حکمران کینال بنانے سے بازنہ آئے تو پنجاب کے راستے بند کردیں گے ،ڈاکٹرقادرمگسی
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
شہدادپور (نمائندہ جسارت) حکمرانوں کو سندھ دشمن فیصلے کرنے نہیں دے گے کینال بنانے سے باز نہ آئے تو پنجاب کے راستے بند کر دے گے۔سندو دریا پر کینال بنانے میں وفاق کے ساتھ آصف زرداری بھی ملوث ہے۔ ان خیالات کا اظہار سندھ ترقی پسند پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر قادر مگسی نے شہدادپور میں سندو دریا پر پنجاب کی ڈکیتی کے خلاف مہم سندھ ہماری ماں سندھو دریا ہمارا سانس ہے کے عنوان سے جاری عوامی شعور مہم کے احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔انہوں نے کہا کہ سندھ کے وجود کو مٹانے اور یہاں کے 6کروڑ افراد کو مفلس کرنے کے لیے سندو دریا سے غیر قانونی کینال نکال کر پنجاب کی طرف رخ کر کے سندھ کے پانی پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔سندھ کے پانی پر شہباز شریف کی حکومت کے سہولت کار آصف زرداری اور اقتدار پرست جاگیر دار سردار کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ عوام کسی صورت اس منصوبے کو قبول نہیں کریں گے۔ہم اپنے سانس کے آخری دم تک مزاحمت کریں گے۔حکمرانوں کو یہ منصوبہ واپس لینے پر مجبور کر دے گے۔احتجاجی جلسے سے پارٹی رہنماؤں گلزار احمد سومرو، حیدر شاہانی، نثار علی کیریو، ہوت علی، ڈاکٹر سومار منگریو،امتیاز سموں اورخدا بخش درس ودیگر نے بھی خطاب کیا۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
سندھ طاس معاہدہ معطل: پانی کے ہر قطرے پر ہمارا حق ہے اور اس کا دفاع کریں گے، وزیر توانائی
وفاقی وزیر برائے توانائی اویس لغاری نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے اقدام پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پانی کے ہر قطرے پر ہمارا حق ہے اور اس کا دفاع بھی کریں گے۔
وزیر برائے توانائی اویس لغاری نے بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے پر بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کی طرف سے جلد بازی اور اسکے نتائج کی پرواہ کے بغیر معطل کرنا آبی جنگ کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت یہ اقدام اور غیر قانونی ہے۔ وزیر توانائی نے کہا کہ پانی کے ہر قطرے پر ہمارا حق ہے، اور ہم قانونی، سیاسی اور عالمی سطح پر پوری طاقت سے اس کا دفاع کریں گے۔"
سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟
پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم کے حوالے سے 1960ء میں ایک معاہدہ طے پایا تھا جسے سندھ طاس معاہدے کا نام دیا گیا۔ معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے دریاؤں کا پانی منصفانہ تقسیم ہونا تھا۔ اس معاہدے میں ورلڈ بینک بطور ضامن ہے۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق معاہدے کے تحت پنجاب میں بہنے والے تین دریاؤں راوی ستلج اور بیاس پر بھارت کا کنٹرول زیادہ ہوگا۔ اس کے علاوہ دریائے سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کے کنٹرول میں دیا گیا جس کے 80 فیصد پانی پر پاکستان کو حق دیا گیا ہے۔
دونوں ممالک کو دریاؤں کے پانی سے بجلی بنانے کا حق تو حاصل ہے تاہم پانی ذخیرہ کرنے یا بہاؤ کو کم کرنے کا حق حاصل نہیں۔
بھارتی اقدام سندھ طاس معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی
دوسری جانب ذرائع کے مطابق بھارت کا یہ مذموم فیصلہ 1960 کے سندھ طاس کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے کیونکہ معاہدے کی شق نمبر12۔ (4) کے تحت یہ معاہدہ اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا جبکہ دونوں ملک تحریری طور پر متفق نہ ہوں۔
ذرائع کے مطابق بھارت نے بغیر کسی ثبوت اور تحقیق کے پہلگام حملے کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے یہ انتہائی اقدام اٹھایا۔
سندھ طاس معاہدے کے علاوہ بھی انٹرنیشنل قانون کے مطابق Upper riparian , lower riparian کے پانی کو نہیں روک سکتا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960ء میں دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کا پانی منصفانہ طور تقسیم کرنے کیلئے سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا۔ جس میں عالمی بینک بھی بطور ثالت شامل ہے۔
معاہدے کی روح سے بھارت یکطرفہ طور پر یہ معاہدہ معطل نہیں کر سکتا جبکہ انٹرنیشنل واٹر ٹریٹی بین الاقوامی سطح پر پالیسی اور ضمانت شدہ معاہدہ ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل معاہدے کو معطل کر کے بھارت دیگر معاہدوں کی ضمانت کو مشکوک کر رہا ہے، ہندوستان اس طرح کے نا قابل عمل اور غیر ذمہ دارانہ اقدامات کر کے اپنے اندرونی بے قابو حالات سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔