اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم—فائل فوٹو

پاکستان نے ترقی پذیر ممالک کی تنظیم جی-77 اور چین کے لیے عالمی چیلنجز سے نمٹنے کی حکمت عملی پر زور دیا ہے۔

نیویارک میں ترقی پذیر ممالک کی تنظیم جی-77 اور چین کی سربراہی عراق کو سونپنے کی تقریب منعقد ہوئی جس میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے بھی شرکت کی۔

تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے منیر اکرم نے کہا کہ ترقیاتی مالیات کی فراہمی اور تجارت کو بحال کرنا ترقی پذیر ممالک کی ترجیح ہے، ٹیکنالوجی کے نظام کو پائیدار ترقیاتی اہداف اور ماحولیاتی مقاصد سے ہم آہنگ کرنا ترجیح ہے۔

انہوں نے کہا کہ پائیدار ترقیاتی اہداف کے لیے مالی معاونت میں 3، 4 کھرب ڈالرز کا خلا موجود ہے، ماحولیاتی تبدیلی کے لیے مالی معاونت میں 1.

5 کھرب ڈالرز کا خلا موجود ہے۔

کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان اور دنیا کیلئے خطرہ ہے، منیر اکرم

اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان اور دنیا کیلئے خطرہ ہے۔

منیر اکرم کا کہنا ہے کہ گلوبل ساؤتھ کے ممالک کو مالی امداد، گرانٹ اور رعایتی مالیات کے فروغ کی ضرورت ہے، تجارت ترقی پذیر ممالک کے ترقی یافتہ دنیا میں شمولیت کے لیے اہم محرک ہے، ترقی پذیر ممالک کی برآمدات کے لیے نئے دروازے کھولنے کی ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کی تجارتی تحفظ پسندی کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے، ٹیکنالوجی کو ایس ڈی جیز اور ماحولیاتی تبدیلی کی کارروائیوں کے ساتھ جوڑنا ضروری ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ وعدوں کو عملی جامہ پہنانا ضروری ہے، چوتھی ایف ایف ڈی کانفرنس میں ہمارا یہی ہدف ہو گا۔

پاکستانی مندوب نے ترقی پذیر ممالک کی مصنوعی ذہانت تک رسائی میں امتیازی سلوک ختم کرنے کی حمایت اور ترقی پذیر ممالک سے کیے گئے وعدوں پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا۔

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب ترقی پذیر ممالک کی منیر اکرم نے کہا کے لیے

پڑھیں:

جنوبی ایشیا کے ماحولیاتی چیلنجز اور سوشل میڈیا کا کردار

پاکستان اور بھارت کا رشتہ تاریخ، تہذیب اور جغرافیہ کے گہرے روابط رکھنے کے باوجود کشیدگی، بداعتمادی اور تنازعات سے عبارت رہا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین سرحدوں پر خار دار دیواریں تو موجود ہیں، لیکن قدرتی مسائل، خاص طور پر موسمیاتی اور ماحولیاتی چیلنجز، ان کے درمیان کسی سرحد کے پابند نہیں۔فضائی آلودگی، پانی کی کمی، ہیٹ ویوز، سمندری طوفان کے خطرات، طوفانی بارشیں اور برفانی گلیشیئرز کے پگھلنے جیسے مسائل دونوں ممالک کے شہریوں کو یکساں اور شدید متاثرکررہے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ پاکستان اور بھارت طویل المدتی موسمیاتی بحران کی لپیٹ میں ہیں، جو ان کے ماحولیاتی، معاشی اور سماجی ڈھانچے پر گہرے اثرات ڈال رہا ہے۔ ایسے میں سوشل میڈیا ہمیں ایک نیا موقع فراہم کرتا ہے کہ اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر مشترکہ ماحول دوست مستقبل کی جانب بڑھا جائے۔

اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کی رپورٹ ''South Asia Environmental Outlook 2024'' کے مطابق جنوبی ایشیا میں ماحولیاتی بحران کی شدت خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ رپورٹ  کے مطابق ’’بھارت اور پاکستان کے شہری علاقوں میں فضائی آلودگی عالمی معیار سے کئی گنا زیادہ ہے، جس کے باعث بھارت میں سالانہ 1.6 ملین جب کہ پاکستان میں تقریباً 135,000 اموات ہوتی ہیں۔‘‘ اس کے ساتھ ساتھ دریائے گنگا اور سندھ کی آلودگی، زمینی پانی کی قلت اور زراعت میں کیمیکل کے بے تحاشا استعمال نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ بدقسمتی سے دونوں ممالک کے درمیان سیاسی کشیدگی نے ماحولیاتی تعاون کو محدود کردیا ہے۔ ایسی صورتحال میں سوشل میڈیا ایک نیا رابطہ پل ثابت ہو سکتا ہے۔

2024 کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں 467 ملین اور پاکستان میں 71 ملین فعال سوشل میڈیا صارفین موجود ہیں۔ یہ نوجوان صارفین انسٹاگرام، ٹوئٹر، یوٹیوب اور فیس بک کے ذریعے عالمی و مقامی مسائل پر آواز بلند کر رہے ہیں، اگر ان پلیٹ فارمزکو مؤثر طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ ماحولیات کے تحفظ اور خطے میں امن کے فروغ کا بہترین ذریعہ بن سکتے ہیں۔

اس طرح کی کئی مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں، مثال کے طور پر ہیش ٹیگ #IndoPakClimateSolidarity کے ذریعے نوجوانوں نے سرحد پار ماحولیاتی یکجہتی کا اظہارکیا۔ یوٹیوب چینلز جیسے India Pakistan Together نے ماحولیاتی موضوعات پر مثبت مکالمے کو فروغ دیا۔ مختلف این جی اوز نے آن لائن کانفرنسز اور وسمینارز کے ذریعے مشترکہ ماحولیاتی حل تلاش کیے۔ عالمی سطح پر بھی دیکھاجائے تو سوشل میڈیا نے متصادم گروہوں کو ماحولیاتی مسائل  کے حوالے سے  متحدکیا جیسے فلسطین اور اسرائیل کے نوجوانوں نے EcoPeace Middle East کے ذریعے پانی کے تحفظ پر مل کر کام کیا۔ چین اور بھارت کی ڈیجیٹل مہمات نے سرحدی ماحولیاتی خطرات پر توجہ دی۔ اقوام متحدہ کے Climate Action Now جیسے عالمی پروگراموں نے سوشل میڈیا کو مؤثر ماحولیاتی سفارت کاری کا ذریعہ بنایا۔

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ جہاں مواقع  موجود ہوتے ہیں، وہیں چیلنجز بھی ہوتے ہیں۔ بعض گروہ سوشل میڈیا کو تعصب اور دشمنی کے فروغ کے لیے استعمال کرتے ہوئے نفرت انگیز بیانیے کو پروان چڑھاتے ہیں جب کہ ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق جعلی خبریں اور اس حوالے سے سازشی نظریات ماحول دوستی کے لیے کی جانے والی کوششوں کوکمزور کرنے کا باعث بنتے ہیں، اس کے ساتھ بعض اوقات حکومتیں ریاستی سنسر شپ کے زریعے آن لائن مکالمے پر پابندیاں عائد کردیتی ہیں ۔

 ہمارے پالیسی ساز اپنی آنے والی نسلوں کی بقا کے لیے مشترکہ ماحول دوست مستقبل کو پروان چڑھانے کے لیے متعدد اقدامات اٹھا سکتے ہیں جیسے، ماحولیاتی یوٹیوبرز، ٹک ٹاکرز اور انسٹا ایکٹیوسٹس کو ڈیجیٹل بیداری اور تحقیق پر مبنی تربیت دی جائے۔ پاکستان اور بھارت کے طلبا، محققین اورکارکنان کے درمیان ورچوئل کلائمیٹ کانفرنسز منعقد کی جائیں، دونوں ممالک کے نوجوان فلم ساز ماحولیاتی ڈاکیومنٹریز اور سوشل میڈیا سیریز بنائیں جیسے ’’ سانس ایک، شہر دو‘‘ جامعات ماحولیاتی اور سوشل میڈیا سے متعلق تحقیق کو فروغ دے کر بین الاقوامی تحقیقی گرانٹس حاصل کرسکتی ہیں۔ UNEP،SAARCاور دیگر عالمی ادارے اس ضمن میں سوشل میڈیا بیداری مہمات کو مالی اور تکنیکی معاونت بھی فراہم کرسکتے ہیں۔

ہمیں جلد از جلد اس امرکا ادراک کرنا ہوگا کہ جنوبی ایشیا کی ماحولیاتی بقا اب دونوں ممالک کے لیے بقاء کا سوال ہے۔ سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو روایتی سفارتی دروازوں کو کھولے بغیر دلوں کو جوڑ سکتا ہے۔ نوجوانوں کی آوازیں اگر ماحولیاتی انصاف، پانی کی حفاظت اور صاف فضا کے لیے بلند ہوں، تو نہ صرف کشیدگی میں کمی آ سکتی ہے بلکہ ایک بہتر، مشترکہ مستقبل کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔

اب پاکستان اور بھارت کا مستقبل جنگ یا سیاست کے فیصلے نہیں بلکہ مشترکہ ماحولیاتی خطرات طے کریں گے۔ دریاؤں کا پانی،آلودہ فضا،گرم ہوتا موسم اور ختم ہوتی حیاتیاتی تنوع بھی ان مسائل میں شامل ہیں جن کی سرحدیں نہیں ہوتیں، اگر دونوں ملکوں کے نوجوان سوشل میڈیا کو نفرت کے بجائے فہم و فراست کا ذریعہ بنائیں، تو وہ نہ صرف ماحول کو بچا سکتے ہیں بلکہ دشمنی کی برف کو بھی پگھلا سکتے ہیں۔آج ہمیں جنگ کی زبان سے نہیں، ہوا اور پانی کی زبان سے بات کرنی ہے، اور سوشل میڈیا ہمیں یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم نفرت کے شور میں ماحول کے حق میں ایک نیا نغمہ چھیڑیں۔ سوشل میڈیا، جوکل تک تفریح کا ذریعہ تھا، آج ہمارے ہاتھ میں ایک بااثر ہتھیار ہے، محبت، شعور اور مکالمے کا۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کی حکمت عملی میں اہم پیش رفت: حکومت نے 500 ارب کا قرضہ قبل از وقت ادا کردیا
  • بارشیں، وزیراعظم نے این ڈی ایم اے، ریسکیو اداروں اور انتظامیہ کو ہائی الرٹ کر دیا
  • برکس میکانزم ترقی پذیر ممالک کے درمیان تعاون کا ایک اہم پلیٹ فارم ہے، چینی وزارت خارجہ
  • برکس بزنس فورم کا آغاز، ڈیجیٹل معیشت سمیت مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال
  • مردوں کی زلف تراشی کی قیمتوں میں عالمی فرق، پاکستان سستے ترین ممالک میں شامل
  • دیہی ترقی قومی خوشحالی کی ضمانت ہے، وزیراعظم کا دیہی آبادی کی ترقی کے عالمی دن پر پیغام
  • جنوبی ایشیا کے ماحولیاتی چیلنجز اور سوشل میڈیا کا کردار
  • چین نے افریقہ کے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار کی حیثیت سے اپنی پوزیشن برقرار رکھی ہے ، وزیراعظم سینیگال
  • پاکستان اور متحدہ عرب امارات کا تعلیم اور انسانی وسائل کی ترقی میں تعاون کے فروغ کے عزم کا اعادہ
  • بھارت کا پاکستان مخالف نظریہ دونوں ممالک کے عوام کیلئے خطرناک: بلاول