خواب ایک ایسے معاشرے کا
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
یہ دنیا ہمیشہ سے ہی اعدادوشمار کے کھیل کی دیوانی رہی ہے۔ ترقی اور خوشحالی کے دعوے ہمیشہ ایسے ہی خشک اعداد کے سہارے کیے گئے ہیں جو بظاہر خوشنما لگتے ہیں لیکن حقیقت سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ ہماری حکومتیں اور عالمی ادارے جنھیں ہم ترقی کے پیمانے مانتے ہیں ہمیں بارہا یہ سمجھاتے ہیں کہ گراس ڈومیسٹک پروڈکٹ یعنی جی ڈی پی کا بڑھنا ایک ملک کی خوشحالی کا مظہر ہے۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو ملک کی مجموعی معیشت کی تصویر پیش کرتے ہیں مگر اس تصویر کے پیچھے چھپے اندھیرے دکھ اور عدم مساوات کے داغ دکھانے میں ناکام رہتے ہیں۔
جی ڈی پی کا مطلب ایک ملک کی مجموعی پیداوار سے ہے جو یہ بتاتا ہے کہ ایک خاص وقت میں ملک نے کتنے معاشی وسائل پیدا کیے۔ یہ بڑے بڑے نمبر بلند و بانگ دعوے اور موٹے الفاظ کے ہیر پھیرکا نتیجہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک عام آدمی یہ سمجھنے سے قاصر رہتا ہے کہ اصل میں یہ ترقی ہے یا محض سراب۔ سوال یہ ہے کہ اگر معیشت بڑھ رہی ہے تو کیا ہر شخص کی حالت بہتر ہو رہی ہے؟ کیا یہ ترقی ان لوگوں تک پہنچ رہی ہے جو دن بھر محنت کرتے ہیں لیکن رات کو خالی پیٹ سونے پر مجبور ہیں؟
ہماری سڑکیں چوڑی ہو رہی ہیں شاپنگ مالز تعمیر ہو رہے ہیں اور کاروباری مراکز چمک رہے ہیں، لیکن اس چمک دمک کے نیچے گلیوں اور بستیوں میں بھوک مفلسی اور ناانصافی کے اندھیرے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ جی ڈی پی ان لوگوں کے آنسو نہیں گنتی جو دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں۔ یہ ان والدین کی چیخیں نہیں سنتی جو اپنے بچوں کو بھوک سے مرتا دیکھ کر خودکشی پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جی ڈی پی کے گراف میں ان بچوں کے نام نہیں ہوتے جو کم عمری میں مزدور بن جاتے ہیں نہ ہی ان ماؤں کے آنسو شامل ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کو بھوکا سلا دیتی ہیں۔
جب ہم جی ڈی پی کی بات کرتے ہیں تو ہم ایک بڑی تصویر دیکھتے ہیں مگر یہ تصویر صرف اوپری سطح کی ہے۔ اس تصویر میں وہ لوگ پوشیدہ رہتے ہیں جن کے کندھوں پر یہ نظام کھڑا ہے۔ ایک مزدور جو اپنی ہڈیوں کا گودا نکال کر دن رات مشقت کرتا ہے وہ جی ڈی پی میں کہیں نظر نہیں آتا۔ ایک خاتون جو گھروں میں جھاڑو پونچھا کرتی ہے وہ ان اعداد و شمار میں غائب رہتی ہے۔ کسان جو زمین سے فصل اگاتا ہے لیکن خود فاقہ پر مجبور ہے، اس کی کہانی بھی ان گرافوں میں پوشیدہ ہے۔
اصل ترقی وہ نہیں ہوتی جو اشرافیہ کے محلوں کو سجائے بلکہ وہ ہوتی ہے جو ہر انسان کو عزت کے ساتھ جینے کا حق دے۔ معاشی ترقی کا مطلب صرف یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ملک کے خزانے بھر رہے ہیں بلکہ یہ ہونا چاہیے کہ ہر انسان کی زندگی بہتر ہو رہی ہے۔ اگر ملک کا جی ڈی پی بڑھ رہا ہے لیکن عوام کی حالت مزید خراب ہو رہی ہے تو پھر یہ ترقی کا کیسا جھوٹا خواب ہے؟
ہم نے اپنی زندگیوں میں ایسے کئی خواب دیکھے ہیں جو جھوٹے نکلے، لیکن ایک خواب ایسا ہے جو ہمیشہ سچا رہے گا۔ یہ خواب ہے ایک ایسے سماج کا جہاں کوئی بھوکا نہ سوئے کوئی بچہ تعلیم سے محروم نہ ہو اور کوئی ماں اپنی اولاد کی بھوک کی وجہ سے آنسو نہ بہائے۔ یہ خواب ایک ایسے سماج کا ہے جہاں دولت کی منصفانہ تقسیم ہو جہاں غربت کو صرف اعداد و شمار کے گراف سے نہیں بلکہ حقیقت میں مٹایا جائے۔
ہمیں ایسے نظام کی ضرورت ہے جو معاشی ترقی کو ان لوگوں تک پہنچائے جنھیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے معاشی ماڈل کی ضرورت ہے جو صرف بڑے کاروباری اداروں اور اشرافیہ کو فائدہ نہ پہنچائے بلکہ غریب اور متوسط طبقے کی زندگیوں کو بدل دے۔ ہمیں ایسے نظام کی ضرورت ہے جو انسان کو اعداد و شمار سے بڑھ کر سمجھے جو انسان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرے اور جو ہر شہری کو عزت سکون اور خوشحالی کا حق دے۔
یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ جب تک عدم مساوات ختم نہیں ہوگی ترقی کا کوئی بھی ماڈل مکمل نہیں ہوگا۔ سماج تبھی ترقی یافتہ کہلائے گا جب اس کے تمام افراد کو مساوی مواقع ملیں جب ہر شخص کو روٹی کپڑا اور مکان مہیا ہو اور جب ہر بچہ تعلیم اور صحت کی سہولتیں حاصل کر سکے۔
ترقی کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ چند لوگوں کے لیے دنیا جنت بن جائے اور باقی لوگوں کے لیے جہنم۔یہ باتیں صرف خواب نہیں ہیں بلکہ یہ وہ حقیقت ہے جنھیں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں اگر ہم خود کو بدلنے کا عزم کریں۔ ہمیں اپنے معاشی ماڈلز کو انسانی بنیادوں پر پرکھنا ہوگا۔ ہمیں اس سوچ کو ختم کرنا ہوگا کہ ترقی صرف بلند عمارتوں بڑی سڑکوں اور جدید ٹیکنالوجی کا نام ہے۔ ترقی تبھی حقیقی ہوگی جب یہ ہر انسان کو فائدہ پہنچائے گی جب یہ ہر غریب کو بھوک سے نجات دلائے گی اور جب یہ ہر والدین کو اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے پریشان ہونے سے بچائے گی۔
یہ بات واضح ہے کہ جی ڈی پی اور دیگر معاشی اشارے ہماری اصل ترقی کو نہیں دکھا سکتے۔ اصل ترقی وہ ہے جو انسان کی روح کو سکون دے جو اس کے پیٹ کی بھوک مٹائے اور جو اس کے دل سے خوف کو نکال دے۔ ہمیں خواب دیکھنا ہوگا ایک ایسے سماج کا جہاں کسی کو بھوکا نہ سونا پڑے جہاں کوئی ماں اپنے بچوں کے لیے فکر مند نہ ہو اور جہاں کوئی باپ خودکشی کرنے پر مجبور نہ ہو۔ یہ خواب ہمارا حق ہے اور ہمیں اسے حقیقت بنانے کے لیے کام کرنا ہوگا۔
ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ معاشی ترقی کا مطلب صرف اعداد و شمار کی چمک دمک نہیں بلکہ یہ انسانی زندگی کی خوشحالی ہے۔ اگر ہم ایک ایسا سماج بنا سکیں جہاں کوئی بھوکا نہ ہو کوئی بے گھر نہ ہو، اور کوئی مایوس نہ ہو، تو ہی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے حقیقی ترقی حاصل کی ہے۔ یہ ہمارا خواب ہے اور یہ خواب سچا ہو سکتا ہے اگر ہم سب مل کر کوشش کریں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جہاں کوئی اپنے بچوں ایک ایسے ضرورت ہے میں ایسے ہیں بلکہ جی ڈی پی کا مطلب رہے ہیں ترقی کا یہ خواب ہو رہی ہیں جو رہی ہے کے لیے
پڑھیں:
غزہ پر مستقل قبضے کا اسرائیلی خواب
اسلام ٹائمز: صیہونی پالیسی ساز اس حقیقت سے بخوبی واقف ہو چکے ہیں کہ وہ میدان جنگ میں فلسطینی مجاہدین کو شکست نہیں دے سکتے لہذا اب انہوں نے نرم جنگ کے ہتھکنڈے بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہی ہتھکنڈوں میں سے ایک اقتصادی دباو اور دوسرا فلسطینی عوام کو مجاہدین سے دور کرنا ہے۔ اس سے پہلے یہ حکمت عملی فرانسیسی فوج انیسویں صدی کے وسط میں الجزائر میں آزما چکی ہے۔ 1840ء کے عشرے میں شدید گرمی کے دوران فرانسیسی فوجیوں کا تجربہ غاصب صیہونی فوجیوں سے ملتا جلتا تھا اور انہیں الجزائر کے مجاہدین کے خلاف مکمل کامیابی حاصل نہیں ہو رہی تھی۔ لہذا تھامس رابرٹ باگہود کی سربراہی میں فرانسیسی فوج نے وہاں کے بنیادی انفرااسٹرکچر کو تباہ کرنا شروع کر دیا اور عوام کو ان کے دیہاتوں سے جبری جلاوطن کر دیا۔ کچھ عرصے بعد عوام خود ہی مجاہد لیڈر عبدالقادر کے خلاف ہو گئے اور اس سے گھٹنے ٹیک دینے کا مطالبہ کرنے لگے۔ تحریر: سید رضا حسینی
غاصب صیہونی رژیم نے 2 مارچ 2025ء کے دن یکطرفہ طور پر حماس سے جنگ معاہدہ ختم کر دیا اور غزہ جانے والی بین الاقوامی انسانی امداد بھی روک دی۔ اس کے تقریباً دو ہفتے بعد دوبارہ سے غزہ پر وسیع بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا جبکہ صیہونی فوج جس نے جنگ بندی کے دوران پسماندگی اختیار کی تھی دوبارہ پیشقدمی کرنے لگی۔ برطانوی اخبار گارجین نے غزہ کے جن شہریوں سے انٹرویو لینے میں کامیاب رہا ان کا کہنا تھا کہ وہ فضائی بمباری سے زیادہ قحط اور غذائی قلت سے خوفزدہ ہیں۔ غزہ کے شمال میں واقع شہر بیت لاہیا کے 44 سالہ یونیورسٹی پروفیسر حکمت المصری نے کہا: "میں بارہا کھانے کی کمی کی وجہ سے اپنا حصہ بیٹے کو دینے پر مجبور ہوا ہوں۔ یہ بھوک مجھے مار دے گی اور یہ ایک مرحلہ وار موت ہے۔" غزہ جانے والی انسانی امداد کو روک دینا حماس کے خلاف اسرائیل کا نیا ہتھیار ہے۔
اسرائیلی فوجی کمانڈرز نے پہلی بار غزہ میں کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لے لی ہے جو دراصل تل ابیب کی جانب سے اہل غزہ پر دباو ڈالنے کا ایک ہتھکنڈہ قرار دیا جا رہا ہے۔ تل ابیب کو امید ہے کہ وہ غزہ کے فلسطینیوں کو جبری طور پر جلاوطن کر کے اس کے اکثر حصوں میں جلی ہوئی زمین کی حکمت عملی اختیار کرے گا اور یوں غزہ کی پٹی پر اپنا قبضہ مکمل کر لے گا۔ یہ منصوبہ بظاہر تو بہت دلکش دکھائی دیتا ہے لیکن حماس کے ملٹری ونگ شہید عزالدین قسام بٹالینز گوریلا جنگ میں اعلی درجہ مہارت رکھتی ہیں اور وہ غزہ میں صیہونی فوج کی لاجسٹک سپورٹ بند کر دینے کی مکمل صلاحیت کی حامل ہیں۔ صیہونی فوج کی دوبارہ جارحیت شروع ہونے کے چند گھنٹے بعد بنجمن نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ وہ غزہ کی صورتحال تبدیل کرنے جا رہا ہے۔
جبری جلاوطنی
اخبار اکانومیسٹ کے بقول صیہونی حکمرانوں نے رفح کے شہریوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر چلے جانے کا حکم دیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ ان کا اصل مقصد غزہ کے جنوبی حصے کو مستقل طور پر خالی کروانا ہے۔ یاد رہے اس حصے میں غزہ کی آبادی کا 20 فیصد حصہ آباد ہے۔ اسی طرح کا منصوبہ غزہ کے شمالی حصے کے لیے بھی بنایا جا رہا ہے۔ یہ منصوبہ درحقیقت غزہ میں مقیم 20 لاکھ فلسطینیوں کو جبری جلاوطن کر کے بحیرہ روم کے مشرقی کنارے منتقل کرنے پر مبنی ہے۔ فی الحال مقدماتی مرحلے کے طور پر اسرائیل غزہ کے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں "نو گو ایریاز" بنانا چاہتا ہے تاکہ وہاں سے عام شہریوں کے انخلاء کے بعد مجاہدین کے خلاف کھل کر فوجی کاروائی انجام دے سکے۔ اگلے مرحلے میں اسرائیل غزہ کے تمام فلسطینی شہریوں کو وہاں سے نکال کر دنیا کے دوسرے حصوں میں بھیج دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔
بنیادی اہمیت کی حامل راہداریوں پر قبضہ
بعض اعلی سطحی اسرائیلی فوجی افسران کے بقول غزہ میں اسرائیل جو نئی راہداریاں بنا رہا ہے ان کے فوجی اہداف کے علاوہ بھی کچھ اہداف ہیں۔ اسرائیل نے گذشتہ ایک ماہ سے غزہ کے شہریوں کے لیے جانے والی تمام بیرونی امداد بند کر رکھی ہے اور اس بندش کی وضاحت پیش کرتے ہوئے اس نے یہ بہانہ پیش کیا ہے کہ اس امداد کا زیادہ تر حصہ حماس کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ صیہونی فوج نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کے فلسطینی جیسے ہی یہ علاقہ چھوڑ کر اس کے مطلوبہ علاقے میں چلے جائیں گے تو فوجی راہداریوں کے ذریعے ان تک انسانی امداد کی فراہمی کا کام شروع کر دیا جائے گا۔ یہ پالیسی اگرچہ بظاہر انسانی دکھائی دیتی ہے لیکن اس کا مقصد فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی چھوڑ دینے پر مجبور کرنا ہے۔ اسی طرح اسرائیل اس طرح فلسطینی شہریوں اور حماس کے مجاہدین کے درمیان فاصلہ ڈالنا چاہتا ہے۔
نرم جنگ کا آغاز
صیہونی پالیسی ساز اس حقیقت سے بخوبی واقف ہو چکے ہیں کہ وہ میدان جنگ میں فلسطینی مجاہدین کو شکست نہیں دے سکتے لہذا اب انہوں نے نرم جنگ کے ہتھکنڈے بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہی ہتھکنڈوں میں سے ایک اقتصادی دباو اور دوسرا فلسطینی عوام کو مجاہدین سے دور کرنا ہے۔ اس سے پہلے یہ حکمت عملی فرانسیسی فوج انیسویں صدی کے وسط میں الجزائر میں آزما چکی ہے۔ 1840ء کے عشرے میں شدید گرمی کے دوران فرانسیسی فوجیوں کا تجربہ غاصب صیہونی فوجیوں سے ملتا جلتا تھا اور انہیں الجزائر کے مجاہدین کے خلاف مکمل کامیابی حاصل نہیں ہو رہی تھی۔ لہذا تھامس رابرٹ باگہود کی سربراہی میں فرانسیسی فوج نے وہاں کے بنیادی انفرااسٹرکچر کو تباہ کرنا شروع کر دیا اور عوام کو ان کے دیہاتوں سے جبری جلاوطن کر دیا۔ کچھ عرصے بعد عوام خود ہی مجاہد لیڈر عبدالقادر کے خلاف ہو گئے اور اس سے گھٹنے ٹیک دینے کا مطالبہ کرنے لگے۔
صیہونی منصوبے کو درپیش چیلنجز
صیہونی فوجی حماس کے مجاہدین کے خلاف اپنی سرگرمیوں میں تیزی لانا چاہتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے جو فوجی راہداریاں بنائی ہیں جو حماس مجاہدین کے حملوں کی زد میں ہیں۔ یوں القسام بٹالینز ان کی رصد میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں۔ دوسری طرف مظلوم فلسطینیوں پر صیہونی ظلم و ستم کا فائدہ حماس کو ہو رہا ہے۔ وہ یوں کہ فلسطینی شہریوں کی عزت نفس مجروح ہو رہی ہے اور وہ اس بات کے قائل ہو رہے ہیں کہ صیہونی رژیم سے مقابلے کا واحد راستہ مسلح جدوجہد ہے لہذا حماس کے مجاہدین میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مزید برآں، غزہ سے فلسطینیوں کا انخلاء بھی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ مصر اور اردن اس منصوبے میں اسرائیل کا ساتھ نہیں دے رہے جبکہ مصر حکومت نے چین سے جنگی طیارے اور اسلحہ خرید کر صحرائے سینا میں فوج تعینات کرنا شروع کر دی ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کی جبری جلاوطنی کو روکنا ہے۔