’شاہ رُخ میرے گھر آتے تو تھپڑ مار دیتی‘، جیا بچن کیوں بھڑک اُٹھیں؟
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
بالی ووڈ کے دو بڑے سپر اسٹارز شاہ رخ خان اور ایشوریا رائے ایک ساتھ کئی فلموں میں یادگار پرفارمنس دی جن میں ’جوش‘، ’محبتیں‘، ’دیوداس‘اور ’شکتی: دی پاور‘ میں دونوں کی شاندار کیمسٹری دکھائی گئی۔
تاہم 2000کی دہائی کے اوائل میں ایشوریا اور شاہ رُخ کے پیشہ ورانہ اور ذاتی تعلقات خراب ہو گئے تھے، جس کے بعد دونوں نے ایک ساتھ کام کرنا چھوڑ دیا۔
ایک موقع پر ایشوریا نے انکشاف کیا کہ انہیں شاہ رخ کی وجہ سے پانچ فلموں سے نکالا گیا جن میں ’چلتے چلتے‘ اور ’ویر زارا‘ شامل تھیں تاہم بعد میں شاہ رخ نے ایشوریا سے معافی مانگ کر معاملات سلجھا لیے۔
شاہ رخ کے ساتھ قریبی تعلق رکھنے والی سینئر اداکارہ اور ایشوریا کی ساس جیا بچن نے شاہ رُخ خان کے ایشوریا کے بارے میں دیے گئے بیانات پر اپنی مایوسی ظاہر کی۔ 2008 میں ایک انٹرویو میں جیا بچن نے کہا، ’اگر وہ میرے گھر آتے تو میں انہیں تھپڑ مار دیتی، جیسے اپنے بیٹے کو مار سکتی ہوں‘۔
یاد رہے کہ شاہ رخ کی بچن خاندان کے ساتھ قریبی دوستی کے باوجود، وہ 2007 میں ایشوریا اور ابھیشیک بچن کی شادی میں شامل نہیں ہوئے، کیونکہ مبینہ طور پر دونوں کے تعلقات خراب تھے۔
جس پر جیا بچن نے کہا کہ اگر ممکن ہوتا تو وہ شادی کی تاریخ تبدیل کر کے شاہ رخ کو مدعو کرتیں۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل جیا بچن شاہ رخ
پڑھیں:
میں آئین کی بالادستی اور قوم کی خدمت کیلئے سخت اور طویل سزا کاٹ رہا ہوں، عمران خان
اپنے ایکس اکاونٹ میں سابق وزیراعظم نے لکھا ہے کہ میرے اہلِخانہ کی جانب سے بھیجی گئی کتابیں کئی ماہ سے روک لی گئی ہیں۔ ٹی وی اور اخبارات تک رسائی بھی بند کر دی گئی ہے۔ میں نے پرانی کتابوں کو بارہا پڑھا، لیکن اب وہ بھی میسر نہیں۔ میرے تمام بنیادی انسانی حقوق پامال کیے جا چکے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ سہولیات جو عام قیدیوں کو بھی جیل کے قانون کے تحت ملتی ہیں، وہ بھی مجھ سے چھین لی گئی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے ٹویٹر اکاونٹ سے پیغام جاری کیا گیا ہے، جس میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی سیاسی رہنما کیساتھ ایسا سلوک روا نہیں رکھا گیا جیسا کہ آج میرے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ نواز شریف نے اربوں کی کرپشن کی، اس کے باوجود اسے جیل میں ہر ممکن سہولت فراہم کی گئی۔ اس کے برعکس، کبھی کسی بے قصور اور غیر سیاسی خاتونِ خانہ کو ایسے غیر انسانی حالات میں قید نہیں کیا گیا جیسے آج بشریٰ بی بی کو کیا گیا ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ’’میں ملک میں آئین کی بالادستی اور قوم کی خدمت کیلئے اس وقت سب سے سخت اور طویل سزا کاٹ رہا ہوں، ظلم اور آمریت کی انتہا یہ ہے کہ وضو کیلئے دیا گیا پانی بھی گندا اور مٹی آلود ہوتا ہے، جو کسی انسان کیلئے قابلِ استعمال نہیں۔
عمران خان کے اکاونٹ میں مزید لکھا گیا ہے کہ میرے اہلِخانہ کی جانب سے بھیجی گئی کتابیں کئی ماہ سے روک لی گئی ہیں۔ ٹی وی اور اخبارات تک رسائی بھی بند کر دی گئی ہے۔ میں نے پرانی کتابوں کو بارہا پڑھا، لیکن اب وہ بھی میسر نہیں۔ میرے تمام بنیادی انسانی حقوق پامال کیے جا چکے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ سہولیات جو عام قیدیوں کو بھی جیل کے قانون کے تحت ملتی ہیں، وہ بھی مجھ سے چھین لی گئی ہیں۔ کئی بار درخواست دینے کے باوجود مجھے اپنے بچوں سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ سیاسی ملاقاتیں بھی محدود کر دی گئی ہیں، صرف مخصوص ’’چنے ہوئے افراد‘‘ سے ملاقات کی اجازت ہے، باقی سب پر پابندی ہے۔ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں پارٹی کا ہر فرد فوری طور پر آپس کے تمام اختلافات بھلا دے اور مکمل طور پر 5 اگست کی تحریک پر توجہ دے۔ اس وقت مجھے تحریک میں کوئی خاص جوش یا حرکت نظر نہیں آ رہی۔ میں ایک 78 سال پرانے نظام سے لڑ رہا ہوں، اور میری سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس بے مثال جبر کے باوجود عوام میرے ساتھ کھڑے ہیں۔
عمران خان کے ایکس اکاونٹ میں مزید لکھا گیا کہ 8 فروری (2024) کو عوام نے تحریکِ انصاف پر ایسا اعتماد کیا کہ انتخابی نشان کے بغیر بھی آپ کو ووٹ دیا۔ اس واضح مینڈیٹ کے بعد پارٹی کے ہر فرد پر اخلاقی اور سیاسی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کی آواز بنے۔ اس نازک وقت میں پارٹی کے اندر اختلافات اور گروہ بندی کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔ جو کوئی بھی پارٹی میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرے گا، اسے باہر نکال دیا جائے گا۔ میں اپنی نسلوں کے مستقبل کیلئے یہ جنگ لڑ رہا ہوں، اور میری ہر قربانی اسی مقصد کے لیے ہے۔ اس وقت پارٹی میں دراڑ ڈالنا میرے مشن اور نظریے سے کھلی غداری ہو گی۔ فارم 47 کے ذریعے بنائی گئی اس جعلی حکومت نے 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ کو مفلوج کر دیا ہے۔ جانبدار ججز جس طرح انصاف کا خون کر رہے ہیں، وہ پوری قوم کے سامنے عیاں ہے۔ ہمیں عدلیہ کی آزادی کیلئے بھرپور مہم کا آغاز کرنا ہو گا، کیونکہ کوئی بھی قوم عدالتی آزادی کے بغیر نہ زندہ رہ سکتی ہے، نہ ترقی کر سکتی ہے۔