بالی وڈ کے سپر اسٹارز عامر خان اور سلمان خان نے بگ باس 18 کے فائنل میں اپنی دوستی اور مزاحیہ انداز سے شائقین کو محظوظ کیا۔ 

عامر خان، اپنے بیٹے جنید خان کی فلم "لوویاپا" کی تشہیر کے لیے شریک ہوئے، جہاں ان کے ساتھ جنید اور کو-اسٹار خوشی کپور بھی موجود تھے۔

شو کے دوران خوشی اور جنید نے دونوں خانز کے درمیان "لوویاپا موومنٹ" کا مشورہ دیتے ہوئے مزاحیہ انداز میں ان سے ایک دوسرے کے فونز چیک کرنے کو کہا۔ عامر نے سلمان سے ان کا فون چیک کرنے کو کہا، جس پر سلمان نے ہنستے ہوئے جواب دیا، "کیا چیک کروں یار؟ یا تو رینا دتہ یا کرن راؤ کا میسج ہوگا!"

فون چیکنگ کے دوران سلمان نے عامر سے کہا، "فون کھولتے ہی تو گر جائے گا۔" عامر نے جواباً کہا، "گر جاؤں تو سنبھال لوں گا، لیکن انڈیا کو گرنے نہیں دوں گا۔" یہ مکالمہ حاضرین کو قہقہوں میں مبتلا کر گیا۔

بعدازاں، سلمان نے بھی عامر کے فون پر چٹکی لیتے ہوئے کہا، "تیرے فون میں کیا ہوگا؟ یا تو رینا یا کرن کا میسج ہوگا!" اس مزاحیہ نوک جھوک نے ان کی دوستی کی مضبوطی اور بہترین کامیڈی ٹائمنگ کو ظاہر کیا۔

شو کے آخر میں، دونوں اسٹارز نے اپنی 1994 کی فلم "انداز اپنا اپنا" کے مشہور بائیک سین کو دوبارہ زندہ کیا، جس کے پس منظر میں گانا "دو مستانے چلے زندگی بنانے" چلایا گیا۔ عامر نے ہنستے ہوئے اس فلم کے سیکوئل کی تجویز دی، جس نے مداحوں کو جوش و خروش میں مبتلا کر دیا۔

 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

اور پھر بیاں اپنا (دوسرا اور آخری حصہ)

(1)۔ مولوی عبدالسلام صاحب سے خواجہ حسن نظامی نے اصرار کرکے تصوف پر ایک ضخیم کتاب لکھوائی، اجرت جس کی دس ہزار روپے طے پائی اور مولوی صاحب نے سات برس کی محنت اور دماغ کا تیل نکال کر روغن بادام کشید کرنے کی جگہ، جو ان کا اصل کام تھا، اس کتاب کا مسودہ تیار کیا اور خواجہ حسن نظامی نے حسب وعدہ روپوں کی ڈھیری (اس وقت چاندی کے روپے چلتے تھے) مولوی عبدالسلام صاحب کے سامنے چن دی۔ تو صرف اتنی سی بات پرکہ کہیں خواجہ حسن نظامی نے ایک جگہ انگلی رکھ کر پوچھا ’’کہ کیا یہ عام مسلمان برداشت کر لیں گے؟‘‘ مولوی عبدالسلام کا ناریل چٹخ گیا، وہیں مسودہ چاک کردیا اور تیوری پہ بل ڈالے بغیر گویا ہوئے۔ خدا خوش رکھے، چائے پلوائیے، ایسا نہ ہو کہ ہماری آپ کی دوستی میں فرق آجائے۔ ہمیں کتاب لکھتے وقت خیال ہی نہ رہا، اسے آپ جیسے صوفی بھی پڑھیں گے۔ ‘‘

(2)۔ ’’ایک جیب کترے تھے جن کا انگوٹھا قینچی کے پھل کی طرح دھاری دار تھا، کلمے کی انگلی پتھر پرگھس کر شیشے کی مانند سخت کر لی تھی۔ بس جہاں ان کی چٹکی لگ جاتی، قینچی کو پیچھے بٹھاتی تھی۔ ایک صاحب کوئی باہر کے خواجہ حسن نظامی کے ہاں آئے اور ان سے شکایت کی کہ دلی کے جیب کتروں کی بڑی دھوم تھی۔ آج ہمیں چار دن دلّی کے بھرے بازاروں میں پھرتے ہوئے ہو گئے، جوک اور یاوڑی بھی ہو آئے، لیکن کسی کی مجال نہ ہوئی کہ ہماری جیب کی طرف نظر اٹھا کر بھی دیکھتا۔

خواجہ صاحب نے ان چٹکی باز کو بلوایا اور ان صاحب سے اس چٹکی باز کا آمنا سامنا کرا دیا۔ اس ہنرمند نے مسکرا کر کہا ’’میرے شاگردوں نے ان کا حلیہ بتایا تھا، چار دن سے یہ اپنے انگرکھے میں اندر کی جیب میں پیتل کی آٹھ اشرفیاں ڈالے گھوم رہے ہیں۔ اب بتائیے جعلی سکوں پر کون اپنی نیت خراب کرے۔‘‘ چٹکی باز کا بیان سن کر وہ بزرگ ششدر رہ گئے۔

(3)۔ پھر علم و فضل کا یہ حال تھا کہ لارڈ کرزن جب ہندوستان میں وائسرائے بن کر آئے تو آزمانے کے لیے ایک عربی زبان کا نول چیلوں کے کوچے کی دھوم سن کر اس محلے میں بھجوا دیا (چیلوں کا کوچہ دراصل ’’کوچۂ چہل امیراں‘‘ کا بگڑا ہوا نام ہے۔ جہاں دلّی شہر کے چالیس امیروں کے نہایت خوبصورت مکانات تھے اور یہ علاقہ گویا ’’بستے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے‘‘ کے مصداق تھا، بڑی شہرت تھی اس علاقے کی) کہ کوئی اس ناول پہ اعراب لگا دے، یعنی معرب کر دے، تو پتا چلے کہ کوئی عربی داں بھی اس میں ہے یا نہیں۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کا جہاں چھاپہ خانہ تھا اسی کے برابر کیکر والی مسجد کے مولوی صاحب جو بچوں کو عربی، فارسی، علم الحدیث پڑھاتے تھے۔

شدہ شدہ یہ ناول ان کے پاس پہنچا، تو وقت عشا کی نماز کے بعد کا تھا، مولوی صاحب نے صبح کی نماز سے پہلے اس ناول پر اعراب لگا دیے۔ اتنی دیر میں اس عرصے میں یہ ناول پڑھا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ لارڈ کرزن نے اپنا سیکریٹری ان مولوی صاحب کے پاس بھیجا اور پچھوایا کہ کیا مولوی صاحب اس کے صلے میں شمس العلما کا خطاب قبول فرمائیں گے؟‘‘

مولوی صاحب نے جواب دیا ’’سخن فہمی عالم بالا معلوم باشد، سبحان اللہ شبلی کو بھی وہی خطاب اور ہمیں بھی وہی خطاب۔‘‘

چنانچہ ساری زندگی مسجد کے ٹکڑوں پر گزار دی اور گمنامی کی زندگی کو خطاب یافتہ ہونے پر ترجیح دی۔ ایسے تھے دلی والے۔ نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ۔ کیسے مستغنی لوگ تھے۔

حکیم عبدالسلام دہلوی جنھوں نے بعد میں اپنے نام کے ساتھ نیازی لگانا شروع کر دیا تھا جن کے نام کا جزو ’’ نیازی‘‘ تھا کے بارے میں بے شمار واقعات ایسے ہیں جنھیں سن کر عقل دنگ رہ جاتی ہے، وہ کسی سے نہ ڈرتے تھے، بہت بڑے عالم، عربی، فارسی، حدیث اور فلسفے کے (ایک واقعہ عزیز میاں قوال کا میں اپنے کسی کالم میں لکھ چکی ہوں کہ کس طرح عزیز میاں دلی گئے، مولانا سے ملے اور پھر ان پر کیا حیرت انگیز واقعات رونما ہوئے) بے مثال استاد تھے۔ غصہ انھیں بہت آتا تھا لیکن غلط بات پر۔ ان کے ایک سے زیادہ روپ تھے۔ زیادہ تر لوگ جو انھیں قریب سے جانتے تھے ان کا خیال ہے کہ مولانا نے انسان کا روپ بدلا ہے۔ ورنہ وہ ہیں کچھ اور۔ وہ بے بدل عالم اور بے سقم استاد تھے۔

(4)۔ ایک دفعہ مولوی صاحب کے گھر سانپ نکل آیا اور آتے ہی اس نے مولوی صاحب کو ڈس لیا، کالا ناگ تھا جیسے خزانے کا سانپ۔ اوپر سے بھی سیاہ اور نیچے سے بھی سیاہ، جس کے دیکھنے سے روح فنا ہو۔ کسی کو یقین نہ تھا کہ مولوی صاحب اب کسی سے پانی بھی نہ مانگ سکیں گے۔ لیکن مولوی صاحب نے یہ کہا کہ جتنے ان کے شاگرد اس وقت وہاں موجود تھے ان سب کو حکم دیا کہ سب فوراً نیچے اتر جاؤ اور کسی کو اوپر نہ آنے دو، جب تک وہ خود اندر سے دروازہ نہ کھولیں اور کہا کہ چوبیس گھنٹے تک اس حادثے کی کسی کو اطلاع نہ دی جائے۔ چوبیس گھنٹے بعد آ کر دیکھیے گا کہ زہر انسان میں زیادہ ہوتا ہے یا سانپ میں اورکس کا زہر کس پر غالب آتا ہے۔

خدا خوش رکھے، چوبیس گھنٹے بعد جب دروازہ کھلا تو دیکھا کہ سانپ مولوی صاحب کے سامنے مرا پڑا ہے اور مولوی صاحب حسب معمول چاق و چوبند، ہشاش بشاش بیٹھے ہیں۔ فرمایا دیکھ لیجیے انسان کا زہر غالب آیا اور یاد کیجیے کہ مارگزیدہ بچ سکتا ہے، البتہ مردم گزیدہ کا بچنا مشکل ہے۔ دونوں مثالیں اس وقت یکجا ہیں۔ کیا بات کی مولوی صاحب نے کہ مردم گزیدہ یعنی انسان کا کاٹا نہیں بچ سکتا۔ ایسے میں غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے:

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسدؔ

ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں

(5)۔1947 کے فسادات میں جب بازار سیتارام کے مسلمانوں کا صفایا ہو گیا تو اس کا اثر ترکمان دروازے تک پہنچا تو سب سمجھ گئے کہ مولوی صاحب بھی گئے۔ لیکن جب تھوڑی سی امید جمی ہوئی اور لوگ گھروں سے نکلے تو دیکھا مولوی صاحب برف سے سفید کپڑے پہنے بقعہ نور بنے چار ابرو کا صفایا کیے موسم کا عطر لگائے کندھے پر رومال ڈالے تانگے پر معمول کے مطابق آگے کی طرف بیٹھے تنہا خواجہ نظام الدین اولیا کے مزار کی طرف چلے جاتے ہیں۔

جب معتقدین نے پوچھا کہ حضرت آپ کہاں تھے؟ تو فرمایا ’’وہیں اپنے مقام پر۔‘‘ کچھ عرصہ کے بعد سنا کہ جو سکھ مولوی صاحب کو ختم کرنے کے لیے ان کے کوٹھے پر چڑھے تھے ان سے مولوی صاحب نے اپنی گرجدار آواز میں کیا کہا کہ سب نے اپنی کرپانیں ان کے قدموں میں ڈھیر کرکے ان کے مرید ہوگئے، اور جب تک فسادات زوروں پر رہے ان کے جان و مال کی حفاظت کرتے رہے۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ دلّی کے ہفتہ وار اخبار ریاست کے مدیر دیوان سنگھ مفتون ہنگامے شروع ہوتے ہی مولوی صاحب کے گھر پہنچے کہ کہیں اس قتل و غارت گری میں کوئی ناعاقبت اندیش مولوی صاحب پر ہاتھ نہ صاف کر دے۔

(6)۔ ایک مرتبہ دہلی میں شاہد احمد دہلوی کے گھر موسیقی کی محفل تھی، اس محفل میں استاد بندوخاں سارنگی نواز سارنگی بجا رہے تھے، کسی نے کہا استاد کیا یہ بات درست ہے کہ دیپک راگ گانے سے آگ لگ جاتی ہے، انھوں نے کہا سنا تو ہے، پھر سارنگی پر گز مار کر بولے ، لیجیے سنیے! اور یہ کہہ کر سارنگی پر دیپک راگ چھیڑ دیا۔ تھوڑی دیر بعد جب استاد گرم ہوئے تو چھت کی کڑیوں میں سے گرم گرم مٹی گرنی شروع ہوگئی اور جس پر گری اسے یوں محسوس ہوا جیسے جلتے ہوئے کوئلوں کی راکھ۔ بھائی شاہد نے استاد بندو خاں کی سارنگی پہ ہاتھ رکھا اور کہا۔ بس استاد! اب کیا چھت کی کڑیاں جلا دیں گے؟

(7)۔ ایک بار ساون کا مہینہ تھا اور بارش نہیں ہو رہی تھی، ملکۂ موسیقی روشن آرا بیگم نے ریڈیو پر گانا تھا، انھوں نے راگ چھیڑا ’’میگھ ملہار‘‘ جسے بارش سے منسوب کیا جاتا ہے، چنانچہ جب روشن آرا بیگم راگ ملہار گاتی رہیں، اسی وقت بارش ہونے لگی اور جل تھل ہوگئے۔

(’’پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا‘‘ سے اقتباس)

متعلقہ مضامین

  • بھارت نے حکومت ِپاکستان کا سوشل میڈیا اکائونٹ بلاک کر دیا
  • اور پھر بیاں اپنا (دوسرا اور آخری حصہ)
  • بھارت کی اوچھی حرکت: حکومتِ پاکستان کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ بلاک کر دیا
  • ماریہ ملک مداحوں سے مخاطب ہونے کا انوکھا انداز سوشل میڈیا پر وائرل
  • پہلگام حملہ: انڈیا میں پاکستان کا سرکاری ’ایکس اکاؤنٹ‘ بلاک کر دیا گیا
  • گارڈ نہ گاڑی، حملے کے بعد سیف علی خان کا چونکا دینے والا انداز، موٹر سائیکل پر نکل آئے
  •    تعمیری انداز میں آگے بڑھیں گے،معاشی روابط بڑھانا چاہتے ہیں،وزیر خزانہ
  • قطری اور مصری ثالثوں کی جانب سے غزہ میں 7 سالہ جنگ بندی کا نیا فارمولا تجویز
  • جارحانہ انداز اپنانا کرکٹ کی ایک خوبصورتی ہوتی تھی، بیٹر کو ذہنی طور پر تنگ کرنا پڑتا ہے: محمد عامر
  • عماد وسیم کا نیا انداز جشن تنقید کی زد میں