کھپرو (نمائندہ جسارت) پریس کلب کے 2025 کے انتخابات پریس کلب کے دفتر میں ہوئے، تمام ممبران نے اپنی شرکت یقینی بنائی، تمام ممبران کے ووٹس اور باہمی مشاورت کے تحت سابق صدر پریس کلب محبوب خان بابو کو سرپرست اعلیٰ، صدر شہباز شاکر قائم خانی، جنرل سیکرٹری مظفر سرفراز قائم خانی، سینئر نائب صدر رانا ذوالفقار علی راجپوت، نائب صدر حسین بخش جونیجو، جوائنٹ سیکرٹری عبید اللہ خان، انفارمیشن سیکرٹری گل محمد شر، فنانس سیکرٹری عطا محمد خان اور آفس سیکرٹری عبد الشکور رند کو منتخب کیا گیا، جبکہ ممبران میں سینئر صحافی ہاشم مری اور منیب احسن شامل تھے۔ سابق صدر محبوب خان بابو نے اپنا اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پریس کلب ہمیشہ غریب کی حمایت کرتا ہے، اپنی صحافت اور اپنی ٹیم کے ذریعہ سے ایوانوں اور حکام تک آواز پہنچاتا ہے، یہ کام جاری و ساری رہے گا، مجھے سرپرست اعلیٰ کے طور پر منتخب کیا گیا، اپنی ذمہ داری بخوبی انجام دوں گا۔ اس بار پریس کلب کے صدر علی شہباز شاکر کو مبارک باد دی اور ذمہ داری سمجھا دی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پریس کلب کے

پڑھیں:

بھارتی فوج بھی انتہاپسند ہندوتوا ایجنڈے کے رنگ میں رنگ گئی

حالیہ دنوں میں بھارتی آرمی چیف جنرل اوپندر دویدی کی مذہبی سرگرمیوں نے سوشل میڈیا سے لے کر سیاسی حلقوں تک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا اب انڈین فوج محض دفاعی ادارہ نہیں رہی بلکہ ہندوتوا کے ایجنڈے کی محافظ بن چکی ہے؟

جنرل دویدی نے حال ہی میں وردی میں نہ صرف کیدارناتھ کے مندر میں حاضری دی بلکہ رام بھدرآچاریہ کے آشرم میں بھی ماتھا ٹیکتے دکھائی دیے۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو انہوں نے فوجی وردی کو ہندو عقیدت کا لباس بنا ڈالا۔

سوال یہ نہیں کہ کسی کا ذاتی عقیدہ کیا ہے، سوال یہ ہے کہ جب ایک سیکولر ملک کی مسلح افواج کا سربراہ وردی میں مذہبی رسومات ادا کرے تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ کیا فوجی وردی صرف ہندو دیوی دیوتاؤں کی خدمت کےلیے مخصوص ہوچکی ہے؟

بھارتی آئین کی شقیں شاید کتابوں میں اب بھی سیکولرزم کا دعویٰ کرتی ہوں، مگر زمین پر حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ بھارتی فوج جسے تمام قومیتوں، مذاہب اور ثقافتوں کا محافظ ہونا چاہیے تھا، اب زعفرانی رنگ میں رنگتی جا رہی ہے۔ جنرل دویدی کے مذہبی مندر دوروں سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے وہ صرف ایک مخصوص اکثریتی مذہب کے وفادار ہوں، اور اقلیتوں کے لیے ان کی فوجی قیادت سوالیہ نشان بن چکی ہو۔

اگر آرمی چیف ہندو مندر میں ماتھا ٹیک سکتے ہیں، تو کیا وہ کسی مسجد میں دو گھڑی سکون کی دعا کے لیے رکیں گے؟ کیا وہ کسی چرچ جا کر دعائیہ کلمات سنیں گے؟ سکھوں کے گوردوارے میں عقیدت سے جھکیں گے؟ یا یہ سب صرف آر ایس ایس کی ’’ہندو راشٹر‘‘ کی مہم کا حصہ ہے، جہاں وردی کو ایک مذہبی پرچم میں بدل دیا گیا ہے؟

یہ سارا معاملہ صرف ایک فرد کا مذہبی رجحان نہیں بلکہ اس پورے ادارے کے غیر جانب دار تشخص پر ایک سنجیدہ سوال ہے۔ جب جنرل دویدی میڈیا کے سامنے وردی میں پوجا پاٹ کرتے ہیں تو وہ نہ صرف آئین کے سیکولر اصولوں کی نفی کرتے ہیں بلکہ اقلیتوں کو بھی ایک واضح پیغام دیتے ہیں کہ ان کی نمائندگی اس فوج میں شاید صرف کاغذوں کی حد تک رہ گئی ہے۔

بھارت میں ہندوتوا کی سیاسی اور سماجی بالادستی اب اتنی گہری ہو چکی ہے کہ ملک کا ہر ادارہ اس کی جھلک دکھانے لگا ہے، حتیٰ کہ فوج جیسا حساس اور غیر جانبدار ادارہ بھی۔ اس تناظر میں جنرل دویدی کی مندر یاترا صرف ایک ذاتی عقیدے کا اظہار نہیں بلکہ ایک طاقتور پیغام ہے، اور وہ پیغام یہ ہے کہ نئی دہلی کی راہ صرف ہندوتوا کے قدموں کی چاپ سننے کو تیار ہے۔

کیا ہندوستانی سپہ سالار اب صرف ایک عقیدے کا نمائندہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو اقلیتوں کو سوچ لینا چاہیے کہ ان کی حفاظت کے دعوے صرف کاغذی تحریر رہ گئے ہیں، کیونکہ وردی پہنے وہ ہاتھ جو ملک کی سرحدوں کے محافظ کہلاتے ہیں، اب شاید صرف ایک مخصوص مذہب کے سامنے جھکنے کے لیے اٹھتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • عباس آفریدی گیس لیکج دھماکے میں جاں بحق نہیں ہوا، بیٹے کو قتل کیا گیا، سابق سینیٹر شمیم آفریدی
  • بھارتی فوج بھی انتہاپسند ہندوتوا ایجنڈے کے رنگ میں رنگ گئی
  • پروین شاکر کے پروڈیوسر بیٹے کی کس سیاستدان نے مدد کی؟
  • وزیراعظم کا چاروں وزرائے اعلیٰ کو فون، عیدالاضحیٰ کی مبارکباد
  • وزیراعظم شہباز شریف کی چاروں وزرائے اعلیٰ کو عید الاضحیٰ کی مبارکباد
  • گلگت بلتستان، اساتذہ کی ڈگریوں کی تصدیق کیلئے کمیٹی تشکیل دیدی گئی
  • سرفراز بگٹی کی قوم کو عید الاضحیٰ کی مبارکباد
  • عوام کی خوشحالی اور صوبے کی ترقی اولین ترجیح ہے:وزیراعلیٰ بلوچستان
  • صدر مملکت، وزیر اعظم، فیلڈ مارشل عاصم منیر سمیت اعلیٰ عہدیداران کا عیدالاضحیٰ کے موقع پر قوم کو مبارکباد اور پیغام
  • اسلام آباد، ایم ڈبلیو ایم کے وفد کی علامہ سید زاہد حسین کاظمی سے ملاقات، بھائی کی وفات پر اظہار افسوس