ایچ ای سی کا بیوروکریٹس کی وائس چانسلر تعیناتی پر وزیراعلی سندھ کو خط
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
کراچی:
ایچ ای سی نے وزیر اعلی سندھ کو خط لکھ دیا جس میں کہا ہے کہ بیورو کریٹس غیر تعلیمی منتظمین ہیں ان کی بحیثیت وائس چانسلر تعیناتی سے جامعات کو نقصان پہنچے گا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اعلیٰ تعلیمی کمیشن آف پاکستان نے بیورو کریٹس کو غیر تعلیمی منتظمین قرار دیتے ہوئے انہیں وائس چانسلر مقرر کیے جانے کی مخالفت کردی۔
ایچ ای سی نے اس سلسلے میں جامعات کے ایکٹ میں کسی ممکنہ ترمیم کو یونیورسٹیز کے لیے نقصان دہ قرار دے دیا۔
اس سلسلے میں ایچ ای سی اسلام آباد کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد کی جانب سے سندھ کے وزیر اعلی کو باقاعدہ ایک مکتوب لکھا گیا ہے جس میں جامعات میں وائس چانسلر کی آسامی پر اکیڈمیشن کی تقرری پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انتہائی تشویش کے ساتھ یہ بات علم میں آئی ہے کہ صوبہ سندھ ’’سندھ یونیورسٹیز اینڈ انسٹی ٹیوٹ لاز ایکٹ 2018 ‘‘ میں ترمیم کی تجویز پر غور کر رہا ہے اس طرح سندھ بھر میں قائم جامعات میں پبلک سیکٹر کے وائس چانسلرز/ریکٹرز کی تقرری کے معیار یا criteria پر نظرثانی کی جا رہی ہے۔
خط کے مطابق صوبائی اسمبلی کی جانب سے قانون سازی کے ذریعے ممکنہ ترمیم اگر منظور ہو جاتی ہے تو بنیادی اہلیت کے معیار میں اہم تبدیلیاں ہوجائیں گی جس کے بعد غیر پی ایچ ڈی بھی وائس چانسلر/انسٹی ٹیوشن کے سربراہ کے قابل احترام عہدے پر انتخاب کے لیے درخواست دے سکیں اور غیر پی ایچ ڈی کی تقرری کے لیے راہ ہموار ہوگی۔
خط کے مطابق اس عمل سے نہ صرف تعلیمی معیارات پر سنگین نتائج ہوں گے بلکہ تعلیمی یا اکیڈمک آزادی اور تنقیدی فکر بھی متاثر ہوں گے اوردوسرے صوبوں/علاقے سبقت لے جائیں گے۔
پانچ نکات پر مشتمل چیئرمین ایچ ای سی کے اس مکتوب میں کہا گیا ہے کہ اعلیٰ تعلیمی ادارے اپنے ایکٹ کی بنا پر خود مختار ادارے ہیں اور قانونی حکام کے ذریعے ایکٹ/آئین/ریگولیشنز کے تحت چلتے ہیں اور غیر تعلیمی منتظمین کی ایسی کوئی بھی تقرری جامعات کی تعلیمی سالمیت کو مجروح کرتی ہے۔
خط میں 7 اپریل 2021 کے حکومتی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مشترکہ مفادات کی کونسل (سی سی آئی) نے اپنے 44 ویں اجلاس میں طے کیا تھا کہ "ہائر ایجوکیشن کمیشن ملک میں اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے واحد معیاری قومی ادارہ ہوگا۔"
لہذا ایچ ای سی یہ سفارش کرتا ہے کہ ایسی ترامیم نہ تو اعلیٰ تعلیمی اداروں کے مفاد میں ہوں اور نہ ہی تعلیمی برادری کے مفادات کے لیے ہوسکتی ہیں لہذا اسے واپس لیا جائے اور اس معاملے پر جاری یا آنے والی کسی بھی کارروائی کو روک دیا جائے اگر ایسی تجاویز کو کمیشن میں وسیع تر مشاورت کے لیے ایچ ای سی کے ساتھ شیئر کیا جائے اور اعلی تعلیم میدان کے وسیع تر مفادات میں اتفاق رائے پیدا کیا جائے تو یہ سراہا جائے گا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: وائس چانسلر ایچ ای سی گیا ہے کے لیے
پڑھیں:
8ہزار ارب سود ادا کرنیوالا ملک پائوں پر کیسے کھڑا ہو گا؟، خرم نواز گنڈاپور
پی اے ٹی کے سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ ملک میں اقتصادی ایمرجنسی لگا کر ہزار ہا بیوروکریٹس اور اشرافیہ جو 17 ارب ڈالر کی سالانہ مراعات حاصل کرتی ہے ان کی تمام مراعات ختم کر دی جائیں، وزیراعظم ،سپیکر، وزرائے اعلیٰ ،وزراء اور بیوروکریٹس کی تنخواہیں بے شک ڈبل کر دی جائیں مگر ان سے مفت گھر، مفت بجلی، مفت پٹرول، مفت گاڑیوں کی سہولت واپس لے لی جائے۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے کہا ہے کہ 8ہزار ارب روپے سالانہ سود کی مد میں ادا کرنیوالا ملک روایتی بیان بازی سے کبھی پائوں پر کھڑا نہیں ہو سکتا، 500 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگا کر یہ دعویٰ کرنا کہ بجٹ عوام دوست ہے مضحکہ خیز ہے۔ ہزاروں صفحات کی بجٹ دستاویز میں قرضوں اور سود سے نجات کی منصوبہ بندی کا ایک بھی صفحہ شامل نہیں۔ ملک میں اقتصادی ایمرجنسی لگا کر ہزار ہا بیوروکریٹس اور اشرافیہ جو 17 ارب ڈالر کی سالانہ مراعات حاصل کرتی ہے ان کی تمام مراعات ختم کر دی جائیں، وزیراعظم ،سپیکر، وزرائے اعلیٰ ،وزراء اور بیوروکریٹس کی تنخواہیں بے شک ڈبل کر دی جائیں مگر ان سے مفت گھر، مفت بجلی، مفت پٹرول، مفت گاڑیوں کی سہولت واپس لے لی جائے۔ 37ہزار تنخواہ لینے والا درجہ چہارم کا ملازم اسی تنخواہ میں گھر کا کرایہ بھی دیتا ہے، بچے بھی پڑھاتا ہے اور کچن بھی چلاتا ہے جس ملک میں درجہ حرارت 50 ڈگری تک جائے اس ملک میں بجلی مہنگی کرنے کے بارے میں سوچنا بھی ظلم ہے۔
دریں اثناء پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات نوراللہ صدیقی نے کہا کہ وزیراعظم معاشی استحکام کیلئے بھارت کی بجائے ریاست مدینہ کو رول ماڈل بنائیں۔ والی ریاست مدینہ نے 14سو سال قبل فرما دیا تھا کہ سودی نظام معیشت تباہ و بربادی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 100فیصد مہنگائی کرنے کے بعد تنخواہوں میں 10فیصد اضافہ مذاق ہے۔ 5 سو ارب کے مزید نئے ٹیکس دس فیصد اضافہ کے ساتھ ساتھ اصل تنخواہ کو بھی نگل جائیں گے۔ بجلی اور پٹرول مہنگا ہونے سے چولہے ٹھنڈے ہوں گے ۔ استعمال کی ان بنیادی اشیا کے مہنگے ہونے سے عام آدمی کی آمدن پر ایک بڑا کٹ لگا دیا گیا۔ پاکستان عوامی تحریک کے راہ نمائوں راجہ زاہد محمود، میاں ریحان مقبول، قاضی شفیق، قمر عباس دھول ، عارف چودھری، سردار عمر دراز خان نے بجٹ کو مایوس کن اور مستقبل کی روشن امیدوں سے یکسر محروم قرار دیا ہے۔