حرمین شریفین میں سوشل میڈیا کا ناسور
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
اللہ رب العزت نے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 96 اور 97 میں ارشاد فرمایا ہے کہ " بے شک اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا ہے (عبادت، قربانی، طواف، نماز اور اعتکاف وغیرہ کے لیے) وہ جو مکہ مکرمہ میں ہے جو تمام دنیا کے لیے برکت و ہدایت والا ہے جس میں کُھلی نشانیاں ہیں اور مقام ابراہیم ہے اور جو شخص اس میں داخل ہو جائے اس کو امن مل جاتا ہے"۔
بلا شک و شبہ مکان کی شہرت، عظمت، خاصیات و خصوصیات اور مکان سے محبت و عقیدت کا دارومدار صاحب مکان پر موقوف ہوتا ہے۔ زمان و مکان اور مقام سے ماورا اللہ رب العزت کی ذات کا احاطہ ممکن نہیں۔ مگر خالصتاً اللہ رب العزت کی عبادت کی وجہ سے مساجد کی حیثیت اور اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے اللہ کا گھر کہا جاتا ہے۔ زمین کا جو ٹکڑا مسجد کے لیے وقف ہوجائے وہ تاقیامت مخلوق کی ملکیت سے نکل جاتا ہے حتیٰ کہ وہ کسی ملک یا ریاست کا حصہ نہیں رہتا۔ ہر مسجد مرکز ذکر الٰہی ہے مگر بیت اللہ شریف کی حیثیت ممتاز ہے اور اس کا موازنہ دنیا کی دوسری مسجد سے نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی تجلیات کا مرکز و محور ہے، روئے زمین پر پہلی عبادت گاہ اور انبیائے کرام کی سجدہ گاہ ہے۔ مسجد الحرام و بیت اللہ مرکز اسلام، مرکز نزول وحی ہے۔
روئے زمین پر سب سے مقدس ترین اور باعظمت مقام اور قبلہ ہے۔ اللہ کا یہ گھر سعودی عرب کے اس شہر مکہ میں ہے اللہ تعالیٰ نے جس کی قرآن کریم میں قسمیں کھائی ہیں۔ ظہور اسلام سے آج تک اور آج سے قیامت کی صبح تک آنے والے تمام مسلمانوں کے لیے بیت اللہ کے بعد سب سے قابل تعظیم مقام مسجد نبوی اور مدینہ منورہ ہے۔ مدینہ منورہ کی حیثیت ہجرت ِ گاہِ رسول ﷺ بننے سے پہلے ایک زرعی شہر سے زیادہ نہیں تھی مگر ہجرت گاہ رسول عربی ﷺ بننے کے بعد اس کی عظمت وعزت میں چار چاند لگ گئے، اس شہر کو پہلے یثرب کہا جاتا تھا، لیکن جب اسے قیام گاہ سرکار دو عالم ﷺ کے طور پر چن لیا گیا تو اس کا نام ’’مدینہ‘‘ پڑگیا اورنبی اکرمﷺ کی نورانیت سے ’’منورہ‘‘ بن گیا، اور پھر آنجناب کی توجہات کی وجہ سے مدینہ کی مختلف فضیلتیں امت کے سامنے آئیں۔
مدینہ کے ساتھ الرسول لگایا جائے تو الگ فضیلت، الطیبہ پڑھایا جائے تو الگ فضیلت، دارالہجرکہا جائے تو مستقل فضیلت، حرمِ رسول اللہﷺ کہا جائے تو الگ فضیلت ہے۔ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور آس پاس کا علاقہ حجاز مقدس کہلاتا ہے یہ وہ علاقہ ہے جہاں اللہ کے آخری رسولﷺ نے سفر وحضر گزارے، جہاں وحی الٰہی اترتی رہی، نزول قرآن ہوتا رہا، دین اسلام کی اشاعت و ترویج یہیں سے شروع ہوئی جس کا ذکر احادیث نبویﷺ میں وضاحت سے موجود ہے۔ جہاں سب سے پہلے دین اسلام پر عمل ہوا، جہاں صحابہ کرامؓ کے شب و روز گزرے اور انتہائی تنگدستی کی حالت میں دین اسلام کے لیے قربانیاں دی گئیں، بدر وحنین، خندق اور احد کی جنگیں ہوئیں، جہاں سے دنیا میں دین پھیلا اور آخر کار پوری دنیا سے سکڑ کر ختم ہو گا تو قیامت قائم ہو گی۔ حرمین شریفین کے مقام اور شرف و فضیلت کے متعلق قرآن پاک کے علاوہ احادیث، سیرت اور تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔
اگرچہ حرم مکہ اور حرم مدینہ کے درمیان فقہی اعتبار سے فرق ہے، لیکن تعظیم و تکریم اور عزت و شرف کے اعتبار سے مکہ اور مدینہ کا حرمین شریفین ہونا متفق علیہ بات ہے، مدینہ منورہ کے قیام گاہ نبوی بننے کے بعد جس طرح دین مبین کو غلبہ حاصل ہوا، جس طرح انصار مدینہ اور مہاجرین نے مشرق سے مغرب تک پورے عالم کو اپنے زیر اثر کیا، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، بلکہ بخاری شریف کے باب فضل المدینہ کی حدیث نمبر 1871 میں سرکار دو عالمﷺ کا ارشاد بیان کیا گیا ہے،"مجھے ایک ایسی بستی کی طرف ہجرت کا حکم دیا گیا ہے، جو تمام بستیوں پر غالب رہے گی"۔ حضور اکرمﷺ کے زمانے سے لے کر آج تک مسلمان ان مقدس ترین مقامات پر حج یا عمرے کی صورت میں حاضری سعادت سمجھ کر دیتے آئے ہیں،آج بھی روئے زمین پر جتنے بھی مسلمان آباد ہیں، ان کے دلوں میں ہمہ وقت حرمین شریفین کی حاضری کی خواہش مچل رہی ہوتی ہے اور یہ سلسلہ قیامت کی صبح تک اسی طرح جاری و ساری رہے گا۔ انشاء اللہ۔
میں جب پہلی بار حج پر جارہا تھا تو اپنے مرشد و مربی باباجان حضرت ڈاگئی باباجیؒ سے راہنمائی لینے کے لیے حاضر ہوا تو انھوں نے سمندر کو کوزہ میں بند کرکے پورے حج کے حوالے سے ہدایات دیں۔ انشاء اللہ ان ہدایات پر ایک مکمل کالم لکھوں گا مگر یہاں صرف موضوع کی مناسبت سے بات کرونگا۔ باباجانؒ نے فرمایا "یاد رکھو طواف وہ عبادت ہے جس کا موقع قسمت والوں کو ملتا ہے اور صرف بیت اللہ شریف میں ادا کیا جاسکتا ہے اس لیے حج کے دوران جب بھی موقع ملے طواف کریں مگر یہ یاد رکھیں کہ طواف نماز کی طرح ایک عبادت ہے جس میں چلنے کی اجازت ہے، طواف کے دوران نظر جھکا کر عاجزی کے ساتھ چلنا ہے۔
سورہ فاتحہ، سورہ اخلاص پڑھتے اور مسنون دعائیں مانگنا، ندامت و شرمندگی اور درد دل سے توبہ و استغفار کرتے چلنا اور اللہ رب العزت سے اپنی حیثیت اور سوچ کے مطابق نہیں بلکہ اس کی شان کے مطابق مانگنا، حجر اسود کو اللہ تعالیٰ اپنے دائیں ہاتھ سے تشبیہ دیتے ہیں اس لیے اللہ رب العزت سے بوسہ مانگنا انشاء اللہ ضرور اللہ شرف بوسہ سے نوازے گا۔ یہ یاد رکھیں کہ حرمین شریفین میں اللہ تعالیٰ نیکیوں کو ضرب دیتا ہے مگر گناہوں کو بھی ضرب دیتے ہیں اس لیے گناہوں سے دامن مکمل بچا کر چلنا۔ ایسا نہ ہو کہ خسارے میں واپس لوٹیں"۔ پہلے دن میں آخری منزل پر کھڑے ہوکر اس روحانی منظر کو اپنے موبائل کے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے کی نیت سے اپنی اہلیہ ام ابوبکر کے ساتھ ایک تصویر بنائی اور تصویر بناتے ہی مجھے باباجانؒ کی گناہ کو ضرب دینے والی بات یاد آگئی تو میرے دل پر عجیب کیفیت طاری ہوگئی اور فوراً تصویر ڈیلیٹ کرکے طواف شروع کیا اور اللہ سے اس گستاخی کی معافی مانگتا رہا۔ اسی طواف کے دوران میرا بلیک بیری موبائل گر گیا۔ یہ زندگی کا پہلا نقصان تھا جس پر میں نے اللہ رب العزت کا شکر ادا کیا کہ اس گناہ کا ذریعہ ہی ختم ہوا جس پر میں نادم تھا۔
مگر امت کی بدقسمتی کہ آج بیت المعور کے بالکل نیچے بیت اللہ کے گرد طواف کی مقدس و ارفع عبادت کے علاوہ حرمین شریفین میں تمام عبادات اور قیمتی لمحات سوشل میڈیا کے ناسور کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں، سوشل میڈیا ایک بڑی قباحت کا روپ دھار چکی ہے جو ہماری عبادات کو کھائے چلی جارہی ہے کیونکہ ان مقامات پر حاضری دینے والوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو ان مقدس ترین اور قابل احترام مقامات پر حاضری کے آداب کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتی۔
عبادت کی بجائے حرمین شریفین میں فوٹوشوٹ، ویڈیوز اور ٹک ٹاک بناتے ہیں۔ مسلمان بیت اللہ شریف اور روضہ اطہر پر حاضری کے وقت ذکر و اذکار، قرآن کریم کی تلاوت، نوافل وغیرہ کو چھوڑ کر موبائل جیب سے نکال کر ٹک ٹاک بنانے میں مصروف ہوتے ہیں، اپنے دوستوں اور رشتے داروں کو کالز ملا کر اپنا انتہائی قیمتی وقت برباد کررہے ہوتے ہیں۔ لوگوں نے اس قبیح دجالی فعل کو عبادت کا حصہ سمجھ لیا ہے، سوشل میڈیا نے ہماری معاشرتی اقدار کے ساتھ ساتھ مذہبی اقدار اور عبادات کو بھی بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
یہ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ان قبیح دجالی حرکتوں سے ہم اپنی عبادات کو داؤ پر لگا کر اللہ اور شافع محشر رسول مقبولﷺ کی ناراضگی مول لے رہے ہیں، مسلمانو! خدارا ہوش کے ناخن لیں، سوشل میڈیا کے پھیلتے اس دجالی ناسور اور ان قبیح حرکتوں کے سد باب کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ سعودی عرب کی حکومت بھی اس پر سخت ایکشن لے۔ حرم کعبہ اور حرم مسجد نبوی میں موبائل فون کے استعمال پر پابندی عائد کی جائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حرمین شریفین میں اللہ رب العزت سوشل میڈیا اللہ تعالی بیت اللہ کے ساتھ جائے تو ہے اور
پڑھیں:
صلیبی جنگوںکا تسلسل
آواز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایم سرور صدیقی
غزہ میں تو انسانی تاریخ کا سب سے بڑا ظلم ہورہاہے جہاں یہودی خوراک کو جنگی ہتھیار کے طورپر استعمال کررہے ہیں یہ وہ خطہ ہے، جہاں فضائی حملوںمیں شہری آبادیوںکو نشانہ بناکر ایک لاکھ بچوںکو بے دردی سے شہید کردیا گیا زخمیوںکوجب علاج کے لئے ہسپتالو ں میں لایا گیا تو وہاں بھی بمباری کرکے ان کے جسموں کے چیتھڑے اڑا دئیے گئے اور خوراک کے منتظر بھوک پیاس سے بلکتے بچوں، بے بس ناتواںبوڑھوں اور پھٹے پرانے کپڑوںمیں ملبوس خواتین پر گولیاں برسا کر قتل کردیا گیا۔ بلاشبہ یہ قتل ِ عام اس صدی کی سب سے بڑی نسل کشی تھی جب ایک پوری قوم کے لاکھوں بے گھر افراد بھوک سے بِلک رہے ہوں تو سمجھ لیا جائے یہ کیسی آسمانی آزمائش ہے یاپھر امریکہ نے کیمیائی ہتھیار برآمد کرنے کی آڑ میںعراق کو کھنڈر بناڈالا، لاکھوں افرادکو بے گھر کرڈالا، معیشت کا ستیا ناس کردیا عراق کو تباہ و برباد کرنے کی وجہ اس کی ایٹمی صلاحیت کا خاتمہ تھا۔ عالمی طاقتیں اپنے مقصدمیں کامیاب ہوگئیں یہی حشر لیبیا کا ہوا۔ صدر کرنل معمرقدافی، صدر صدام حسین کو عبرت کا نشان بنادیا ۔مقبوضہ کشمیر ہویا افغانستان یہ سب کے سب مسلم ممالک ہیں یہاںپر ہونے والی عالمی طاقتوںکی مداخلت، مسلمانوں پر ظلم وبربریت کی خوفناک داستانیں کیا یہ ان کا مقدرتھا؟ کیا یہ سب آسمانی فیصلے ہیں یاپھر غیرت اور ایمان کا امتحان ہے ؟ یہ سوال ذہنوںمیں کلبلاتے ہیں تو احساس ہوتاہے، دل کا فوری ردِ عمل ظاہرکرتاہے یہ فضول کی باتیں چھوڑو ،مسلمانوں پر ظلم وبربریت اسلام دشمن طاقتوں کے پیدا کردہ ظالمانہ فیصلوں کا نتیجہ ہے! یقینا یہ حق و باطل کی لڑائی ہے ،اسے صلیبی جنگوںکا تسلسل بھی کہاجاسکتاہے ۔جولوگ یہ کہتے ہیں یہ سب آزمائش ہے ۔ان کی خدمت میں عرض ہے کہ نہتے فلسطینیوں کو محصور کر کے بھوکا پیاسا مار ڈالناکہاںکی انسانیت ہے اورہم مسلمان ہونے کے دعوے دار منافقوں اور بے غیرتوں کی طرح خاموش تماشائی بنے ،تماشا دیکھ رہے ہیں۔جیسے ہمارے کرتوت ہے ،یہ بات طے ہے کہ کوئی غیبی مدد نہیں آئے گی ۔کیونکہ یہ تو صرف ایمان والوںکو حقیقت دکھانے کا موقع ہے کہ وہ اپنے اندر موجود منافقین اور منکرین حق کی پہچان کرسکیں۔
کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارے مذہبی رہنمائوںکی اکثریت اسلام کے علمبردار علماء مشائخ اور مبلغین اسلام کہلانے والے لوگ بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔ویسے ساری دنیا میں دین اسلام کی تعلیمات کا تقریروں اور تحریروں میں پرچار کرتے پھرتے ہیں ۔ہم بظاہر تو مسلمان کہلاتے ہیں لیکن حقیقت میں دنیا پرستی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ صرف مسلمان ہونے کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں لیکن کیا یہ منافقت نہیں ہے کہ مظلوموںکے حق میں آواز بلندکرنے سے بھی ڈرتے ہیں اگر اب بھی مسلمان نہیں سمجھے تو کب سمجھیں گے۔ یہ سوچ سوچ کر عام مسلمان اپنے حکمرانوںسے مایوس ہوتے جارہے ہیں ۔اللہ نے جن کو اختیاردیا ہے وہ عقل و شعور اور بصیرت سے حالات کا جائزہ لیں ،نئی حکمت ِ عملی ترتیب دیں اور دور ِ حاضرکے چیلنجزکا مقابلہ کرنے کے لئے تمام تروسائل بروئے کار لائیں۔ ان کے لئے
بہترین وقت ہے کہ وہ امت مسلمہ کو متحدکریں۔ہر مصلحت ہر حکمت اللہ جانتاہے جو نیتوںکوبھی بھانپ لیتاہے ۔مسلمان حکمرانوںکی ہر ہر حرکت کو یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے اس سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں۔ یاد رکھنا جو ظالموں کا دست بازو بنے ہوئے ہیں ،ان کے آلہ ٔ کار ہیں ، ایک دن وہ سورج ضرور طلوع ہوگا جب ان کا حشرنشرہوجائے گا ۔ ویسے یہ عجیب نہیں لگتا کہ جو بڑے بڑے مبلغ دین اسلام کی تعلیمات دیتے ہوئے پندو نصیحت کے انبارلگادیتے تھے وہ بھاری بھرکم واعظ اور تقریروں اور تحریروں سے ماحول گرما دینے والے وہ سب کے سب اس آزمائش کے وقت خاموش تماشائی بن جاتے ہیں جیسے ان کے منہ میں زباں ہی نہیں ہے یعنی جہاد فی سبیل اللہ کے داعی سب گونگے ہو گئے ہیں ۔
عام مسلمان تو بے بس، لاچار اور بے اختیار ہیں، عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کا سرمایہ ٔ حیات ہے۔ وہ دعاگو ہیں کہ اے ہمارے پیارے اللہ پاک میرے پیارے فلسطینی بھائی اور بچوں اور ماؤں اور بہنوں کی غیبی مددفرما اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو نیست و نابود فرما (آمین) ۔ سوشل میڈیا پر ایک فلسطینی بہن کو دیکھا خوراک کی کمی، حالات کے زیرو زبر سے ہڈیوںکا ڈھانچہ بنی ہوتی تھی ،اس کا کہنا تھا میرا پیٹ خالی ہے، میں تھوڑا سا چلتی ہوں تو مجھے چکر آنے لگتے ہیں، اس بے گھرفلسطینی خاتون کی فریاد نے پوری دنیا کے سوشل میڈیا صارفین کو ہلا کر رکھ دیا۔یہ وہ امت تھی جس کا شعار یہ تھا کہ ”پہاڑوں کی چوٹیوں پر گندم چھڑک دو تاکہ مسلمانوں کی سرزمین میں پرندہ بھوکا نہ ر ہے”۔ آج اسی امت کا ایک حصہ بھوک سے مر رہا ہے یااللہ ہم بے بس ہیں ،ہم فلسطین کے لئے کچھ نہیں کر سکتے۔ غزہ کی حالت دیکھ کے دل خون کے آنسو روتا ہے لیکن میرے مالک آپ تو قادر ہیں قدرت رکھتے ہیں مظلوموںکی مدد فرما ۔ یاباری تعالیٰ مسلم حکمرانوںکو بھی ا س بات کا ادراک فرما کہ دنیا بھر میں مسلمانوںکے ساتھ جو ظلم ہورہاہے قتل و غارت سے معیشت کی تباہی تک جو کچھ ہورہاہے ،یہ صلیبی جنگوںکا تسلسل ہے لیکن یہ نہیں سمجھنا چاہتے ان حال مست ،مال مست حکمرانوںکو فہم و شعور اور آگہی عطا فرما تاکہ قوم ِ رسول ِ ہاشمیۖ کا ہر لحاظ سے تحفظ ہو سکے۔
غزہ میں تو انسانی تاریخ کا سب سے بڑا ظلم دیکھ کردل سے ہوک اٹھتی ہے۔ مسلم حکمران خواب غفلت سے کب جاگیں گے؟اسرائیل نے سارے عرب و عجم اور اسلامی ملکوں کے ایمان اور غیرت سے لیکر امریکہ، یورپ، اقوام متحدہ اور مہذب دنیا کے سارے قوانین، انسانی حقوق، تہذیب، اخلاقیات، انسانیت سب کے سب غزہ کے ملبوں تلے دبا دئیے ہیں۔ آج فلسطین کی مٹی خون سے لال ہے، بچوں کی چیخیں فضا میں گونج رہی ہیں، اور ہمارے دلوں میں بس ایک ہی سوال اٹھتا ہے کہ ہم کب جاگیں گے؟ کیا 56 اسلامی ممالک کی دفاعی صلاحیت اور ٹیکنالوجی کو محض میں کھلونے سمجھ چکا ہوں۔ اس ٹیکنا لوجی کا کوئی فائدہ ہی نہیں جب یہ اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کے کام نہ آئے۔یہ تمام ٹرک سیکڑوں ٹن امدادی سامان سے لدے ہوئے رفع باڈر کے پاس کھڑے ہیں لیکن اسے سرزمین انبیاء میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ اے خدا اب صرف تم ہی آخری آسر ا ہو یا اللہ تیرے خزانے میں کوئی کمی نہیں تو ہر چیز پر قادر ہے میرے رحمن رب اپنے پیارے حبیب کے صدقے غزہ کے مظلوموں کے صدقے دنیا بھر کے بے بس مسلمانوں کی غیبی مدد فرما ۔آمین یارب العالمین