معروف پراپرٹی ٹائیکون اور بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض ان دنوں دبئی موجود ہیں، اور دنیا بھر میں ان کے دبئی پراجیکٹ کے چرچے ہیں۔ ملک ریاض نے اس سے قبل برطانیہ میں مہنگی پراپرٹی خریدنے کی کوشش کی جس میں ناکامی کے بعد انہوں نے متحدہ عرب امارات کا رخ کیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان کے پاس اتنی بھاری رقم کہاں سے آگئی کہ وہ دبئی میں اپنا ہاؤسنگ پراجیکٹ لانچ کرنے جارہے ہیں۔

بحریہ ٹاؤن کراچی کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کرائے گئے ریکارڈ سے بہت کچھ سامنے آگیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں بحریہ ٹاؤن کی جانب سے 460 ارب روپے میں سے کتنی رقم وفاق اور کتنی سندھ کو مل چکی ہے؟

بحریہ ٹاؤن کراچی میں 58 پریسنٹ ہیں جو نقشے کے مطابق 37 ہزار 777 ایکڑ اراضی پر محیط ہیں۔ بحریہ ٹاؤن کراچی کے نقشے کے مطابق یہ منصوبہ 37 ہزار 777 ایکڑ اراضی پر محیط ہے، اس رقبے پر موجود پلاٹس، بنگلے، فلیٹس اور کمرشل پلازے تاحال کسی بھی اتھارٹی سے منظور نہیں ہیں۔ تاہم ٹرانسفر کرنے کی مد میں شہریوں سے 150 ارب روپے وصول کیے جا چکے ہیں۔ عدالت میں جمع کرائے جانے والے ریکارڈ کے مطابق بحریہ ٹاؤن کراچی کو بنانے میں 44 گاؤں مسمار کرنے پڑے ہیں۔

اب تک بحریہ ٹاؤن کراچی میں پریسنٹ ایک سے 50 تک کا کام مکمل ہوچکا ہے جبکہ پریسنٹ 51 سے 58 اور ویلی بلاک میں کام مکمل نہیں ہو سکا، پریسنٹ 1,2 اور 10A سے لے کر پریسنٹ 19 میں لوگ رہائش پذیر ہیں، جہاں ولاز اور اپارٹمنٹس کی تعداد 4 ہزار ہے۔

بحریہ ٹاؤن کراچی کے آغاز میں 10 لاکھ شہریوں سے ممبر شپ کی مد میں کم و بیش 250 ارب روپے وصول کیے گئے ہیں، بحریہ ٹاؤن کا دوسرا پراجیکٹ جو ڈی ایچ اے سٹی سپر ہائی وے کے سامنے ہے اس کا رقبہ ایک لاکھ 50 ہزار ایکڑ ہے۔ اس پراجیٹ کا ایک کونا کیر تھر نیشنل پارک (بلوچستان) سے ملتا ہے جبکہ دوسرا کونا حب چوکی تک ہے۔

بحریہ ٹاؤن کراچی کا پریسنٹ ایک 117 ایکڑ پر مشتمل ہے اور یہ رقبہ تعمیرات کے بعد بحریہ ٹاؤن نے 6 ارب 27 کروڑ 50 لاکھ میں فروخت کیا۔

اس کے علاوہ 160 ایکڑ پر مشتمل پریسنٹ دو 12 ارب 53 کروڑ 10 لاکھ 50 ہزار روپے میں فروخت ہوا۔ جبکہ 179 ایکڑ پر مشتمل پریسنٹ تین 6 ارب 52 کروڑ 88 لاکھ روپے میں فروخت کیا گیا۔

312 ایکڑ پر مشتمل پریسنٹ چار 8 ارب 92 کروڑ 23 لاکھ 50 ہزار روپے، پریسنٹ پانچ 2012 ایکڑ پر مشتمل ہے جس کی کمائی جانے والی رقم 5 ارب 59 کروڑ 50 لاکھ روپے ہے۔

اس کے علاوہ پریسنٹ چھ 261 ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے، جس سے کمائی جانے والی رقم 9 ارب 24 کروڑ 55 لاکھ روپے ہے۔ پریسنٹ 7 کے 207 ایکڑ سے کمائی جانے والی رقم 6 ارب 17 کروڑ‎ 7 لاکھ روپے، پریسنٹ 8 کے 228 ایکڑ سے 8 ارب 17 کروڑ 30 لاکھ 50 ہزار روپے کمائے گئے۔ جبکہ پریسنٹ 9 کے 1340 ایکڑ سے کمائی جانے والی رقم 25 ارب 17 کروڑ 85 لاکھ روپے بنتی ہے۔ اس کے علاوہ پریسنٹ 10-A اور B کے 410 ایکڑ سے 27 ارب 71 کروڑ 71 لاکھ 25 ہزار روپے کمائے گئے۔

اسی طرح پریسنٹ 11 سے لے کر پریسنٹ 20 تک 9210 ایکڑ زمین سے ایک کھرب 49 ارب 65 کروڑ 78 لاکھ 50 ہزار روپے کمائے گئے۔ پریسنٹ 21 تا پریسنٹ 30 کی 3353 ایکڑ زمین سے ایک کھرب 28 ارب 52 کروڑ 89 لاکھ 50 ہزار روپے کی آمدن ہوئی۔

پریسنٹ 31 تا پریسنٹ 40 کی 4543 ایکڑ زمین سے  جو رقم کمائی گئی وہ 3 کھرب 71 ارب 50 کروڑ 75 لاکھ 15 ہزار روپے بنتے ہیں۔ بات کی جائے پریسنٹ 41 تا 50 کی تو یہ 3 ہزار 734 ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے، اور اس کی مد میں بحریہ ٹاؤن نے ایک کھرب ایک ارب 17 کروڑ 30 لاکھ 35 ہزار روپے کمائے۔

بحریہ ٹاؤن کراچی نے پریسنٹ 51 سے پریسنٹ 58 تک 3191 ایکڑ سے ایک کھرب 22 ارب 32 کروڑ 66 لاکھ 45 ہزار روپے کمائے۔ اس کے علاوہ 1220 ایکڑ اراضی پر مشتمل ویلی بلاک سے 28 ارب 16 کروڑ 3 لاکھ 50 ہزار روپے کی آمدن ہوئی۔

جناح ایونیو کے کمرشل پلاٹس جو 500 گز پر مشتمل 2 ہزار پلاٹس ہیں۔ 5500 ایکڑ زمین پر پھیلے رقبے پر فی پلاٹ 14 کروڑ روپے کا بنتا ہے۔ اور ان تمام پلاٹس کی مالیت 2 کھرب 80 ارب روپے بنتی ہے۔

مین کمرشل انٹرینس 1200 ایکڑ پر مشتمل ہے جو 31 کھرب 20 ارب روپے میں سب سے مہنگا بکنے والا بلاک ہے۔ پیراڈائز کمرشل جو 600 ایکڑ‎ پر مشتمل ہے اس کی قیمت بحریہ ٹاؤن نے 24 ارب 35 کروڑ روپے روپے وصول کی۔ اس ساری رقم کو اگر ملایا جائے تو یہ 43 کھرب 92 ارب 30 کروڑ 74 لاکھ 41 ہزار روپے بنتے ہیں، اور اس رقم کو امریکی ڈالر میں تبدیل (convert) کیا جائے تو یہ تقریباً 16 ارب امریکی ڈالر بنتے ہیں۔

پریسنٹ 1 میں پلاٹس کی تعداد 1213 ہے جس کے ایک پلاٹ کی قیمت 50 لاکھ سے شروع ہوئی جبکہ کمرشل پلاٹس 42 ہیں اور ان کی قیمت 1 کروڑ 25 لاکھ روپے سے شروع ہوئی۔ پریسنٹ 2 میں 575 پلاٹس ہیں اور ایک پلاٹ کی قیمت ایک کروڑ‎ سے شروع ہوئی۔

اسی طرح 493 ولاز ہیں، ایک ولاز 98 لاکھ روپے سے شروع ہوا۔ اس کے علاوہ 154 کمرشل پلاٹس ہیں اور ایک پلاٹ کی قیمت ایک کروڑ 25 لاکھ روپے سے شروع ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں نیب کا بحریہ ٹاؤن کے راولپنڈی دفتر پر چھاپہ، ریکارڈ قبضے میں لے لیا، دفتر سیل

اس حساب سے 58 پریسنٹ کے مختلف قیمتوں کے اعتبار سے کمرشل، رہائشی، ولاز، فیسیلیٹی ایریاز پر مشتمل بحریہ ٹاؤن نے شہریوں سے کھربوں روپے تو وصول کرلیے لیکن اب تک اس آبادی کا نقشہ تک پاس نہیں ہوسکا جو سوالیہ نشانہ ہے، اور بھاری سرمایہ کاری کرنے والوں کے لیے پریشانی کا باعث بھی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews بحریہ ٹاؤن بحریہ ٹاؤن کراچی دبئی پراجیکٹ قومی احتساب بیورو کھربوں کی سرمایہ کاری ملک ریاض نقشہ پاس نہ ہوسکا نیب وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بحریہ ٹاؤن دبئی پراجیکٹ قومی احتساب بیورو ملک ریاض نقشہ پاس نہ ہوسکا وی نیوز کمائی جانے والی رقم لاکھ 50 ہزار روپے ہزار روپے کمائے بحریہ ٹاؤن نے ایکڑ اراضی پر ایکڑ پر مشتمل سے شروع ہوئی اس کے علاوہ پر مشتمل ہے ارب 17 کروڑ ایکڑ زمین لاکھ روپے روپے میں ایک کھرب ارب روپے کی قیمت ایکڑ سے

پڑھیں:

لاہور میں کچرا اٹھانے والی 28 ہزار گاڑیاں آلودگی کا باعث بن گئیں

لاہور:

پنجاب کا دارالحکومت پہلے ہی فضائی آلودگی کے شدید بحران سے دوچار ہے مگر حیران کن طور پر شہر کی صفائی کے لیے چلنے والا ’’ستھرا پنجاب پروگرام‘‘ خود اس آلودگی میں اضافہ کر رہا ہے۔

اس منصوبے کے تحت لاہور کی گلیوں، محلوں اور شاہراہوں سے کوڑا اٹھانے کے لیے 28 ہزار سے زائد گاڑیاں استعمال کی جارہی ہیں جو زمین کو تو صاف کرتی ہیں مگر فضا کو مزید آلودہ بنا رہی ہیں۔ اربن یونٹ کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق لاہور کی فضائی آلودگی میں سب سے بڑا حصہ ٹرانسپورٹ سیکٹر کا ہے جو مجموعی آلودگی کا تقریباً 39 فیصد بنتا ہے۔ 

حکومت ایک طرف دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے اور گاڑیوں کے امیشن ٹیسٹ لازمی قرار دیے گئے ہیں مگر دوسری طرف صفائی ستھرائی کے لیے ہزاروں پٹرول اور ڈیزل گاڑیاں روزانہ کی بنیاد پر شہر میں دوڑ رہی ہیں۔

لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی (ایل ڈبلیو ایم سی) کے مطابق شہر میں 28 ہزار 69 چھوٹی بڑی گاڑیاں  جن میں لوڈر رکشے، پک اپ ویگنیں، اور بڑی کلیکشن ٹرک شامل ہیں جو روزانہ صفائی کے عمل میں مصروف رہتی ہیں۔ ان گاڑیوں کی سرگرمیاں صبح کے اوقات میں بڑھ جاتی ہیں جب شہر کا فضائی معیار پہلے ہی کمزور ہوتا ہے۔

پنجاب کے ائیر کوالٹی انڈیکس (اے کیوآئی) کے ریئل ٹائم ڈیٹا کے مطابق صبح 6 سے 9 بجے کے درمیان لاہور میں فضائی آلودگی نمایاں طور پر بڑھ جاتی ہے، یہ وہی وقت جب صفائی کی گاڑیاں متحرک ہوتی ہیں۔ رواں ماہ کے دوران ان اوقات میں لاہور کا اے کیو آئی مسلسل خطرناک سطح پر رہا۔ 12 اکتوبر کو 180–185، 14 اکتوبر کو 264–313، 15 اکتوبر کو 237–323، 16 اکتوبر کو 277–339، 17 اکتوبر کو 279–324 اور 18 اکتوبر کو 255–295 تک ریکارڈ کیا گیا۔

محکمہ تحفظ ماحولیات لاہور کے ڈپٹی ڈائریکٹر علی اعجاز تسلیم کرتے ہیں کہ صفائی کی اس بڑی مہم سے آلودگی میں اضافہ ضرور ہوتا ہے مگر ان کے مطابق کوڑا نہ اٹھانے کی صورت میں بھی ماحول کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ان کے بقول اگر کچرا پڑا رہے تو میتھین گیس پیدا ہوتی ہے جو گاڑیوں کے دھوئیں سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ ایل ڈبلیو ایم سی سمیت تمام سرکاری محکموں کی گاڑیوں کے امیشن ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں اور دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے استعمال کی اجازت نہیں۔  محکمے کے مطابق اب تک دو لاکھ 60 ہزار گاڑیوں کے امیشن ٹیسٹ ہو چکے ہیں جبکہ 20 اکتوبر سے دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف سخت کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

ماحولیاتی تحفظ کے لئے سرگرم کوڈ فار پاکستان کی کمیونٹی مینیجر خنسہ خاور کہتی ہیں کہ شہر کی صفائی کے لیے گاڑیوں کا استعمال بظاہر ضروری ہے مگر اس کے ماحولیاتی نتائج کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے مطابق ایک مسئلہ حل کرنے کی کوشش میں ہم اکثر دوسرے مسئلے کو بڑھا دیتے ہیں۔ زمین کی صفائی کے ساتھ صاف ہوا بھی ضروری ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ نئی گاڑیاں خریدنے کے بجائے پہلے سے موجود گاڑیوں میں امیشن کنٹرول سسٹم لازمی قرار دیا جائے تاکہ ایندھن کے اخراج کو کم کیا جا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام نہ صرف اخراج کم کرے گا بلکہ سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ بھی گھٹے گا۔
ماہر ماحولیات اور ائیر کوالٹی انیشیٹو کی رکن مریم شاہ کے مطابق صفائی کے عمل میں استعمال ہونے والی گاڑیوں سے امیشن کا اخراج فطری ہے، تاہم حکومت کو عملی حقائق کے مطابق قدم اٹھانا ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا، سب سے بہتر آپشن تو زیرو امیشن گاڑیاں ہیں، مگر ہمیں وسائل اور موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے وہی راستہ اپنانا پڑتا ہے جو ممکن ہو۔

ماہر ماحولیات ڈاکٹر سعدیہ خالد نے تجویز دی ہے کہ لاہور جیسے شہروں میں گلی محلوں سے کوڑا جمع کرنے کے لیے پٹرول رکشوں کے بجائے الیکٹرک رکشے یا سائیکل ریڑھیاں استعمال کی جائیں۔انہوں نے کہا، ان گاڑیوں کو تیز رفتاری کی ضرورت نہیں ہوتی، اس لیے انہیں بجلی سے چلنے والے ماڈلز میں تبدیل کرنا ممکن اور مؤثر ہے۔ اس سے آلودگی میں نمایاں کمی آئے گی۔

لاہور کا فضائی معیار گزشتہ کئی برسوں سے تشویش ناک سطح پر ہے اور مختلف عالمی اداروں کے مطابق یہ دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ شہروں میں شامل ہے۔ ایسے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر کی صفائی اور فضا کی حفاظت ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ایک ہی ماحولیات پالیسی کے دو پہلو ہیں اور اگر حکومت اس توازن کو برقرار نہ رکھ سکی توستھرا پنجاب زمین کے لیے تو فائدہ مند ہوگا، مگر ہوا کے لیے خطرناک ہوجائیگا۔

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد : بھاری گاڑیاں فضائی آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ بن گئیں
  • کراچی: اورنگی ٹاؤن میں گھر میں آتشزدگی، 2 خواتین جاں بحق
  • ایف بی آرکاٹیکس وصولیوں میں شارٹ فال 274ارب روپے تک پہنچ گیا
  • لاہور میں کچرا اٹھانے والی 28 ہزار گاڑیاں آلودگی کا باعث بن گئیں
  • انسداد اسمگلنگ کارروائیوں میں ایک کروڑ 12 لاکھ  سے زائد مالیت کی منشیات برآمد
  • کراچی میں حوالہ ہنڈی کیخلاف کارروائی، ڈیڑھ کروڑ روپے سے زائد مالیت کے ڈالر برآمد
  • استنبول مذاکرات:پاک افغان معاہدہ کی مزید تفصیلات سامنے آگئیں
  • ڈکی بھائی رشوت کیس؛ این سی سی آئی اے کے 6 افسران سے سوا چار کروڑ کی وصولی
  • اسرائیل اور امریکی کمپنیوں کے خفیہ گٹھ جوڑ کی حیران کُن تفصیلات سامنے آگئیں
  • کراچی میں حوالہ ہنڈی کیخلاف  کارروائی، ڈیڑھ کروڑ روپے سے زائد مالیت کے ڈالر برآمد