھوٹی حرکت پر نظر رکھ رہی ہو۔ ایک سفید بلی معصومیت کی حد تک کھیل رہی تھی، اس کے چھوٹے چھوٹے قدم، نرم چھلانگیں اور بے ساختہ حرکات دیکھ کر لگتا تھا جیسے یہ لمحہ اس کے لیے وقت کا سب سے بڑا تحفہ ہو۔

اور پھر وہ لمحہ آیا جب ایک بلی میرے قریب آئی، اس کی آنکھوں میں ایک خاموش رفاقت تھی، ایک ایسا تعلق جو برسوں کی پہچان کی طرح محسوس ہوا۔ اس کے نرم لمس اور پرسکون انداز نے مجھے یہ یاد دلایا کہ بلیاں صرف جانور نہیں، بلکہ چھوٹے چھوٹے احساسات اور یادوں کی حامل ایک جاندار دنیا ہیں۔

اس صحن میں قریباً 25 بلیاں موجود تھیں، لیکن ان میں سے ہر ایک کی اپنی الگ شخصیت تھی، ہر بلی کی حرکات، انداز اور کھیلنے کا طریقہ مختلف تھا۔ کچھ شرارتی اور چلبلی، کچھ معصوم اور پرسکون، اور کچھ بالکل خود میں مگن۔ یہ منظر دیکھ کر میرے ذہن میں ایک سوال اُبھرا کہ آخر وہ کون سی بلیاں ہوتی ہیں جو انسانوں کی سب سے جلدی دوست بن جاتی ہیں؟

’ہر بلی کی شخصیت ایک جیسی نہیں ہوتی‘

کیونکہ یہ واضح تھا کہ ہر بلی کی شخصیت ایک جیسی نہیں ہوتی۔ سب بلیاں برابر فرینڈلی یا محبت بھری نہیں ہوتیں۔ یقیناً کچھ بلیاں ایسی ہوتی ہیں جو انسان کے قریب آنا پسند کرتی ہیں۔

کیونکہ کچھ اپنی دنیا میں مگن تھیں، اور میرے لاکھ چاہنے اور قربت دکھانے پر بھی کسی قسم کی نرمی برتنے کو تیار نہیں تھیں۔

ڈاکٹر قرۃ العین شفقت جو ان بلیوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں، نے وی نیوز کو بتایا کہ جس طرح انسانوں کا رویہ مختلف ہوتا ہے، اسی طرح جانوروں کے رویے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ کچھ بلیاں فرینڈلی ہوتی ہیں۔ اور کچھ فرینڈلی نہیں ہوتیں۔

’کسی کو ٹچ کرنا اچھا لگتا ہے، اور کسی بلی کو بالکل بھی اچھا نہیں لگتا۔ کسی کو گھلنا ملنا اچھا لگتا ہے، اور کسی کو زرا بھی گوارہ نہیں کرتا۔ تو اس طرح ہر بلی کی اپنی پرسنالٹی ہوتی ہے۔ کسی کو صرف دیکھ کر نہیں کہا جا سکتا کہ کون سی بلی انسان دوست ہے۔

انہوں نے کہاکہ اسی لیے جب کوئی ہمارے پاس بلی اڈاپٹ کرنے آتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہمیں فلاں بلی دے دیں۔ ہم انہیں کبھی بھی یوں نہیں دیتے بلکہ یہ بولتے ہیں کہ آپ آئیے ان کے ساتھ وقت گزاریں، جو بھی بلی آپ کے ساتھ گھل مل رہی ہے، ہم اسے آپ کو دے دیں گے۔

’ہر نسل کی بلی کی طبیعت مختلف ہوتی ہے‘

انہوں نے مزید کہاکہ کسی ایک بریڈ کو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ بریڈ ہیومن فرینڈلی ہے، کیونکہ ہر بریڈ کی ہر بلی کی طبیعت مختلف ہوتی ہے۔ اگر ایک بریڈ کی بلی آپ کے ساتھ فوراً گھل مل گئی ہے، تو اس کا یہ ہرگرز مطلب نہیں ہے کہ اس بریڈ کی باقی بلیاں بھی اتنی ہی فرینڈلی ہونگی۔

’لوگ کہتے ہیں کہ ’جنجر کیٹس‘ فوراً آ جاتی ہیں، جبکہ بلیک کیٹس ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتیں، جبکہ ہمارے ہاں بلیک اور جنجر کیٹس دونوں ہیں۔ کچھ جنجر کیٹس بڑی خطرناک ہیں، جبکہ کچھ بلیک کیٹس بہت ہی زیادہ فرینڈلی، ہر کسی کی اپنی پرسنالٹی ہے، اور اسی بنیاد پر کوئی آپ کو ہاتھ لگانے دیتا ہے اور کوئی نہیں، ان کے موڈ پر منحصر ہوتا ہے۔‘

بلیوں کی نسل اور ان کی شخصیت کے درمیان تعلق پر کئی سائنسی مطالعات موجود ہیں۔ یونیورسٹی آف ہیلسنکی کے محققین نے قریباً 5 ہزار 700 بلیوں کے رویے کا تجزیہ کیا اور پایا کہ مختلف نسلوں کی بلیوں میں سرگرمی، شرمیلاپن، جارحیت اور سماجی میل جول میں واضح فرق ہوتا ہے۔

یہ فرق جزوی طور پر موروثی بھی ہیں، یعنی نسلوں کے درمیان یہ خصوصیات جینیاتی طور پر منتقل ہوتی ہیں۔

ایک اور مطالعہ، جو ’جرنل آف ویٹرنری بیہیویئر‘ میں شائع ہوا، میں 14 مختلف نسلوں کی 129 بلیوں کے رویے کا تجزیہ کیا گیا۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ بعض نسلیں انسانوں کے ساتھ زیادہ دوستانہ اور رفاقتی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، سفنکس (Sphynx) نسل کی بلیاں سب سے زیادہ فرینڈلی پائی گئی ہیں، جبکہ مین کوون (Maine Coon) اور پرسین (Persian) نسلیں بھی انسانوں کے ساتھ گہرا تعلق قائم کرنے میں مشہور ہیں۔

’بلی کی شخصیت پر اس کی پرورش کا گہرا اثر ہوتا ہے‘

عام طور پر انسان دوست اور فرینڈلی بلیوں میں سفنکس، مین کوون، پرسین، برمی اور سیامی شامل ہیں۔ سفنکس بلیاں اپنی محبت اور توجہ کے لیے مشہور ہیں، مین کوون بڑی اور نرم مزاج ہونے کے باوجود اپنے مالک کے ساتھ گہرا رشتہ قائم کرتی ہیں، جبکہ پرسین پرسکون اور آرام پسند بلی ہے۔ برمی اور سیامی نسلیں بھی انسانی تعلقات میں زیادہ دلچسپی لیتی ہیں اور مالک کے ساتھ وقت گزارنا پسند کرتی ہیں۔

لیکن قرۃ العین کہتی ہیں کہ یہ بات بھی اہم ہے کہ صرف نسل ہی ہیومن فرینڈلی بلی کی ضمانت نہیں دیتی، بلی کی شخصیت پر اس کی پرورش، اس کے بچپن سے سماجی تربیت اور انسانوں کے ساتھ تجربات بھی گہرا اثر ڈالتے ہیں۔

مزید پڑھیں: کیا بلیاں بو سونگھ کر مالک اور اجنبی میں فرق کرسکتی ہیں؟

’لہٰذا، ایک فرینڈلی اور محبت کرنے والی بلی حاصل کرنے کے لیے نسل کے ساتھ ساتھ محبت اور مناسب تربیت بھی ضروری ہے۔ کیونکہ ان بلیوں کی فیملی ہسٹری بھی بہت زیادہ معنی رکھتی ہے، کہ اس نے بچن سے بڑے ہوتے تک کیا کچھ دیکھا اور اس معاشرے میں محسوس کیا، یہ اس کی پرسنالٹی کا حصہ بن جاتا ہے، جس کو مد نظر رکھنا نہایت اہم ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews انسان دوست بلیاں بلیاں راولپنڈی قرۃ العین گلبرگ وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • غربت کم کرنے کےلیے پاکستان کو ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی برآمدات کو بڑھانا ہوگا، وزیر سرمایہ کاری
  •  رضاکارانہ استعفا پر پینشن کی ادائیگی کے تنازع پر فیصلہ
  • حکومتی خواب تعبیر سے محروم کیوں؟
  • شاہ رخ خان اپنے بچوں کو فلمی کیریئر پر مشورہ کیوں نہیں دیتے؛ اداکار نے بتادیا
  • سرکاری سکیم کے تحت حج واجبات کی آخری قسط کی وصولی شروع
  • سرکاری سکیم کے تحت حج واجبات کی آخری قسط کی وصولی شروع
  • بلیاں بھی انسانوں کی طرح مختلف مزاج رکھتی ہیں، ہر بلی دوست کیوں نہیں بنتی؟
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • گورنر کے امیدوار کیلئے 8 ،10 نام؛ پارٹی فیصلہ کرے گی : گورنر کے پی کے فیصل کریم کنڈی
  • شاہ رخ خان کی سالگرہ: 60 کی عمر میں بھی جین زی کے پسندیدہ ’لَور بوائے‘ کیوں ہیں؟