چند اہم انٹرنیشنل ڈویلپمنٹس
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
امریکی ریاست کیلی فورنیا کے مشہور فیشن ایبل علاقے لاس اینجلز میں لگی آگ پر ابھی تک قابو نہیں پایا جا سکا۔ یہ پھیلتی آگ مشہور Getty Museum کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اس آگ نے اب تک 24 جانیں لے لی ہیں۔13افراد مسنگ ہیں،12ہزار عمارتیں جل کر خاکستر ہو گئی ہیں۔لاس اینجلز آگ سے کئی بلین ڈالرز کا نقصان، دو لاکھ لوگوں کی نقل مکانی اور چالیس ہزار ایکڑ زمین برباد ہوجانے کا اندازہ ہے۔
اس آگ سے ایک بات کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ قدرت کے آگے انسان بہت بے بس ہے چاہے وہ امریکا جیسے بہت ترقی یافتہ معاشرے کا ہی فرد کیوں نہ ہو۔گزشتہ دنوں سابق امریکی صدر جناب جمی کارٹر کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔ان رسومات میں امریکی صدر جو بائیڈن کے علاوہ چار سابق امریکی صدور کلنٹن،جارج بش جونیئر، باراک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ بھی شریک ہوئے۔اس پس منظر میں نئے منتخب صدر جناب ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری 2025 کو اپنی دوسری مدتِ صدارت کا حلف اُٹھائیں گے۔
حلف برداری کی اس تقریب میں 8ممالک کے سربراہوں کے علاوہ ایک بڑی تعداد میں مہمانوں کو مدعو کیا گیا ہے۔2016میں جب ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلی بار صدارت کا حلف اُٹھایا تھا تو پنڈال میں بہت سی کرسیاں خالی پڑی تھیں لیکن اس بار تو جناب ٹرمپ کی الیکشن کمپیئن میں بہت بڑی رقم خرچ کرنے والوں کو بھی سیٹ نہیں مل پا رہی اور شرکت کی خواہش رکھنے والے بہت سے افراد سے معذرت کر لی گئی ہے۔ایک امریکی عدالت نے ہش منی کیس میں نو منتخب صدر کو سزا سنا دی ہے لیکن اس سزا پر عمل درآمد نہیں ہوگا،ٹرمپ نہ تو جیل جائیں گے اور نہ ہی پروبیشن پر ہوں گے۔اس طرح ان کے لیے صدارت کا حلف اُٹھانے اور وائٹ ہاؤس میں واپس پہنچنے کا راستہ صاف ہو گیا ہے۔
جناب ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کا دعوت نامہ سب سے پہلے چین کے صدر جناب شی کو دیا گیا ہے۔لگتا ہے کہ جناب شی اس میں شرکت کا ارادہ نہیں رکھتے۔شاید امریکیوں کو اس کی بھنک بھی پڑ گئی ہے۔بیجنگ نے ابھی تک اس کا اعلان نہیں کیا کہ کون جناب شی کی جگہ شرکت کرے گا لیکن خیال کیا جا رہا ہے کہ صدر کی جگہ تین افراد میں سے کسی ایک کو یہ ذمے داری دی جائے گی۔جو نام گردش کر رہے ہیں۔
ان میں سے سب سے پہلا نام نائب صدر Han Zengکا ہے۔دوسرا نام وزیرِ خارجہ کا لیا جا رہا ہے البتہ امریکیوں کو چونکہ اس کا اندازہ ہے کہ صدر شی نہیں آ رہے اس لیے ان کی ترجیح ہے کہ جناب کائی چی تقریب میں شریک ہوں۔جناب کائی چی چین کی کمیونسٹ پارٹی کے بہت اہم عہدیدار ہیں۔وہ صدر شی کے چیف آف اسٹاف رہ چکے ہیں اور صدر کے اکثر بیرونی دوروں میں ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ان کے اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے صدر ٹرمپ کی ٹیم کی خواہش ہے کہ کائی چی تقریب میں شریک ہوں۔پبلک کے سامنے تو نو منتخب صدر ٹرمپ چین کے خلاف زور شور سے بولتے ہیں لیکن در پردہ وہ اس کوشش میں ہیں کہ چین کو Engage کریں۔
پچھلے ہفتے ٹرمپ نے کہا کہ چین اور امریکا مل کر دنیا کے تمام مسائل حل کر سکتے ہیں۔ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اور صدر شی کا اچھا ساتھ رہے گا۔یہ بھی کہا کہ وہ چینی انتظامیہ کے ساتھ مسلسل رابطے میںہیں۔چین کی وزارتِ خارجہ نے بھی اس رابطے کی تصدیق کی ہے۔صدر شی کے علاوہ ارجنٹائن کے صدر،اٹلی کی وزیرِ اعظم،ہنگری کے سربراہ،یوکرین کے صدر، اور ایل سلواڈور کے سربراہ کو بھی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ روس کے صدر جناب پیوتن ان سے ملنے کے مشتاق ہیں۔نومبر میں جناب ٹرمپ کے دوبارہ انتخاب کے بعد دونوں صدور کی ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی ۔جناب ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ ان کی حلف برداری کے بعد ملاقات کے انعقاد کے لیے دونوں صدور کی ٹیمیں کام کر رہی ہیں۔جناب ٹرمپ نے مزید کہا کہ وہ روس کی پوزیشن اور مجبوری کو سمجھتے ہیں کہ روس اپنی سرحدوں پر نیٹو افواج کی موجودگی نہیں دیکھنا چاہتا لیکن بائیڈن نے روس کی اس پوزیشن کو نہیں سمجھا اور جنگ کا بازار گرم کر دیا۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس جنگ میں لاکھوں لوگ مر رہے ہیں جو کہ قابلَ افسوس ہے۔
جناب ٹرمپ نے الیکشن کمپین میں کہا تھا کہ وہ ایک دن میں اس جنگ کو روک دیںگے۔جنگ کو روکنے کے لیے اُن کو جناب پیوتن کا تعاون درکار ہو گا۔امید ہے دونوں کے درمیان کسی نیوٹرل مقام پر ملاقات ہوگی جیسا کہ ماضی میں دونوں فن لینڈ میں مل چکے ہیں۔ دونوں کے درمیان اچھے تعلقات ہیں اور دونوں کی کیمسٹری ملتی ہے۔صدر ٹرمپ نے اس جنگ کے خاتمے کے لیے مسٹر Keithکو خصوصی انوائے مقرر کیا ہے۔کیتھ نے ایک بیان میں کہا کہ یوکرین کے صدر کو صرف اس صورت میں امریکی امداد ملنی چاہیے اگر وہ مذاکرات میں بامعنی شریک ہوں۔باب وڈورڈ نے اپنی حالیہ کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد سے اب تک ٹرمپ اور پیوتن کم از کم سات مرتبہ پرائیویٹ کال پر بات چیت کر چکے ہیں۔
ان حالات کو دیکھتے ہوئے یورپی رہنماؤں نے بھی روس کے بارے میں اپنی اپنی پوزیشن میں نرمی پیدا کر لی ہے۔جرمن چانسلر نے پیوتن سے ٹیلیفون پر بات کی ہے اور فرانس کے صدر نے کہا کہ ذیلنسکی کو Realistبننا ہو گا۔صدر ٹرمپ کی طرف سے یہ تجویز دی گئی ہے کہ یوکرین کی نیٹو ممبرشپ کو اگلے 20سال کے لیے موخر کر دیا جائے اور یورپی افواج یوکرین میں مجوزہ جنگ بندی کی نگرانی کریں۔صدر پیوتن چاہتے ہیں کہ یوکرین نیٹو ممبرشپ کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دے اور یوکرین کے جن علاقوں پر روس نے جنگ میں قبضہ کیا ہے وہ روس کے پاس ہی رہیں۔صدر زیلنسکی چاہتے ہیں کہ نیٹو کی ممبر شپ ملے،علاقے واپس ہوں اور یورپی ممالک و امریکا یوکرین کے دفاع کے ضامن بنیں۔یوکرین اور روس دونوں ان دنوں زیادہ سے زیادہ علاقے ہتھیانے کے چکر میں ہیں تاکہ مذاکرات میں پلہ بھاری ہو۔
اطلاعات ہیں کہ پاکستانی افواج بنگلہ دیشی افواج کی ٹریننگ کریں گی۔ بھارت میں اس خبر سے شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ایک پاکستانی تجارتی وفد بنگلہ دیش روانہ ہو گیا ہے۔
ایک اور خبر کے مطابق بنگلہ دیشی چیف آف آرمی اسٹاف نے اپنی حکومت پر واضح کیا ہے کہ بنگلہ دیش اپنی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے بھارت کے مفادات کو نظر انداز نہیںکر سکتا۔انڈیا نے بنگلہ دیش کے ساتھ اپنے بہت لمبے بارڈر پر باڑ لگانی شروع کر دی ہے۔تین چوتھائی باڑ مکمل ہو گئی ہے لیکن اب بنگلہ دیشیوں نے انڈین بارڈر سیکیورٹی فورس کے ساتھ جھگڑا شروع کر دیا ہے۔اس سلسلے میں انڈین ہائی کمشنر کو وزارتِ خارجہ طلب کیا گیا جس پر انڈیا نے بھی بنگلہ دیشی ہائی کمشنر کوطلب کر کے احتجاج کیا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حلف برداری ڈونلڈ ٹرمپ یوکرین کے ٹرمپ کی کے ساتھ کیا ہے گیا ہے ہیں کہ کے صدر کے لیے گئی ہے
پڑھیں:
کییف پر حملوں کے بعد ٹرمپ کی پوٹن پر تنقید
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 اپریل 2025ء) امریکی صدر ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن پر تنقید کرتے ہوئے ٹروتھ سوشل پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا، "یہ ضروری نہیں تھا، اور بہت برے وقت ہوا۔ ولادیمیر، رک جاؤ۔" انہوں نے مزید کہا، "کییف پر ہونے والے روسی حملوں سے میں خوش نہیں ہوں۔"
انہوں نے روسی صدر پر جنگ بند کرنے اور معاہدہ کرنے کے لیے زور دیتے ہوئے کہا، "ایک ہفتے میں 5000 فوجی مر رہے ہیں۔
چلو امن کے لیے معاہدہ کرتے ہیں۔"ٹرمپ کا یہ بیان یوکرین کے خلاف ماسکو کی جارحیت کی مسلسل کارروائیوں کے درمیان امریکی صدر پوٹن کے لیے ایک نادر سرزنش کی نمائندگی کرتا ہے۔
ان کا یہ بیان کییف پر روسی میزائلوں کے حملے کے بعد آیا ہے، جس میں کم از کم 12 افراد ہلاک اور 70 سے زائد زخمی ہوئے۔
(جاری ہے)
گزشتہ برس جولائی کے بعد سے یہ دارالحکومت کییف پر سب سے مہلک حملہ تھا۔
یوکرین جنگ: زیلنسکی امن معاہدے میں رخنہ ڈال رہے ہیں، ٹرمپ
ٹرمپ نے ماسکو کی 'بڑی رعایت' پر روس کی تعریف کیامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یوکرین پر مکمل طور پر قبضہ نہ کرنے کے لیے روس کی رضامندی ماسکو کی طرف سے "بہت بڑی رعایت" کی نمائندگی کرتی ہے۔
ٹرمپ نے یہ تبصرہ ناروے کے وزیر اعظم جوناس گہر سٹور سے ملاقات کے دوران اس وقت کیا جب ان سے ایک رپورٹرنے سوال کیا کہ روس نے امن معاہدے تک پہنچنے کی پیشکش کے لیے کیا مراعات پیش کی ہیں۔
'ایسٹر جنگ بندی' ختم، یوکرین امن کوششوں کا اب کیا ہو گا؟
امریکی صدر نے کہا، "پورے ملک کو لینے سے رک جانا ہی بہت بڑی رعایت ہے۔" ٹرمپ نے مزید کہا کہ وہ امن معاہدے کے امکان کے بارے میں پراعتماد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "ہم روس پر بہت زیادہ دباؤ ڈال رہے ہیں اور روس یہ جانتا ہے۔"
روس امن معاہدہ چاہتا ہے یہ جنگ کو جاری رکھنا؟یوکرین کے وزیر خارجہ اندری سیبیہا کا کہنا ہے کہ روس کے مسلسل حملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کریملن امریکی قیادت میں امن کی کوششوں کے باوجود اپنے حملے کو جاری رکھنا چاہتا ہے۔
تاہم روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے امریکہ اور روس کے درمیان بات چیت "صحیح سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔"
یوکرین اور روس میں رواں ہفتے ہی معاہدے کی امید، ٹرمپ
جمعرات کے روز امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران بات کرتے ہوئے لاوروف نے کہا کہ ماسکو معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
روس کے اعلیٰ سفارت کار نے انٹرویو کے دوران کہا، "لیکن ابھی بھی کچھ مخصوص نکات ہیں، اس معاہدے کے عناصر جن کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔" اسے اتوار کو مکمل طور پر نشر کیے جانے کی توقع ہے۔
لاوروف نے کہا کہ ماسکو اس بات سے مطمئن ہے کہ بات چیت کس طرح آگے بڑھ رہی ہے کیونکہ "صدر ٹرمپ شاید زمین پر واحد رہنما ہیں، جنہوں نے اس صورتحال کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے۔
"روس عارضی جنگ بندی کا جھوٹا تاثر پیش کر رہا ہے، زیلنسکی
کییف پر روسی حملہ زمینی کارروائی کے لیےیوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ روس نے زمینی دراندازی میں اضافے کے لیے راتوں رات بڑے پیمانے پر فضائی حملے کرنے کی کوشش کی ہے۔
یوکرین کے اعلیٰ فوجی کمانڈر اولیکسینڈر سیرسکی کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے زیلنسکی نے کہا کہ البتہ زمینی حملوں کو کامیابی سے پسپا کر دیا گیا ہے۔
زیلنسکی نے ٹیلی گرام پر کہا، "روسیوں نے اپنے زبردست فضائی حملے کی آڑ میں زمینی حملے کی کارروائیوں کو تیار کرنے کی کوشش کی۔"
ان کا مزید کہنا تھا، "جب ہماری افواج کی زیادہ سے زیادہ توجہ میزائلوں اور ڈرونز کے خلاف دفاع پر مرکوز تھی، تو روسیوں نے اپنے زمینی حملوں کو نمایاں طور پر تیز کر دیا۔ تاہم روسیوں کو اس کا مناسب جواب ملا۔"
اس دوران ملک کے دوسرے بڑے شہر خارکیف سمیت پورے یوکرین میں میزائل اور ڈرون حملوں کی بھی اطلاعات ہیں۔
ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)