Jasarat News:
2025-06-09@11:37:31 GMT

کینیڈا، پاناما، میکسیکو، گرین لینڈٹرمپ کے نئے محاذ

اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT

کینیڈا، پاناما، میکسیکو، گرین لینڈٹرمپ کے نئے محاذ

امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ رواںماہ عہدہ صدارت سنبھالنے والے ہیں ۔ ان کے بیانات اور انداز سے بالکل بھی نہیں لگتا کہ وہ 4سال کے وقفے کے بعد دوبارہ صدر بن رہے ہیں۔ اپنے گزشتہ دورکی طرح وہ ایک بارپھر جارحانہ عزائم کے ذریعے دنیا کو فکر مند کیے دے رہے ہیںاوراپنے نئے دور کی ڈور وہیں سے جوڑ رہے ہیں ،جہاں 2020ء میں منقطع ہوئی تھی۔ عالمی تنازع سے قطع نظر ٹرمپ نے اس بار جو نئے محاذ کھولے ہیں، ان میں کینیڈا، گرین لینڈ، پاناما نہر اور خلیج میکسیکو شامل ہیں۔ اس سے قبل ٹرمپ گرین لینڈ کو خریدنے کی خواہش کا اظہار کرتے آئے ہیں،تاہم اس بار وہ دھمکیوںپر اتر آئے ہیں۔ اپنے بیان میں انہوں نے گرین لینڈ اور پاناما نہر پر فوج کشی کرکے قبضہ کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔ ٹرمپ نے ان دونوں علاقوں کو امریکی اقتصادی سلامتی کے لیے انتہائی اہم قرار دیا ہے،تاہم وہاں فوجی مداخلت کے امکان کے بارے میں بات کر کے دنیا میں بے چینی کی لہر دوڑ ادی ہے۔ پاناما، گرین لینڈ، ڈنمارک اور کینیڈا نے ٹرمپ کے ان بیانات پر شدید غصے کا اظہار کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب علاقے امریکا کے لیے اتنے اہم کیوں ہیں اور اِن کا کنٹرول سنبھالنے سے ٹرمپ انتظامیہ کو کیا فائدے حاصل ہو سکتے ہیں؟

پاناما نہر
بیسویںصدی میں پاناما کینال کی تعمیر کا کام سنبھالنے اور کئی دہائیوں کے مذاکرات کے بعد 1999 ء میں امریکا نے اس نہرکا مکمل کنٹرول پاناما کے حوالے کر دیا تھا لیکن اب سیکورٹی خدشات کے پیش نظر ٹرمپ اس اہم بحری گزرگاہ پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ پاناما کینال کا انتظام دراصل چین سنبھالے ہوئے ہے جبکہ ہم نے اس کا کنٹرول پاناما کو دیا تھا۔ انہوں نے پاناما کے حکام پر اس تحفے کے غلط استعمال کا الزام عائد کیا۔ تاہم سرکاری اعداد و شمار ٹرمپ کے اس دعوے کی تردید کرتے ہیں۔ پاناما نہر اتھارٹی کے اعدادوشمار کے مطابق اس نہر سے گزرنے والے ٹریفک میں امریکی کارگو کا حصہ 72 فیصد ہے جبکہ 22 فیصد حصے کے ساتھ چین دوسرے نمبر پر ہے۔ چین نے بھی ماضی میں پاناما میں بڑی اقتصادی سرمایہ کاری کی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاناما نہر نہ صرف بحرالکاہل میں امریکی تجارت کے لیے بلکہ مستقبل میں چین کے ساتھ کسی بھی فوجی تنازع کی صورت میں بھی امریکا کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اس سے قبل ٹرمپ نے پاناما اتھارٹی پر یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ وہ اس بحری گزرگاہ کو استعمال کرنے کے عوض امریکی کارگو کمپنیوں سے زیادہ ٹیکس وصول کر رہے ہیں۔ پاناما سٹی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پاناما کے وزیر داخلہ نے ٹرمپ کے بیان کے بعد کہا کہ پاناما کی خودمختاری پر کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی۔پاناما کا کنٹرول صرف اس کے باشندوں کے ہاتھ میں ہے اور مستقبل میں بھی ایسا ہی رہے گا۔

خلیج میکسیکو
ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ خلیج میکسیکو کا نام تبدیل کر کیخلیج امریکاکردیں گے۔ گلف آف میکسیکو کو امریکا کی تیسری بندرگاہ بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ اس کی ساحلی پٹی امریکا کی 5ریاستوں ٹیکساس، لوزیانا، مسیسپی، الاباما اور فلوریڈا سے ملتی ہے۔تاہم میکسیکو والے اس کے لیے ہسپانوی نام الگولفو دی میکسیکو ہی استعمال کرتے ہیں۔ گلف یا خلیج سمندر کے اس حصے کو کہتے ہیں جو 3جانب سے خشکی سے گھرا ہو اور اس میں داخلے کا راستہ بھی ہو۔ عام طور پر خلیج میں داخلے کا راستہ تنگ ہوتا ہے۔ دنیا کے کئی خطوں میں پائی جانے والی خلیج جغرافیے کے ساتھ اس خطے کے سیاسی اور اقتصادی حالات کا بھی تعین کرتی ہیں۔میکسیکو کے علاوہ خلیج فارس، خلیج عدن، خلیج عمان اور وغیرہ اس کی معروف مثالیں ہیں۔ خلیج میکسیکو کا یہ نام گزشتہ چار صدیوں سے چلا آ رہا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ یہ نام اسے ایک مقامی امریکی شہر میکسیکو کے نام پر دیا گیا تھا۔ 2012ء میں مسیسپی کے ایک قانون ساز نے اپنی ریاست کے ساحل سے ملنے والے خلیج کے حصے کا نام تبدیل کر کے گلف آف امریکا کرنے کا بل پیش کیا تھا۔

تاہم بعد میں خود ہی اسے ایک مذاق قرار دے دیا تھا۔ یہ بل ریاست کے قانون ساز ایوان کی کمیٹی کو جائزے کے لیے بھجوایا گیا تھا لیکن اس کی منظوری نہیں دی گئی تھی۔ انٹرنیشنل ہائیڈروگرافک آرگنائزیشن دنیا میں سمندروں اور قابل سفر واٹر باڈیز یا آبی خطوں کے سروے کرنے والی تنظیم ہے اور ان میں سے کئی کو نام بھی دیتی ہے۔ امریکا اور میکسیکو دونوں ہی اس کے رکن ہیں۔نو منتخب صدر اپنے اعلان کے مطابق یک طرفہ طور پر تو گلف آف میکسیکو کو گلف آف امریکا قرار دے سکتے ہیں لیکن دیگر ممالک پر یہ فیصلہ تسلیم کرنا لازمی نہیں ہوگا۔ ٹرمپ کی جانب سے نام کی تبدیلی کے اعلان کے فوری بعد ایوانِ نمائندگان کی جارجیا سے تعلق رکھنے والی رکن مارجری ٹیلر گرین نے ایک پوڈ کاسٹ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے عملے کو گلف آف میکسیکو کا نام بدلنے کے لیے قانون سازی کا مسودہ تیار کرنے کی ہدایت جاری کریں گی۔اس موقع پر میکسیکو کی خاتون صدر کلاڈیا شین بوم نے امریکا کو سخت جواب دیتے ہوئے کہاکہ دنیا کو چاہیے کہ امریکا کا نام میکسیکن امریکا رکھ دے۔انہوںنے اپنی معمول کی پریس بریفنگ میں سترہویں صدی کا نقشہ پیش کرتے ہوئے کہا ازراہ تمسخر کہا کہ امریکا کا یہ نیا نام کیا رہے گا؟

گرین لینڈ
گرین لینڈ ڈنمارک کا ایک خود مختار خطہ اور دنیا کے سب سے کم آبادی والے علاقوں میں سے ایک ہے۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت کے دوران 2019 ء میں گرین لینڈ کو خریدنے کی بات کی تھی۔ڈنمارک کی وزیر اعظم میٹ فریڈریکسن نے اگرچہ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار تو کیا ہے تاہم انہوں نے اس بات بھی زور دیا کہ گرین لینڈ پر صرف اس کے لوگوں کا حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ گرین لینڈ میں خود پر فخر محسوس کرنے والے لوگ ہیں، جن کی اپنی زبان اور ثقافت ہے۔ ٹرمپ کے عزائم جاننے کے لیے گرین لینڈ کی اہمیت معلوم کرنا بہت ضروری ہے۔

گرین لینڈ معدنیات سے مالا مال ملک ہے، تاہم اپنے دو تہائی مالی اخراجات پورے کرنے کے لیے ڈنمارک پر انحصار کرتا ہے۔ ان معدنیات میں کوئلہ، تانبا اور زنک وغیرہ شامل ہیں۔جزیرے کی برف پوش تہوں کے نیچے قیمتی معدنیات کے خزانے بھی موجود ہیں، جن میں یورینیم اور بڑی مقدار میں تیل اور قدرتی گیس شامل ہیں۔گرین لینڈ کا رقبہ 21 لاکھ 66 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ آبادی 57 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ زیادہ تر لوگ ماہی گیری سے وابستہ ہیں۔ جزیرے میں گرین لینڈ کی مقامی زبان کے ساتھ ساتھ ڈینش اور انگریزی بھی بولی جاتی ہے۔

یورپ اور شمالی امریکا کے راستے میں واقع گرین لینڈ پر امریکا کی اس جزیرے کے اہم دفاعی محل وقوع کی وجہ سے نظر ہے۔ امریکا نے سرد جنگ کے آغاز پر اس جزیرے پر ایک فضائی اور راڈار اڈا قائم کیا تھا جو اب خلا پر نظر رکھنے کے لیے اور امریکا کے انتہائی شمالی حصوں پر ممکنہ بلاسٹک میزائلوں کے بارے میں خبردار کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ماحولیاتی تبدیلیوں اور عالمی حدت میں اضافے کے باعث قطب شمالی کا منجمد سمندر جہاز رانی کے قابل ہوتا جا رہا ہے اور اس طرح یہ سمندری راستہ بھی کھل رہا ہے۔ اقتصادی پہلو سے اس کی اہمیت بڑھ رہی ہے، کیونکہ قدیم چٹانیں ظاہر ہونے کے بعد کان کنی سے نئی صنعتیں اور نئے کاروبار قائم ہوں گے اور تجارت کو پھلنے پھولنے کے مواقع میسر آئیں گے۔اس کے علاوہ نایاب دھاتوں کی موجودگی گرین لینڈ کو خاصا اہم بناتی ہے۔ ورلڈ بینک کی پیشگوئی کے مطابق عالمی طلب کو پورا کرنے کے لیے 2050 ء تک ان معدنیات کو نکالنے میں 5گنا اضافہ کرنے کی ضرورت ہو گی ۔ اس لیے صرف امریکا ہی نہیں بلکہ چین بھی ان دھاتوں کی تلاش میں ہے۔ روس بھی اس خطے کو اپنے اور امریکا کے درمیان واقع ہونے کی وجہ سے اسٹریٹجک لحاظ سے انتہائی اہم سمجھتا ہے۔

کینیڈا
حالیہ چند ہفتوں میں ٹرمپ کا تازہ شکار کینیڈا ہے ،جس کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اقتصادی پالیسیاںناکام ہونے کے باعث اپنی ہی پارٹی کے دباؤ پر مستعفی ہوچکے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے متنازع بیان میں کہا کہ کینیڈا کو امریکا میںضم ہوکر امریکی ریاست بن جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کینیڈا کی حفاظت کے لیے امریکا نے اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں جبکہ کینیڈا کی کاروں، لکڑی اور دودھ کی مصنوعات کی درآمد کا مسئلہ بھی حل کیا۔ میکسیکو کی طرح کینیڈا کو بھی ٹرمپ کے آئندہ دور صدارت میں امریکا برآمد کی جانے والی اپنی اشیا پر 25 فیصد تک ٹیرف عائد ہونے کے خطرے کا سامنا ہے۔ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ میکسیکو اور کینیڈا کی سرحدوں سے منشیات امریکا میں داخل ہو رہی ہیں۔ تاہم امریکی اعدادوشمار کے مطابق امریکی اور کینیڈا کی سرحد پر پکڑی گئی فینٹینیل کی مقدار امریکا کی جنوبی سرحد کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔ گوکہ کینیڈا نے امریکا کے ساتھ اپنی سرحد پر سیکورٹی کے حوالے سے نئے اقدامات کرنے کا وعدہ کیا ہے تاکہ منظم جرائم کو کم کیا جا سکے،تاہم ٹرمپ کے متنازع بیانات پر سخت برہمی کا اظہار بھی کیا ہے۔


ٹرمپ کے بیانات کے نتائج کا نتیجہ تو اسی وقت سامنے آئے گا،جب وہ اپنے جارحانہ خیالات کو عملی روپ دینے کی کوشش کریں گے،تاہم ماہرین ایک بار پھر ٹرمپ کو دنیا بلکہ خود امریکا کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ برطانوی اخباردا انڈیپینڈنٹ کے مدیر برائے سیاسی امور ڈیوڈ میڈوکس کا کہنا ہے کہ دنیا کو چاہیے کہ ٹرمپ کی باتوں کو سنجیدگی سے لے۔ یہ ٹرمپ کا سامراجی رویہ ہے، وہ دنیا بھر میں امریکا کے قدم جمانا چاہتے ہیں جو سنگین خطرہ ہے۔ ہم ٹرمپ کی نئی انتظامیہ کو ان کے پہلے دور حکومت سے بہت مختلف انداز میں دیکھیں گے،جو باقی دنیا کے لیے بہت تشویش ناک ہو گا۔دوسری طرف امریکی قومی سلامتی کے سابق مشیر جیمز جیفری کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اپنے بین الاقوامی اتحادیوں اور ملک میں اپنے حامیوں کو سگنل دے رہے ہیں۔ امریکی شہریوںمیں یہ خیال پنپتا جارہا ہے کہ امیر یورپی اتحادی بین الاقوامی سیکورٹی کے تحفظ کے لیے خاطرخواہ اقدامات نہیں کر رہے ہیں۔ تاہم جیمز جیفری نے امریکا کی جانب سے اس ضمن میں کسی بھی فوجی کارروائی یا مداخلت کے امکان کو مسترد کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم گرین لینڈ میں مارچ نہیں کریں گے، ہم کینیڈا میں مارچ نہیں کریں گے، ہم پاناما کینال پر قبضہ نہیں کریں گے، لیکن اس سے کتنا ہنگامہ ہو گا یہ ایک الگ سوال ہے۔ جیمز جیفری نے کہا کہ بین الاقوامی نظام کو خطرہ ڈونلڈ ٹرمپ سے نہیں بلکہ روس اور چین سے ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کا کہنا ہے کہ پاناما نہر پاناما کی امریکا کی کینیڈا کی امریکا کے گرین لینڈ نے کہا کہ انہوں نے کا اظہار کے مطابق کریں گے رہے ہیں کرنے کے کے ساتھ ٹرمپ کے کرنے کی ٹرمپ کا نہیں کر رہا ہے ہے اور کا نام کیا ہے کے لیے

پڑھیں:

کیا امریکا نے تجارتی جنگ میں فیصلہ کُن پسپائی اختیار کرلی؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ایک بات تو پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے اور وہ یہ کہ اُن کے بارے میں کوئی بھی بات پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی۔ وہ کب کیا کر بیٹھیں کچھ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ پالیسی کے حوالے سے اُن کے بہت سے اقدامات نے انتہائی نوعیت کی کیفیت راتوں رات پیدا کردی اور پھر اُنہوں نے یوں پسپائی اختیار کی کہ دنیا دیکھتی ہی رہ گئی۔

بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے اُن کی سوچ انتہائی متلون ہے۔ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ جاتے ہیں اور عواقب کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ انتہائی غیر یقینی شخصیت ہیں اور اِس وصف کے ذریعے امریکا کے لیے مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔

ٹیرف کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اُنہوں نے پہلے تو چین، کینیڈا اور میکسیکو سمیت بارہ سے زیادہ ممالک پر بھاری درآمدی ڈیوٹی تھوپ دی۔ اُن کا خیال تھا کہ درآمدات کو امریکی صارفین کے لیے مہنگا کرکے وہ ملکی صںعتوں کو زیادہ تیزی سے پنپنے کا موقع فراہم کریں گے مگر جو کچھ ہوا وہ اِس کے برعکس تھا۔ جب دوسرے ملکوں نے بھی جوابی ٹیرف کا اعلان کیا تو امریکی مصنوعات اُن ملکوں کے لیے صارفین کے لیے مہنگی ہوگئیں اور یوں امریکی معیشت کو شدید دھچکا لگا۔

صدر ٹرمپ نے جب دیکھا کہ اُن کا اٹھایا ہوا قدم شدید منفی اثرات پیدا کر رہا ہے تو اُنہوں نے قدم واپس کھینچ لیا۔ یوں امریکا نے ٹیرف کے محاذ پر واضح پسپائی اختیار کی۔ اِس پسپائی نے ثابت کردیا کہ امریکا اب من مانی نہیں کرسکتا۔ وہ کوئی یک طرفہ اقدام کرکے کسی بھی ملک کے لیے بڑی الجھن پیدا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ دھونس دھمکی کا زمانہ جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکا کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑ رہا ہے۔

طاقت کا معاملہ بھی “وڑتا” دکھائی دے رہا ہے۔ چین اور روس ڈٹ کر میدان میں کھڑے ہیں۔ اُنہوں نے ثابت کردیا ہے کہ اب امریکی فوج کے لیے کہیں بھی کچھ بھی کرنا آسان نہیں رہا۔ منہ توڑ جواب دینے والے میدان میں کھڑے ہیں۔ دور افتادہ خطوں کو زیرِنگیں رکھنے کی امریکی حکمتِ عملی اب ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ افریقا میں بھی بیداری کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یورپ کی ہچکچاہٹ نے امریکا کی مشکلات مزید بڑھادی ہیں۔

ہمارے سامنے اب ایک ایسی دنیا تشکیل پارہی ہے جس میں امریکا اور یورپ ہی سب کچھ نہیں۔ پوری دنیا کو مٹھی میں بند کرکے دبوچے رکھنے کا زمانہ جاچکا ہے۔ بہت سے ممالک نے خود کو عسکری اعتبار سے مضبوط بنایا ہے۔ پاکستان کو انتہائی کمزور سمجھا جارہا تھا مگر اُس نے فضائی معرکہ آرائی میں بھارت کو ناکوں چنے چبواکر امریکا اور یورپ کو پیغام دے دیا کہ اُسے تر نوالہ نہ سمجھا جائے۔ دنیا بھر میں بھارت کی جو سُبکی ہوئی ہے اُس نے یہ بھی واضح اور ثابت کردیا کہ بھارت عالمی طاقت تو کیا بنے گا، وہ علاقائی طاقت بننے کے قابل بھی نہیں ہے۔

یہ تمام تبدیلیاں دیکھ کر امریکی قیادت بھی سوچنے پر مجبور ہے کہ ٹیرف یا کسی اور معاملے میں من مانی سے گریز ہی بہتر ہے۔ صدر ٹرمپ نے چند ہفتوں کے دوران جو طرزِ فکر و عمل اختیار کی ہے وہ اِس بات کی غماز ہے کہ اب سب کچھ امریکا کے حق میں نہیں رہا۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا میں پاکستانی تاجر کو منشیات اسمگلنگ پر 16 سال قید کی سزا
  • صدر ٹرمپ پر نفرت کا الزام لگانے والا امریکا صحافی معطل
  • کیا امریکا نے تجارتی جنگ میں فیصلہ کُن پسپائی اختیار کرلی؟
  • ’دیر لگی آنے میں تم کو‘، مودی کو جی 7 اجلاس کی دعوت مل ہی گئی
  • چین امریکا تجارتی مذاکرات پیر کو لندن میں ہوں گے
  • عالمی سطح پر شرمندگی کے بعد مودی کو جی 7 اجلاس کا دعوت نامہ مل ہی گیا
  • امریکی عدالت نے حکومتی محکمے کو ذاتی معلومات تک رسائی دیدی
  • ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے سفری پابندیاں، امریکا میں منعقدہ فیفا اور اولمپکس کیسے متاثر ہوں گے؟
  • بلاول بھٹو نے بھارت کیخلاف پاکستان کا مقدمہ ٹرمپ انتظامیہ کے سامنے پیش کردیا
  • چین-کینیڈا تعلقات غیر ضروری مداخلت کا شکار ہوئے، چینی وزیر اعظم