Nai Baat:
2025-11-03@07:51:46 GMT

مدینہ منورہ ۔۔۔ یادیں اور باتیں۔۔!

اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT

مدینہ منورہ ۔۔۔ یادیں اور باتیں۔۔!

(گزشتہ سے پیوستہ)
مدینہ منورہ میں ہمارا قیام ہوٹل طیبہ الطیبہ میں تھا۔ یہ تین یا چار منزلہ چھوٹا سا ہوٹل ہے جو مسجد نبوی کی جنوبی بلکہ جنوب مشرقی سمت کہنا زیادہ صحیح ہو گامیں مسجد نبوی کے جنوب مشرقی کونے کے بیرونی گیٹ نمبر 365سے زیادہ سے زیادہ دس بارہ منٹ کی پیدل مسافت پر واقع ہے۔ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ بس پر آئے تو ہمیں سب سے آخر میں اس ہوٹل تک یہ کہہ کر پہنچایا گیا کہ آپ لوگوں کو مکہ مطاوی میں اتارنا ہے۔ مکہ مطاوی کا نام کیوں لیا گیا اس کی کوئی واضح وجہ سمجھ نہیں آئی۔ شاید ہوٹل طیبہ الطیبہ سے تیس چالیس گز کے فاصلے پر کونے میں جس عمارت میں اس وقت مطعم لاہور پاکستانی ہوٹل موجود ہے اس عمارت کا پرانا نام مکہ مطاوی تھا یا پھر اس کی کوئی اور وجہ ہو سکتی ہے۔ خیر جیسے بھی ہو ہمارا مکہ مطاوی سے منسوب اس جگہ یا علاقے اور اس میں ہوٹل طیبہ الطیبہ میں قیام جہاں ہمارے لیے مناسب رہا وہاں باوجود دن کے وقت تیز دھوپ اور گرمی کے یہاں سے مسجد نبوی آنے جانے میں بھی کوئی زیادہ مشکل پیش نہیں آتی رہی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ظہر کی نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد نبوی جانے کے لیے ہوٹل سے باہر آتے تو باہر کھلی جگہ کافی تپی ہوتی تھی۔ پھرہر بار مسجد نبوی آتے جاتے کچھ فاصلے پر آگے دو رویہ بڑی شاہراہ (شارع) کے کناروں اور درمیان میں اڑھائی تین فٹ اونچی سیمنٹ کی ڈیوائیڈر کے طور پربنی دیوارو ںکو پھلانگ کر سڑک پار کرنا ہوتی تھی۔ پھر آٹھ دس منٹ آگے پیدل بھی چلنا ہوتا تھا۔ بظاہر ان میں کچھ کچھ مشکل کا سامنا ہوتا لیکن سچی بات ہے کہ شہر مقدس مدینہ منورہ میں قیام کے پورے دنوں میں یہ مشکل ہم پر بھاری نہیں ہوئی بلکہ کسی حد تک طمانیت اور خوش دلی کا پہلوہی نمایاں رہا۔
اوپر مطعم لاہور پاکستانی ہوٹل کا ذکر ہوا ہے۔ اپنے قیام مدینہ کے دوران یہاں سے دو وقت کے کھانوں اور کبھی کبھار چائے (دودھ والی) لے کر پینے کا ہمارا تجربہ بھی مناسب رہا۔ 20 جولائی کو جس دن بعد دوپہر ہم مدینہ پہنچے، اسی دن ہمارا اس ہوٹل کے کاﺅ نٹر پر بیٹھے ایک صاحب سے رابطہ ہوا۔ وہ بڑی خوش اخلاقی سے پیش آئے۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ہم سات لوگ ہیں اور ہمیں دونوں وقت (دوپہر اور رات) کا کھانا چاہیے ہو گا۔ وہ ہمیں ہوٹل کے کچن میں لے گئے اور تیار کھانے وغیرہ دکھائے اور تازہ سالن کی یقین دہانی کراتے ہوئے بتایا کہ سالن کی ایک پلیٹ جو عموماً دو آدمیوں کے لیے کافی ہوتی ہے، اس کے ساتھ دو تین گرما گرم روٹیاں بغیر قیمت کے دی جاتی ہیں۔ اسی طرح سلاد اور رائتے کے لیے بھی الگ کوئی پیسے نہیں لیے جاتے۔ ان کے مختلف کھانوں کے ریٹ دال سبزی وغیرہ چھ سے سات ریال فی پلیٹ اور مٹن، چکن اور بریانی وغیرہ دس گیارہ ریال فی پلیٹ ہمیں مناسب لگے۔ اس کے ساتھ کھانا پیک کر کے دینے کا بھی انتظام تھا۔ واجد اور عمران دونوں وقت تین یا چار لوگوں کا کھانا پیک کرا کے ہوٹل کے کمرے میں لے جاتے تھے جو ہم سات افراد کے لیے کافی ہوتا تھا۔ چائے دودھ والی پتی وغیرہ جس کا کپ دو ریال میں ملتا تھا کبھی پینی ہوتی تھی تو میں ، عمران اور واجد ہوٹل میں چلے جاتے۔ بلاشبہ اس ہوٹل (مطعم لاہور پاکستانی ہوٹل) میں کھانا وغیرہ کھانے والوں کا کافی رَش ہوتا تھا۔ اس کے قریب ہی درمیان میں کھلی جگہ یا پلاٹ جو گاڑیوں کی پارکنگ کے لیے استعمال ہوتا تھا کو چھوڑ کر دوسری عمارت میں جو ہمارے قیام کے ہوٹل طیبہ الطیبہ کے دائیں طرف تھی میں بھی ایک پاکستانی ہوٹل قائم ہے۔اس کے سامنے سے جب بھی ہمارا مسجد نبوی سے واپسی پر دن اور رات کو گزرنے کا اتفاق ہوتا تو وہاں اس کے باہر کھڑا ایک درمیانی عمر کا پاکستانی وہاں سے گزرنے والوں کو اپنے ہوٹل میں کھانے کی ترغیب دینے کے لیے آوازیں دے رہا ہوتا۔ میں ہمیشہ اسے سلام کرتا اور بتاتا کہ کھانا ہمارا سامنے والے ہوٹل سے جس سے ہماری بات طے ہے ہمارے کمرے میں آنا ہے۔ اس پر وہ کچھ مایوس ہوتا لیکن پھر بھی شکریہ ادا کرنا نہ بھولتا۔
اس ہوٹل کے ساتھ کھجوروں کی ایک دکان بھی بنی ہوئی تھی۔ اس کے باہر بھی ایک پاکستانی حاجی صاحب، حاجی صاحب کی آوازیں لگاکر وہاں سے گزرنے والوں کو کھجوروں کی خریداری کی دعوت دینا نہ بھولتا ۔ ایک دن ہم دکان کے اندر چلے گئے اور وہاں کھجوریں وغیرہ دیکھیں اوران کے نرخ وغیرہ پوچھے جوہمیں مناسب لگے۔ ان سے ہمیں کھجور وں کی دوسری دکانوں کے نرخوں سے موازنہ کرنا کچھ آسان ہوا۔ کھجوروں کی اس دکان سے کھجوروں کی خریداری کے لیے وہاں باہر کھڑے صاحب کا اصرار ہر روز ہی سامنے آتا رہا تو اس کے ساتھ ہمارے قیام
کے ہوٹل کی بیسمنٹ میں کھجوروں کی ایک دکان بھی تھی۔ اس کے سامنے سے بھی روزانہ ہمارا کئی بار آنا جانا ہوتا۔ وہاں بیٹھا سیلز مین بھی ہمیں یہ یا دہانی کرانا نہ بھولتا کہ ہمسایہ ہونے کے ناتے اس کا یہ حق بنتا ہے کہ ہم اپنی ضرورت کی کھجوریں اُسی سے خریدیں۔ ہمیں یہاں کھلی پیٹیوں یا ڈبوں میں رکھی کھجوروں کے معیار پر کچھ تحفظات تھے کہ یہ ذرا پرانی لگتی تھیں۔ اس پر ہمیں یقین دہانی کرائی گئی کہ ہمیں تازہ مال کے ڈبوں اور پیٹیوں سے کھجوریں خریدنے کو ملیں گی۔
کھجوروں کی بات چلی ہے تو ہمارے قیام مدینہ منورہ کے جولائی کے آخری عشرے کے دنوں میں ابھی تمام قسموں کی کھجوریں پوری طرح پک کر تیار نہیں ہوئی تھیں پھر بھی زیادہ تردکان دار اپنی دکان پر رکھی کھجوروں کے بارے میں دعویٰ کرتے کہ یہ تازہ فصل کی کھجوریں ہیں۔ مسجد نبوی میں آتے جاتے بعض لوگ ہاتھوں میں کھجوروں کے کھلے ڈبے اٹھائے نظر آتے جو وہاں سے گزرنے والوں کو کھانے کے لیے کھجوریں پیش کرتے۔ ہمیں بھی یہ کچی پکی لیکن انتہائی شیریں اور ذائقے دار کھجوریں کھانے کا موقع ملا۔
اس سے قبل مسجد نبوی کی شمالی سمت کے کئی منزلہ پلازوں میں بنے شاپنگ مالز سے کچھ اشیاءکی خریداری کا ذکر ہوا ہے، یہاں بھی بیسمنٹ میں کھجوروں کی دکانیںہیں اور یہاں پر بھی برآمدوں میں باہر کونے کناروں پر پاکستانی کھڑے نظر آتے ہیں جو اپنی متعلقہ کھجوروں کی دکان سے رعایتی نرخوں سے کھجوریں خریدنے کی ترغیب ہی نہیں دیتے ہیں لیکن ہاتھ پکڑ کر ساتھ لے جانے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح کے پاکستانی ہمیں صرف یہاں ہی نظر نہ آئے بلکہ بلال مسجد کے باہراور اس کی بیسمنٹ میں بنی مارکیٹ میں ہم کچھ دوسری اشیاءکی خریداری کے خیال سے گئے تو وہاں بھی کھجوروں کی دکانوں کے باہر اسی طرح کے پاکستانی وہاں سے گزرنے والوں کو اپنی متعلقہ دکانوں سے کھجوروں کی خریداری کی آوازیں دیتے نظر آئے۔ عمران اور میں نے اس طرح کے چند ایک پاکستانیوں سے بات کی تو پتہ چلا کہ ان میں سے زیادہ تر پاکستانیوں کا تعلق جنوبی پنجاب کے اضلاع وہاڑی، رحیم یار خان اور صادق آباد وغیرہ سے ہے اور یہ اس طرح کے کام کر کے کچھ کمائی کر لیتے ہیں۔ یہاں ہماری ایک اور پاکستانی سے بات ہوئی جس سے ہم نے کہا کہ آپ لوگ دکانوں پر سیلز مین کا یا اور کوئی زیادہ باوقار کام کیوں نہیں کرتے تو اس پر پہلے تو وہ اپنی حکومت کو کوسنے لگا کہ ہماری حکومت ہمارے لیے اور کاموں کے ویزوں کا بندوبست نہیں کرتی پھر خود ہی کہنے لگا حاجی صاحب کیا کریں ہم لوگوں کو اور کوئی کام کرنا بھی نہیں آتا اورملتا بھی نہیں ہے۔ اسی طرح کے چھوٹے موٹے کام کر کے ہم اپنی روزی رزق کا بندوبست کر لیتے ہیں۔ (جاری ہے)۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کھجوروں کی کی خریداری مسجد نبوی اس ہوٹل کے ساتھ کے باہر طرح کے کے لیے

پڑھیں:

پاکستانی سیاست… چائے کی پیالی میں طوفان

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-09-6

 

متین فکری

بظاہر سطح آب پر کوئی زیرو بم نظر نہیں آتا، حالات معمول کے مطابق چل رہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف ملکی حالات سے مطمئن مسلسل بیرونی دوروں میں مصروف ہیں اور سنا ہے کہ انہوں نے برادر بزرگ میاں نواز شریف کے بیرونی دوروں کا ریکارڈ بھی توڑ دیا ہے۔ ان دوروں کے نتیجے میں بڑی حوصلہ افزا باتیں سامنے آرہی ہیں لیکن رزلٹ بالکل الٹ نکل رہا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں سرمایہ کاری کے لیے حالات ناساز پا کر دھڑا دھڑا پاکستان چھوڑ رہی ہیں اور اب تک سترہ بڑی کمپنیاں اپنا کاروبار سمیٹ کر پاکستان سے رخصت ہوچکی ہیں۔ تاہم وزیراعظم شہباز شریف مطمئن ہیں کہ حالات قابو میں ہیں اور معیشت ترقی کررہی ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ شہباز حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں۔ شہباز شریف ہر بات مقتدرہ سے پوچھ کر کرتے ہیں اس لیے ان کی جانب سے غلطی کا کوئی امکان نہیں ہے اور ان کی حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ انہوں نے امریکا سے بھی بنا کر رکھی ہوئی ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ پاکستان میں کسی امریکا مخالف حکومت کو برداشت نہیں کرتا۔ اگر وہ حکومت سیدھے طریقے سے رخصت نہ ہو تو وہ پاکستانی حکمران کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتا جیسا کہ اس نے لیاقت علی خان اور جنرل ضیا الحق کے معاملے میں کیا۔ عمران خان خوش قسمت ہیں کہ ’’تحریک عدم اعتماد‘‘ سے رخصت ہوگئے اور انہیں جانی نقصان نہیں اٹھانا پڑا۔

بات لمبی ہوگئی ہم پھر اپنے اصل موضوع یعنی پاکستانی سیاست کی طرف آتے ہیں۔ ان دنوں پختون خوا کی سیاست نے چائے کی پیالی میں طوفان برپا کررکھا ہے۔ اس صوبے کی سیاست پر تحریک انصاف کا غلبہ ہے۔ پختون خوا اسمبلی میں تحریک انصاف کی قطعی اکثریت ہے اس لیے 8 فروری 2024ء کے انتخابات کے بعد بھی صوبے میں اس کی حکومت چلی آرہی ہے حالانکہ دوسرے صوبوں خاص طور پر پنجاب میں فارم 47 کا جادو ایسا چلا کہ سب کچھ الٹ پلٹ کر رہ گیا۔ ہارنے والے جیت گئے اور جیتنے والے ہار گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی میں صرف سترہ سیٹیں حاصل کی تھیں لیکن فارم 47 کے بَل پردہ اسمبلی کی اکثریتی پارٹی بن گئی اور وفاق میں اقتدار اسے مل گیا۔ یہی معاملہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں بھی پیش آیا۔ مسلم لیگ (ن) نے یہاں بھی فارم 47 کے طفیل اکثریت حاصل کرلی اور مریم نواز ہار کر بھی صوبے کی وزیراعلیٰ بن گئیں۔ سندھ کو سمجھوتے کے تحت پیپلز پارٹی کے سپرد کردیا گیا، بلوچستان میں بھی ملا جلا معاملہ رہا۔ البتہ پختون خوا میں فارم 47 کا جادو نہ چل سکا۔ عوام نے جسے ووٹ دیا وہی کامیاب قرار پایا۔ اسی طرح پی ٹی آئی نے پختون خوا اسمبلی میں اپنی اکثریت برقرار رکھی اور حکومت بھی اس کی قائم رہی۔ واضح رہے کہ 8 فروری 2024ء کے انتخابات سے پہلے بھی خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان تو جیل میں تھے لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی نے خیبر پختون خوا میں معرکہ سر کرلیا۔ نئی حکومت علی امین گنڈا پور کی قیادت میں تشکیل دی گئی لیکن اسٹیبلشمنٹ نے ان سے معاملات طے کرلیے اور گنڈا پور وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے لگے۔ جب پانی سر سے اونچا ہوگیا اور عمران خان نے محسوس کیا کہ اب گنڈاپور کو تبدیل کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے تو انہوں نے گنڈا پور سے استعفا طلب کرلیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر اپنی پریس کانفرنسوں میں بالعموم یہ بات شدت سے باور کراتے ہیں کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اگر کوئی صحافی کوئی سیاسی سوال کر بیٹھے تو وہ ’’نو پالیٹکس‘‘ کہہ کر اس کا جواب دینے سے انکار کردیتے ہیں لیکن جب خیبر پختون خوا میں گنڈاپور کے استعفے کے بعد نئی حکومت کی تشکیل کا مرحلہ آیا تو ڈی جی آئی ایس پی آر فوراً پشاور پہنچے اور وہاں ایک عدد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’خیبر پختون خوا میں کوئی مخالف حکومت برداشت نہیں کی جائے گی‘‘۔ شاید یہ بھی فوج کو سیات سے دور رکھنے کی قابل تحسین کاوش تھی۔ الیکشن کمیشن تو ہمیشہ مقتدرہ کے اشارے کا منتظر رہتا ہے۔ اشارہ ملتے ہی اس نے خیبر پختون خوا اسمبلی میں ارکان پی ٹی آئی سے ان کی سیاسی شناخت چھین کر انہیں آزاد ارکان قرار دے دیا۔ اس طرح انہیں ووٹوں کی خریدو فروخت کی منڈی میں زبردستی دھکیل دیا گیا اور حکومت کا دھندا کرنے والوں کو دعوت دی گئی کہ منڈی میں مال موجود ہے جو چاہے خریدے۔ اِدھر مولانا فضل الرحمن بھی خیبر پختون خوا میں وزارتِ علیہ کے اُمیدوار تھے اور اپنے بھائی کو وزیراعلیٰ بنانا چاہتے تھے ان کی خواہش تھی کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں بیس ووٹ خرید کر دے دے تا کہ وہ اپنی حکومت بناسکیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اگرچہ ان کے تعلقات ہمیشہ اُتار چڑھائو کا شکار رہتے ہیں لیکن آخری مرحلے میں ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ ہی جیتتی ہے اور مولانا فضل الرحمن ہمیشہ پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے نہایت اچھا موقع تھا وہ مولانا فضل الرحمن کو بیس ووٹ دے کر اپنا ممنونِ احسان بنا سکتی تھی۔ اگر پنجاب ہوتا تو اسٹیبلشمنٹ کے لیے بیس کیا سو پچاس ووٹ بھی حاصل کرنا دشوار نہ تھا لیکن خیبر پختون خوا کا معاملہ مختلف ہے یہاں جو ووٹ خریدتا اس کی جان کے لالے پڑجاتے اس لیے ووٹوں کی خریدو فروخت کی کوشش ناکام رہی اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کے نامزد امیدوار سہیل آفریدی کثرت رائے سے پختون خوا کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ شکر ہے ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس موقع پر کوئی پریس کانفرنس نہیں کی۔

اب سنا ہے کہ نومنتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کے خلاف الیکشن کمیشن میں نااہلی کی درخواست دائر کردی گئی ہے الیکشن کمیشن بہت ڈھیٹ ہے ممکن ہے کہ وہ یہ درخواست منظور کرلے اور سہیل آفریدی کو نااہل قرار دے دیا جائے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اسمبلی میں تو پی ٹی آئی کی اکثریت برقرار ہے وہ نیا وزیراعلیٰ لے آئے گی۔ اسے کہتے ہیں ’’چائے کی پیالی میں طوفان‘‘ برپا کرنا۔ لیکن اس کا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی تعلق نہیں، فوج کے لیے سیاست شجر ممنوع ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ کورکمانڈر پشاور نے نومنتخب وزیراعلیٰ سے وزیراعلیٰ ہائوس میں ملاقات کرکے انہیں اپنی وفاداری کا یقین دلایا ہے۔ نئے وزیراعلیٰ بڑے دبنگ فیصلے کررہے ہیں، انہوں نے عمران خان سے ملاقات کی درخواست دی تھی عدالت نے بھی ان کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا چونکہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور یہ سیاسی معاملہ تھا اس لیے وزیراعلیٰ کی اپنے قائد سے ملاقات نہیں کرائی گئی حالانکہ اسے ملاقات میں کوئی حرج نہ تھا جس کمرے میں ملاقات کرائی جاتی اس میں کیمرے لگے ہوئے ہیں اور آواز ریکارڈ کرنے والے آلات نصب ہیں پھر ڈر کس بات کا تھا۔ یہ بھی چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے کی کوشش کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ حکومت ہو، اسٹیبلشمنٹ ہو یا مخالف سیاستدان سب اس کام میں بہت ماہر ہیں۔

متین فکری

متعلقہ مضامین

  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے…افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے...افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  • بھارت ہمیں مشرقی، مغربی محاذوں پر مصروف رکھنا چاہتا ہے، مشرقی محاذ پرجوتے پڑے مودی تو چپ ہی کرگیا: وزیردفاع
  • دلدار پرویز بھٹی کی ادھوری یادیں اور ایک کتاب
  • پاکستانی سیاست… چائے کی پیالی میں طوفان
  • ہمیں دھمکی دیتے ہیں فورتھ شیڈول میں ڈال دیں گے، بھاڑ میں جائے فورتھ شیڈول، فضل الرحمان
  • بھارت ہمیں مشرقی اور مغربی محاذوں پر مصروف رکھنا چاہتا ہے،خواجہ آصف
  • ٹماٹر کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں 
  • مدینہ منورہ کی یونیسکو کے ’کریئیٹو سٹیز نیٹ ورک‘ میں شمولیت، کھانوں کے شعبے میں عالمی اعزاز
  • اجازت نہیں دیں گے کہ کوئی مجرم ہمیں دھمکائے، انصار اللّہ