عصر حاضر علم و آگہی اور شعور کا دور ہے ، تعلیم کے بغیر ترقی ہوہی نہیں سکتی ،نصیراحمد بلوچ
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
گوادر (نمائندہ جسارت) گورنمنٹ ڈگری کالج کے پرنسپل نصیر احمد بلوچ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عصر حاضر علم و آگہی اور شعور کا دور ہے ، تعلیم کے بغیر ترقی ہوہی نہیں سکتی۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے طلباکو علم کی ہتھیار سے لیس ہونا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ڈگری کالج کے طلبا کالج میں اپنی حاضریاں یقینی بنائیں سرد علاقوں میں دس دن کی چٹھیاں ختم ہوچکی ہیں کالج درس وتدریس کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے لیکِن چھٹیوں کے بعد اکثر طلباغیر حاضر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غیر حاضر طلبا کو امتحانات میں بھیٹنے اجازت نہیں دی جائے گی انہوں نے طلبا کے والدین سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے بچوں کا سال ضائع ہونے سے بچانے کے لیے انہیں روزانہ کی بنیاد پر کالج بھیجیں تاکہ وہ کلاسسز اٹینڈ کرسکیں اور ان کا قیمتی سال ضائع ہونے سے بچ جائے۔
.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل انہوں نے کہا کہ
پڑھیں:
پاکستانی ماہرین نے سالانہ 200 انڈے دینے والی مرغی تیار کرلی
فیصل آباد:پاکستانی ماہرین نے پولٹری فارمنگ کے شعبے میں بڑی کامیابی حاصل کرتے ہوئے دیہی علاقوں کے لیے موزوں نئی مرغی کی نسل متعارف کروا دی ہے، جو سال بھر میں 200 سے زائد انڈے دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے ماہرین نے اس منفرد بریڈ کو ’’یونی گولڈ‘‘ کا نام دیا ہے، جو کم فیڈ پر پلتی ہے اور شدید موسم، خاص طور پر گرمی کو بخوبی برداشت کر سکتی ہے۔
نئی نسل کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ عام دیسی مرغی کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ انڈے دیتی ہے، جبکہ خوراک کی طلب نسبتاً کم ہے، جو اسے چھوٹے فارمرز کے لیے ایک بہترین انتخاب بناتی ہے۔
ماہرین کے مطابق یونی گولڈ بریڈ دیہی علاقوں میں پولٹری انڈسٹری کے فروغ کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے، کیونکہ اس سے انڈوں کی پیداوار کے ساتھ ساتھ گوشت کی ضروریات بھی پوری کی جا سکتی ہیں۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ کامیابی پاکستان میں گزشتہ 6 دہائیوں کے بعد حاصل ہوئی ہے، جو ملکی تحقیق میں ایک اہم سنگِ میل ہے۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے اس نسل کو ملک بھر کے فارمنگ کرنے والوں تک پہنچانے کا منصوبہ بھی ترتیب دیا ہے، تاکہ مقامی سطح پر دیسی پولٹری کی پیداوار میں اضافہ ہو اور دیہی معیشت کو فروغ ملے۔
یہ مرغی نہ صرف ماحول کے لحاظ سے ہم آہنگ ہے بلکہ دیہی خواتین کے لیے روزگار کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے، کیونکہ اس کی دیکھ بھال آسان اور کم لاگت ہے۔