گُڈ لُکنگ دکھنے کا بڑا نقصان اور خمیازہ بھگتنا پڑا
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
قومی ٹیم کے اوپنر احمد شہزاد نے انکشاف کیا ہے کہ گُڈ لُکنگ دیکھنے کا بڑا نقصان اور خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔
حال ہی میں اداکار و میزبان احمد علی بٹ کے پوڈکاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے اوپنر احمد شہزاد نے کہا کہ 'گڈ لُکنگ ہونے کا مجھے بہت نقصان ہوا ہے، ہماری فیلڈ اس طرح کی ہے کہ اگر آپ دکھنے میں اچھے ہیں، آپ کو پہننا اوڑھنا اور بات کرنا آتا ہے تو کچھ لوگ آپ سے جلنا شروع ہوجاتے ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ قومی ٹیم میں کچھ سینئیر کرکٹرز میرے اچھا دکھنے پر حسد کرتے تھے۔
مزید پڑھیں: چیمپئینز ٹرافی؛ اوپننگ کیلئے فخر اور شان کی جوڑی مضبوط دعویدار بن گئی
احمد شہزاد نے کہا کہ ' پاکستانی ٹیم میں اس چیز کا نشانہ بن چکا ہوں اور میں یہاں اپنا دفاع نہیں کررہا، میرے علاوہ اور بھی لوگ ہیں جو اس کا شکار رہ چکے ہیں کہ اگر آپ کی فین فالوونگ بڑھ رہی ہے، لوگ سراہ رہے ہیں تو یہ سینئرز سے برداشت نہیں ہوتا'۔
مزید پڑھیں: آئی سی سی ون ڈے ٹیم آف دی ایئر 2024؛ پاکستان کے تین کھلاڑی شامل
انکا کہنا تھا کہ 'ہم چھوٹے علاقوں سے آئے ہوئے ہیں، انار کلی لاہور میں رہتا تھا، ہمارے ساتھ ملک کا نام جڑا تو خود کو اچھا دکھایا، اپنی پرسنلیٹی کو گروم تو کیا لیکن اس کا پاکستان کے اندر بہت نقصان بھی اٹھایا'۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ہوائی کے جزیروں میں ڈرونز کے ذریعے ہزاروں مچھروں کی ‘بارش’ کیوں برسائی جارہی ہے؟
امریکی ریاست ہوائی کے جنگلات میں ڈرون کے ذریعے سینکڑوں بایوڈیگریڈیبل پوڈز گرائے گئے جن میں سے ہر ایک میں تقریباً 1ہزار نر مچھر موجود تھے۔ سائنسدانوں اسے ‘اِن کمپیٹیبل انسیکٹ ٹیکنیک’ کا نام دیا ہے جس کے ذریعے ناپسندیدہ اور نقصان دہ مچھروں کی آبادی کو دوسرے مچھروں کے ذریعے قابو کرنا ہے۔
یہ مچھر خاص طور پر لیبارٹری میں تیار کیے گئے تھے جو کاٹتے نہیں اور جب یہ مادہ مچھروں سے ملاپ کرتے ہیں تو ان کے انڈے نہیں پھوٹتے یوں مچھر کی آبادی کم ہوتی جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: چین نے مچھر جتنا چھوٹا جدید ڈرون تیار کرلیا، مقاصد کیا ہیں؟
اس اقدام کا مقصد ہوائی کے جزیرے میں غیرملکی مچھر کی بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنا ہے جو مقامی پرندوں، خاص طور پر نایاب ہنی کریپرز کو ملیریا جیسی بیماریاں پھیلا کر ختم کر رہے ہیں۔ مچھروں کی وجہ سے پھیلائی گئی بیماریوں کی وجہ سے ان پرندوں میں سے صرف 17 اقسام باقی رہ گئی ہیں اور بیشتر خطرے سے دوچار ہیں۔
ہوائی میں مچھر 1826 میں متعارف ہوئے اور اب یہ پہاڑی علاقوں کی طرف بڑھ رہے ہیں جو مقامی پرندوں کا مسکن ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے اب ان علاقوں میں بھی مچھر پائے جا رہے ہیں جہاں پہلے نہیں ہوتے تھے۔
یہ بھی پڑھیے: مچھروں کو ملیریا سے بچانے کے لیے دوا ڈھونڈ لی گئی، آپ بھی چکرا گئے نا!
ان نقصان دہ مچھروں کی تعداد کو قابو میں لانے کے لیے روایتی کیمیکل اسپرے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ جنگلات میں موجود مفید کیڑوں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ اس لیے سائنسدانوں نے ‘اِن کمپیٹیبل انسیکٹ ٹیکنیک’ اپنانے کا فیصلہ کیا ہے جو صرف نر مچھر چھوڑ کر نقصان دہ مچھر کی نسل کشی کرتا ہے۔
ہوائی میں2022 میں اس منصوبے کو وسعت دی گئی اور اب ریاست کے جزیروں پر ہر ہفتے 10 لاکھ مچھر ڈرون اور ہیلی کاپٹرز کے ذریعے چھوڑے جا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستان کو عطیہ کی گئیں ساڑھے 3 لاکھ مچھر دانیاں چوری، ڈونر کا تحقیقات کا مطالبہ
ماہرین کے مطابق یہ پہلی بار ہے کہ’اِن کمپیٹیبل انسیکٹ ٹیکنیک’کے ذریعے مچھروں کو ماحول کے تحفظ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوتا ہے تو دنیا کے دیگر حصوں میں بھی اس طریقے کو اپنایا جا سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پرندے سائنس مچھر معدومیت ملیریا