Nai Baat:
2025-06-10@06:23:04 GMT

تین گنا ٹیکس دینے والی قوم

اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT

تین گنا ٹیکس دینے والی قوم

گذشتہ ہفتے گھر کے فرنیچر میں جزوی تبدیلیوں کے لئے لاہور کی اہم فرنیچر مارکیٹس کے کئی دورے کئے۔ایک سفید پوش انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ کم پیسوں میں معیاری چیز مل جائے تو مزا دوبالا ہو جائے گا۔ خیر اچھرہ کی فرنیچر مارکیٹ، بند روڈ پرٹمبر مارکیٹ اور سیون اپ کے پاس فرنیچر شورومز سے تھک کر گلبرگ اور ڈیفنس کے برانڈڈ فرنیچرسٹورز کا رخ کیا۔ ان میں سے کراچی کے ایک برانڈ سٹور کی لاہور برانچ پر سٹائل اور پرائس میں توازن دیکھ کر بیگم صاحبہ نے آرڈردیا کہ بس اب مزید تلاش فوری طور پر بند کی جائے۔ برانڈ سٹور پر خریداری کرتے ہوئے میں نے دو فرق محسوس کئے پہلا یہ کہ بہت ہی سلجھا ہوا سٹاف، مناسب پرائس کے ساتھ ویلیو ایڈڈ کوالٹی سروس اور دوسرا فرق ایف بی آر کے پوائنٹ آف سیل سے منسلک بل بنا تو فرنیچرآئٹمز کے ساتھ 18 پرسنٹ سیلز ٹیکس الگ درج تھا جو کہ اتنا تھا کہ نان پوائنٹ آف سیل سٹور سے خریداری کرتا تو ایک اور فرنیچر آئٹم خریدا جاسکتا تھا۔ روایتی فرنیچر مارکیٹس میں روزانہ کچی رسیدوں پر کروڑوں کا بزنس ہو رہا ہے۔ میں نے ایک ہفتہ گھوم کر ان مارکیٹس کے سروے سے اندازہ لگالیا کہ یہاں سیلز ٹیکس دینے کا رواج نہیں ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ریٹیل سیکٹر کا سالانہ ٹرن اوور 300 بلین ڈالر(8 ہزار ارب) کے لگ بھگ ہے۔ 35 لاکھ ریٹیلرز میں سے صرف 41 ہزار رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان سے 50 ارب کا ٹیکس اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ سب زیادہ ٹیکس پاکستان کا آرگنائزڈ ریٹیل سیکٹر ادا کر رہا ہے۔ اگر درست اور قابل اعتماد پالیسیز بنائی جائیں تو ریٹیل سیکٹر پر صرف 4 پرسنٹ سیلز ٹیکس اور ایک پرسنٹ انکم ٹیکس لگا کر 15 ارب ڈالر (400 ارب روپے) سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔عوام پرمہنگائی کابوجھ بھی کم ہو جائے گا۔ پاکستان میں تاجروں کے دو طبقے ہیں۔ ایک وہ جنھوں نے اپنا بزنس ٹیکس کمپلائنٹ رکھا ہوا ہے دوسرے وہ جو کہ اکثریتی تاجر ہیں نان ٹیکس کمپلائنٹ ہیں۔ اس کی مثال یوں ہے جو تاجر ٹیکس کمپلائنٹ ہے اور پوائنٹ آف سیل پر رجسٹرڈ ہے۔ وہ اگر 100 روپے کی چیز بیچے گا تو اس میں سے 18 روپے حکومت کو ادا کرے گا۔ گو کہ یہ رقم وہ گاہک سے لے گالیکن وہ اسے لے کر جمع کرانے کا پابند ہے۔ جبکہ دوسری طرف وہ تاجر جو پوائنٹ آف سیل کے ساتھ منسلک نہیں ہے۔ اسی 100 روپے کی پراڈکٹ پر اس کا 18 روپے کا مارجن بڑھ جاتا ہے۔ اس میں سے وہ اگر چاہے تو گاہک کو رعایت دے سکتا ہے۔ اس طرح وہ تاجر جو ٹیکس دے رہا ہے اور جو نہیں دے رہا انکے درمیان مقابلے کی فضا بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ حکومتی خزانے کو نقصان الگ سے ہے۔ حکومت اور ایف بی آر نے دعویٰ کیا تھا کہ تاجر دوست سکیم کے ذریعے 50 ارب کا ریونیو اکٹھا کیا جائے گا۔ جو کہ بنیادی طور پر ایک چھوٹا اور کسی حقیقی سروے کے بغیر بنایا گیا ہدف تھا۔رواں برس دسمبر تک نئے ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لا کر 25 ارب کے ٹیکس ہدف کے حصول میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور صرف چند لاکھ ٹیکس ہی جمع ہوسکا۔ اب اس کا بوجھ صارفین اور پہلے سے ٹیکس نیٹ میں موجود تاجروں پرمنتقل کیاجا چکا ہے۔ حکومت نے سیلز ٹیکس 15 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کردیا ہے۔ انکم ٹیکس اور دیگر ٹیکسز اس کے سوا ہیں۔ پاکستان میں ایک ٹیکس کمپلائنٹ بزنس 49 فیصد تک ٹیکس ادا کر رہا ہے۔ جو کہ عوام کے ساتھ ان تاجروں کے ساتھ بھی زیادتی ہے جو کہ ٹیکس نیٹ میں آ کر ملکی خزانے کو فائدہ دینے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ بجلی اور گیس کی بلوں میں خاموشی سے نئے ریٹ ڈال کر عوام سے مزید ٹیکس نچوڑا جا رہا ہے۔ ایک تاثر یہ ہے کہ ایف بی آر پورا ٹیکس اکٹھا نہیںکر سکتا۔ حالانکہ میں اگر پچھلے پانچ برس کا ڈیٹا دیکھوں تو ایف بی آر نے ہرسال پہلے سے زیادہ ٹیکس جمع کیا ہے۔ مالی سال 2020-21 میں 4,963 ارب روپے کے ٹیکس ہدف کے مقابلے میں 4,745 ارب کا ٹیکس جمع کیا گیا۔ مالی سال 2020-21 میں5,829 ارب روپے کا ٹیکس ہدف مقرر کیا گیا جبکہ 6148ارب روپے ٹیکس حاصل کیا گیا۔کیونکہ اس سال کرونا کے باوجود ملکی گروتھ 6 فیصد پر تھی۔ مالی سال 2022-23 میں 7004 ارب روپے کی ٹیکس کولیکشن کا ہدف مقرر کیا گیا جبکہ 7163 ارب روپے ٹیکس وصول کیا گیا۔ مالی سال 2023-24 میں 9,415 ارب روپے کا ٹیکس ہدف مقرر کیا گیا جبکہ وصولی9,299 ارب روپے رہی۔ رواں مالی سال 12970ارب کے تعاقب میں پہلی ششماہی (جولائی تا دسمبر) کے دوران 5624 ارب روپے جمع کیے جا چکے ہیں جو کہ 22-2021 کے سالانہ ٹیکس ہدف کے برابر ہیں۔ اب ایف بی آر اگلی ششماہی میں 6009 ارب روپے کے مطلوبہ ٹیکس وصولی ہدف کو یقینی بنانے کے لئے کوشاں ہے۔ شاید کارکردگی بڑھانے اور ایف بی آر کے فیلڈ افسران کی حوصلہ افزائی کے لئے تقریباً 6 ارب روپے کی خطیررقم سے ایک ہزار دس نئی لگژری کاریں خرید کر دی جا رہی ہیں۔ ایک بات تو واضح ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ پاکستان کے عوام سے ٹیکس نہیں دیتے۔ اس برس پاکستانی 21-2020 کے مقابلے میں تین گنا ٹیکس ادا کریں گے۔ یہاں مسئلہ ایف بی آر کی کارکردگی کا نہیں بلکہ ان کے ٹیکس اکٹھا کرنے کے طریقہ کار سے متعلق ہے۔ ایف بی آر کے رواں مالی سال میں ٹیکس اہداف پورے نہیں ہو رہے۔ جنوری تک کا ٹیکس شارٹ فال 386 ارب ہو چکا ہے۔لہٰذا ٹیکس نیٹ میں موجود تاجروں اور تنخواہ دار طبقہ پر سختی کے ذریعے مزید ٹیکس اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ حکومت نے ایف بی آرکی کپیسٹی بلڈنگ کے لئے 32.

5 ارب کی خطیر رقم رکھی ہے۔ نئی گاڑیاں، سال کے چار بونس اور بہترین دفاتر دیئے گئے ہیں۔ اب ایف بی آر کو چاہئے کہ آسان ا ہداف کو نچوڑنے کی بجائے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کی جامع اور درست حکمت عملی بنائے۔ ٹیکس دینے والے تاجروں کے لئے ریٹس کم کئے جائیں۔ ٹیکس کی ادائیگی کے نظام میں پیچیدگیاں دور کر کے مجموعی ٹرن اوور پر فائلنگ کا طریقہ کار اپنایا جائے۔ خاص طور ہر ریٹیل سیکٹر میں ٹیکس دینے والوں کے لئے مراعات کا اعلان اور ٹیکس نہ دینے والوں کے لئے کاروباری عمل کو مشکل بنانے کے حکمت عملی کارگر ہوگی۔جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ٹیکس شفافیت، چوری کی روک تھام ضروری ہے۔ملک میں ایک متفقہ اور منصفانہ ٹیکس نظام کی ضرورت ہے جس سے کاروبارمیں مسابقت اور فروغ کا ماحول پیدا ہو نہ کہ ٹیکس نیٹ میں موجود لوگ اس سے نکلنے کے متمنی نظر آئیں۔

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: ٹیکس نیٹ میں ٹیکس دینے سیلز ٹیکس ایف بی ا ر ارب روپے ٹیکس ہدف مالی سال کیا گیا کا ٹیکس کے ساتھ روپے کی رہا ہے کے لئے

پڑھیں:

گراں قدر ترقی؛ اکنامک سروے نے بہت سے شعبوں میں بہتری کی نشاندہی کر دی

سٹی42: اقتصادی سروے میں تصدیق ہوئی ہے کہ صحت کے لئے بجٹ کی رقم ہمیشہ تھوڑی رہنے کے باوجود پاکستان میں اوسط عمر بڑھ رہی ہے۔ اب  ملک میں اوسط عمر 67 سال 6 ماہ تک پہنچ گئی ہے۔ پاکستانیوں کی اوسط آمدن بھی بڑھ گئی ہے اور خواندگی کی شرح بھی بڑھ گئی ہے۔

اس مالی سال کے اقتصادی سروے کی تفصیلات آج پیش کی گئیں۔ سروے سے سامنے آیا کہ  پاکستان میں صحت کے اخراجات جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بھی کم ہو نے کے باوجود شہریوں کی اوسط عمر بتدریج بڑھ رہی ہے۔

نیشنل اکیڈمی کو جدید بنانا میرا سب سے بڑا مقصد ہے: عاقب جاوید

رواں مالی سال کے دوران صحت کا مجموعی بجٹ 925 ارب روپے رہا۔

ملک میں 7 لاکھ 50 ہزارافراد کے لیے صرف ایک ڈاکٹر میسر ہے۔  ایک سال میں ڈاکٹرز کی تعداد میں 20 ہزار سے زائد اضافہ ہوگیا، ملک رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد 3 لاکھ 19 ہزار ہو گئی،

 ملک میں ڈینٹسٹ ڈاکٹرز کی کی تعداد39 ہزار 88 تک پہنچ گئی، ملک میں مجموعی طور پر نرسز ایک لاکھ 38 ہزار ہو گئیں،

ملک میں دائیوں کی تعداد 46 ہزار 801، لیڈی ہیلتھ ورکز کی تعداد 29 ہزارہے،ملک میں اسپتالوں کی تعداد 1696 اور بنیادی ہیلتھ یونٹس 5434 ہیں،

نان رجسٹرڈ ریسٹورنٹس اور شادی ہالز سے متعلق حکومتِ پنجاب کا بڑا فیصلہ

ایک ہزار شیر خوار بچوں میں سالانہ 50 فوت ہو جاتے ہیں،ملک میں اوسطاً عمر کا اندازہ 65 سال سے بڑھ گیا،  
 

 ٹیکس چھوٹ 
2024-25 میں ٹیکس چھوٹ 5 ہزار 840 ارب روپے پر پہنچ گئی۔
رواں سال حکومت نے 4253 ارب روپے کی سیلز ٹیکس چھوٹ دی گئی  ۔
انکم ٹیکس کی مد میں 800 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی۔
کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں 785 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی۔
پانچویں شیڈول کے تحت 683 ارب 42 کروڑ روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی۔
چھٹے شیڈول میں 613 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی۔
پیٹرولیم مصنوعات کی مقامی سپلائی پر 1496 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی۔
آٹھویں شیڈول میں 372 ارب 52 کروڑ روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی۔
نویں شیڈول میں موبائل فونز پر 87 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی۔
پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر 299 ارب 64 کروڑ روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی۔
رواں سال آمدن پر 443 ارب 44 کروڑ روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی۔
ٹیکس کریڈٹ کی مد میں 101 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی۔
122 ارب 59 کروڑ روپے کا ٹیکس استثنیٰ جاری کیا گیا۔
ففتھ شیڈول کے تحت 379 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی۔
آٹو موبائلز ، سی پیک اور عام رعایتوں کی مد میں 133 ارب 23 کروڑ روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی۔
ایکسپورٹس پر 178 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی۔
ایف ٹی اے اور پی ٹی اے کی مد میں 60 ارب 79 کروڑ روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی۔

ماورا حسین اور امیر گیلانی کی عید کی خوشیاں، غم میں بدل گئیں

 آئی ٹی تیزی سے ترقی کرنے والا سیکٹر

آئی ٹی برآمدات میں 23.7 فیصد اضافہ، 2.825 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، مارچ 2025 میں آئی ٹی ایکسپورٹ 342 ملین ڈالر، ماہانہ 12.1 فیصد اضافہ ہوا۔ 

آئی ٹی خدمات میں سب سے زیادہ تجارتی سرپلس 2.4 ارب ڈالر رہے،  فری لانسرز نے 400 ملین ڈالر کا زرمبادلہ ملک میں لایا۔

 1900 سے زائد اسٹارٹ اپس نے نیشنل انکیوبیشن سینٹرز سے تربیت حاصل کی۔

کولمبیا میں 6.3 شدت کا زلزلہ سے سڑکوں پر دراڑیں، عمارتیں زمین بوس

 12,000 سے زائد خواتین کو کاروباری طور پر بااختیار بنایا گیا ۔

ٹیلی کام سیکٹر کی آمدن 803 ارب روپے تک پہنچ گئی۔

ملک بھر میں 199.9 ملین ٹیلی کام صارفین جبکہ ٹیلے ڈینسٹی 81.3 فیصد رہی۔

 ٹیلی کام شعبے کی قومی خزانے میں شراکت 271 ارب روپے رہی ۔

 پاک چین آئی ٹی ورکنگ گروپ قائم، سائبر سیکیورٹی اور ڈیجیٹل ترقی پر اشتراک جاری ہے۔

برآمدات میں آئی ٹی کا نمایاں حصہ ہے۔  عالمی مارکیٹ میں پاکستانی سافٹ ویئر کی مانگ میں اضافہ ہوا،

ہم وفاق کو بھی قرضہ دے سکتے ہیں: وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا

بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ

اس ایک مالی سال کے دوران ملک میں بجلی کی پیداواری صلاحیت 46 ہزار 605 میگاواٹ تک پہنچ گئی۔

نیٹ میٹرنگ سے بجلی کی پیداواری صلاحیت 2813 میگاواٹ ہو گئی۔

ایک سال کے دوران بجلی کی پیداوار میں 717 میگاواٹ بجلی کا اضافہ ہوا۔

پانی سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 10635 سے بڑھ کر 11368 میگاواٹ ہو گئی۔

آئی پی پیز سے معاہدے ختم کر نے کی وجہ تھرمل بجلی کی پیداوار میں کمی ہوئی۔

تھرمل سے بجلی کی پیداواری صلاحیت 28766 سے کم ہو کر 25937 میگاواٹ ہو گئی۔

نیوکلیئر  انرجی سے 3620 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاتی ہے۔

متبادل ذرائع سے بجلی کی پیداواری صلاحیت 2867 سے بڑھ کر 5680 میگاواٹ ہو گئی ہے،

رواں مالی سال صنعتوں کی پیداوار میں 1.5 فیصد کمی  ہوئی

رواں مالی سال کیمیکل کے شعبے میں 5.5 فیصد کمی  ہوئی،  کان کنی کے شعبے میں بھی 3.4 فیصد کی کمی  ہوئی، رواں مالی سال خوراک کے شعبے میں 0.5 فیصد  کمی ہوئی۔ رواں مالی سال سروسز کے شعبہ میں 2.91 فیصد ترقی ہوئی۔

سروسز کا شعبہ 58.40 فیصد کے ساتھ جی ڈی پی  کا سب سے بڑا شعبہ ہے۔

رواں مالی سال صنعتی شعبے نے 4.77 فیصد ترقی کی۔ 
صنعتی شعبے میں ترقی مینوفیکچرنگ کی بحالی کے باعث ہوئی۔

رواں مالی سال سرمایہ کاری  میں 13.8 فیصد  اضافہ ریکارڈ ہوا۔

رواں مالی سال ٹیکسٹائل سیکٹر میں 2.2فیصد ترقی ہوئی ۔

رواں مالی سال ہوزری کے شعبے میں 7.6فیصد اضافہ ہوا۔

کوئلہ اور پیٹرولیم کے شعبے میں 4.5فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

فارما سوٹیکل کے شعبے میں 2.3فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

ملک میں شرح خواندگی 61 فیصد تک پہنچ گئی

اکنامک سروے سے پتہ چلا کہ ملک میں شرح خواندگی 61 فیصد تک پہنچ گئی۔  مرد 68 فیصد جبکہ خواتین  52.8 فیصد ہ پڑھی لکھی ہیں۔ اقتصادی سروے سے پتہ چلا کہ اب پاکستان میں 269 یونیورسٹیاں موجود ہیں۔

پبلک سیکٹر کی 160 جبکہ پرائیوٹ سیکٹر کی 109 جامعات موجود ہیں۔ 
ہائیر ایجوکیشن کیلئے 61.1 ارب مختص کیے گئے۔
پی ایچ ڈی فیکلٹی ممبران 38 فیصد ہیں۔

 اقتصادی سروے سے یہ بھی تصدیق ہوئی کہ  پاکستان میں ٹرانس جینڈر شہریوں میں شرح خواندگی 40 اعشاریہ 15 فیصد ہے۔

گدھے پکا کر کھانے کا جھوٹ

بعض حلقوں کی طرف سے پاکستان مین گدھے کا گوشت پکا کر فروخت کئے جانے کی کسلسل افواہوں کو اقتصادی سروے نے جھوت ثابت کر دیاْ  ایک سال کے دوران ملک میں گدھوں کی تعدادمزیدایک لاکھ بڑھ گئی۔

گدھوں کی تعداد میں 2 سال کے دوران 2 لاکھ کا اضافہ ہوا۔ 

گدھوں کی تعداد 59لاکھ سے بڑھ کر60لاکھ ہوگئی۔

مویشیوں کی تعداد بڑھ گئی

 ایک سال میں مویشیوں کی تعداد میں22لاکھ کا اضافہ ہوا ۔

مویشیوں کی تعداد بڑھ کر5کروڑ 97لاکھ ہو گئی ۔

ایک سال میں بھینسوں کی تعداد میں14لاکھ کا اضافہ ہوا ۔

رواں مالی سال بھینسوں کی تعداد بڑھ کر4 کروڑ77لاکھ ہو گئی۔

ایک سال میں بھیڑوں کی تعداد میں 4لاکھ کااضافہ ہوا۔ 
 
رواں مالی سال بھیڑوں کی تعداد بڑھ کر3 کروڑ 31لاکھ ہو گئی۔

بکریوں کی تعداد میں 24لاکھ کا اضافہ ہوا ۔ 
 
بکریوں کی تعداد 8 کروڑ94لاکھ ہو گئی۔

رواں مالی سال اونٹوں کی تعداد 12 لاکھ رہی۔

گھوڑوں4 لاکھ اور خچروں کی تعداد2 لاکھ رہی۔

Waseem Azmet

متعلقہ مضامین

  • نان فائلرز کو بینک سے 50 ہزار سے زائد کیش نکلوانے پر کتنا ٹیکس  دینا ہوگا؟ بڑا  فیصلہ 
  • بجٹ میں کن چیزوں پر چھوٹ اور کن پر ٹیکس عائد؟ تفصیلات سامنے آگئیں
  • ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کے بعد نیا بجٹ اب ٹیکس شرحوں میں اضافے پر مرکوز ہوگا
  • مالی سال 25-2024 میں ٹیکس چھوٹ 5 ہزار 840 ارب روپے کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی
  • نیا بجٹ آج پیش کیا جائیگا، تقریباً ۱۸ ہزار ارب روپے، دو ہزار ارب نئے ٹیکسز کی تجویز
  • گراں قدر ترقی؛ اکنامک سروے نے بہت سے شعبوں میں بہتری کی نشاندہی کر دی
  • رواں مالی سال ٹیکس چھوٹ کی مالیت 5 ہزار 840 ارب سے تجاوز کرگئی
  • راولپنڈی: گوشت دینے کے بہانے گھر داخل ہو کر خاتون سے مبینہ زیادتی
  • بجٹ میں بڑی کمپنیوں کیلئے سپرٹیکس میں کمی کی تیاریاں
  • آئندہ بجٹ میں بڑی کمپنیوں کیلئے سپرٹیکس میں کمی کی تیاریاں