ہمیں آگے بڑھنے سے کون روکتا ہے، مناسب وقت پر بتاؤں گا، آفاق احمد
اشاعت کی تاریخ: 23rd, April 2025 GMT
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین ایم کیو ایم نے کہا کہ جب مصطفیٰ کمال اور فاروق ستار نے پریس کانفرنس میں انضمام کا اعلان کیا تھا تو میں نے کہا کہ یہ انضمام غیر فطری ہے، آج بھی مصطفیٰ کمال، خالد مقبول اور فاروق ستار کے کارکنان الگ الگ ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ چیئرمین مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) آفاق احمد نے کہا ہے کہ ضلع وسطی میں ہمارا احتجاج کراچی کے شہریوں کے ساتھ صوبائی حکومت کی زیادتیوں کے خلاف تھا، ہمیں آگے بڑھنے سے کون روکتا ہے، یہ میں مناسب وقت پر بتاؤں گا۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے سربراہ مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) آفاق احمد کا کہنا تھا کہ ضلع وسطی میں ہماری کوئی احتجاجی ریلی نہیں تھی، میں نے عوام سے کہا تھا کہ سفید پرچم لے کر باہر نکلیں، میں نے یو پی موڑ (ضلع وسطی) پر ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ عوام سے اس اپیل میں، میں نے تمام زیادتیوں کا ذکر کیا تھا جو پیپلز پارٹی صوبے کے شہری علاقوں کے ساتھ کرتی آرہی ہے، مثال کے طور پر انٹرمیڈیٹ کے نتائج ہی کی مثال لے لیں، کراچی کے بچوں کا رزلٹ 37 فیصد اور لاڑکانہ کا 87 فیصد تھا، اس پر میں نے یہ کہا تھا کہ آپ کراچی کے لوگوں کا تعلیمی قتل عام کررہے ہیں، کراچی کے طلبہ کو میڈیکل اور انجنیئرنگ کالجوں میں داخلے سے محروم کردیا گیا، پیپلز پارٹی کے کراچی کے بچوں کے خواب چکنا چور کردیے، اس پر ہمارا احتجاج تھا۔
آفاق احمد نے کہا کہ ہمارا احتجاج اس پر تھا کہ ہمارا پانی چوری کرکے ہمیں ہی بیچا جارہا ہے، احتجاج اس پر تھا کہ سسٹم کے نام پر جن لوگوں کو تعینات کیا گیا، انہوں نے ہمارے پلاٹوں پر قبضے کرلیے ہیں، اس قبضہ مافیا کے خلاف ہمارا احتجاج تھا، ہمارا احتجاج پیپلزپارٹی کی کرپٹ حکومت کے خلاف تھا۔ حکومت کی جانب سے دفعہ 144 کے نفاذ کے بعد مجوزہ ریلی کے مقام کی تبدیلی کے سوال پر چیئرمین ایم کیو ایم نے کہا کہ ہائی کورٹ نے رولنگ دی تھی کہ کراچی میں کوئی نو گو ایریا نہیں ہے، تو ہم کیوں ضلع وسطی کے بجائے کہیں اور احتجاج کرتے، یہ مہاجروں کو تقسیم کرنے والی بات ہے۔ آفاق احمد نے کہا کہ مجھے تصادم سے بچنا تھا اسی لیے ریلی کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا اور اس پر مجھے کوئی افسوس نہیں ہے۔ ایک سوال کے جواب میں چیئرمین مہاجر قومی موومنٹ نے کہا کہ ہمیں آگے بڑھنے سے کون روکتا ہے، یہ میں مناسب وقت پر بتاؤں گا۔
ایک سوال کے جواب میں آفاق احمد نے کہا کہ ڈیڑھ ماہ کے دوران میں سول سوسائٹی، مختلف برادریوں اور لوگوں سے ذاتی طور پر ملا ہوں اور اپنے بارے میں غلط فہمیاں دور کی ہیں، تو اس عرصے میں، میں نے کامیابی حاصل کی ہے، صرف ایک ریلی کے ملتوی ہونے سے اس کامیابی پر فرق نہیں پڑے گا اور مستقبل میں ہم اس کامیابی کو قوم کے مفاد میں استعمال کریں گے۔ بھاری ٹریفک سے حادثات اور ہلاکتوں کا سلسلہ نہ رکنے کے حوالے سے آفاق احمد نے کہا کہ حادثات میں کمی آئی ہے، عوام اور ہمارے دباؤ اور کوششوں سے حکومت نے اس سلسلے میں چیزوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے، اگر پیش رفت ہو رہی ہے تو پھر ایک ہی معاملے کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیئے۔ چیئرمین ایم کیو ایم نے کہا کہ میں نے حکومت سندھ سے تحریری درخواست کی ہے کہ ڈمپروں اور واٹر ٹینکروں کو انشورڈ ہونا چاہیئے اور بغیر انشورنس کے کوئی گاڑی سڑک پر نہیں آنی چاہیئے، اگر ہم اس پابندی پر عمل درآمد کرالیں گے تو کرپٹ نظام سے جان چھوٹ جائے گی۔
ریلی میں لوگوں کو سفید کپڑا لے کر آنے کی ہدایت کے پس پردہ مقصد کے بارے میں آفاق احمد نے کہا کہ سفید کپڑا تو امن کی علامت ہے، میں یہ چاہتا تھا کہ شہریوں کے ساتھ زیادتیوں کے خلاف احتجاج میں مختلف زبانیں بولنے والے سبھی لوگ شامل ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگوں کے لیے ایم کیو ایم کے پرچم تلے احتجاج میں شامل ہونا مشکل ہوتا اس لیے میں نے سفید پرچم کی بات کی تھی تاکہ مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف سیاسی وابستگیاں رکھنے والے لوگ احتجاج میں شامل ہوسکیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تمام قومیتیں اپنی شناخت پر فخر کرتی ہیں، اور سچے لوگوں کو پسند کرتی ہیں، میرے پاس پختون اپنے جرگے کروانے کے لیے آتے ہیں، کیونکہ انہیں پتا ہے کہ یہ منافق نہیں ہے، سچا آدمی ہے۔
ضلع وسطی میں اعلان کے باوجود پارٹی کا دفتر نہ کھولنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ جنگی حکمت عملی میں کبھی پیچھے بھی جانا پڑتا ہے، تو ہم ایک قدم پیچھے گئے ہیں تو دو قدم آگے بھی بڑھیں گے۔ کینالز کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ میں اپنے بیان پر قائم ہوں ، ذین شاہ میرے پاس آئے تھے کیونکہ میرا فطری اتحادی یہاں کا مقامی سندھی ہے، پیپلز پارٹی نہیں، میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ پانی نہ ملنے سے سندھ میں زرعی شعبہ متاثر ہوگا تو میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوں۔ سرکاری نوکریوں کے حوالے سے سوال کے جواب میں آفاق احمد نے کہا کہ اس میں ہمارا جو تناسب بنتا ہے وہ دیا جائے، اگر 40 فیصد بنتا ہے تو وہ دیا جائے، اگر وہ بھی نہ دیا جائے تو پھر اعتراض تو بنتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں دکھ ہوتا ہے کہ حکومت کراچی کے نوجوانوں کو سرکاری نوکریوں میں کیوں نظرانداز کررہی ہے، کراچی میں گلگت بلتستان اور کشمیر کے لوگوں کو نوکریاں دی جا رہی ہیں مگر کراچی کے نوجوانوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ا فاق احمد نے کہا کہ سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کراچی کے ایک سوال لوگوں کو کے خلاف کے ساتھ تھا کہ
پڑھیں:
گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250918-03-7
محسن باقری
۲۰۲۵ کا یوم آزادی بہت منفرد انداز میں آیا، ۱۴ اگست کی شب اسلام آباد سمیت ہر چھوٹا بڑا شہر سبز قمقموں سے مینارہ نور بنا رہا، سبز لباس سے مزین بچے بڑے ہوں، موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر ہوا کی دوش پر اُڑنے والے پرچموں کی بہار ہو یا چوکوں چوراہوں اور عمارتوں پر سبز ہلالی پرچموں کی سجاوٹ سے بے تابانہ ساحرانہ مناظر، اس جشن میں سب ہی کا جذبہ دیدنی تھا، بھلا ان جذبوں کو کون شکست دے سکتا ہے۔ یوم آزادی پاکستان اور معرکہ حق و بنیان مرصوص کے پس منظر میں بالخصوص مرکزی تقریب بشمول سربراہان افوج پاکستان اسلام آباد ہو یا گورنر ہاؤس سندھ، فتح کا جشن مناتے ہوئے ہم ’’ٹریک‘‘ سے اترتے ہی رہے۔ بقول علامہ اقبال ’’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی‘‘ ذرا فتح مکہ کے موقع پر نبی کریمؐ کا انداز دیکھیے کہ ربّ کا شکر ادا کرنے کے لیے اونٹنی کے کجاوے پر آپؐ جھکے جارہے تھے، نبی کریمؐ نے فتح کے جشن کا طریقہ ہمیں اللہ سے دعا کرنے اور بذریعہ نماز (شکرانہ) بتایا، لیکن افسوس کہ ہماری یہ تقاریب ملی نغموں اور ثقافتی رنگوں کی آڑ میں مرد وخواتین کے بے حجابانہ رقص و موسیقی سے بچی نہ رہ سکیں، اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو ہم نے ہزیمت والی شکست سے دو چار ضرور کیا لیکن انجانے میں ہم دشمن ہی کی ناچ اور گانے کی ہندو ثقافت کو زندہ کرنے کے امین بھی بنے۔ تقریبات میں ’’فائر ورکس‘‘ کے نام پر کروڑوں روپے پھونک دیے گئے، گلی محلوں میں بے ہنگم باجے، ملی نغموں کی آڑ میں کان پھاڑتی موسیقی، آتش بازی، دھماکے اور ہوائی فائرنگ علٰیحدہ۔ کہیں کہیں باوقار تقاریب کا بھی اہتمام ہوا لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے، بَھلا یہ اْس قوم کے جشن کا انداز ہے کہ جہاں ہر بچہ مقروض پیدا ہوتا ہے، کوئی کہہ سکتا ہے کہ اِس قوم کے ڈھائی کروڑ سے زاید بچے اسکول جانے سے معذور ہیں، غور کریں کہ جس قوم کا بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہو، قرض دینے والے دی ہوئی رقم کا تقریباً نصف حصہ قرض کی ادائیگی کی مد میں ہی وصول لیتے ہوں، پہلی نظر میں تو ایسی صورتحال میں اسے فضول خرچی سے ہی تعبیر کیا جائے گا جب کہ کئی اور پہلو بھی قابل غور ہیں۔
بلا شک وشبہ معرکہ حق کی دھاک ایک زمانے پر بیٹھ گئی، دنیا اب ہمارے بارے میں ایک اور زاویہ سے سوچنے پر مجبور ہوئی، لیکن کیا اب ہمارا سفر ختم ہوگیا، ۱۴ اگست تو دراصل تجدید عہد کا دن ہے، پاکستان کو نہ صرف ترقی کی راہ پر گامزن کرنے بلکہ اقوام عالم میں ہر شعبہ زندگی میں سبقت حاصل کرنے کا ایک عزم ہونا چاہیے، ۱۴ اگست کو اگر ہمارے جذبے جنوں بنے ہیں تو ان جذبوں کو ہمیں سلامت بھی رکھنا ہے اور ترقی کی شاہراہ پر دوڑنا بھی ہے، لیکن ایک لمحے ٹھیر کر دیکھیں کیا ہمیں وہ ساز و سامان میسر ہے کہ جس کے بل پر ہمیں ترقی یافتہ اقوام کا صرف مسابقہ ہی نہیں کرنا ہے بلکہ اپنا کھویا ہوا علمی اور سماجی مقام بھی واپس لینا ہے۔ آج ہم اس تعلیم سے محروم ہو گئے ہیں جو کردار بناتی ہے، ہماری اخلاقی حالت ایسی ہے کہ کئی مرتبہ حکمران رہنے والی سیاسی جماعت کے مرکزی رہنما ایک سوال کے جواب میں کہہ چکے ہیں کہ ’’وعدے قرآن و حدیث تو نہیں ہوتے‘‘۔ اسی پیرائے میں ملک کے مقبول ترین سیاسی رہنماؤں کی باتوں اور وعدوں کو بے لاگ صداقت کی کسوٹی پر جانچ لیجیے، اسی کا پرتو ہمیں عوامی سطح پر نظر آتا ہے، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں اسی طرح تول میں ہمارے دینے کے پیمانے اور ہیں اور لینے کے اور۔
یہی معیار دیانت ہے تو کل کا تاجر
برف کے بانٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا
گرین پاسپورٹ کے حوالے سے ہی اقوام عالم میں اپنی ساکھ کا اندازہ کر لیں جو ’کمزور ترین‘ پاسپورٹوں میں شامل ہے، صرف 32 ممالک میں ویزا فری داخلے کی سہولت حاصل ہے۔ معاصر جریدہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق ہینلے پاسپورٹ انڈیکس 2025 کے مطابق پاکستان اس وقت صرف جنگ زدہ ممالک صومالیہ، یمن، عراق، شام اور افغانستان سے بہتر پوزیشن پر فہرست میں 96 ویں نمبر پر ہے۔
کرپشن کا معاملہ بھلا کس کی نظروں سے پوشیدہ ہو سکتا ہے، چند دن پیش تر ہی وزیر دفاع خواجہ آصف کا یہ بیان کس طرح میڈیا میں چرچے کا باعث رہا جب انہوں بیوروکریٹس پر پرتگال میں جائدادیں بنانے کا انکشاف کیا، اس پر ایک بڑا رد عمل سامنے آیا اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اب ان بیوروکریٹس کی نشاندہی بھی کی جائے گی۔ اس ملک پر تین بار نواز شریف حکمران رہے اور اب شہباز شریف کا دور حکمرانی ہے، خواجہ آصف کا یہ بیان کیا اچھنبے کی بات نہیں، کیا وہ یہ بتانا پسند کریں گے کہ گئے عشروں اور حالیہ دور حکمرانی میں کرپشن کے خلاف (ن) لیگ کی حکومت کی کیا کار کردگی رہی، کیا وزیروں کا کام عوامی سطح پر کرپشن کا اعتراف اور اعلان ہی رہ گیا ہے، کیبنٹ میٹنگ، پارٹی کی حکومت کیا صرف اپنوں کو نوازنے کا نام ہے جس کی جھلک ہم نے ۱۴ اگست کے قومی اعزازات کی بندر بانٹ میں دیکھی۔ تعلیمی لحاظ سے عالمی درجہ بندی میں ہماری یونیورسٹیاں کتنی اور کس درجہ بندی میں آتی ہیں؟، یہ تو چند پیرائے ہیں، اگر ان کو ہی تھوڑا سا وسیع کر کے دیکھ لیں تو ہمیں از خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ اقوام عالم کی صف میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (HDI) جو کسی ملک کے لوگوں کی فلاح و بہبود کی پیمائش کرنے کے لیے بنایا گیا ہے جس میں صحت، تعلیم اور معیار زندگی شامل ہیں، پاکستان درجہ بندی کی آخری درجے ’’لو ہیومن ڈیولپمنٹ‘‘ میں 193 ممالک میں سے 168 ویں نمبر پر فائز ہے۔
داخلی محاذ پر ہماری سیاسی چپقلش ذاتی دشمنیوں میں ڈھل چکی ہے، ہم آپس میں باہم دست و گریبان ہیں اور باہمی عناد پھوٹ پھوٹ کر ہمارے داخلی انتشار کی گواہیاں دے رہا ہے، ایک فریق اگر مشق ستم ہے تو دوسرا فریق اِن کی گرفتاریوں اور سزاؤں پر شاداں اور فرحاں ہے، کہیں کھل کر دلی بغض کا اظہار ہو رہا ہے تو کہیں قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف کھلا اور چھپا عِناد جس کی زد میں کوئی آئے یا نہ آئے لیکن نادانی میں اغیار کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں نتیجہ میں قومی اتحاد پارہ پارہ ہے۔ دوسری جانب ایسے لگتا ہے کہ اسی طرح اس نظام کو ان ہی گھسے پٹے بکاؤ عناصر کے ساتھ دھکا لگایا جاتا رہے گا جو کبھی ایک سیاسی پارٹی کبھی دوسری سیاسی پارٹی کے ساتھ، کبھی دبکا دیے جائیں تو چپ کر کے بیٹھ جاتے ہیں، کبھی چمکارے جائیں تو تھوڑا سا حوصلہ پکڑ لیتے ہیں اور ایک دوسرے کو ’’بْوٹ‘‘ کا طعنہ بھی دیتے ہیں، ایسے بے ضمیر سیاسی عناصر کے ساتھ ایک نا ختم ہونے والے مقتدر دورانیے کو منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں ملک کو ترقی کی سمت گامزن کرنا تو بہت دور کی بات ہے دور رس نتائج کی حامل ترقی کی منصوبہ بندی بھی نہیں کی جا سکے گی۔ ہم تعلیم اور تحقیق میں کسی گنتی میں نہیں، کچھ کردار کے حوالے سے کچھ ہماری کرپشن کا اگر شْہرہ ہے تو کچھ زبردستی کا ہم پر دہشت گردی کا ٹھپا ہے، بد ترین معاشی صورتحال ایسی کہ ہم آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر چل رہے ہیں، وہ باقاعدگی سے ہمیں ٹیکس اور دیگر معاملات میں ہدایات جاری کرتے ہیں اور ہم باقاعدہ مِن و عَن اْن کی ہدایات پر عمل پیرا ہوتے ہیں یا صفائیاں پیش کرتے اور اْن کے کہے کی مہلت عمل لیتے ہیں۔
جہاں گزشتہ مہینوں ملک کے طول و عرض بشمول راولپنڈی اور کراچی میں زلزلے کے متعدد جھٹکے آئے، کے پی اور پنجاب میں بارش اور سیلاب سے بڑی جاں لیوا ہولناک بربادی آئی، سندھ میں بارشوں سے تباہی ہوئی، سوچنے کا مقام ہے کہ کہیں یہ ربّ کائنات کی ناراضی کا مظہر تو نہیں اور ہمیں جھنجھوڑا جا رہا ہو، بہرحال کسی کو مورد الزام ٹھیرائے بغیر مقاصد قیامِ پاکستان سے تجدید عہد، انفرادی و اجتماعی توبہ، اپنے کیے پر پشیمانی، مہلت عمل اور ربّ کی رضا کے حصول کی تمنا اور توفیق کے ساتھ ضرورت ہے کہ ہم اپنی زندگیوں سے منافقت اور تناقص کو خارج کریں۔
اگر مسلمان ہیں تو مخلص مسلمان اور پاکستانی بنیں، اسلام کے رنگ میں رنگ کر ظاہراً نہیں حقیقتاً یک رنگ ہو جائیں۔
اپنی مِلت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
اْن کی جمعیت کا ہے ملک و نسَب پر اِنحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو مِلت بھی گئی