بھارتی کشمیر میں پُراسرار بیماری سے 17افراد کی ہلاکت، متاثرہ علاقے سے نقل مکانی
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
سرینگر — بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سرحدی ضلع راجوری کے علاقے بڈھال میں پراسرار بیماری کے باعث ہلاکتوں کی تعداد 17 ہو گئی ہے جن میں تین سے 15 برس کے 13 بچے بھی شامل ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ اب بھی کئی افراد راجوری، جموں اور چندی گڑھ کے اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔
جان کی بازی ہارنے والوں اور بیمار افراد کے رشتے داروں اور ان کے رابطے میں آنے والے دیگر افراد سمیت 300 سے زائد لوگوں کو بڈھال سے55کلو میٹر دور ضلع صدر مقام راجوری میں قائم کیے گیے قرنطینہ مراکز پر منتقل کردیا گیا ہے۔
بڈھال اور اس کے قر ب و جوارکو’ آلودہ زون’ قرار دیا گیا ہے۔
متعدی بیماری کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انتظامیہ نے کئی سخت گیر اقدامات اٹھائے ہیں۔ متاثرہ خاندانوں کے گھروں کو سیل کردیا گیا ہےاور مرنے والوں کے گھروں میں داخلے پر مکمل پابندی لگادی گئی ہے۔
قرنطینہ مراکز پر ہلاک شدگان اور بیمار افراد کے ساتھ رابطے میں رہنے والے خاندانوں کی مسلسل نگرانی کی جارہی ہے۔
راجوری کے ڈپٹی کمشنر ابھیشیک شرما کہتے ہیں کہ متعدی بیماری کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ بڈھال کو تین الگ الگ ‘ کنٹینمنٹ زونز’ میں تقسیم کردیا گیا ہے اور لوگوں کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کے لیے بھارت میں 2023سے نافذ بھارتیہ ناگرک سرکشا سنہتا کی دفعہ 163کے تحت علاقے میں نگرانی کے جامع اقدامات اُٹھائے گئے ہیں۔
ابھیشیک شرما کے بقول اس قانون کے تحت انتظامیہ کو کسی بھی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے خصوصی اختیارات حاصل ہیں۔
اس سے پہلے بڈھال کے ایک تالا ب کے پانی کی جانچ کے دوران اس میں کیڑے مار دوا پائی گئی تھی جس کے بعد اس تالاب کو سیل کردیا گیا تھا ۔ لیکن طبی ماہرین نے اس کی وجہ سے اموات کے امکان کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔
اگرچہ طبی ماہرین کی خصوصی ٹیمیں گزشتہ دو ہفتوں سےبڈھال میں موجود ہیں اور جموں و کشمیر پولیس کی ایک خصوصی تفتیشی ٹیم بھی کام پر لگی ہوئی ہے سرکاری طور پر اس بیماری کا نام معلوم ہے اورنہ ابھی تک یہ پتا لگایا جاسکا ہے کہ اس کے پھیلنے کی وجوہات کیا ہیں۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے اس بیماری میں مبتلا ہونے والے افراد میں تیز بخار ،اسہال اور پھر بےہوشی کی کیفیات پیدا ہوئیں۔
طبی ماہرین کے مطابق جتنے بھی افراد اس بیماری میں مبتلا ہوکر جان کی بازی ہار گئے۔ ان کے دماغ اور اعصابی نظام بری طرح متاثر ہوئے تھے۔
اموات کا یہ سلسلہ سات دسمبر کو فضل حسین نامی ایک شہری کے گھر سے شروع ہوا تھا ۔ پہلے ان کے چار بچوں کی اموات ہوئیں اور پھر وہ خود بھی جان کی بازی ہار گئے۔
ایک اور شہری محمد اسلم نے اب تک اپنے چھ بچوں اور ماموں اور ممانی کو جو بے اولاد تھے اور انہوں نے محمد اسلم کو گود لیا تھا کھودیا ہے۔ محمد اسلم کے پڑوسی محمد رفیق کی بیوی اور تین بچے 12دسمبر کو جان کی بازی ہار گئے۔
جموں کے گورنمنٹ میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر اشتوش گپتا نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ وہاں کے اسپتال میں داخل کرائی گئی تین لڑکیوں میں سے ایک کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔
ایک اور مریض اعجاز احمد کو چندی گڑھ کے پوسٹ گریجویٹ انسٹی چیوٹ آف میڈیکل ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پی جی آئی) منتقل کردیا گیا ہے جہاں اُن کی حالت میں بہتری کی اطلاع ملی ہے۔
پراسرار بیماری کے پھوٹ پڑنے اور اس کی لپیٹ میں آنےوالوں کی تعداد میں مسلسل اضافے کے نتیجے میں اس پورے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا گیا ہے۔
علاقہ مکین نقل مکانی پر مجبور
راجوری اور ہمسایہ ضلع پونچھ جن کی سرحدیں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے ملتی ہیں کے لوگ خاصے پریشان ہیں۔
راجوری کے ایک شہری محمد عمر بڈھانہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بڈھال اور اس کے ملحقہ دیہات کے کئی کنبے نقلِ مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "خود میرے گھر میں میرا پھوپی زاد بھائی اور اس کے بیوی بچے آکر ٹھہرے ہوئے ہیں حالاں کہ ان کا گاؤں بڈھال سے کوسوں دور ہے۔وہ انتہائی خوف زدہ ہیں۔”
جمعرات کو لوگوں کی ایک بڑی نے راجوری کے گجر منڈی علاقے میں جمع ہوکر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ وہ پراسرار بیماری میں مبتلا ہونے والے سبھی افراد کو راجوری اور جموں کے اسپتالوں سے چندی گڑھ منتقل کرنے کا مطالبہ کررہے تھے۔
میڈیکل ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ
حکمران نیشنل کانفرنس کے ایک مقامی لیڈر اور ممبر جموں و کشمیر اسمبلی جاوید اقبال چودھری نے اس متعدی بیماری کے پھیلاؤ کو روکنےاور اس سے متاثرہ افراد کوبچانے کے لیےعلاقے میں میڈیکل ایمرجنسی نافذ کرنےکا مطالبہ کیا ہے۔
یہ معاملہ ایک سیاسی تنازع کی شکل بھی اختیار کرنے لگا ہے۔ حزبِ اختلاف کی بعض جماعتوں نے عمر عبد اللہ حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ اس بیماری سے وقت پر نمٹنے میں ناکام رہی اور نوبت 17 افراد کی ہلاکت تک پہنچی اور مزید کئی افراد اسپتالوں میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔
نئی دہلی میں بر سرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے مقامی رہنما طاہر چودھری کہتے ہیں کہ "یہ پراسرار ہلاکتیں سب کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔ یہ عمر عبد اللہ حکومت کی بے حسی اور اس بحران جیسی صورتِ حال سے بروقت نمٹنے میں ناکامی کی بھی عکاسی کرتی ہیں۔”
لیکن وزیرِ اعلیٰ عمر عبد اللہ نے اس نکتہ چینی کو بلا جواز قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت کے سبھی متعلقہ ادارے اس بیماری کی وجہ جاننے اور متاثرین کو موثر طبی امداد فراہم کرنے میں آغاز پر ہی سرگرم ہو گئے تھے۔
وزیر ِ اعلیٰ نے 21جنوری کو بڈھال کے دورے کے دوران ہلاک شدگان کے لواحقین سے مل کر ان کی ڈھارس بندھائی تھی اور انہیں حکومت کی طرف سے ہر ممکن امداد فراہم کرنے کا یقین دلایا تھا۔
جمعرات کو سرینگر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ نے کہا کہ اس پراسرار بیماری کی وجوہات جاننے کی کوششں تیز کردی گئی ہیں اور بہت جلد حکومت کو جواب مل جائے گا۔
بھارتی وزیرِ داخلہ امت شاہ کی ہدایت پر دہلی سے آئی ہوئی ایک ٹیم نے بھی بڈھال کا دورہ کیا ہے۔ اس ٹیم میں بھارت کے بعض اہم طبی اداروں کے ماہرین بھی شامل تھے جنہوں نے گزشتہ پیر کو بڈھال میں چھ گھنٹے کے قیام کے دوراں کئی نمونے جمع کیے اور متاثرہ خاندانوں سے تفصیلات جمع کیں۔
اس دوران بڈھال سے راجوری میں قائم قرنطینہ مراکز پر منتقل کیے گیے خاندانوں کے پیچھے چھوڑے ہوئے بھیڑ بکریوں اور مویشیوں کی دیکھ بھال کا کام محکمہ حیوانات و بھیڑ پالن کے سپرد کردیا گیا ہے۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل کردیا گیا ہے جان کی بازی میں مبتلا بیماری کے راجوری کے علاقے میں اور اس کے لیے
پڑھیں:
مقبوضہ وادی میں جماعت اسلامی پر پابندی
ریاض احمدچودھری
بھارتی وزارت داخلہ اور اس کی ریاستی تحقیقاتی ایجنسی ایس آئی اے نے آر ایس ایسـبی جے پی کے رہنما آر آر سوائن کی سربراہی میں جماعت اسلامی جموں و کشمیر سمیت آزادی پسند جماعتوں پر چھاپوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ جماعت اسلامی کے بینک اکائونٹس منجمد کرنے کے بعدایس آئی اے نے زمینوں، اسکولوں، مکانات اور دفاترسمیت اس کی جائیدادوں کو ضبط کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس نے پہلے ہی اسلام آباد، شوپیاں، پلوامہ اور جنوبی کشمیر کے کئی دیگر اضلاع میں سو کروڑروپے سے زائد مالیت کے جماعت اسلامی کے اثاثے ضبط کرلئے ہیں۔جموں و کشمیر میں جماعت کی مزید 100جائیدادیں ضبط کرنے کی بھارتی وزارت داخلہ کی فہرست میں شامل کی گئی ہیں۔ اس کے لئے نوٹیفکیشن کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد جائیدادوں کو سیل کردیا جائے گا۔عہدیدارنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نوٹیفکیشن کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد ایسی تمام جائیدادوں کو مرحلہ وار سیل کر دیا جائے گا۔نریندر مودی اور امیت شاہ کی زیر قیادت ہندوتوا حکومت حق خود ارادیت کے مطالبے کی حمایت کرنے پرجماعت اسلامی کو نشانہ بنارہی ہے۔
2019 میں مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی کی حمایت کرنے پر بھارت نے جماعت اسلامی کشمیر پر پابندی لگا دی تھی۔بھارت کے مرکزی محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ جماعت اسلامی کے عسکریت پسندوں سے قریبی روابط ہیں اور وہ ان کی مکمل حمایت بھی کرتے ہیں۔جماعت اسلامی پر پابندی لگانے کے اقدام کی وادی کشمیر کی تقریباً تمام سیاسی، مذہبی و سماجی جماعتوں نے مذمت کی تھی۔ جماعت نے پانچ سالہ پابندی کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ اس سے قبل مقبوضہ کشمیر میں محاصرے اور تلاشی کارروائیوں میں جماعت اسلامی کے پانچ رہنماؤں سمیت مقبوضہ جموں وکشمیر کے7 سرکردہ علمائے کرام کوگرفتار کر لیا گیا ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں جمعیت اہلحدیث کے رہنما مولانا مشتاق احمد ویری، عبدالرشید داودی، جماعت اسلامی کے رہنما عبدالمجید دار المدنی، فہیم رمضان اور غازی معین الدین بھی شامل ہیں۔
جماعت اسلامی نے دہشت گردی کی فنڈنگ سے متعلق بھارتی ایجنسیوں کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کا، ‘نہ تو کبھی کسی عسکریت پسند گروہ کے ساتھ کوئی تعلق رہا ہے اور نہ ہی وہ تحریکی سیاست پر یقین رکھتی ہے’۔بھارتی ایجنسیوں کا یہ بھی الزام ہے کہ جماعت اسلامی وادی کشمیر میں بھارت مخالف مظاہروں اور بھارت مخالف سیاسی سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے۔ اسی لیے گزشتہ ہفتے این آئی اے نے جموں و کشمیر میں واقع جماعت اسلامی سے وابستہ بہت سے کارکنان کے گھروں پر چھاپے بھی مارے تھے۔تنظیم کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ بس ہراساں کرنے اور دھونس جتانے کے لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ تنظیم اس وقت سرگرم تو ہے نہیں۔ انہیں کوئی ثبوت دینا چاہیے کہ آخر جماعت نے کس کو فنڈنگ کی ہے اور کہاں دیا ہے؟ جماعت 1997 سے یہ مسلسل کہتی رہی ہے کہ ہمارا عسکریت پسندی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کشمیر میں سماجی خدمات کا کام کرتی ہے اور زیادہ سے زیادہ مذہبی تبلیغ کے لیے جلسے جلوس کرتی تھی جو پابندی کے سبب سب بند پڑے ہیں۔کشمیر میں اس وقت زبردست خوف اور دہشت ہے۔ ہر ایک کو کم سے کم بنیادی آزادی کے حقوق ملنے چاہیں۔ ہر شخص کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے آزادانہ طور پر کام کرنے کی تو اجازت ہونی چاہیے۔ ہم کسی غیر قانونی کام کی بات نہیں کرتے ہیں۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی جانب سے مظالم ڈھانے کا سلسلہ تو گزشتہ پون صدی سے جاری ہے۔ اب کشمیریوں کے مذہبی، سیاسی اور انسانی حقوق کو دبانے کے لیے مزید اقدامات کیے جا رہے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ مودی سرکار بین الاقوامی قوانین اور عالمی اداروں کی طرف سے طے کردہ حدود و قیود کو بھی خاطر میں نہیں لا رہی۔ حال ہی میں بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیریوں کی آواز دبانے کے لیے دو تنظیموں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بھارتی حکام کی جانب سے عوامی ایکشن کمیٹی اور جموں و کشمیر اتحاد المسلمین کو پانچ سال کے لیے غیر قانونی قرار دینے کی مذمت کی ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت ممتاز سیاسی اور مذہبی رہنما میر واعظ عمر فاروق کررہے ہیں جبکہ جموں و کشمیر اتحاد المسلمین کی بنیاد ایک اور قابل ذکر سیاسی اور مذہبی رہنما مولانا محمد عباس انصاری نے رکھی تھی۔حالیہ فیصلے سے کالعدم کشمیری سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کی کل تعداد 16 ہو گئی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ مختلف سیاسی جماعتوں اور تنظیموں پر پابندی لگانا کشمیر میں بھارتی حکام کے ظالم ہاتھوں سے چلنے والے رویے کا ایک اور مظہر ہے۔ یہ سیاسی سرگرمیوں اور اختلاف رائے کو دبانے کی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ جمہوری اصولوں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی سراسر بے توجہی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ بیان میں بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ کشمیری سیاسی جماعتوں پر عائد پابندیاں ہٹائے۔ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے اور جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر ایمانداری سے عمل درآمد کروائے۔
مودی سرکار ہر اس آواز کو دبانا چاہتی ہے جو کشمیر اور مسلمانوں کے حق میں بلند ہوتی ہو۔ مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کی ہر قسم کی آزادی سلب کی جا چکی ہے۔ انھیں نہ مذہبی آزادی حاصل ہے نہ سیاسی۔ عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو بھارت کے یہ مظالم کیوں نظر نہیں آتے؟
مقبوضہ جموں و کشمیر میں نریندر مودی اور امیت شاہ کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہندوتوا حکومت سیاسی اور سماجی کارکنوں پر چھاپوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے علاقے میںجماعت اسلامی اور دیگر فلاحی تنظیموں سے وابستہ تقریبا 100مزید تعلیمی اداروں اور جائیدادوں کو سیل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
٭٭٭