سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ آئینی بینچ کے ذریعے عدالتی دائرہ اختیار چھینا گیا۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران ایڈیشنل رجسٹرار کو اُن کی اعترافی غلطی کی بنا پر او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے لیکن جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں قائم بینچ ہی اس مقدمے کی سماعت اور فیصلہ کرے گا۔ عدالت نے اِس مقدمے میں سینیئر وکلا حامد خان اور منیر اے ملک کو عدالتی معاون بھی مقرر کردیا ہے۔

13 جنوری کو جب یہ مقدمہ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سماعت کرنے والے تین رُکنی بینچ کے سامنے آیا تو اُس میں سوال کسٹم ایکٹ کے سیکشن 221 کی ذیلی شق 2 سے متعلق تھا جو کہ کسٹم ایکٹ کو ختم کرنے کے حوالے سے آئینی طریقہ کار سے متعلق ہے۔

یہ بھی پڑھیں ججز اختیارات کیس مقرر نہ کرنے کا معاملہ، سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس عہدے سے فارغ

سپریم کورٹ کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق ایڈیشنل رجسٹرار سے غلطی ہوئی اور اُس نے آئینی بینچ کا یہ مقدمہ ریگولر بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کردیا۔ اس مقدمے میں ایف بی آر درخواست گزار جبکہ ریسپانڈنٹس کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین ہیں۔

فیصلہ تو جسٹس منصور علی شاہ ہی کریں گے، بیرسٹر صلاح الدین

بیرسٹر صلاح الدین نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جب اس مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار ایف بی آر نے اعتراض اُٹھایا کہ یہ مقدمہ آئینی بینچ کا ہے اور وہی اِس کو فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہاکہ سپریم کورٹ فُل کورٹ کے 6 فیصلے ہیں جِن کی رو سے جب کسی بینچ کے اختیارِ سماعت پر سوال اُٹھایا جائے تو وہی بینچ اُس اعتراض سے متعلقہ شق کا فیصلہ کرتا ہے کہ آیا یہ اعتراض درست اُٹھایا گیا یا غلط، اس مقدمے میں اعتراض آرٹیکل 191 اے (آئینی بینچ) کے تحت اُٹھایا گیا ہے تو اِس کا فیصلہ اب وہی بینچ کرےگا۔

بیرسٹر صلاح الدین نےکہاکہ بارہا عدالتی فیصلوں میں یہ کہا گیا ہے کہ عدالتوں کا اختیارِ سماعت تب ہی ختم ہو سکتا ہے جب عدالتوں کا وجود ہی ختم کردیا جائے۔ اس مقدمے میں آئین کے جس آرٹیکل کے تحت اعتراض اُٹھایا گیا ہے، یہی بینچ فیصلہ کرےگا کہ آیا یہ آرٹیکل قابلِ عمل ہے بھی یا نہیں۔

سپریم کورٹ ججز کا اختیار بڑھایا جا سکتا ہے کم نہیں کیا جا سکتا، ایڈووکیٹ کامران مرتضٰی

سینیئر ماہرِ قانون سینیٹر کامران مرتضٰی ایڈووکیٹ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اس مقدمے کا فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سماعت کرنے والا بینچ ہی کرےگا، اگر بینچ تبدیل کیا جاتا ہے تو پھر تو سارا نظام ہی تبدیل ہو جائےگا، جب تک کوئی جج کسی مقدمے کی سماعت سے خود معذرت نہ کرے تب تک اُس سے اختیارِ سماعت واپس نہیں لیا جا سکتا۔

انہوں نے کہاکہ 26 ویں آئینی ترمیم کے شیڈول میں انٹری نمبر 55 میں صاف لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کا اختیار بڑھایا تو جا سکتا ہے کم نہیں کیا جا سکتا۔

مقدمہ ہے کیا؟

13 جنوری کو جب یہ مقدمہ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سماعت کرنے والے تین رُکنی بینچ کے سامنے آیا تو اُس میں سوال کسٹم ایکٹ کے سیکشن 221 کی ذیلی شق 2 سے متعلق تھا جو کہ کسٹم ایکٹ کو ختم کرنے کے حوالے سے آئینی طریقہ کار سے متعلق ہے۔

سماعت کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے عدالتی دائرہ اختیار چھینے جانے سے متعلق سوالات اُٹھائے اور کہاکہ آرٹیکل 191 اے (آئینی بینچ) کے ذریعے سے عدالت سے دائرہ اختیار چھینا گیا، پہلے یہ دیکھنا ہے کہ کیا اس عدالت سے دائرہ اختیارواپس لیا جا سکتا ہے؟

مقدمے میں وکیل صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہاکہ عدالت سے دائرہ اختیار نہیں چھینا جا سکتا، اُنہوں نے کہا کہ آرٹیکل 191 اے آئینی طور پر برقرار نہیں رہ سکتا کیونکہ یہ عدلیہ کی آزادی اور اختیارات کی تقسیم کے اُصولوں کے منافی ہے۔ اس پر عدالت نے اپنے تحریری حکم نامے میں کہاکہ اس مقدمے میں مزید کارروائی سے پہلے آرٹیکل 191 اے کی قانونی حیثیت کا جائزہ لینا ضروری ہے اور اُس کے بعد سماعت 16 جنوری تک ملتوی کردی گئی۔

رجسٹرار آفس سے غلطی؟

16 جنوری کو جب مقدمے کی دوبارہ سماعت ہوئی تو جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ رجسٹرار آفس سے غلطی ہوگئی جو کیس یہاں مقرر ہوگیا، موجودہ کیس میں ہائیکورٹ کا فیصلہ بینچ کے رکن جسٹس عقیل عباسی کا ہے، عدالت نے کہاکہ مقدمے کی ابتدائی سماعت کرنے والے تین رُکنی بینچ کے سامنے مقدمہ سماعت کے لیے مقرر نہ کیا جائے، گزشتہ سماعت پر جسٹس عرفان سعادت بینچ کا حصہ تھے۔ اس کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ نے مقدمے میں معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو ہدایات جاری کیں اور سماعت 20 جنوری تک ملتوی کردی۔

جب مقدمہ سماعت کے لیے مقرر ہی نہ ہوا

20 جنوری کو جسٹس منصور علی شاہ سخت برہم نظر جب اُن کے سامنے مقدمہ سماعت کے لیے مقرر ہی نہ ہوا، اُنہوں نے فوری طور پر ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کو طلب کرلیا۔

مقدمہ میں فریق کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے عدالت کو بتایا کہ کراچی سے صرف اسی کیس کے لیے آیا ہوں لیکن کاز لسٹ جاری نہیں ہوئی، عدالت نے آج کے لیے مقدمہ مقرر کرنے کا حکم دیا تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ایڈیشنل رجسٹرار سے پوچھا کہ جو مقدمہ مقرر کرنے کا حکم دیا وہ کیوں نہیں لگا؟ اس پر ڈپٹی رجسٹرار نے بتایا کہ ججز کمیٹی نے فیصلہ کیاکہ 26 ویں آئینی ترمیم سے متعلق کیس 27 جنوری کو آئینی بینچ میں لگے گا، جس پر جسٹس منصور علی شاہ بولے میں خود بھی کمیٹی کا رکن ہوں مجھے تو کچھ علم نہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ جوڈیشل آرڈر کو انتظامی کمیٹی کیسے اگنور کر سکتی ہے؟ جسٹس عقیل عباسی نے سوال اُٹھایا کیا عدالتی حکم کمیٹی کے سامنے رکھا گیا تھا؟ جس پر ڈپٹی رجسٹرار نے اثبات میں جواب دیا۔

جسٹس عائشہ ملک نے سوال اُٹھایا کہ ہمارے پورے ہفتے کی کاز لسٹ کیوں تبدیل کی گئی؟ اس حوالے سے ڈپٹی رجسٹرار کو توہینِ عدالت سے متعلق اظہار وجوہ کا نوٹس کیا گیا لیکن 20 جنوری کو اس مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ سے جسٹس عائشہ ملک کو تبدیل کردیا گیا اور نیا بینچ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل تشکیل دیا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ کا خط

گزشتہ روز جسٹس منصور علی شاہ کا ایک خط منظرِعام پر آیا جس میں اُنہوں نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے سربراہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کو مخاطب کیا ہے۔

خط میں لکھا ہے کہ 13 جنوری کو جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عرفان سعادت خان کے بینچ میں کچھ کیسز زیر سماعت تھے، ایک کیس کے دوران عدالت کے سامنے ایک اہم سوال اٹھا کہ کیا ریگولر بینچ مذکورہ کیسز کی سماعت کرسکتا ہے؟ عدالت نے وکلا سے اس حوالے سے دلائل طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 16 جنوری تک ملتوی کردی تھی، 16 جنوری کو بینچ دوبارہ تشکیل دیا گیا اور جسٹس عقیل عباسی کو اس بینچ میں شامل کردیا گیا۔

خط میں کہا گیا ہے کہ جسٹس عقیل عباسی نے بطور جج سندھ ہائیکورٹ اسی کیس کا فیصلہ تحریر کیا تو وہ یہ کیس نہیں سن سکتے تھے، ہم نے آفس کو ہدایت جاری کی کہ 20 جنوری کو کیس پہلے سے موجود بینچ کے سامنے مقرر کیا جائے، ہمیں بتایا گیا کہ مذکورہ کیسز فکس نہیں ہو سکتے، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے 17 جنوری کو معاملہ اٹھایا تھا، جسٹس منصور علی شاہ نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ چونکہ انہوں نے آرڈر پاس کردیا ہے لہٰذا ان کا نقطہ نظر ریکارڈ پر موجود ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ ان کے آرڈر کو من و عن تسلیم کیا جائے اور انہیں کمیٹی میں پیش ہونے کی ضرورت نہیں ہے، ہم حیران و پریشان ہیں کہ جوڈیشل آرڈر کے باوجود مذکورہ کیسز آج کسی بھی بینچ کے فکس نہیں ہوئے، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو کوئی ضرورت نہیں تھی کہ اس معاملے کو اٹھاتی، آفس کو صرف یہ ہدایت کی گئی تھی کہ کیسز کو دوبارہ پہلے سے قائم بینچ میں فکس کیا جائے، اگر کمیٹی نے یہ مدعا اٹھایا بھی تھا تو وہ دوبارہ پہلے جیسا بینچ قائم کر کے سماعت کے لیے مقرر کر سکتی تھی، کمیٹی جسٹس عقیل عباسی کی بجائے کسی نئے جج کو شامل کر کے ایک نیا بینچ بھی قائم کرسکتی تھی، کسی بھی صورت میں کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز نہیں کر سکتی تھی۔

یہ بھی پڑھیں سپریم کورٹ بینچز کے اختیارات کا کیس، ایڈیشنل رجسٹرار کو شوکاز نوٹس جاری

خط کے مطابق کمیٹی پر لازم تھا کہ وہ 20 جنوری کے لیے ان کیسز کو کسی بینچ کے سامنے فکس کرتی، ہمارے بینچ کی تمام ہفتے کی کاز لسٹ کو بغیر کسی آرڈر کے تبدیل کردیا گیا، رجسٹرار آفس کی جانب سے جوڈیشل آرڈر کو نہ ماننا نہ صرف ادارے کی عزت کو کم کرنے کے مترادف ہے بلکہ قانون سے بھی انحراف ہے، اس عمل سے عدالت کے بینچز کی آزادی کے حوالے سے سنجیدہ تحفظات پیدا ہوئے ہیں، ایسی حکم عدولی توہین عدالت کے مترادف ہے اور عدلیہ پر عوام کا اعتماد کم کرتی ہے، عدالت کی جانب سے 16 جنوری کو پاس کیے گئے آرڈر پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews آئینی بینچ ایڈیشنل رجسٹرار فارغ بینچز اختیارات جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی دائرہ اختیار وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بینچز اختیارات جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس یحیی ا فریدی دائرہ اختیار وی نیوز جسٹس منصور علی شاہ نے بیرسٹر صلاح الدین نے اس مقدمے کی سماعت سماعت کے لیے مقرر ایڈیشنل رجسٹرار جسٹس عقیل عباسی سماعت کرنے والے جسٹس عائشہ ملک بینچ کے سامنے دائرہ اختیار سپریم کورٹ کسٹم ایکٹ کرتے ہوئے کا اختیار کا فیصلہ عدالت نے حوالے سے جنوری کو عدالت سے یہ مقدمہ کیا جائے نے کہاکہ کرنے کا کہاکہ ا دیا گیا جا سکتا سکتا ہے گیا ہے کیا جا نے کہا سوال ا

پڑھیں:

ایک سال بعد جرم یاد آنا حیران کن ہے، ناانصافی پر عدالت آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی، سپریم کورٹ

ایک سال بعد جرم یاد آنا حیران کن ہے، ناانصافی پر عدالت آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی، سپریم کورٹ WhatsAppFacebookTwitter 0 22 April, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (سب نیوز)سپریم کورٹ میں نو مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر ناانصافی ہو رہی ہو تو ہائی کورٹ کو آنکھیں بند نہیں رکھنی چاہئیں۔
دوران سماعت پنجاب حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی جس پر عدالت نے اپنے اخیارات سے تجاوز کرتے ہوئے ملزمہ کو مقدمے سے بری کر دیا۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ایسے کیسز میں پہلے ہی عدالت ہدایت دے چکی ہے کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ اب یہ مقدمہ کیوں چلایا جا رہا ہے؟۔انہوں نے واضح کیا کہ اگر ناانصافی ہو تو عدالت آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی۔ حتی کہ ہائیکورٹ کو اگر ایک خط بھی ملے تو وہ اپنے اختیارات استعمال کر سکتی ہے۔
جسٹس صلاح الدین نے کہا کہ کریمنل ریویژن میں ہائیکورٹ کے پاس سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔جسٹس اشتیاق ابراہیم نے پنجاب حکومت سے سوال کیا کہ کیا ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟۔معزز جج نے طنزیہ انداز میں کہا کہ کل کو شاید میرا یا کسی اور کا نام بھی نو مئی مقدمات میں شامل کر دیں۔ عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔
اسی نوعیت کے ایک اور مقدمے میں جی ایچ کیو حملے کے کیس میں شیخ رشید کی بریت کے خلاف پنجاب حکومت نے وقت مانگا تاکہ شواہد پیش کیے جا سکیں۔ اس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ التوا مانگنا ہو تو آئندہ اس عدالت میں نہ آنا۔انہوں نے مزید کہا کہ التوا صرف جج، وکیل یا ملزم کے انتقال پر ہی دیا جا سکتا ہے، جبکہ سپیشل پراسیکیوٹر نے اعترافی بیانات پیش کرنے کی اجازت مانگی۔
جسٹس کاکڑ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خدا کا خوف کریں، شیخ رشید 50 بار ایم این اے بن چکا ہے، وہ کہاں بھاگ جائے گا؟۔ زمین گرے یا آسمان پھٹے اس عدالت میں قانون سے ہٹ کر کچھ نہیں ہوگا۔عدالت نے سماعت آئندہ ہفتے مقرر کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے پنجاب حکومت کو واضح پیغام دیا کہ قانونی تقاضے مکمل کیے بغیر محض سیاسی نوعیت کے دلائل قابلِ قبول نہیں ہوں گے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرامریکا کے ساتھ معاشی روابط اور ٹیرف کا معاملہ، وزیرخزانہ کا اہم بیان سامنے آگیا امریکا کے ساتھ معاشی روابط اور ٹیرف کا معاملہ، وزیرخزانہ کا اہم بیان سامنے آگیا سینیٹ اجلاس ہنگامہ آرائی کی نذر، چیئرمین سینیٹ نے ثانیہ نشتر کا استعفیٰ قبول کیا اور معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجوا دیا ایتھوپیا کے سفیر ڈاکٹر جمال بکر عبداللہ کو سیالکوٹ میں بہترین سفیر کے ایوارڈ سے نوازا گیا طعنہ دینے والے ہمارے ووٹوں سے ہی صدر بنے ،بلاول کی حکومت پر سخت تنقید سے متعلق رانا ثنا کا ردعمل نہروں کا معاملہ،خیبرپختونخوا حکومت چشمہ رائٹ کینال منصوبے کیلئے متحرک ہوگئی لیگی وزرا بیان بازی کر رہے ہیں، نواز اور شہباز اپنے لوگوں کو سمجھائیں، شرجیل میمن TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • عمر سرفراز چیمہ وہی ہیں جو گورنر تھے؟ سپریم کورٹ کا استفسار
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ
  • ہائیکورٹ جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
  • ایک سال بعد جرم یاد آنا حیران کن ہے، ناانصافی پر عدالت آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی، سپریم کورٹ
  • ججزٹرانسفرکیس : رجسٹرار سندھ ہائیکورٹ نے سپریم کورٹ آئینی بنچ کو جواب جمع کرا دیا
  • اسلام آباد ہائیکورٹ میں 3 ججز کے تبادلے کیخلاف کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت
  • ججز ٹرانسفر کیس؛ رجسٹرار سندھ ہائیکورٹ کا جواب سپریم کورٹ میں جمع
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں، سپریم کورٹ
  • ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں،ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ کے صنم جاوید کی بریت فیصلے کیخلاف پنجاب حکومت کی اپیل پرریمارکس