Nai Baat:
2025-09-18@14:23:33 GMT

کوئٹہ کی ہنہ جھیل

اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT

کوئٹہ کی ہنہ جھیل

موت کی کوکھ سے زندگی جنم لے سکتی ہے تو سنگلاخ چٹانوں میں جھیلیں بھی ہو سکتی ہیں۔ ایسی جھیلیں جن میں لاکھوں زندگیاں جنم لیتی ہوں اور پھر ان سانسیں لیتے جسموں سے ہم اپنی توانائی کشید کریں۔ کوئٹہ ائرپورٹ پر اترنے سے پہلے، جب ایک بورنگ سفر ختم ہونے کا اعلان ہوا تو جہاز کی کھڑکی سے مجھے وہ جھیل نظر آئی، نیلے آسمان جیسے رنگ کا نگینہ ہو چکی جھیل۔ میں نے اسی وقت وادی غذر کی خلطی جھیل ایسی ہنہ لیک پر جانے کا فیصلہ کر لیا۔

جس منیر نامی ڈرائیور نے ہمیں ائرپورٹ سے لیا تھا میں نے اسی سے پوچھ لیا کہ ہنہ جھیل کیسے جایا جا سکتا ہے۔ صرف تیس منٹ منیر نے بس اتنا ہی بتایا اور ہم ہوٹل پہنچنے کے بعد پہلی آوارگی کے لیے نکل گئے۔
سطح سمندر سے سترہ سو میٹر سے زائد بلندی والے کوئٹہ شہر کا تعارف جھیلوں، چشموں اور برف زاروں کے حوالے سے کبھی نہیں ہوا، یہ شہر صوبائی تعصب اور بم دھماکوں کے حوالے سے بدنام کر دیا گیا، پنجاب دشمنی ایک سازش کے تحت کوئٹہ سے جوڑی گئی مگر یہ شہر اپنے اطراف میں زندگی تقسیم کرتے منظر بھی رکھتا ہے، اس کا یہ چہرہ پوشیدہ رکھا گیا۔

ہم ہوٹل سے نکلے اور شمال جانب دس کلومیٹر کا سفر کرتے ہوئے پہاڑی راہداریوں کی غلام گردشوں میں چکر کاٹتے ہنہ جھیل پر پہنچ گئے۔ اوڑک وادی میں موجود زرغون رینج کی یہ جھیل برطانوی راج کے دوران 1894 میں سیر و تفریح کے لیے بنائی گئی تھی۔ 1818 ایکڑ رقبہ پر پھیلی اس جھیل کی گہرائی 43 فٹ ہے جس میں بتیس کروڑ بیس لاکھ گیلن پانی کے ذخیرے کی گنجائش ہے۔ یہ جھیل قدرتی نہ سہی مگر 1894 سے لے کر 1997 تک یہ جھیل پانی سے یوں آباد رہی کہ مرغابیوں نے یہاں اپنے مسکن بنائے اور افزائش بھی کی۔ سائبیریا سے آنے والے پرندے موسم سرما میں یہاں آتے اور بہار کی آمد تک یہیں رہتے۔ اوڑک کے چشموں اور برف پگھلنے سے رواں ہونے والے پانی کو جھیل ہنہ تک لانے کے لیے برطانوی راج نے لوہے کے پانچ دروازوں اور پلوں پر مشتمل سرپل تعمیر کیا۔
ہنہ جھیل دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے سال سن دو ہزار سے دو ہزار چار تک خشک رہی۔ اب بھی ٹکٹوں کی مد میں وصولی کے باوجود ہنہ جھیل مناسب دیکھ بھال سے محروم ہے۔

جھیل کم ہوتی پانی کی سطح کی وجہ سے اپنا حسن کھو رہی ہے اور طرفین میں لگے باغ بھی اپنی فطری کشش کھو چکے ہیں۔ ایک سبب یہ بھی تھا کہ ہم جنوری کے آغاز میں وہاں تھے جب پت جھڑ نے ہریالی نوچ لی تھی مگر اس کے باوجود یہاں انتظامی غفلت بھی نظر آتی۔ کیا ہی اچھا تھا کہ جہاز پر بیٹھے ہوئے ہم نے جس جھیل کو دیکھا تھا اسے یوں روبرو نہ دیکھتے، مگر جستجو نے جھیل کا وہ تاثر زائل کر دیا جو دوران پرواز بنا تھا۔ ہنہ جھیل میں کشتی رانی کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ چند سال قبل کشتی الٹ جانے سے ہونے والا حادثہ پندرہ سے زائد افراد کی جان لے گیا تھا۔ اب چیئر لفٹ بھی فعال نہیں تھی۔ ہم نے چنار، پائن اور ایش کے درختوں کو چھوڑا اور جھیل کی سطح تک جانے کے لیے زینے استعمال کیے اور نیچے اترتے چلے گئے۔ جھیل جو بلندی سے ایک دائرہ لگتی تھی ہم پانی کی سطح کے قریب آئے تو اب یہی جھیل وسیع ہو کر پھیلتی گئی۔ کوئٹہ کے باسیوں کی یہ خوبی ہے کہ وہ ہفتہ وار چھٹی تفریحی مقام پر مناتے ہیں اور قریب ترین سیرگاہ ہنہ جھیل ہی ہے اس لیے شام ہونے سے پہلے یہاں لوگوں کی بڑی تعداد بچوں اور خواتین سمیت موجود تھی۔ پاک فوج کے زیر انتظام آ چکی یہ جھیل سیاحوں کے لیے احساس تحفظ بھی برقرار رکھتی ہے۔
ہم جو جھیلوں کی تلاش میں کوچہ کوچہ گھومتے ہیں اور گلگت و سکردو کی کتنی بلندیاں سر کرتے ہیں، ہمیں ہنہ جھیل بیٹھے بٹھائے دستیاب ہو گئی۔ کوئٹہ جیسے کاروباری اور خوشحال شہر میں ایسی سیرگاہ پر توجہ دی جائے تو یہ جھیل بھی شمالی پاکستان کی جھیلوں جیسی توجہ حاصل کر سکتی ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کے لیے

پڑھیں:

سیلاب زدگان کی فوری امداد

پاکستان کی معیشت ایک بار پھر قدرتی آفات کے سامنے کھڑی ہے۔ رات کے وقت جب خیموں میں یہ خوف طاری ہوتا ہے کہ اندھیرے میں کہیں کوئی سانپ نہ آجائے، بوڑھا کسان جب یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ اس کی ساری زندگی کی جمع پونجی کو بھارتی آبی جارحیت نے لوٹ لیا، اس کے کھیتوں میں کھڑی فصل ڈوب گئی ہے، وہ جس کنارے پر بیٹھا ہے، چند انچ نیچے سیلابی پانی موجود ہے، خطرہ ہے کہ مزید سیلابی پانی آ گیا تو یہ کیمپ بھی ڈوب جائیں گے۔

روزنامہ ایکسپریس کی اس خبر پر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے جس میں یہ چھپا تھا کہ بھارت نے پھر پانی چھوڑ دیا ہے، جنوبی پنجاب میں ہر طرف تباہی، مزید 8 افراد ڈوب گئے، جلال پور پیر والا میں موٹروے کا حصہ بہہ گیا۔

متاثرین کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے، ریلے سکھر میں داخل، مزید دیہات ڈوب گئے، ایسے میں کسان سوچ رہا ہوگا کہ میرا تو سب کچھ نقصان ہو گیا اور ایسا نقصان جسے وقتی نہیں کہا جا سکتا۔ یہ تو میرے کئی عشرے کھا جائے گا، کیوں کہ یہ نقصان اب قلیل مدت کا نہیں رہا، یہ تو کئی سالوں کے مضر اثرات والا ہے۔

ایسے میں کسی نے اسے تسلی دی ہوگی کہ اسٹیٹ بینک نے اپنی تازہ رپورٹ میں یوں کہا ہے کہ سیلاب نے پاکستان کی معیشت کو قلیل مدتی طور پر متاثر کیا ہے۔ کسان کی پیشانی کی لکیروں پر ارتعاش پیدا ہوا۔ چہرہ فق ہونے لگا، سانس لینے میں دشواری محسوس کر رہا تھا۔

اسے معلوم نہیں کہ یہ پاکستان کی معیشت کی بات ہو رہی ہے۔ ٹھیک ہے اس کی معیشت اجڑ گئی، کھیتوں کی لہلہاتی فصلیں زمین میں دفن ہوکر رہ گئیں، مال مویشی اس سے جدا ہو گئے، کئی عزیز و اقارب پانی کی نذر ہوگئے، ایسے میں یہ خبر بھی مزید پریشانی کا باعث تھی کہ بھارت نے پھر پانی چھوڑ دیا۔ مزید 8 افراد ڈوب گئے۔

اسٹیٹ بینک نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھنے کا امکان ظاہرکیا ہے۔ 2010 میں جو سیلاب آیا تھا، اس نے بڑی تباہی مچائی تھی، اس وقت سیلاب کا نقصان10 ارب ڈالر بتایا گیا تھا۔

ہ سیلاب اس سے کہیں زیادہ پیمانے پر ہے، بہت سے افراد کا بالکل صحیح خیال ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں ایسا سیلاب نہیں دیکھا۔ اتنا زیادہ پانی، اتنا نقصان، اتنے سانپ، اتنی اموات، ہر طرف پانی ہی پانی، پانی کا ایک ریلا گزرتا نہیں، بھارت دوسرا ریلا چھوڑ دیتا ہے۔

15 تاریخ کو ایک اور بہت بڑا ریلا چھوڑ دیا، یہ سیلاب کوئی معمولی نقصان، وقتی نقصان، قلیل مدتی متاثر کن نہیں ہے اس نے مستقبل اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ مہنگائی میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا، برآمدات کم ہوں گی اور غذائی درآمدات میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوگا۔

اس سیلاب نے کپاس کی فصل بالکل ہی تباہ کر کے رکھ دی ہے، ہماری مجموعی برآمدات میں ٹیکسٹائل برآمدات کا حصہ 55 سے 60 فی صد تک بنتا ہے، اب کارخانوں کی شفٹیں کم ہوں گی، بے روزگاری بھی بڑھے گی۔ 

گزشتہ مالی سال 32 ارب ڈالرکی برآمدات کے مقابلے میں پاکستان پھر پیچھے جا کر 25 ارب ڈالر سے زائد کی برآمدات کر پائے گا اور درآمدات 58 ارب ڈالر سے بڑھ کر 65 ارب ڈالر سے زائد ہو سکتی ہے۔

اس طرح تجارتی خسارہ بڑھ کر رہے گا۔ حکومت اسے وقتی نقصان کہتی رہے لیکن عالمی موسمیاتی تبدیلی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ یہ اب مستقل کا معاملہ اختیار کر چکا ہے۔ پہلے سے بھی کہیں زیادہ تیاری کرنا ہوگی۔ ابھی ہم اس سیلاب کے نقصان کو برسوں تک پھیلا ہوا دیکھ رہے ہیں، لیکن موسمیاتی تبدیلی جس نے پاکستان کے پہاڑوں، گلیشیئروں، دریاؤں، کھیتوں کا مستقل رخ کر لیا ہے اور پاکستان کو ہی اپنے نشانے پر رکھ لیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ آنے والے کئی عشروں کے خواب ڈبو دیے ہیں۔ ہمیں سنبھلنا پڑے گا، وقتی نقصان قرار دینے کے علاوہ عملاً مستقبل کے لیے بھرپور تیاری کرنا ہوگی۔ 2022 میں جن علاقوں سے سیلاب ہو کرگزرگیا تھا، وہاں کے کسان مدتوں تک اپنے کھیتوں سے پانی نکالنے کے لیے حکومتی پلان کا انتظار کرتے رہے۔ یہ سب سستی کاہلی ہماری معاشی ناتوانی، منصوبہ بندی کا فقدان اور بہت کچھ ظاہر کرتی ہے۔

اس مرتبہ سیلاب کے اترنے کے فوری بعد تمام زمینوں کو کاشت کے قابل بنا کر دینا، ہر صوبائی اور وفاقی حکومت کی بھی ذمے داری ہے۔ سڑکیں جس طرح ٹوٹ پھوٹ کر گڑھوں کی شکل اختیارکرچکی ہیں ان کی فوری تعمیر کی ضرورت ہے۔

ہماری حکومت تنقید کے جواب میں اپنی توانائی ضایع کرتی ہے حکومت چاہے صوبائی ہو یا مقامی انتظامیہ، وہ سب اپنی پھرتی، کارکردگی دکھائیں تو جواب عملی طور پر سامنے آجائے گا۔ اس وقت پوری قوم مشکل میں ہے اور جنوبی پنجاب اور سندھ کے کئی اضلاع سیلاب کی شدید لپیٹ میں آ چکے ہیں۔

مخیر حضرات اب آگے بڑھیں، خاص طور پر اشرافیہ اپنی بڑی بڑی دیوہیکل گاڑیاں لے کر ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور گڑھوں کو عبور کرتے ہوئے خوراک، ادویات،کپڑے، جوتے، مچھردانیاں اور ضرورت کا بہت سا سامان، خاص طور پر پکا پکایا کھانا یہ سب لے کر ضرورت مندوں، بھوکوں کو لے جا کر دیں اور یہ ثواب کمانے کا نادر موقعہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایک ماہ تک روزانہ صبح لیموں پانی پینے کے 5 حیرت انگیز فوائد
  • کیچ، چار ماہ قبل اغواء ہونیوالے اسسٹنٹ کمشنر حنیف نورزئی بازیاب
  • مغوی اسسٹنٹ کمشنر حنیف نورزئی بازیاب، خصوصی طیارے کے ذریعے کوئٹہ منتقل
  • بارش اور کرپٹ سسٹم
  • سیلاب زدگان کی فوری امداد
  • کیا راول ڈیم کا پانی فلٹریشن کے بعد بھی پینے کے لیے غیر محفوظ ہے؟
  • دریائے ستلج کے سیلاب میں کمی
  • سیلاب
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • رہنماء کی گرفتاری قابل مذمت، کسی دباؤ میں نہیں آئینگے، جے یو آئی کوئٹہ