غزہ: جنگ بندی میں 3 گھنٹے کی تاخیر 19 شہادتوں پر منتج
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
غزہ میں جنگ بندی کا آغاز صبح 8.30 بجے ہونا تھا، القدرہ خاندان نے 15 ماہ تک اسرائیلی حملوں کو برداشت کیا تھا، وہ ایک سے زائد مرتبہ بے گھر ہو نے کے بعد ایک خیمے میں رہ رہے تھے، ان کے رشتہ دار اسرائیل کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے 46,900 فلسطینیوں میں شامل تھے۔
لیکن القدرہ خاندان بچ گیا تھا اور وہ گھر واپس جانا چاہتے تھے، احمد القدرہ نے اپنے 7 بچوں کو گدھا گاڑی پر بٹھایا اور مشرقی خان یونس کا رخ کیا، آخر کار بمباری رک چکی تھی اور سفر کرنا اب محفوظ تھا۔
یہ بھی پڑھیں:
لیکن اس گھرانے کو معلوم نہیں تھا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی میں تاخیر ہوئی ہے، وہ نہیں جانتے تھے کہ ان اضافی چند گھنٹوں میں بھی اسرائیلی طیارے غزہ کے آسمان پر اپنے بم گرانے کے لیے تیار تھے۔
احمد کی بیوی حنان نے زور دار دھماکے کی آواز سنی، وہ شہر کے وسط میں ایک رشتہ دار کے گھر پر پیچھے رہ گئی تھی اور اپنا سامان ترتیب دے رہی تھی تاکہ چند گھنٹوں بعد اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ شامل ہوسکے۔
مزید پڑھیں:
حنان کے مطابق دھماکے سے ایسا محسوس ہوا جیسے اس نے میرے دل کو نشانہ بنایا ہو، وہ فطری طور پر جانتی تھی کہ اس کے بچوں کے ساتھ کچھ ہوا ہے، جنہیں اس نے ابھی ابھی الوداع کہا تھا، وہ چیخی؛ میرے بچے، میرے بچے!
گدھا گاڑی اسرائیلی فضائی حملے کی زد پر آئی تھی، حنان کا بڑا بیٹا 16 سالہ عدلی اور اس کی سب سے چھوٹی بیٹی 6 سالہ سما اللہ کو پیارے ہوچکے تھے۔
حنان کی 12 سالہ بیٹی یاسمین نے وضاحت کی کہ ایک 4 پہیوں والی گاڑی اس گاڑی کے آگے تھی جو جنگ بندی کا جشن مناتے ہوئے لوگوں کو لے جا رہی تھی، شاید میزائل داغے جانے کی یہی وجہ تھی۔
مزید پڑھیں:
’میں نے سما اور عدلی کو زمین پر پڑے ہوئے دیکھا، اور میرے والد کا خون بہہ رہا تھا اور وہ بے ہوش تھے۔‘
اس مقام پر دوسرے اسرائیلی میزائل کے ٹکرانے سے قبل یاسمین نے اپنی 8 سالہ بہن اسیل کو باہر نکالا ، 11 سالہ محمد بھی بچ گیا، لیکن بچوں کے والد احمد اور حنان کے زندگی بھر کے ساتھی شوہر، کو اسپتال میں مردہ قرار دے دیا گیا۔
‘میرے بچے میری دنیا تھے’خان یونس کے ناصر اسپتال میں اپنی زخمی بیٹی ایمان کے اسپتال کے بیڈ کے ساتھ بیٹھی حنان ابھی تک صدمے سے حیرت زدہ تھیں، جنگ بندی کہاں ہوئی، یہ تھا ان کا سوال، جو انہوں نے الجزیرہ کی رپورٹر سے پوچھا۔
گھر کے نام پر بچے کچھے ملبے تک واپسی کے جوش میں، القدرہ خاندان نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کا یہ اعلان نہیں سنا کہ فلسطینی گروپ حماس نے 3 اسرائیلی اسیروں کے نام نہیں بھیجے، جنہیں جنگ بندی معاہدے کے تحت اتوار کو رہا کیا جائے گا۔
بدقسمت خاندان نے حماس کی یہ وضاحت بھی نہیں سنی کہ اس ضمن میں تاخیر کی تکنیکی وجوہات تھیں، اور یہ کہ نام فراہم کیے جائیں گے، جیسا کہ بالآخر مطلوبہ نام فراہم کردیے گئے تھے۔
مزید پڑھیں:
وہ نہیں جانتے ہوں گے کہ جنگ بندی پر عملدرآمد میں 3 گھنٹے کی تاخیر میں ان کے خاندان کے 3 افراد جان کی بازی ہار جائیں گے، غزہ کے سول ڈیفنس کے مطابق، وہ ان 19 فلسطینیوں میں شامل تھے جنہیں اسرائیل نے ان پچھلے چند گھنٹوں میں شہید کیا تھا۔
حنان کا چہرہ آنسوؤں میں ڈوب گیا، اب انہیں اپنے شوہر اور 2 بچوں کے بغیر زندگی گزارنا ہوگی، سب سے چھوٹی بیٹی سما کی شہادت ان کے لیے خاص طور پر مشکل تھی۔
سما ان کی سب سے چھوٹی اور سب سے زیادہ بگڑی ہوئی بچی تھی، جبکہ عدلی ان کی معاون مددگار بیٹا تھا، ان کے اس کے بچے ان کی دنیا تھے۔ ’ہم نے بے گھر ہونے اور بمباری کے سخت ترین حالات کا سامنا کرتے ہوئے اس پوری جنگ کو برداشت کیا۔‘
مزید پڑھیں:
حنان نے بتایا کہ ان کے بچوں نے بھوک، خوراک اور بنیادی ضروریات کی کمی کا سامنا کیا۔ ’ہم ایک سال سے زائد عرصہ جاری رہنے والی اس جنگ سے زندہ بچ گئے صرف اس لیے کہ وہ اس کے آخری لمحات میں شہید کردیے جائیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔‘
خوشی کا ایک دن ڈراؤنے خواب میں بدل گیا تھا، القدرہ خاندان نے ایک رات قبل جنگ کے خاتمے کا جشن منایا تھا، کیا اسرائیلی فوج کے لیے ہمارا خون اور 15 مہینوں سے کیے جانے والے مظالم کافی نہیں تھے۔‘
پھر حنان نے اپنے مستقبل کے بارے میں سوچا، اس کے شوہر اور 2 بچے اس سے چھین لیے گئے، اپنی آنکھوں سے آنسو اپنے چہرے پر بہاتے ہوئے، انہوں نے پوچھا کہ اب کیا بچا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل جنگ بندی حماس خان یونس فلسطین ناصر اسپتال.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل خان یونس فلسطین ناصر اسپتال القدرہ خاندان مزید پڑھیں بچوں کے کے لیے
پڑھیں:
جنوبی لبنان میں امریکہ و اسرائیل، یونیفل مشن کے خاتمے کے خواہاں
اپنی ایک رپورٹ میں اسرائیل ھیوم کا کہنا تھا کہ اگست کے مہینے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں UNIFIL کی قسمت کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اسلام ٹائمز۔ عبرانی اخبار اسرائیل هیوم نے رپورٹ دی کہ امریکہ UNIFIL فورسز کی سرگرمیوں سے وابستہ اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جب کہ اسرائیل کا خیال ہے کہ اس وقت ہماری، لبنانی فوج کے ساتھ کافی اور موثر ہم آہنگی موجود ہے اس لئے خطے میں UNIFIL مشن کو جاری رکھنے کی ضرورت نہیں۔ اسرائیل هیوم نے مزید کہا کہ بین الاقوامی فورسز پر مشتمل یہ ادارہ اپنی تشکیل کے وقت سے لے کر اب تک صیہونی رژیم کی جانب سے دہشت گرد قرار دئیے جانے والے عناصر کو کمزور کرنے میں ناکام رہا۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ اگست کے مہینے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں UNIFIL کی قسمت کا فیصلہ کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ UNIFIL، اقوام متحدہ کی نگرانی میں تشکیل پانے والا وہ ادارہ ہے جو جنوبی لبنان میں تعینات ہے۔ جس کا ہدف صیہونی رژیم اور لبنان کی درمیانی سرحد پر دراندازی یا کسی بھی اشتعال انگیزی کو روکنا ہے۔ یاد رہے کہ 8 اکتوبر 2023ء کو غزہ کی پٹی کی حمایت میں "حزب الله" نے اسرائیل کے خلاف وسیع حملوں کا آغاز کیا۔ یہ حملے 23 ستمبر 2024ء کو ایک پُرتشدد صیہونی جنگ میں تبدیل ہو گئے۔ جس کے نتیجے میں 4 ہزار سے زائد لبنانی شہید اور تقریباََ 17 ہزار افراد زخمی ہو گئے جب کہ 14 لاکھ افراد کو بے گھر ہونا پڑا۔ تاہم 27 نومبر 2024ء کو لبنان اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی ہو گئی لیکن اسرائیل بارہا جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتا آیا ہے۔ جنگ بندی کے بعد ہونے والے صیہونی دراندازی کے نتیجے میں اب تک 208 نہتے لبنانی شہید اور 501 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔