Express News:
2025-05-30@17:42:04 GMT

حرمین شریفین میں سوشل میڈیا کا ناسور

اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT

اللہ رب العزت نے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 96 اور 97 میں ارشاد فرمایا ہے کہ " بے شک اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا ہے (عبادت، قربانی، طواف، نماز اور اعتکاف وغیرہ کے لیے) وہ جو مکہ مکرمہ میں ہے جو تمام دنیا کے لیے برکت و ہدایت والا ہے جس میں کُھلی نشانیاں ہیں اور مقام ابراہیم ہے اور جو شخص اس میں داخل ہو جائے اس کو امن مل جاتا ہے"۔

بلا شک و شبہ مکان کی شہرت، عظمت، خاصیات و خصوصیات اور مکان سے محبت و عقیدت کا دارومدار صاحب مکان پر موقوف ہوتا ہے۔ زمان و مکان اور مقام سے ماورا اللہ رب العزت کی ذات کا احاطہ ممکن نہیں۔ مگر خالصتاً اللہ رب العزت کی عبادت کی وجہ سے مساجد کی حیثیت اور اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے اللہ کا گھر کہا جاتا ہے۔ زمین کا جو ٹکڑا مسجد کے لیے وقف ہوجائے وہ تاقیامت مخلوق کی ملکیت سے نکل جاتا ہے حتیٰ کہ وہ کسی ملک یا ریاست کا حصہ نہیں رہتا۔ ہر مسجد مرکز ذکر الٰہی ہے مگر بیت اللہ شریف کی حیثیت ممتاز ہے اور اس کا موازنہ دنیا کی دوسری مسجد سے نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی تجلیات کا مرکز و محور ہے، روئے زمین پر پہلی عبادت گاہ اور انبیائے کرام کی سجدہ گاہ ہے۔ مسجد الحرام و بیت اللہ مرکز اسلام، مرکز نزول وحی ہے۔

روئے زمین پر سب سے مقدس ترین اور باعظمت مقام اور قبلہ ہے۔ اللہ کا یہ گھر سعودی عرب کے اس شہر مکہ میں ہے اللہ تعالیٰ نے جس کی قرآن کریم میں قسمیں کھائی ہیں۔ ظہور اسلام سے آج تک اور آج سے قیامت کی صبح تک آنے والے تمام مسلمانوں کے لیے بیت اللہ کے بعد سب سے قابل تعظیم مقام مسجد نبوی اور مدینہ منورہ ہے۔ مدینہ منورہ کی حیثیت ہجرت ِ گاہِ رسول ﷺ بننے سے پہلے ایک زرعی شہر سے زیادہ نہیں تھی مگر ہجرت گاہ رسول عربی ﷺ بننے کے بعد اس کی عظمت وعزت میں چار چاند لگ گئے، اس شہر کو پہلے یثرب کہا جاتا تھا، لیکن جب اسے قیام گاہ سرکار دو عالم ﷺ کے طور پر چن لیا گیا تو اس کا نام ’’مدینہ‘‘ پڑگیا اورنبی اکرمﷺ کی نورانیت سے ’’منورہ‘‘ بن گیا، اور پھر آنجناب کی توجہات کی وجہ سے مدینہ کی مختلف فضیلتیں امت کے سامنے آئیں۔

 مدینہ کے ساتھ الرسول لگایا جائے تو الگ فضیلت، الطیبہ پڑھایا جائے تو الگ فضیلت، دارالہجرکہا جائے تو مستقل فضیلت، حرمِ رسول اللہﷺ کہا جائے تو الگ فضیلت ہے۔ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور آس پاس کا علاقہ حجاز مقدس کہلاتا ہے یہ وہ علاقہ ہے جہاں اللہ کے آخری رسولﷺ نے سفر وحضر گزارے، جہاں وحی الٰہی اترتی رہی، نزول قرآن ہوتا رہا، دین اسلام کی اشاعت و ترویج یہیں سے شروع ہوئی جس کا ذکر احادیث نبویﷺ میں وضاحت سے موجود ہے۔ جہاں سب سے پہلے دین اسلام پر عمل ہوا، جہاں صحابہ کرامؓ کے شب و روز گزرے اور انتہائی تنگدستی کی حالت میں دین اسلام کے لیے قربانیاں دی گئیں، بدر وحنین، خندق اور احد کی جنگیں ہوئیں، جہاں سے دنیا میں دین پھیلا اور آخر کار پوری دنیا سے سکڑ کر ختم ہو گا تو قیامت قائم ہو گی۔ حرمین شریفین کے مقام اور شرف و فضیلت کے متعلق قرآن پاک کے علاوہ احادیث، سیرت اور تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔

اگرچہ حرم مکہ اور حرم مدینہ کے درمیان فقہی اعتبار سے فرق ہے، لیکن تعظیم و تکریم اور عزت و شرف کے اعتبار سے مکہ اور مدینہ کا حرمین شریفین ہونا متفق علیہ بات ہے، مدینہ منورہ کے قیام گاہ نبوی بننے کے بعد جس طرح دین مبین کو غلبہ حاصل ہوا، جس طرح انصار مدینہ اور مہاجرین نے مشرق سے مغرب تک پورے عالم کو اپنے زیر اثر کیا، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، بلکہ بخاری شریف کے باب فضل المدینہ کی حدیث نمبر 1871 میں سرکار دو عالمﷺ کا ارشاد بیان کیا گیا ہے،"مجھے ایک ایسی بستی کی طرف ہجرت کا حکم دیا گیا ہے، جو تمام بستیوں پر غالب رہے گی"۔ حضور اکرمﷺ کے زمانے سے لے کر آج تک مسلمان ان مقدس ترین مقامات پر حج یا عمرے کی صورت میں حاضری سعادت سمجھ کر دیتے آئے ہیں،آج بھی روئے زمین پر جتنے بھی مسلمان آباد ہیں، ان کے دلوں میں ہمہ وقت حرمین شریفین کی حاضری کی خواہش مچل رہی ہوتی ہے اور یہ سلسلہ قیامت کی صبح تک اسی طرح جاری و ساری رہے گا۔ انشاء اللہ۔

میں جب پہلی بار حج پر جارہا تھا تو اپنے مرشد و مربی باباجان حضرت ڈاگئی باباجیؒ سے راہنمائی لینے کے لیے حاضر ہوا تو انھوں نے سمندر کو کوزہ میں بند کرکے پورے حج کے حوالے سے ہدایات دیں۔ انشاء اللہ ان ہدایات پر ایک مکمل کالم لکھوں گا مگر یہاں صرف موضوع کی مناسبت سے بات کرونگا۔ باباجانؒ نے فرمایا "یاد رکھو طواف وہ عبادت ہے جس کا موقع قسمت والوں کو ملتا ہے اور صرف بیت اللہ شریف میں ادا کیا جاسکتا ہے اس لیے حج کے دوران جب بھی موقع ملے طواف کریں مگر یہ یاد رکھیں کہ طواف نماز کی طرح ایک عبادت ہے جس میں چلنے کی اجازت ہے، طواف کے دوران نظر جھکا کر عاجزی کے ساتھ چلنا ہے۔

 سورہ فاتحہ، سورہ اخلاص پڑھتے اور مسنون دعائیں مانگنا، ندامت و شرمندگی اور درد دل سے توبہ و استغفار کرتے چلنا اور اللہ رب العزت سے اپنی حیثیت اور سوچ کے مطابق نہیں بلکہ اس کی شان کے مطابق مانگنا، حجر اسود کو اللہ تعالیٰ اپنے دائیں ہاتھ سے تشبیہ دیتے ہیں اس لیے اللہ رب العزت سے بوسہ مانگنا انشاء اللہ ضرور اللہ شرف بوسہ سے نوازے گا۔ یہ یاد رکھیں کہ حرمین شریفین میں اللہ تعالیٰ نیکیوں کو ضرب دیتا ہے مگر گناہوں کو بھی ضرب دیتے ہیں اس لیے گناہوں سے دامن مکمل بچا کر چلنا۔ ایسا نہ ہو کہ خسارے میں واپس لوٹیں"۔ پہلے دن میں آخری منزل پر کھڑے ہوکر اس روحانی منظر کو اپنے موبائل کے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے کی نیت سے اپنی اہلیہ ام ابوبکر کے ساتھ ایک تصویر بنائی اور تصویر بناتے ہی مجھے باباجانؒ کی گناہ کو ضرب دینے والی بات یاد آگئی تو میرے دل پر عجیب کیفیت طاری ہوگئی اور فوراً تصویر ڈیلیٹ کرکے طواف شروع کیا اور اللہ سے اس گستاخی کی معافی مانگتا رہا۔ اسی طواف کے دوران میرا بلیک بیری موبائل گر گیا۔ یہ زندگی کا پہلا نقصان تھا جس پر میں نے اللہ رب العزت کا شکر ادا کیا کہ اس گناہ کا ذریعہ ہی ختم ہوا جس پر میں نادم تھا۔

مگر امت کی بدقسمتی کہ آج بیت المعور کے بالکل نیچے بیت اللہ کے گرد طواف کی مقدس و ارفع عبادت کے علاوہ حرمین شریفین میں تمام عبادات اور قیمتی لمحات سوشل میڈیا کے ناسور کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں، سوشل میڈیا ایک بڑی قباحت کا روپ دھار چکی ہے جو ہماری عبادات کو کھائے چلی جارہی ہے کیونکہ ان مقامات پر حاضری دینے والوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو ان مقدس ترین اور قابل احترام مقامات پر حاضری کے آداب کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتی۔

عبادت کی بجائے حرمین شریفین میں فوٹوشوٹ، ویڈیوز اور ٹک ٹاک بناتے ہیں۔ مسلمان بیت اللہ شریف اور روضہ اطہر پر حاضری کے وقت ذکر و اذکار، قرآن کریم کی تلاوت، نوافل وغیرہ کو چھوڑ کر موبائل جیب سے نکال کر ٹک ٹاک بنانے میں مصروف ہوتے ہیں، اپنے دوستوں اور رشتے داروں کو کالز ملا کر اپنا انتہائی قیمتی وقت برباد کررہے ہوتے ہیں۔ لوگوں نے اس قبیح دجالی فعل کو عبادت کا حصہ سمجھ لیا ہے، سوشل میڈیا نے ہماری معاشرتی اقدار کے ساتھ ساتھ مذہبی اقدار اور عبادات کو بھی بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

یہ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ان قبیح دجالی حرکتوں سے ہم اپنی عبادات کو داؤ پر لگا کر اللہ اور شافع محشر رسول مقبولﷺ کی ناراضگی مول لے رہے ہیں، مسلمانو! خدارا ہوش کے ناخن لیں، سوشل میڈیا کے پھیلتے اس دجالی ناسور اور ان قبیح حرکتوں کے سد باب کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ سعودی عرب کی حکومت بھی اس پر سخت ایکشن لے۔ حرم کعبہ اور حرم مسجد نبوی میں موبائل فون کے استعمال پر پابندی عائد کی جائے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: حرمین شریفین میں اللہ رب العزت سوشل میڈیا اللہ تعالی بیت اللہ کے ساتھ جائے تو ہے اور

پڑھیں:

اتحاد و اتفاق وقت کی اہم ضرورت

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو، جیساکہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم پر اسلام ہی کی حالت میں موت آنی چاہئے، سب مل کر اللہ کی رسی کو تھام لو، پھوٹ نہ پیدا کرو اور اپنے اللہ کے اس انعام کو یاد کرو کہ تم آپس میں دشمن تھے، پھر اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اللہ کے کرم سے بھائی بھائی بن گئے، نیزتم دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، تو اللہ تعالیٰ نےتمہیں اس سےنکالا، اللہ تعالیٰ اسی طرح تم لوگوں کو احکام بتاتا رہتا ہےتاکہ تم ہدایت پرقائم رہو(سورہ آلِ عمران102-103) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں،لہٰذا اپنےدوبھائیوں کےدرمیان میل ملاپ کرادیا کرو (سور الحجرات:10) یہ نہایت ہی اہم فریضہ ہے، افسوس کہ اس کی اہمیت اور معاشرے کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کا نہ ادراک ہے اور نہ احساس۔
حضرت ابودردا ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ کیا میں تمہیں روزہ، صدقہ اور زکوۃ سے بھی افضل چیزبتائوں؟ ہم لوگوں نےعرض کیا: کیوں نہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا وہ ہے باہمی خلش کودورکرنا اور صلح کرناموجودہ دور میں اتحادوقت کی اہم ترین ضرورت ہے قرآن مقدس اور سنت رسول اللہ ﷺ نےجابجا اس کی تعلیم و تلقین فرمائی ہے، آج پوری دنیا اختلاف وانتشار کی وجہ سےجوحالات پیش آرہے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں،ہمارے آپسی عدم اتفاق کی وجہ سے مختلف مقامات پر مسلمانوں کو ظلم وبربریت کا نشانہ بنایاجارہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمان تو ضرور ہیں لیکن عمل سے ہماری زندگی خالی ہے اور تعلیم قرآن و سنت نبوی ﷺ سے ہم بہت دور ہیں، ہماری صفوں میں اتحاد و اتفاق باقی نہیں رہا ،ہم مسلکی و جزوی اختلافات میں منقسم ہوگئے،آج ہم سیاسی و مذہبی انتشار و خلفشار کی وجہ سے دلوں میں نفرت رکھتے ہیں اور یہ نفرت کم ہو نے کا نام ہی نہیں لے رہی بلکہ بڑھتی جارہی ہے۔
اس جدید دور میں سیاسی انتہاپسندی و فرقہ واریت نے ہمیں اندرسے کھوکھلا اور کمزور بنادیا ہے جس کی وجہ سے ہماری دنیا میں آج عزت نہیں رہی،پہلی وجہ یہ کہ ہم نے اتحاد و اتفاق کا دامن چھوڑا، پھر ہم ادب واحترام کا رشتہ ہی بھول گئےجس کی وجہ سے تنزلی ہمارا مقدر ٹھہری، جبکہ مذہب اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ اتحاد و اتفاق کا درس دیا ہے، دین اسلام میں اختلاف رائےجہاں ممدوح ہے، وہیں لسانیت اور علاقائیت کی بنیاد پر اختلاف کو ناپسند کیا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے، اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں اختلاف مت کرو، کہ تم کمزور ہوجائو اورتمہاری ہوا نکل جائے، اور صبر کرو بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے،ان آیات سے ہمیں یہ صاف اور واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے ہمیں اختلاف اور تفرقہ بازی سے روکا ہے، نیز یہ بھی بتلادیا کہ اگر تم نے آپس میں اختلاف کیا تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ اور وہ نتیجہ مسلمانوں کا کمزور ہوجانا اور انکی اس طاقت کاجو اتحاد امت کی وجہ سےتھی ختم ہوجانا ہے، تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ قوموں کا عروج و زوال، اقبال مندی و سربلندی، ترقی، تنزلی اور خوشحالی میں اتفاق واتحاد، باہمی اخوت و ہمدردی اور آپسی اختلافات و انتشاراورتفرقہ بازی اور باہمی نفرت و عداوت بہت اہم رول اداکرتے ہیں، چنانچہ قرآن وسنت اورتاریخ کی کتابوں کا مطالعہ کرنےسےہمیں یہ بخوبی معلوم ہوجاتا ہےکہ جب تک مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد قائم رہا اس وقت تک وہ فتح و نصرت اور کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہوتے رہے اور جیسے ہی مسلمانوں نے اتفاق واتحاد کے دامن کو چھوڑ کر اختلاف و انتشار میں لگے، تب سے ہی شکست اور ناکامی اور طرح طرح کے مسائل ان کا مقدر بن گئے، امت مسلمہ کے درمیان اتفاق واتحاد کی دو مضبوط بنیادیں موجود ہیں، چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتےہیں کہ نبی کریم ﷺ نےحجتہ الوداع کےموقع پرمیدان عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایامیں اپنے بعد تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جن کو مضبوطی سے پکڑ لو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت،بیشک اتحادواتفاق کسی بھی قوم کی ترقی واعلیٰ اہداف کےحاصل کرنے اور سربلندی وسرخروی کے لئےبہت اہم اورضروری ہے،یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ اجتماعیت اسلام کی روح ہے، اتحاد اور آپسی محبت کے بغیر مسلمان اسی طرح ہے جیسا کہ بغیر روح کے انسان کا جسم، رسول اکرم ﷺ کو اتحاد امت کا ہمیشہ بے حد احساس رہتا تھا ،اتحاد کے لئے ضروری ہے کہ عصبیت سے پوری طرح بچا جائے۔
علاقہ،نسل، رنگ، ملک، قوم، وطن، زبان، خاندان، حسب و نسب وغیرہ کی بنیاد پر گروہ بندی ہی عصبیت ہے۔ اگر کسی فرد یا گروہ کی کسی تقریر،تحریریا عمل سے عصبیت کی بو آئے تو اسے فوری طور پر روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جائےکہ ایک آدمی کی شورش بھی بڑی خطرناک ہے، ٹھیک اسی طرح ایک انسان بھی فتنہ برپاکرسکتاہے، اس لئے ضروری ہے کہ عصبیت سے پوری طرح بچاجائے، نیزہرحال میں اتحاد کو قائم و دائم رکھا جائے، کیونکہ یہ ایسی اجتماعی ضرورت ہےجس کے بغیرکسی بھی خاندان و قوم کی بقاء وترقی کا تصورنہیں کیاجاسکتا،اتحادکی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ عصبیت ہے، یہ جذبات کو منفی سمت میں پروان چڑھاتی ہے۔ یہ اندھی ہوتی ہے، یہ عقل کو مائوف اور مفلوج کرتی ہے،یہ تفریق اور نفرتیں پیدا کرتی ہے،اس کی پکار جاہلیت کی پکار ہے، ’’عصبیت‘‘ اتحاد کی ضد ہے، جہاں عصبیت ہوگی، وہاں اتحاد قائم نہیں رہ سکتا، جہاں اتحاد ہوگا، وہاں عصبیت کا گزر نہیں ہو سکتا،نبی کریمﷺنے سخت ا لفاظ میں اس سےبچنے کی تاکید فرمائی ہے،چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہواہےکہ جو عصبیت پرمرا وہ جہالت پر مرا اور جو عصبیت کا علمبردار ہو وہ ہم میں سے نہیں اور جو عصبیت پر جنگ کرے وہ ہم میں سے نہیں اور جس کی موت عصبیت پر ہو وہ بھی ہم میں سے نہیں۔رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ آپ مومنوں کو آپس میں رحم کرنے، محبت رکھنے اور مہربانی کرنے میں ایسا پائیں گے جیسا کہ ایک بدن ہو جب اس کے کسی عضو کو تکلیف پہنچتی ہے، تو پورے جسم کے سارے اعضا بے خوابی، بے تابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتے ہیں(صحیح بخاری، صحیح مسلم)
امت مسلمہ کےاسی اتحاد واتفاق کوحضور ﷺ نےایک عمدہ اندازمیں یوں بیان فرمایا،ترجمہ یعنی ایک مسلمان کاتعلق دوسرے مسلمان کے ساتھ ایک مضبوط عمارت جیسا ہےاس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط کرتا ہے پھر آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست کر کے دکھایامعلوم ہوا کہ جس طرح ایک ایک اینٹ جوڑ کر عمارت بنائی جاتی ہے اسی طرح ایک ایک فرد مل کر معاشرہ بنتا ہے اور جس طرح ہر اینٹ دوسری اینٹ کو سہارا دیتی ہے اور عمارت بلند اور مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے، اسی طرح پورے اسلامی معاشرے میں ہر فرد کو وہی کردارادا کرنا چاہیے جو ایک مضبوط عمارت کی ہر اینٹ اس عمارت کے استحکام اور اس کی بقاء کے لیے اپنا فرض ادا کرتی ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقل سلیم عطا فرمائے اور آپس میں اخوت و محبت و ہمدردی اور ملکی وملی اور سماجی وسیاسی اور مسلکی و فروعی اختلافات سے بچائے اور امت واحدہ بن کر رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

متعلقہ مضامین

  • اتحاد و اتفاق وقت کی اہم ضرورت
  • فیکٹ چیک: 210 عازمین حج کی شہادت، کیا موریطانیہ کی حج پرواز حادثے کا شکار ہوئی؟
  • کیا ایمن خان کے چمن میں ایک اور پھول کھلنے کو ہے؟
  • امریکی خاتون اونیجا رابنسن بھی پاکستانی کھانوں کی دیوانی نکلیں، کیا کھانا پسند ہے؟
  • اونٹ نے شہری کا ہاتھ دبوچ لیا
  • موریطانیہ طیارہ حادثے میں 200 حاجیوں کی شہادت کی خبر ، حقیقت سامنے آ گئی
  • پنجاب سیڈ کارپوریشن نے فیلڈ مارکیٹنگ افسران ،عملے کی بہترین کارکردگی کو سراہا
  • حج پر آئے ایرانی عالم دین غلام رضا قاسمیان سوشل میڈیا پر تنقیدی ویڈیو شیئر کرنے پر گرفتار
  • امریکا کا غیر ملکی طلبہ کے ویزا انٹرویوز روکنے اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال لازمی بنانے کا فیصلہ
  • ٹرمپ انتظامیہ کا نیا فیصلہ، تمام سفارتخانوں کوغیر ملکی طلبا کو ویزے نہ دینے کے احکامات جاری