UrduPoint:
2025-04-26@03:56:35 GMT

ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی افغان شہریوں کے لیے بڑا دھچکہ

اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT

ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی افغان شہریوں کے لیے بڑا دھچکہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 جنوری 2025ء) ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اس کا جواز یہ پیش کیا کہ تارکین وطن کو ملک میں آباد کرنے سے معاشرے کو درپیش مسائل اور وسائل پر بوجھ میں اضافہ ہو گا۔ ایک ہزار چھ سو ساٹھ ان افغانوں کی امریکہ آمد روک دی گئی ہے جنہیں امریکہ میں آباد ہونے کے لیے اجازت نامہ مل چکا تھا۔ اس فیصلے نے امریکہ میں پناہ گزینوں کے طور پر آباد ہونے کے منتظر ہزاروں افراد بشمول پاکستان میں عارضی طور پر مقیم افغان باشندوں کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے۔

ٹرمپ کے پہلے ایگزیکٹو آرڈرز ان کی ترجیحات کے مظہر

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق امریکی سابق فوجیوں اور ایڈوکیسی گروپوں کے اتحاد کے سربراہ شان وان ڈائیور اور ایک امریکی عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ گروپ میں بچے بھی شامل ہیں جو امریکہ میں اپنے خاندانوں سے دوبارہ ملنے کے منتظر ہیں اور وہ افغان شہری بھی جنہیں طالبان سے انتقامی کارروائی کے خطرات لاحق ہیں، کیونکہ انہوں نے سابق امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کا ساتھ دیا تھا۔

(جاری ہے)

وان ڈائیور کا کہنا تھا، ''یہ ان خاندانوں اور افراد کے لیے تباہ کن ہے جن کو امریکہ میں آبادکاری کے لیے پہلے ہی منظوری مل چکی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ منظوری مل جانے کے باوجود انہیں پاکستان یا افغانستان سے پروازیں نہیں مل رہی ہیں۔ متاثرین میں امریکی فوج میں فعال کردار ادا کرنے والے افغان اہلکاروں کے اہل خانہ بھی شامل ہیں۔

امریکہ: تارکین وطن کے لیے میکسیکو کی سرحد عارضی طور پر بند کرنے کا فیصلہ

وان ڈائیور نے کہا کہ ان میں مہاجرین یا افغان والدین کے، تقریباً دو سو بچے بھی ہیں، جنہیں امریکی انخلا کے دوران اکیلے ہی امریکہ لے جایا گیا تھا۔

پناہ گزین پروگراموں کی نگرانی کرنے والے امریکی محکمے اور محکمہ خارجہ نے تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا فوری طور پر جواب نہیں دیا۔

ٹرمپ انتظامیہ نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟

پرواز کی منسوخی ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر کے نتیجے میں ہوئی ہے، جس میں کم از کم چار ماہ کے لیے امریکی پناہ گزینوں کے پروگراموں کو معطل کیا گیا ہے۔ یہ ٹرمپ کے دوسری مدت کے لیے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد انتظامیہ کی پہلی کارروائیوں میں سے ایک ہے۔

امریکہ افغان ’صدمے‘ سے نکلے اور نئے خطرات سے نمٹے، مطالعہ

ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران امیگریشن پر کریک ڈاؤن کرنے کا بڑا وعدہ کیا تھا، جس سے امریکی پناہ گزین پروگراموں کا مستقبل غیر یقینی ہو گیا ہے۔

نئی وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ کے مطابق تارکین وطن کو ملک میں آباد کرنے سے کمیونٹی کو درپیش مسائل اور وسائل پر پڑنے والے بوجھ کا حوالہ دیتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے پناہ گزینوں کی آبادکاری کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایڈووکیسی گروپوں کو خدشہ ہے کہ ٹرمپ کی انتظامیہ کے اس فیصلے سے لوگوں کو طالبان کی طرف سے انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

فیصلے کی نکتہ چینی

امریکی کانگریس کی فارن ریلیشنز کمیٹی میں اقلیتی ڈیموکریٹس نے سوشل میڈیا ایکس پر ایک پوسٹ میں اس فیصلے کی نکتہ چینی کی۔ بیان میں کہا گیا،''تصدیق شدہ افغان اتحادیوں کو طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑنا شرمناک ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ''یہ فیصلہ امریکی قیادت پر عالمی اعتماد کو مجروح کرتا ہے اور مستقبل کے اتحاد کو خطرے میں ڈالتا ہے۔

‘‘

خیال رہے اگست 2021 میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے بعد سے، بائیڈن انتظامیہ کے دور میں تقریباً 200,000 افغان باشندوں کو امریکہ لایا گیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر کے طور پر اپنی پہلی مدت کے دوران، ایک ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کیے تھے، جس میں چھ مسلم اکثریتی ممالک کے لوگوں کو ملک میں داخلے سے روک دیا گیا تھا۔ اس اقدام کے نتیجہ میں ہزاروں مہاجرین کینیا، تنزانیہ اور اردن کے کیمپوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔

ج ا ⁄ ص ز، ک م (روئٹر‍ز، خبر رساں ادارے)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امریکہ میں ٹرمپ کی کے لیے

پڑھیں:

تعلیمی خودمختاری کیلئے ہارورڈ کی جدوجہد

اسلام ٹائمز: ہارورڈ یونیورسٹی کی ٹرمپ حکومت کے خلاف جدوجہد درحقیقت یونیورسٹی کی طاقت اور سیاسی طاقت کے درمیان بنیادی ٹکراو کا مظہر ہے۔ یہ جدوجہد امریکہ اور دنیا بھر میں اعلی تعلیم کے مستقبل اور تعلیمی آزادی پر گہرے اثرات کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے خلاف مزاحمت کر کے اپنی خودمختاری کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ تنقیدی طرز فکر، علم کی پیدائش اور سماجی تبدیلی کے مراکز کے طور پر اپنا کردار ادا کر پائیں گی۔ لیکن اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں تو وہ تسلط پسندانہ نظام کے آلہ کار میں تبدیل ہو جائیں گی جس کے نتیجے میں جمہوریت کمزور اور عدم مساوات اور بے انصافی فروغ پا جائے گی۔ تحریر: علی احمدی
 
دوسری عالمی جنگ کے بعد کے عشروں میں مارکسزم اور سرمایہ داری کے خلاف نظریات کی جانب محققین کے ممکنہ رجحان کے خوف کے باعث امریکی حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر نے وسیع پیمانے پر یونیورسٹیوں پر پیسہ خرچ کیا۔ اس مالی امداد کا مقصد ایک ایسے "پرامن" اور "کنٹرول شدہ" تعلیمی ماحول کی فراہمی تھی جس میں محققین مخالف نظریات اور مکاتب فکر کے خلاف علمی نظریات متعارف کروا سکیں۔ مثال کے طور پر امریکہ کے معروف فلاسفر نوام چامسکی کے بقول 1960ء اور 1970ء کے عشروں میں MIT کا زیادہ تر بجٹ امریکی وزارت دفاع فراہم کرتی تھی جبکہ یہ بجٹ وصول کرنے والے زیادہ تر محققین ویت نام جنگ کے مخالف تھے۔ یہاں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مالی امداد دراصل محققین کو امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات سے ہمسو کرنے کے لیے انجام پا رہی تھی۔
 
لیکن چونکہ علمی اداروں اور ماہرین کی ذات میں تنقیدی انداز اور سوالات جنم دینا شامل ہوتا ہے لہذا اس خصوصیت نے ہمیشہ سے سماجی تبدیلیاں اور تحولات پیدا کرنے میں اہم اور مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ 1960ء اور 1970ء کے عشروں میں بھی امریکہ کی مین اسٹریم یونیورسٹیاں جنگ مخالف تحریک کا مرکز بن چکی تھیں اور یونیورسٹی طلبہ اور اساتید جنگ مخالف مظاہروں، دھرنوں اور وسیع احتجاج کے ذریعے ویت نام میں امریکہ کی جارحانہ پالیسیوں کو چیلنج کر رہے تھے۔ اس تحریک کے نتیجے میں نہ صرف ویت نام میں امریکہ کے جنگی جرائم منظرعام پر آئے بلکہ امریکی معاشرے کی رائے عامہ میں جنگ کے خلاف نفرت پیدا ہوئی اور حکومت جنگ ختم کرنے کے لیے شدید عوامی دباو کا شکار ہو گئی۔ اس جنگ مخالف طلبہ تحریک کا واضح اثر حکومتی پالیسیوں پر ظاہر ہوا اور امریکی حکومت ویت نام جنگ ختم کرنے پر مجبور ہو گئی۔
 
ریگن کا انتقام اور نولبرل ازم کا ظہور
ریگن حکومت نے یونیورسٹیوں میں جنگ مخالف تحریک کی طاقت اور اثرورسوخ کا مشاہدہ کرتے ہوئے یونیورسٹیوں سے انتقام لینے اور ان کا بجٹ بند کر کے اس کی جگہ طلبہ و طالبات کو قرضے دینے کا فیصلہ کیا۔ امریکی حکومت کے اس اقدام نے امریکہ کی اعلی تعلیم کو شدید دھچکہ پہنچایا۔ امریکی حکومت نے اپنے اس اقدام کا جواز نولبرل ازم پر مبنی پالیسیوں کے ذریعے پیش کیا اور دعوی کیا کہ وہ معیشت کے میدان میں مداخلت کم کر کے باہمی مقابلہ بازی کی فضا کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ دوسری طرف یونیورسٹیوں کا بجٹ کم ہو جانے کا نتیجہ فیسوں میں بڑھوتری، تعلیمی معیار میں گراوٹ اور نچلے اور درمیانے طبقے کے لیے تعلیمی مواقع کم ہو جانے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ مزید برآں، ریگن حکومت نے یونیورسٹیوں پر دباو ڈال کر امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات سے ہمسو تحقیقات انجام دینے پر زور دیا۔
 
یوں ریگن حکومت نے یونیورسٹی طلبہ اور محققین کی فکری خودمختاری اور عمل میں آزادی کو محدود کرنے کی کوشش کی۔ ان پالیسیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکومتوں نے یونیورسٹیوں کو تسلط پسندانہ نظام کے آلہ کار میں تبدیل کرنے اور تنقیدی طرز فکر ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔
غزہ اور طلبہ تحریک کا احیاء
غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر عام شہریوں کا قتل عام امریکہ میں طلبہ تحریکوں کے احیاء کا باعث بنا ہے۔ ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے طلباء اور اساتید نے احتجاجی مظاہروں، دھرنوں اور کانفرنسوں کے ذریعے غزہ میں اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات کی مذمت کی ہے اور امریکی حکومت سے اس جرائم پیشہ رژیم کی حمایت ترک کر دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ میں یہ طلبہ تحریک دنیا بھر کی حریت پسند اور انصاف پسند تحریکوں سے متاثر ہوتے ہوئے ظلم و ستم کے خلاف مزاحمت اور قیام کی علامت بن گئی ہے۔
 
دوسری طرف امریکی حکومت نے یونیورسٹیوں پر دباو اور دھونس کے ذریعے اس تحریک کو کچلنے کی کوشش کی ہے۔ امریکی یونیورسٹیوں کو بجٹ روک دینے کی دھمکیوں، طلبہ کو نکال باہر کیے جانے اور قانونی پابندیوں کے ذریعے طلبہ تحریک ختم کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ان اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات اور جمہوری اقدار اور آزادی اظہار میں بہت زیادہ فاصلہ پایا جاتا ہے۔
ہارورڈ ٹرمپ آمنے سامنے، یونیورسٹی کی خودمختاری کی جدوجہد
ہارورڈ یونیورسٹی دنیا کی سب سے زیادہ قابل اعتماد اور امیر یونیورسٹی ہے اور اب وہ ٹرمپ حکومت کے خلاف مالی امداد روک دینے پر قانونی کاروائی کر کے حکومتی دباو کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکی ہے۔ اس قانونی کاروائی کا تعلق صرف یونیورسٹی کی خودمختاری اور آزادی اظہار سے ہی نہیں بلکہ اس نے ٹرمپ حکومت کی امتیازی اور آمرانہ پالیسیوں کو بھی چیلنج کیا ہے۔
 
ہارورڈ یونیورسٹی کی ٹرمپ حکومت کے خلاف جدوجہد درحقیقت یونیورسٹی کی طاقت اور سیاسی طاقت کے درمیان بنیادی ٹکراو کا مظہر ہے۔ یہ جدوجہد امریکہ اور دنیا بھر میں اعلی تعلیم کے مستقبل اور تعلیمی آزادی پر گہرے اثرات کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے خلاف مزاحمت کر کے اپنی خودمختاری کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ تنقیدی طرز فکر، علم کی پیدائش اور سماجی تبدیلی کے مراکز کے طور پر اپنا کردار ادا کر پائیں گی۔ لیکن اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں تو وہ تسلط پسندانہ نظام کے آلہ کار میں تبدیل ہو جائیں گی جس کے نتیجے میں جمہوریت کمزور اور عدم مساوات اور بے انصافی فروغ پا جائے گی۔ لہذا امریکہ میں یونیورسٹیوں کا موجودہ بحران معاشرے میں اس تعلیمی مرکز کے کردار میں گہری تبدیلی کا شاخسانہ ہے۔ یونیورسٹیاں عالمی سطح پر محققین کے کارخانے اور نرم طاقت کے آلہ کار سے سیاسی اور سماجی قوتوں کے درمیان جنگ کا میدان بن چکی ہیں۔ یہ جنگ امریکی یونیورسٹیوں کی تقدیر کا فیصلہ کرے گی۔

متعلقہ مضامین

  • تجارتی جنگ: ٹرمپ کا صدر شی سے گفتگو کا دعویٰ، چین کا انکار
  • امریکہ نئے دلدل میں
  • پاکستان آنے کیلئے جواصول دنیا کیلئے وہی افغان شہریوں کیلئے بھی ہیں، طلال چوہدری
  • افغان باشندے دوبارہ پاکستان آنا چاہیں تو ویزا لے کر آ سکتے ہیں: طلال چوہدری
  • پاکستان آنے کیلئے جواصول دنیا کیلئے وہی افغان شہریوں کیلئے بھی ہیں: طلال چودھری
  • تعلیمی خودمختاری کیلئے ہارورڈ کی جدوجہد
  • پشاور: افغان مہاجرین کی واپسی مدت میں توسیع کی قرارداد منظور، افغان پالیسی پر نظرثانی کا مطالبہ
  • امریکی عدالت نے وائس آف امریکہ کی بندش رکوادی، ملازمین بحال
  • وائس آف امریکا کی بحالی کا عدالتی حکم، ٹرمپ انتظامیہ کا اقدام ’من مانا اور غیر آئینی‘ قرار
  • وائس آف امریکا کی بحالی کا عدالتی حکم، ٹرمپ انتظامیہ کا اقدام ’من مانا اور غیر آئینی‘ قرار