مشہورامریکی گلوکارہ کے ڈانس ایونٹ پرلڑکیوں کا قتل، نوجوان کو52 سال قید
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
LONDON:
برطانیہ کی عدالت نے مشہور امریکی گلوکارہ سے متعلق ڈانس ایونٹ میں 3 لڑکیوں کو قتل کرنے والے 18 سالہ نوجوان کو 52 سال قید کی سزا سنا دی۔
غیرملکی خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق برطانوی عدالت نے 3 لڑکیوں کو ڈانس ایونٹ میں قتل کرنے کے واقعے کو وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے برطانیہ کی تاریخ کا خوف ناک ترین لمحہ قرار دیا تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 18 سالہ ایکسل روڈاکوبانا نے گزشتہ جولائی میں ساؤتھ پورٹ کے شمالی انگلش ٹاؤن میں لڑکیوں کے قتل اور دیگر 10 پر چاقو سے حملہ کرنے کا اعتراف کرلیا تھا۔
برطانیہ میں اس واقعے کے بعد غم و غصے کی فضا بن گئی تھی اور کئی روز تک ملک بھر میں احتجاج کیا گیا تھا۔
لیور پول کراؤن کورٹ کو پراسیکیوٹر ڈیانا ہیر نے بتایا کہ ایکسل روڈاکوبانا قتل، نسل کشی کے نشے میں دھت تھا اور ان سے متاثر ہونے والی دو لڑکیوں کو اتنے شدید زخم آئے تھے جس کو انتہائی دردناک کہنے کے سوا کوئی مناسب لفظ نہیں ہے۔
جج جولیان گوز نے کہا کہ روڈاکوبانا کو کم از کم 52 سال قید ہونی چاہیے کیونکہ جب حملہ کیا تھا تو اس وقت مجرم کی عمر 17 سال تھی اس لیے عمر قید کی سزا نہیں دی جاسکتی ہے لیکن انہیں کسی بھی وقت رہا کرنے کا امکان نہیں ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ روڈاکوبانان کو فیصلہ سنانے سے قبل ہونے والی سماعت کے دوران دو مرتبہ طبیعت خرابی کا کہتے ہوئے چیخنے چلانے پر کٹہرے سے ہٹایا گیا اور وہ سزا سننے کے لیے عدالت جانے کو بھی تیار نہیں تھا۔
عدالت میں متاثر لڑکیوں کی چیخنے اور عمارت سے بھاگنے کی ویڈیو بھی دکھائی گئی، جس میں دیکھایا گیا کہ خون میں لت پت ایک لڑکی عمارت سے باہر گر گئیں، یہ مناظر دیکھ کر عدالت کی گیلری میں موجود افراد کی ہچکیاں بندھ گئیں۔
ڈانس ایونٹ کی منتظمیہ اور چاقو کے 5 وار سہنے والی 36 سالہ یوگا ٹیچر لیئنے لیوکاس نے عدالت کو بتایا کہ اس نے ہمیں اس لیے نشانہ بنایا کیونکہ خواتین اور لڑکیاں تھیں جو کمزور اور حملے کے لیے آسان ہدف تھیں۔
نوجوان نے ڈانس ایونٹ میں 6 سالہ بیبے کنگ، 7 سالہ ایلسی ڈوٹ اسٹینکومبے اور 9 سالہ ایلس ڈیسیلوا ایگوئیر کو قتل کیا تھا، قتل ہونے والے بچیاں چھٹیوں کے ایونٹ میں شریک 26 بچوں میں شامل تھیں۔
پراسیکیوٹر ڈیانا ہیر نے بتایا کہ دو لڑکیوں کو 85 اور 122 زخم آئے ہیں اور بظاہر وہ ان میں سے ایک کا سر کاٹنا چاہتا تھا۔
رپورٹ کے مطابق روڈاکوبانا نے گرفتاری کے بعد پولیس کو بتایا تھا کہ مجھے خوشی ہے کہ وہ بچیاں قتل ہوئی ہیں، یہ بات میرے لیے خوشی کا باعث ہے۔
ڈیانا ہیر کا کہنا تھا کہ ان کے گھر میں موجود کمپیوٹر میں جو تصاویر اور دستاویزات پائی گئی ہیں، اس سے ان کے طویل جنونی پن، قتل اور نسل کشی کے ارادوں کا پتا چلتا ہے۔
روڈاکوبانا نے یہ اعتراف کیا کہ القاعدہ کی تربیتی مینوئل ان کے پاس تھا اور مہلک زہر ریسین تیار کرتا تھا، جس کے بارے میں جج نے کہا کہ ممکنہ طور پر نوجوان اس سے استعمال کرتا تھا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈانس ایونٹ لڑکیوں کو ایونٹ میں
پڑھیں:
آئی سی سی ججوں پر امریکی پابندیاں نظام انصاف کے لیے نقصان دہ، وولکر ترک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 06 جون 2025ء) اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے امریکی حکومت کی جانب سے عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے چار ججوں کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کے اقدام کو نظام انصاف کے لیے انتہائی نقصان دہ قرار دیا ہے۔
ہائی کمشنر نے کہا ہے کہ یہ پابندیاں اپنے عدالتی فرائض انجام دینے والے ججوں پر حملہ اور قانون کی عملداری سمیت ان اقدار کی کھلی توہین ہیں جن کا امریکہ طویل عرصہ سے دفاع کرتا آیا ہے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے گزشتہ روز عدالت کے ان ججوں پر پابندیاں لگانے کا اعلان کیا تھا جو افغانستان میں امریکی اور افغان فوج کے ہاتھوں مبینہ جنگی جرائم سے متعلق 2020 کے مقدمے کی سماعت کر رہے ہیں اور جنہوں نے گزشتہ سال اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور اس وقت کے وزیردفاع یوآو گیلنٹ کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔
(جاری ہے)
یہ چاروں جج خواتین ہیں جن کا تعلق بینن، پیرو، سلوانیہ اور یوگنڈا سے ہے۔
فیصلہ واپس لینے کا مطالبہوولکر ترک کا کہنا ہےکہ عدالت کے ججوں پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ بے حد پریشان کن ہے۔ امریکہ کی حکومت اس پر فوری نظرثانی کرے اور اسے واپس لیا جائے۔
'آئی سی سی' کو دنیا بھرکے 125 ممالک تسلیم کرتے ہیں جس نے امریکہ کی حکومت کے اس فیصلے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے پابندیوں کو بین الاقوامی عدالتی ادارے کی خودمختاری کو کمزور کرنے کی کھلی کوشش قرار دیا ہے۔
عدالت کی جانب سے جاری کردہ بیان میں ان پابندیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان سے سنگین ترین جرائم پر احتساب یقینی بنانے کی عالمی کوششوں کو نقصان ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، امریکہ کے اس فیصلے سے قانون کی عملداری کے لیے مشترکہ عزم، عدم احتساب کے خلاف جدوجہد اور قوانین پر مبنی بین الاقوامی نظام کی بقا کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔