خالد مخدومی کے لیے دعائیں
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
زندگی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا تاج ہے۔ ہمیں اپنی ذاتی، خاندانی، معاشرتی اور پروفیشنل زندگی میں بہت سے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ زندگی کی پر خار راہوں میں کچھ لوگ محبت، امید اور خوشی سے بھرے ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ زندگی میں ذہنی اذیت کا باعث بھی بنتے ہیں گویا دنیا میں دو ہی قبیلے ہیں ایک زہر پلانے والے اور دوسرے زہر پینے والے، خالد مخدومی کا تعلق زہر پینے والے قبیلے سے تھا۔ جس نے کسی کو دکھ نہیں دیا بلکہ دوسروں کا دیا ہوا دکھ سہا ہے۔ ایسے لوگ اللہ کی رحمت سے ملنے والی کامیابیوں، خوشیوں اور نعمتوں کو اپنی قابلیت کا شاخسانہ سمجھتے ہوئے خود پسندی کی دلدل میں اتر جاتے ہیں ان کے مقابلے میں خود پسند انسان ہیں۔ ہمیشہ ذاتی مفاد کے گھوڑے پر سوار ہو رہتے ہیں اور خودغرضی کی تلوار سے دوسروں کی عزت نفس کی دھجیاں اُڑاتے ہیں مگر خالد ان میں سے نہیں تھے۔ انہوں نے اپنی خامیاں سامنے رکھیں اور دوسروں کی خوبیوں کو بیان کیا۔ وہ نرگس کے پھول کی مانند اپنی ہی محبت میں گرفتار ہوجانے والوں میں بھی نہیں تھے جو خود کو عقل کل سمجھتے ہوں وہ ان لوگوں میں بھی نہیں تھے جو لوگوں کو اپنے مقاصد کے لیے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک دیتے ہیں۔ وہ ایک بلند پایہ انسان تھے اور با ہمت بھی۔ وہ اختیار ملنے پر گھٹیا پن کا مظاہرہ کرنے والوں سے بھی نہیں تھے۔ دوسروں کی شخصیت، کام اور خوبیاں دیکھ کر حسد کی بھٹی میں جلنے والے بھی نہیں تھے وہ ایک کمال انسان تھے اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔
دیکھیے، ذرائع ابلاغ کی دنیا میں جسارت بھی کیا کمال کا قومی اثاثہ ہے، ایک وقت تھا جسارت کا توتی بولتا تھا، اس وقت اسے صلاح الدین، عبدالکریم عابد جیسے مدیر میسر تھے، کیا خوب انسان تھے۔ ان جیسی صحافتی اور باغیانہ جرأت کسی میں نہیں دیکھی ان جیسے مدیروں کے سایہ میں پرورش پانے والے رپورٹر بھی کمال تھے۔ ان مدیروں کا ریمورٹ خود انہی کے ہاتھوں میں تھا ریمورٹ بھی بالکل درست، چار دبائو تو چار کا بٹن ہی دبتا تھا، چوالیس کا نہیں، جسارت کی پہچان بھی یہی لوگ تھے، جسارت نے ایوب خان، یحییٰ خان کا زمانہ دیکھا بھٹو صاحب کا دور بھگتا، ضیاء الحق کا ’’اسلام‘‘ بھی دیکھا، مشرف کی روشن خیالی کا مقابلہ کیا، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی جمہوریت بھی دیکھی، غرض بہت کچھ دیکھا، مگر جسارت کے رپورٹر کو کوئی دور دبا نہیں سکا، ہاں مگر کچھ خود احتسابی کا ضرورت ہے اور یہ ہر دور میں رہی ہے جوں جوں انسان خود احتسابی کی زنجیر سے آزاد ہوتا ہے تو خرابی بھی در آتی ہے۔
جسارت کو آج چھپن سال ہونے والے ہیں یہ پاکستان، اسلام اور نظریہ پاکستان کی جنگ لڑ رہا ہے۔ انسانی حقوق کی جنگ لڑ رہا ہے اور دیانت داری سے لڑ رہا ہے۔ یہ اپنا فرض پورا کر رہا ہے اس کے قافلہ حق میں شامل لوگ خالد مخدومی جیسے کردار ہیں۔ کس کس رپورٹر کا نام لیا جائے، یہ سب صاحب کردار لوگ ہیں اور تھے، یہ روبوٹ نہیں تھے، ان رپورٹرز نے کم وسائل میں اس قدر کام کیا ہے کہ بڑے بڑے سورما بھی نہیں کرسکے تھے، یہ کام اس لیے ہوگیا کہ اللہ کی نصرت ان کے ساتھ تھی اور ان کی خواہشات کا ریمورٹ کنٹرول بھی خود انہی کے اپنے ہاتھوں میں تھا ان لوگوں نے اپنی جسارت کے لیے اپنے جوانیاں لگا دیں، خالد مخدومی نہایت خاموشی کے ساتھ ہمیں یہ سبق دے گئے ہیں کہ دوسروں کے احساسات، جذبات اور مقاصد کی بھی قدر کریں، لوگوں کو قبول کرنا سیکھیں۔ پروفیشنل لائف میں اپنے ساتھیوں، باس اور ہائر مینجمنٹ سے خوشگوار تعلقات رکھیں آپ کی زندگی میں ملنے والے لوگ مواقع ہیں۔ آپ نفرت، نظر اندازی، بے جا تنقید اور پروفیشنل پولیٹکس سے لوگوں کو اپنا ہم نوا نہیں بنا سکتے۔ اپنے ذاتی مفاد کے ساتھ دوسروں کے مفادات، جذبات اور مقاصد کا بھی خیال رکھیں، بس ہم سب کے لیے ایک سبق ہے کہ ہم اپنی زندگی کی ذمے داری لیں۔ مثبت رویے اور دوسروں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کریں اللہ تعالیٰ بدلے میں بہت کچھ دے گا جس کا آپ نے تصور بھی کیا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کریں۔ شکرگزاری کا جذبہ آپ کے دل میں اطمینان اور خوشی بھر دے گا۔
جسارت ایک ایسا کا خانہ ہے یا اسے غضب کا مجسمہ ساز کہہ لیجیے اس کی انگلیوں میں مہارت پھڑپھڑاتی اور جب وہ مٹی گوندھ کر اس کو مجسمے کی شکل دیتا تو لوگ اس کی صفائی اور خوب صورتی دیکھ کر دنگ رہ جاتے، جسارت نے بلاشبہ بڑے نام پیدا کیے، خالد مخدومی بھی ان میں سے ایک تھے۔ وہ ایک اور سبق بھی دے گئے ہیں اور راہنمائی بھی کہ ’انا‘ دراصل اپنے بارے میں ایک تصور کا نام ہے جو کہ غلط فہمی پر مبنی ہوتاہے۔ ہر انا والا انسان سمجھتاہے کہ ’’میرے پا س جو عہدہ ہے، یہ دنیا کا سب سے طاقتور عہدہ ہے‘‘ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ قرآن کریم میں اللہ ارشاد فرما تا ہے کہ ’’ہر علم والے کے اوپر ایک علم والاہے‘‘۔ (سورۃ یوسف: 76) کوئی انسان اگر یہ سمجھتا ہے کہ میں ہی اس دنیا کا واحد اور منفرد انسان ہوں تو یہ اس کی اپنی عقلی کمزوری ہے۔ عہدے اور اختیار کا نشہ سب سے خطرناک نشہ ہے اگر ایسے لوگ غور کریں اللہ نے یہ پوری کائنات بنائی ہے، جس میں بے شمار کہکشاں ہیں جس میں ایک سورج اور کئی سارے سیارے ہیں۔ ان سیاروں میں ایک سیارہ زمین ہے۔ جس میں سات ارب انسان اور ڈیڑھ سو سے زائد ممالک ہیں۔ ان میں ایک ملک پاکستان ہے جس میں بے شمار شہرآباد ہیں اور ان میں بسنے والا ایک عام انسان ہے۔ تو پھر اس کے اندرکون سی انا، کہاں کا تکبر ہاں! جو انسان عبادت گزار ہے لیکن اس کے باوجود بھی متکبر اور اناپرست ہے تو پھر یہ اس کی عبادت پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے مولاناجلال الدین رومی کہتاہے کہ ’’انا، خدا اور بندے کے درمیان پردہ ہے‘‘۔ البتہ جو شخص اس پردے کو گرادیتا ہے تو وہ اللہ کے قریب ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ ہر وہ شخص جو شکر گزاری کی کیفیت پیدا کرلے تو اس کی انا کنٹرول میں آجاتی ہے۔ بس یہی سبق ہمیں خالد مخدومی دے گئے ہیں۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بھی نہیں تھے خالد مخدومی دوسروں کی زندگی میں ہیں اور میں ایک کے لیے رہا ہے
پڑھیں:
کوچۂ سخن
غزل
ہوتا ہوں آپ میں کبھی ہوتا نہیں ہوں میں
کیوں کر بنوں کسی کا کہ اپنا نہیں ہوں میں
اک عمر یہ شعور سمجھتے گزر گئی
لیکن شعور آج بھی سمجھا نہیں ہوں میں
اے دوست تجھ کو حق ہے مجھے تو بھی چھوڑ دے
اب تو کسی کے حق میں منافع نہیں ہوں میں
سچ ہے ترے رفیق کے جیسا میں نہیں تھا
خوش ہوں ترے رفیق کے جیسا نہیں ہوں میں
جاہ و جلال ہے ترا کمتر تری طرح
دنیا ترے مقام کا بھوکا نہیں ہوں میں
سب کچھ لٹا کے خاک بسر در بدر پھرا
پر کندِ نہ تراش کو بھایا نہیں ہوں میں
کاظم ؔمرا خدا ہے جو شہ رگ سے ہے قریب
اتنا اداس ہو نہیں تنہا نہیں ہوں میں
(کاظم رضا۔ سیالکوٹ)
۔۔۔
غزل
میرا تھا مگر مجھ سے جدا ہو کے مرا ہے
اک شخص گرفتارِ انا ہو کے مرا ہے
بخشی تھی محبت نے جسے رونقِ دنیا
ویرانے میں نفرت کا خدا ہو کے مرا ہے
آواز کی لہروں کے تعاقب میں پریشاں
اک شور مری چپ کی صدا ہو کے مرا ہے
کس واسطے سورج پہ میں الزام لگاؤں
دیوار سے جب سایہ خفا ہو کے مرا ہے
مدت سے نگہباں تھا مرے ضبط کا حانی
آنکھوں سے جو کل اشک ادا ہو کے مرا ہے
(حانی ہنجرا۔ڈسکہ)
۔۔۔
غزل
دشتِ الفت میں کھو گئے آخر
جان سے ہاتھ دھو گئے آخر
رات اختر شماریوں میں کٹی
تو نہ آیا تو سو گئے آخر
تیری ہر بات مان لیتے ہیں
تو نے چاہا تو لو گئے آخر
عشق کا سلسلہ عجیب سا ہے
ہنستے پہلے تھے رو گئے آخر
جان اپنی بھی وار دی ہم نے
تم ہمارے نہ ہو گئے آخر
میرے محبوب تیری فرقت میں
چار کندھوں پہ ڈھو گئے آخر
(محبوب الرّحمان۔سینے،میاندم،سوات)
۔۔۔
غزل
پیٹ کی آگ بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
لوگ مزدوری کماتے ہوئے مر جاتے ہیں
اے بشر پیڑ نہ کاٹ اِن پہ ہمارے گھر ہیں
’ ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں ‘
ایسے گھڑتے ہیں کچھ احباب مَصارع جن کو
سب گلوکار بھی گاتے ہوئے مر جاتے ہیں
جانے کتنے ہیں مصور جو تری چاہت میں
تیری تصویر بناتے ہوئے مر جاتے ہیں
مانگتا ہے وہ تعلق میں سہولت محکم
اور ہم ساتھ نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
(زین محکم سکھیکی۔ حافظ آباد)
۔۔۔
غزل
قہقہے آنسوئوں میں تر کرلو
اب یونہی زندگی بسر کرلو
جھوٹ کے سلسلے نہیں روکو
بس انھیں تھوڑا مختصر کرلو
اس میں آخر فریب ملتا ہے
پیار جتنا بھی ٹوٹ کر، کرلو
غم نبھاتا ہے ساتھ مرنے تک
سو، اسے اپنا ہمسفر کرلو
سچ نے تو آشکار ہونا ہے
تم بھلے لاکھ اگر مگر کرلو
آگہی کرب ہے نزاکتؔ جی
خود کوخودسے بھی بے خبر کرلو
(نزاکت ریاض۔پنڈ مہری، تحصیل حسن ابدال)
۔۔۔
غزل
اُس مشربِ وصال کی وہ چاشنی ملی
ہر چیز رقص کرتے ہوئے ڈولتی ملی
سورج کی کیا مجال جو روشن اِسے کرے
ماہِ فلک کو تجھ سے یہ تابندگی ملی
یہ کارِ سخت پہلے نہ تھا میرا ہم مزاج
تجھ سے ملا تو عشق کی جادوگری ملی
میں ہوں نوائے وقتِ سحر، نغمہ ہائے شوق
مجھ سے ہی اس چمن کو ترو تازگی ملی
کرتا ہوں خرچ اس کو میانہ روی کے ساتھ
معلوم ہے کہ زیست نہیں مفت کی ملی
مانگا خدا سے کوئی جو مجھ کو سمجھ سکے
بدلے میں کوئے فکر تری دوستی ملی
( جنید ضیاء۔ بونیر)
۔۔۔
غزل
پہلو نشیں رہا ہے جو کل تک کدھر گیا
جانے کہاں یہ میرا دلِ در بدر گیا
جاتے ہیں میرے سامنے وہ غیر کی طرف
ہائے! کوئی سنبھالے یہ میرا جگر گیا
اندھے کے ہاتھ آئی ہے تلوارِ تند و تیز
آئے گا جو بھی سامنے اس کا تو سر گیا
پھیلی ہوئی ہے ہر سو اداسی مکان میں
ایسے وہ چھوڑ کر مرے دیوار و در گیا
اب تو دلِ بے چارہ کا چارہ نہیں کوئی
جب سے چھڑا کے ہاتھ مرا چارہ گر گیا
پہلے پہل تو دور سے پہچانتا تھا وہ
لیکن وہ آج پاس سے گزرا، گزر گیا
ٹھہری ہوئی ہے آج بھی یہ نظرِ پر امید
جس راہ مجھ کو چھوڑ مرا ہمسفر گیا
آنکھوں کا رزقِ اشک ہوا تنگ کس لیے
کس واسطے یہ رنج کا دریا اتر گیا
اک بار کے فریب سے آیا نہ باز دل
چوکھٹ پہ ان کی آج میں بارِ دگر گیا
ہیں ثبت اب بھی دل پہ نقوشِ رخِ جمال
دیکھے اسے اگرچہ زمانہ گزر گیا
اب آئے ہیں وہ کس لیے لینے مری خبر
کوئی انھیں بتاؤ کہ فیصل ؔتو مر گیا
(فیصل رشید۔ سرگودھا)
۔۔۔
غزل
ہوا سے دوستی ہے، خواب روشنی کے ہیں
مری جناب، مسائل یہ زندگی کے ہیں
قدم قدم پہ بکھرتی ہیں آرزو کلیاں
جو راستے میں کھڑے پل ہیں بے بسی کے ہیں
چراغ لے کے چلے ہیں ہوا کے پہلو میں
ہمیں خبر ہے یہ لمحے تو بے کلی کے ہیں
نگاہِ شوق میں جو عکس جگمگاتے ہیں
وہ آئینے تو نہیں، ٹکڑے روشنی کے ہیں
صدا یہ دیتی ہے ہر شے سکوتِ شب میں کہیں
جو درد، ہنستے لبوں پر ہیں شاعری کے ہیں
(سیف علی عدیل۔ اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
آنسو دکھائی دیتے ہیں کب بارشوں کے بیچ
جینا بھی اک کمال ہے ان حادثوں کے بیچ
مزدور نیند پوری کرے یا وہ دیکھے خواب
اک خواب ٹوٹتا ہے کئی کروٹوں کے بیچ
اک عکس تھا کہ جس سے تھی اچھی دعا سلام
وہ بھی نہ ٹوٹ جائے کہیں آئنوں کے بیچ
نطشے کا فلسفہ ہو کہ اقبال کی خودی
دونوں ہی دفن ہوگئے ہیں سازشوں کے بیچ
اک دائرہ ہے زندگی اس مستطیل میں
چھپنا فضول جائے گا سب زاویوں کے بیچ
ٹانکا کہاں چھپا ہے کہاں کوئی چاک ہے
کرتے کا رہ گیا ہے بھرم سلوٹوں کے بیچ
آنکھوں نے ضبط سیکھ لیا ایک عمر بعد
کب تک بھلا وہ رہتی مری عادتوں کے بیچ
ٓپیتا اگر نہ زہر تو پھر سوچ یہ مقیمؔ
سقراط کیسے رہتا بھلا بزدلوں کے بیچ
(رضوان مقیم ۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
نوائے باغباں ہم لکھ رہے ہیں
صدائے بلبلاں ہم لکھ رہے ہیں
رقم تاریخ کی تم نے سلف کی
تمہاری داستاں ہم لکھ رہے ہیں
اثر انداز ہوتا تھا جو دل پر
وہ اندازِ بیاں ہم لکھ رہے ہیں
خزاں دیدہ چمن تم نے لکھا تھا
بہارِ گلستاں ہم لکھ رہے ہیں
لکھا ہے تم نے سوزِ خانقاہی
مجاہد کی اذاں ہم لکھ رہے ہیں
نہیں ہے جن سے واقف بزمِ دوراں
وہ اسرارِ نہاں ہم لکھ رہے ہیں
اندھیرا چھٹ رہا ہے دھیرے دھیرے
چراغِ ضو فشاں ہم لکھ رہے ہیں
نویدِ ارمغاں حیدرؔ سنائے
ابھی آہ و فغاں ہم لکھ رہے ہیں
(حیدر میواتی ندوی۔ میوات، انڈیا)
۔۔۔
غزل
تیرے بن دل میرا قبرستان ہے
دفن جس میں ایک اک ارمان ہے
خواب سب بکھرے پڑے ہیں جابجا
آگیا غم کا عجب طوفان ہے
بے رخی پر عقل یہ حیران ہے
یوں ملا جیسے کوئی انجان ہے
ہجر کی شب تیری یادوں کا ہجوم
میرے جینے کا یہی سامان ہے
آج تک کوئی نہیں بھایا مجیدؔ
وہ گیا دل کا چمن ویران ہے
(مجید سومرو۔ پنو عاقل، سندھ)
۔۔۔
غزل
مجھ کو اتنی سی بس شکایت ہے
لمحہ بھر بھی نہیں رعایت ہے
دلِ مضطر سکون پائے جو
کیا پڑھوں کونسی وہ آیت ہے
یاخدا بخش دے، نجات اب تو
دل ہزیمت طرف سے غایت ہے
بن چکا ہے جگر نوالہ اب
سانس رک جا تجھے ہدایت ہے
موت دعوت کرے منور ؔکی
زیست کو اس قدر حمایت ہے
(منور علی۔ گجرات)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی