Jasarat News:
2025-09-18@12:58:24 GMT

خالد مخدومی کے لیے دعائیں

اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT

خالد مخدومی کے لیے دعائیں

زندگی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا تاج ہے۔ ہمیں اپنی ذاتی، خاندانی، معاشرتی اور پروفیشنل زندگی میں بہت سے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ زندگی کی پر خار راہوں میں کچھ لوگ محبت، امید اور خوشی سے بھرے ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ زندگی میں ذہنی اذیت کا باعث بھی بنتے ہیں گویا دنیا میں دو ہی قبیلے ہیں ایک زہر پلانے والے اور دوسرے زہر پینے والے، خالد مخدومی کا تعلق زہر پینے والے قبیلے سے تھا۔ جس نے کسی کو دکھ نہیں دیا بلکہ دوسروں کا دیا ہوا دکھ سہا ہے۔ ایسے لوگ اللہ کی رحمت سے ملنے والی کامیابیوں، خوشیوں اور نعمتوں کو اپنی قابلیت کا شاخسانہ سمجھتے ہوئے خود پسندی کی دلدل میں اتر جاتے ہیں ان کے مقابلے میں خود پسند انسان ہیں۔ ہمیشہ ذاتی مفاد کے گھوڑے پر سوار ہو رہتے ہیں اور خودغرضی کی تلوار سے دوسروں کی عزت نفس کی دھجیاں اُڑاتے ہیں مگر خالد ان میں سے نہیں تھے۔ انہوں نے اپنی خامیاں سامنے رکھیں اور دوسروں کی خوبیوں کو بیان کیا۔ وہ نرگس کے پھول کی مانند اپنی ہی محبت میں گرفتار ہوجانے والوں میں بھی نہیں تھے جو خود کو عقل کل سمجھتے ہوں وہ ان لوگوں میں بھی نہیں تھے جو لوگوں کو اپنے مقاصد کے لیے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک دیتے ہیں۔ وہ ایک بلند پایہ انسان تھے اور با ہمت بھی۔ وہ اختیار ملنے پر گھٹیا پن کا مظاہرہ کرنے والوں سے بھی نہیں تھے۔ دوسروں کی شخصیت، کام اور خوبیاں دیکھ کر حسد کی بھٹی میں جلنے والے بھی نہیں تھے وہ ایک کمال انسان تھے اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔

دیکھیے، ذرائع ابلاغ کی دنیا میں جسارت بھی کیا کمال کا قومی اثاثہ ہے، ایک وقت تھا جسارت کا توتی بولتا تھا، اس وقت اسے صلاح الدین، عبدالکریم عابد جیسے مدیر میسر تھے، کیا خوب انسان تھے۔ ان جیسی صحافتی اور باغیانہ جرأت کسی میں نہیں دیکھی ان جیسے مدیروں کے سایہ میں پرورش پانے والے رپورٹر بھی کمال تھے۔ ان مدیروں کا ریمورٹ خود انہی کے ہاتھوں میں تھا ریمورٹ بھی بالکل درست، چار دبائو تو چار کا بٹن ہی دبتا تھا، چوالیس کا نہیں، جسارت کی پہچان بھی یہی لوگ تھے، جسارت نے ایوب خان، یحییٰ خان کا زمانہ دیکھا بھٹو صاحب کا دور بھگتا، ضیاء الحق کا ’’اسلام‘‘ بھی دیکھا، مشرف کی روشن خیالی کا مقابلہ کیا، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی جمہوریت بھی دیکھی، غرض بہت کچھ دیکھا، مگر جسارت کے رپورٹر کو کوئی دور دبا نہیں سکا، ہاں مگر کچھ خود احتسابی کا ضرورت ہے اور یہ ہر دور میں رہی ہے جوں جوں انسان خود احتسابی کی زنجیر سے آزاد ہوتا ہے تو خرابی بھی در آتی ہے۔

جسارت کو آج چھپن سال ہونے والے ہیں یہ پاکستان، اسلام اور نظریہ پاکستان کی جنگ لڑ رہا ہے۔ انسانی حقوق کی جنگ لڑ رہا ہے اور دیانت داری سے لڑ رہا ہے۔ یہ اپنا فرض پورا کر رہا ہے اس کے قافلہ حق میں شامل لوگ خالد مخدومی جیسے کردار ہیں۔ کس کس رپورٹر کا نام لیا جائے، یہ سب صاحب کردار لوگ ہیں اور تھے، یہ روبوٹ نہیں تھے، ان رپورٹرز نے کم وسائل میں اس قدر کام کیا ہے کہ بڑے بڑے سورما بھی نہیں کرسکے تھے، یہ کام اس لیے ہوگیا کہ اللہ کی نصرت ان کے ساتھ تھی اور ان کی خواہشات کا ریمورٹ کنٹرول بھی خود انہی کے اپنے ہاتھوں میں تھا ان لوگوں نے اپنی جسارت کے لیے اپنے جوانیاں لگا دیں، خالد مخدومی نہایت خاموشی کے ساتھ ہمیں یہ سبق دے گئے ہیں کہ دوسروں کے احساسات، جذبات اور مقاصد کی بھی قدر کریں، لوگوں کو قبول کرنا سیکھیں۔ پروفیشنل لائف میں اپنے ساتھیوں، باس اور ہائر مینجمنٹ سے خوشگوار تعلقات رکھیں آپ کی زندگی میں ملنے والے لوگ مواقع ہیں۔ آپ نفرت، نظر اندازی، بے جا تنقید اور پروفیشنل پولیٹکس سے لوگوں کو اپنا ہم نوا نہیں بنا سکتے۔ اپنے ذاتی مفاد کے ساتھ دوسروں کے مفادات، جذبات اور مقاصد کا بھی خیال رکھیں، بس ہم سب کے لیے ایک سبق ہے کہ ہم اپنی زندگی کی ذمے داری لیں۔ مثبت رویے اور دوسروں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کریں اللہ تعالیٰ بدلے میں بہت کچھ دے گا جس کا آپ نے تصور بھی کیا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کریں۔ شکرگزاری کا جذبہ آپ کے دل میں اطمینان اور خوشی بھر دے گا۔

جسارت ایک ایسا کا خانہ ہے یا اسے غضب کا مجسمہ ساز کہہ لیجیے اس کی انگلیوں میں مہارت پھڑپھڑاتی اور جب وہ مٹی گوندھ کر اس کو مجسمے کی شکل دیتا تو لوگ اس کی صفائی اور خوب صورتی دیکھ کر دنگ رہ جاتے، جسارت نے بلاشبہ بڑے نام پیدا کیے، خالد مخدومی بھی ان میں سے ایک تھے۔ وہ ایک اور سبق بھی دے گئے ہیں اور راہنمائی بھی کہ ’انا‘ دراصل اپنے بارے میں ایک تصور کا نام ہے جو کہ غلط فہمی پر مبنی ہوتاہے۔ ہر انا والا انسان سمجھتاہے کہ ’’میرے پا س جو عہدہ ہے، یہ دنیا کا سب سے طاقتور عہدہ ہے‘‘ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ قرآن کریم میں اللہ ارشاد فرما تا ہے کہ ’’ہر علم والے کے اوپر ایک علم والاہے‘‘۔ (سورۃ یوسف: 76) کوئی انسان اگر یہ سمجھتا ہے کہ میں ہی اس دنیا کا واحد اور منفرد انسان ہوں تو یہ اس کی اپنی عقلی کمزوری ہے۔ عہدے اور اختیار کا نشہ سب سے خطرناک نشہ ہے اگر ایسے لوگ غور کریں اللہ نے یہ پوری کائنات بنائی ہے، جس میں بے شمار کہکشاں ہیں جس میں ایک سورج اور کئی سارے سیارے ہیں۔ ان سیاروں میں ایک سیارہ زمین ہے۔ جس میں سات ارب انسان اور ڈیڑھ سو سے زائد ممالک ہیں۔ ان میں ایک ملک پاکستان ہے جس میں بے شمار شہرآباد ہیں اور ان میں بسنے والا ایک عام انسان ہے۔ تو پھر اس کے اندرکون سی انا، کہاں کا تکبر ہاں! جو انسان عبادت گزار ہے لیکن اس کے باوجود بھی متکبر اور اناپرست ہے تو پھر یہ اس کی عبادت پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے مولاناجلال الدین رومی کہتاہے کہ ’’انا، خدا اور بندے کے درمیان پردہ ہے‘‘۔ البتہ جو شخص اس پردے کو گرادیتا ہے تو وہ اللہ کے قریب ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ ہر وہ شخص جو شکر گزاری کی کیفیت پیدا کرلے تو اس کی انا کنٹرول میں آجاتی ہے۔ بس یہی سبق ہمیں خالد مخدومی دے گئے ہیں۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بھی نہیں تھے خالد مخدومی دوسروں کی زندگی میں ہیں اور میں ایک کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !

بچھڑے آبائی شہرمیں قدم رکھتے ہی یادوں کی ہوائیں چلنے لگتی ہیں، مگر آج اس شہر میں قدم رکھا، تو یوں لگا، جیسے یہ کوئی اور ہی شہر ہو۔ پورا شہر پانی میں ڈوبا ہوا، کسی دریا کا منظر پیش کر رہا تھا۔ بعض محلوں میں کشتیوں کے ذریعہ شہریوں کو کھانے پینے کا سامان پہنچایا جا رہا تھا۔

یہ دلدوز مناظر آج تک اس شہر کی آنکھوں نے نہیں دیکھے تھے؛ اس وقت بھی نہیں، جب کہتے ہیں کہ دریاے چناب شہر کے ایک بیرونی دروازے کے پاس سے گزرتا تھا۔ یہ دروازہ، جو بعد میں اس مقام پر صاحب مزار شاہدولہ دریائی کے نام سے منسوب ہوا، گجرات شہر کے ان چار بیرونی دروازوں میں سے ایک تھا، جو مغل بادشاہ اکبرکے زمانے میں دریائے چناب کے کنارے بلند ٹیلے پر’اکبری قلعہ‘ کی تعمیر کے بعد اس کے گردا گرد بتدریج بس جانے والی بستی کے داخلی و خارجی راستے تھے، اور رات کو بند کر دیے جاتے تھے۔ تاہم، یہ شہر اس سے دو ہزار سال قبل راجہ پورس کے عہد میں بھی آباد تھا، جس کی راجدھانی دوآبہ چج ( دریاے چناب اور دریاے جہلم کے درمیانی علاقہ، موجودہ ضلع گجرات ) میں قائم تھی، اور عسکری طورپر یہ اس کا اہم ترین شہر تھا۔

یاد رہے کہ سنسکرت اور قدیم ہندی میں گج کے معنی ’ہاتھی‘ اورگجرات کے ’ہاتھی بان‘ کے ہیں۔ راجہ پورس اور اس کی فوج کی وجہ شہرت یہی ہاتھی اور ہاتھی بان تھے، ا ور یہ شہرت اس وقت مقدونیہ ( یونان ) تک پہنچ گئی، جب راجہ پورس نے مقدونیہ کے خلاف ایران کے بادشاہ دارا کو ہاتھی دستے کی کمک فراہم کی تھی۔ ابھی چند سال پہلے تک بھی یہ شہر اپنی سیاسی اہمیت کے لحاظ سےKing's City  کہلاتا تھا۔ اس پس منظر میں اندرون اور بیرون ملک ہر جگہ گجرات شہر ڈوبنے کے روح فرسا مناظر ناقابل یقین تھے۔

حیرت انگیز طور پر اکبری قلعہ سے متصل شہر کا مرکزی بازار بھی زیرآب آ چکا تھا۔ شورومز کے بیسمنٹ اسٹور تباہ، جب کہ اونچی عمارتوںکے زیرزمین پارکنگ سینٹر تالاب بن گئے تھے۔ محلوں میں گھروں کے آگے اس طرح جم کے کھڑا ہو گیا تھا کہ شہریوں کا باہر نکلنا ناممکن تھا۔ شہر کے وسط میں مسلم اسکول اور نارمل ایلیمنٹری اسکول، جو سڑک کی سطح سے نیچے ہیں، کے اندونی مناظر دل دہلا دینے والے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ جب مسلم ہائی اسکول شیشیانوالہ گیٹ کی پرانی عمارت چھن جانے کے بعد نارمل اسکول کی اس عمارت میں منتقل ہوا، تو پہلے پہل ہم انھی کمروں، برآمدوں اور ان کے باہر سبزہ زاروں میں درختوں اور پیڑوں کے نیچے بیٹھ کے پڑھا کرتے تھے، جو آج گہرے پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ وہ بڑا کمرہ جو ہیڈماسٹر نیک عالم صاحب کا دفتر ہوتا تھا، اس کے اندر دیوار پر صرف قائداعظم کی تصویر سلامت بچی تھی، نیچے سب کچھ پانی میں گم ہو چکا تھا۔ اسکول کے عقب میں وسیع گراونڈ، جس میں چھٹی کے بعد شام تک بیک وقت درجنوں کرکٹ ٹیمیں کھیل رہی ہوتی تھیں، جوہڑ بن چکی تھی۔

علامہ اقبال نے میٹرک کا امتحان اسی اسکول کے امتحانی ہال میں دیا تھا ،جو اب ’اقبال ہال‘ کہلاتا ہے، وہ بھی غرق ِآب تھا۔ محلہ غریب پورہ، اس میں واقع گورنمنٹ گرلز اسکول، ا ورگردونواح کے محلے بھی آفت زدہ علاقوں کا نقشہ پیش کر رہے تھے۔ اسٹیڈیم،کچہری، اسپتال، اسکول،کالج، یونیورسٹی، میونسپل کارپوریشن، سرکاری دفاتر، قبرستان، کوئی چیز بھی پانی کی دستبرد سے محفوظ نظر نہ آرہی تھی۔ اس سے بھی کرب ناک احساس یہ تھا کہ اس نازک اور مشکل گھڑی میںگجرات کے نام نہاد ’ ’منتخب نمایندوں‘‘ میں سے کوئی بھی تباہ حال شہر اور اس کے شہریوں کی ڈھارس بندھانے کے لیے موجود نہ تھا، یا عوامی غیظ و غضب کے خوف سے اس کی جرات نہیں کر پا رہا تھا۔

معلوم ہوا، گزشتہ شب پانی شہر میں داخل ہوا، تو اس سے قبل شہر میں طوفانی بارش ضرور ہوئی، مگر یہ تھم چکی تھی، بلکہ دریائے چناب سے پانی کا خطرناک سیلابی ریلا بھی شہر کو گزند پہنچائے بغیرگزر چکا تھا۔ آزادکشمیر سے موسلادھار بارشوں اور ندی نالوں کے بپھرنے کی اطلاعات ضرور آ رہی تھیں، مگر انتظامیہ اور’منتخب نمایندوں‘ کی طرف سے کہا جا رہا تھا کہ خطرے کی بات نہیں، ان نالوں کے آگے حفاظتی بند باندھے جا چکے ہیں۔

یوں اہل شہر ان کے بھروسے پر اطمینان سے سو گئے؛ مگرسوہنی کے شہر کے باسیوں کو کیا خبر تھی کہ اس طرح کے طوفانوں میں وہ کبھی جس کے مضبوط کندھوں کے سہارے دریا کے پار محفوظ اُتر جایا کرتے تھے، وہ پکا گھڑا کب کا کچے گھڑوں سے بدلا جا چکا ہے۔ سو، آدھی رات کے بعد جب شہر میں اچانک سائرن بجنا اور مسجدوں سے اذانیں اور اعلانات ہونا شروع ہوئے، اورشہری بازاروںکی طرف اپنی جمع پونجی بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے، اورگھروں میں ضروری سامان چھتوں اور ممٹیوں پر پھینک رہے تھے، جو اس طوفانی رات میں ’ سوہنی‘ کی تھی، جس کا کچا گھڑا پانی میںگھل رہا تھا،وہ پکار رہی تھی، ’مینوں پار لنگھا دے وے گھڑیا منتاں تیریاں کردی‘۔ مگر،کوئی آہ و فریادکام نہ آئی۔

کچھ ہی دیر میں ’سوہنی‘ ڈوب چکی تھی، اور پانی اس کے شہر پر قابض ہو چکا، اورسانپ کی طرح پھنکار رہا تھا۔ کہا جاتا ہے، بہت سارے شہری اس وجہ سے بھی اپنا مال اسباب بچانے کے لیے بروقت کاروباری مراکز، دکانوں، بیسمنٹوں اور زیرزمین پارکنگز میں نہ پہنچ سکے کہ آخری وقت پر بھی ان کو خطرے کی حقیقی نوعیت کے بارے میںکچھ بتانے کی ضرورت نہ سمجھی گئی۔ ستم یہ ہے، جب سارا شہر ڈوب چکا تھا، تب بھی وزیراعلیٰ کو انتظامیہ کی طرف سے یہی بتایا جا رہا تھا کہ خطرے کی کوئی بات نہیں، صرف شہر کے بیس فی صد حصہ میں کچھ ’اضافی پانی‘ جمع ہو گیا ہے۔

شہر کیوں ڈوبا ؟ اس حوالہ سے متعدد کہانیاں زیر ِگردش ہیں۔ ایک کہانی یہ ہے کہ نالہ بھمبرکے سیلابی پانی کو شہر کی طرف جانے سے روکنے کے لیے جو بند باندھے گئے، رات کو کسی نے ان کو توڑ کر پانی کا رخ شہرکی طرف موڑ دیا، اور ایک نہیں، دومرتبہ یہ وقوعہ ہوا۔ اس پر لوگ سوال کرتے ہیں کہ کس طرح محض چند افراد بغیر کسی موثر پشت پناہی کے پورا شہر ڈبونے کی جرات کر سکتے ہیں۔

ایک کہانی یہ ہے کہ مون سون میں آزادکشمیر کی طرف سے آنے والے بارشی پانی کی راہ میں ناجائز تجاوزات کے باعث اس کے دریا کی طرف قدرتی بہاو کے راستے بند ہو چکے ہیں۔ جب اس پانی کو نکاس کے لیے قدرتی راستہ نہیں ملا، تو اس نے شہر کا رخ کر لیا۔ ایک کہانی یہ ہے کہ شہر چونکہ حکومت مخالف تحریک انصاف اور چوہدری پرویزالٰہی کا سپورٹر ہے۔

 اس لیے حکومت اور اس کے مقامی اتحادیوں کو شہرکی کوئی پروا نہ تھی کہ جب شہر نے انھیں ووٹ ہی نہیں دیا، تو ان کی بلا سے شہر ڈوبے یا ترے۔ ماضی میں اس طرح کی صورتحال میں جو لوگ شہر کے ’ناقص سیوریج سسٹم‘کو مورد الزام ٹھیرا کے بری الذمہ ہو جاتے تھے، آج ان کی مشکل یہ ہے کہ اپنی وزیراعلیٰ کے ہمراہ اسی گروپ کے پہلو میں بیٹھے ہیں۔ تحریک انصاف کے صدر چوہدری پرویزالٰہی اور سلمان اکرم راجہ چند روز پہلے متاثرین کی دلجوئی کے لیے آئے اور جو انکشاف کیا ، وہ بھی ان دنوں شہر میں زبان زد خاص وعام ہے۔ ان کا کہنا تھا، انھوں نے جیل چوک سے بولے پل تک بارشی پانی کی نکاسی کے لیے جو پائب لائن بچھائی تھی، اسے شاہ حسین اور چاہ ترنگ نالوں پرکنکریٹ کی سڑکیں بنا کر غیر موثر کر دیا گیا، بلکہ ان کی مخالفت میں نکاسی آب کے ان کے دوسرے منصوبے بھی روک دیے گئے۔

یہ حقیقت ہے، اگر دریاے چناب کے پانی کو شہر میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے چوہدری پرویزالٰہی نے اپنے پہلے دور میں بند نہ بنوائے ہوتے، اور دریا ے چناب کا پانی بھی شہر میں داخل ہو جاتا، تو جو خوفناک حالات پیدا ہوتے، ان کے تصور ہی سے روح کانپ اٹھتی ہے۔

بہرحال یہ تو شاید کبھی معلوم نہ ہو سکے کہ شہر محض کسی کی غفلت یا نااہلی سے ڈوبا، یا انتہائی درجہ کی سفاکی کا شکار ہوا، مگر یہ واضح ہے کہ اس تباہی و بربادی کا ازالہ کرنا اب آسان نہیں، بلکہ سیاسی طور پر بھی یہ شہر اب عرصہ تک اس خوداعتمادی سے محروم رہے گا، جو گزشتہ دو عشروں میں سیاسی، تجارتی اور تعلیمی میدانوں میں شہر کی مسلسل پیش رفت سے اس کے اندر پیدا ہو چکی تھی۔ جن لوگوں نے یہ شہر ڈوبتے اور اس کے کئی روز بعد تک اسے بے یارومدگاراور خانماں برباد دیکھا ہے، وہ یہ اندوہ گیں مناظرکبھی فراموش نہیں کر سکیں گے، بلکہ حیرت اور افسوس کے ساتھ اپنے بچوں کو بھی سنایا کریں گے، بقول حافظؔ

 شب ِ تاریک و بیم ِ موج و گردابی چنین ہائل

کجا دانند حالِ ما سبکسارانِ ساحلہا

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت جمعہ تک ملتوی کردی
  • ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا پاک سعودی دفاعی معاہدے کا خیر مقدم
  •  آئی ٹی وقت کی ضرورت،دور درازعلاقوں تک پہنچانے کیلئے کوشاں: خالد مقبول
  • انسان بیج ہوتے ہیں
  • سابق فاسٹ باؤلر شعیب اختر نے عمرہ کی سعادت حاصل کرلی، سیلاب متاثرین کے لئے خصوصی دعائیں
  • وزیراعظم محمد شہباز شریف سعودی عرب کے سرکاری دورے پر ریاض پہنچ گئے، کنگ خالد ایئرپورٹ پر پرتپاک استقبال
  • ’اب خود کو انسان سمجھنے لگا ہوں‘، تیز ترین ایتھلیٹ یوسین بولٹ نے خود سے متعلق ایسا کیوں کہا؟
  • ’کسی انسان کی اتنی تذلیل نہیں کی جاسکتی‘، ہوٹل میں خاتون کے رقص کی ویڈیو وائرل
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • اردو یونیورسٹی سینٹ اجلاس موخر کرنے کیلئے خالد مقبول کا ایوان صدر کو خط