Nai Baat:
2025-09-17@21:43:10 GMT

ترقی ےافتہ اقوام کے معاشی حربے

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

ترقی ےافتہ اقوام کے معاشی حربے

آج ساری دنیا دہشت گردی کا ہر وقت واویلہ تو کرتی رہتی ہے لیکن کےا کبھی ترقی ےافتہ اور امےر ممالک نے اس کے خاتمے کے لئے حقےقی اقدامات کرنے کی کوشش کی ہے اس کا جواب ےقےناً نہ مےں ہے۔ اگر دےکھا جائے تو اس دہشت گردی کی وباءکے پےچھے مادی وسائل مےں عدم مساوات ہے ایک طرف تو دنےا مےں لکڑےاں کاٹنے اور مشکوں کے ذرےعے پانی پہنچانے والے ہےں تو دوسری طرف وہ لوگ ہےں جنہےں اس کرہ¿ ارض کے وسائل پر مکمل اختےار حاصل ہے اور اگر تےسری دنےا کے چھوٹے ممالک کے پاس کچھ وسائل ہےں بھی تو ان پر بھی ان طاقتور ممالک کی نظر رہتی ہے بلکہ بہانے بہانے سے انہےں ہتھےانے کے لئے سازشےں کی جاتی رہتی ہےں۔ ےہ اےک انوکھی صورتحال ہے جو تقاضا کرتی ہے کہ قوموں کے ان دو طبقوں کے درمےان اےک تعمےری گفت و شنےد ہونی چاہئے اور اس کے ساتھ منصفانہ بےن الاقوامی اقتصادی نظاموں کی تعمےر کے اس عمل کو اصلاحات کا جامہ پہناےا جائے جن مےں شمال ےا جنوب ، مشرق ےا مغرب کی بہت سی قوموں کی قےادتےں اس وقت اپنے ملکوں مےں الجھی ہوئی ہےں۔ اس مےں کوئی شک نہےں ہے کہ اقوامِ متحدہ کے زےرِ اہتمام بےن الاقوامی پلےٹ فارموں پر ترقی پذےر ممالک آپس مےں ےک جہتی کے مظاہرے کرتے رہتے ہےں لےکن تےسری دنےا کے نفاق انگےز حالات تو اس حقےقت سے ہی عےاں ہےں کہ ترقی پذےر ملکوں کے سارے موجودہ گروپوں کی بنےاد اپنے ارکان کے علاقائی اور سےاسی تعلق پر ہے اور چونکہ وہ سب اپنی ذات کے اندر اس حد تک محدود ہےں اس لئے وہ اس مسئلے پر پوری طرح توجو نہےں دے سکتے جو سارے علاقوں پر محےط ہے اور سےاسی ےا نظرےاتی اختلافات سے بالا تر ہے۔ اسلامی کانفرنس، سارک کانفرنس، عرب لےگ، افرےقی اتحاد کی تنظےم اور اس طرح کی دوسری علاقائی اقتصادی تنظےمےں اپنے محدود منشوروں کی وجہ سے اےک خاص برِ اعظم، علاقے ےا عقےدے کے ملکوں تک محدود ہےں لہٰذا ےہ دعویٰ نہےں کر سکتی ہےں کہ ترقی پذےر ملکوں کے اقتصادی مفادات کے بحےثےت مجموعی ادراک کرتی ہےں۔ ساری تےسری دنےا اس وقت اپنی سےاسی اور اقتصادی قوت کو منظم کرنے مےں مصروفِ عمل ہو کر استحصال کے پرانے طرےقوں کو تبدےل کر سکتی ہے۔
ترقی ےافتہ و طاقتور ملک ترقی پذےر ملکوں کے وسائل اپنی ترقی اور آسائشوں کے لئے اپنے کنٹرول مےں رکھتے ہےں، انہےں کوڑےوں کے مول خرےداجاتا ہے اور بڑی بے دردی سے خرچ کےا جاتا ہے۔ اب گزشتہ تےن دہائےوں سے صورتحال ہی بدل گئی ہے کہ ترقی ےافتہ ممالک ان ملکوں کے اندرونی معاملات مےں مداخلت کے ذرےعے ےا ان پر چڑھ دوڑنے کے بہانے پےدا کر کے ان ملکوں کے وسائل اپنے کنٹرول مےں کر لےتے ہےںاس کی واضح مثالےں ےورپ اور امرےکہ کا عراق، کوےت، سعودی عرب، لےبےا، شام، ےمن، افغانستان اور دوسرے ملکوں مےں فوجی اور سےاسی مداخلت کر کے ان کے وسائل اپنے تصرف مےں لانا ہے۔ ان تمام باتوں کا منطقی نتےجہ ےہ ہے کہ جب قومےں اپنے مفادات کے تحفظ کا اتحاد نہےں کر سکتی ہےں تو نہ صرف موجودہ بے انصافےوں کا برابر شکار رہتی ہےں بلکہ عالمی اقتصادی قوتوں کے عمل سے ان مےں مزےد اضافہ بھی ہو جاتا ہے۔تےسری دنےا کے نئے آزاد ہونے والے ملکوں کے لئے بےن الاقوامی اقتصادی ماحول تو اس وقت بھی سازگار نہ تھا جب انہےں خود مختار مملکت کی حےثےت حاصل ہوئی لےکن ان کی سےاسی آزادی کے عشروں کے دوران ان کے اور مالدار ملکوں کے درمےان اقتصادی ناہمواری حد سے زےادہ بڑھ گئی ہے ۔ اس صورتحال مےں جب اوپر بےان کئے گئے گروپوں مےں سے کوئی گروپ ان بے انصافےوں کو ختم کرنے کے لئے مشترکہ کوششوں کا آغاز کرنے لگتا ہے تو مالدار ملکوں کی زبردست اقتصادی طاقت، تجارت اور سرمائے کے اداروں پر اپنی اجارہ دارےوں کے سہارے ےہ ممالک اندرونی اور بےرونی رد و بدل کے اثرات کو غرےب تر قوموں کی جانب دھکےل دےتے ہےں جےسے کہ تےل کی قےمت بڑھانے پر ترقی ےافتہ قوموں نے صنعتی مصنوعات کی قےمتےں بڑھا کر تےل کے نام نہاد بحران کے بوجھ کو غرےب ملکوں کی طرف موڑ دےا اور ساتھ ہی ان تحرےکوں کے محرک افراد کو عبرت ناک سزا دےنے سے بھی نہےں چوکتے جےسے کہ پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو اور سعودی عرب کے شاہ فےصل کے ساتھ کےا گےا سلوک جنہوں نے اےٹمی قوت کے حصول مےں پےش رفت کے ساتھ تےل کو بطور ہتھےار اور اسلامی بلاک کو منظم کرنے کی کوشش کی۔ دوسری طرف جب تےسری دنےا کی برآمدات کی بات آتی ہے تو ترقی ےافتہ ممالک مارکےٹوں پر اجارا دارےوں کی بنا پر مختلف حربوں سے اپنے مفادات کے تحت قےمتوں کا تعےن کرتے ہےں۔ اگر ہم گزشتہ پانچ چھ دہائےوں سے تےسری دنےا کی جانب سے کی جانے والی برآمدات کا مشاہدہ کرےں تو تےل کو چھوڑ کر بنےادی اشےاءکی قےمتوں مےں حقےقی معنوں مےں کافی حد تک کمی ہوئی ہے اور قےمتوں مےں سالانہ بنےادوں پر شدےد اتار چڑھاو¿ اس کے علاوہ ہے۔
جب پاکستان بنگلہ دےش جےسے دوسرے ترقی پزےر ممالک اپنے ہاں پےدا ہونے والے خام مال کو استعمال مےں لا کر مصنوعات پےدا کرنے کی صلاحےت پےدا کر لےتے ہےں اور مصنوعات فروخت کرنے کے قابل ہو جاتے ہےں تو ان کی مصنوعات کو امتناعی کوٹے کے ذرےعے امےروں کی منڈےوں سے خارج کر دےا جاتا ہے اور مصنوعات سے متعلق ان کی ےہ پوزےشن ان کے خود کفالت حاصل کرنے کے مقصد کو ناکام بنا دےتی ہے۔ امےر ملکوں سے انہےں درآمدات کے لئے زےادہ سے زےادہ رقم ادا کرنے کی ضرورت ان مےں سے اکثر کو قرض کی دلدل مےں پھنسا دےتی ہے اس طرح توازنِ ادائےگی کو درست رکھنے کے لئے اےسے ترقی پذےر ملک قرضوں کی آکاس بےل مےں الجھتے جاتے ہےں اور اس بات کا پروپےگنڈہ کچھ اس طرح کےا جاتا ہے کہ غرےبوں کی ترقی کا دارومدار ترقی ےافتہ اقوام کی مسلسل تےز رفتار ترقی پر ہے۔ترقی ےافتہ ملکوں مےں ےہ اےک اےسی سوچ پےدا ہو رہی ہے کہ ترقی پذےر ملکوں کی بقاءکے لئے ترقی ےافتہ اور ترقی پذےر ملکوں کے درمےان فرق بڑھتا رہنا چاہئے ےعنی امےرممالک کو کرہ¿ ارض کی دولت کا بڑا حصہ اپنے تصرف مےں لاتے رہنا چاہئے۔ اب تو ےہ بھی دلےل سننی پڑ رہی ہے کہ کم ترقی ےافتہ ممالک اپنی غربت اور افلاس کے خود ہی ذمہ دار ہےں نہ کہ ترقی ےافتہ ممالک کے معاشی استحصال کی بدولت۔ امےر ممالک اپنے گروپوں اور اتحادوں کو مضبوط سے مضبوط تر بنا رہے ہےں اور اب وہ تمام توجہ اپنے مفادات کو مستحکم کرنے پر مرکوز کر رہے ہےں چنانچہ ےہ ممالک بےن الاقوامی مالی اصلاحات اور تجارت و وسائل کی منتقلی کے سلسلے مےں زےادہ تر آپس مےں ہی معامالات طے کر لےتے ہےں اور اس ضمن مےں ترقی پزےر ملکوں کا حصہ محض برائے نام ہے۔ اگر ترقی ےافتہ ممالک اپنی دولت اور ٹےکنالوجی کے بل بوتے پر اپنا غلبہ برقرار رکھنے کے لئے متحد ہو سکتے ہےں تو غرےب اقوام اپنی صفوں مےں پےدا شدہ انتشار ختم کر کے اےک پلےٹ فارم پر اکٹھے ہو کر غےر انسانی سلوک کے خلاف مشترکہ جدو جہد کےوں نہےں کر سکتے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: ترقی پذےر ملکوں کے بےن الاقوامی کے وسائل کہ ترقی کرنے کی جاتا ہے ہےں اور ہےں تو کے لئے ہے اور اور اس

پڑھیں:

اقوام متحدہ: 2026 کے مجوزہ بجٹ میں اصلاحات اور 500 ملین ڈالر کٹوتیاں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ نے 2026 کے لیے اپنے مجوزہ پروگرام بجٹ کے ترمیم شدہ تخمینوں کو حتمی شکل دے دی ہے جس میں 500 ملین ڈالر سے زیادہ کٹوتیاں کی گئی ہیں جبکہ ادارے کو مزید مضبوط و موثر بنانے کی کوشش (یو این 80) کے تحت ابتدائی اقدامات بھی متعارف کرائے گئے ہیں۔

گزشتہ روز مشاورتی کمیٹی برائے انتظامی و میزانیہ امور (اے سی اے بی کیو) کو پیش کیے نظرثانی شدہ تخمینوں میں رواں سال کے مقابلے میں اقوام متحدہ کے وسائل میں 15.1 فیصد اور اسامیوں میں 18.8 فیصد کمی کی تجویز دی گئی ہے۔

26-2025 میں قیام امن کی کارروائیوں کے لیے استعمال ہونے فنڈ میں بھی کٹوتیاں کی جائیں گی۔ اس فنڈ کے ذریعے امن کاری سے متعلق مشن اور عملے کے لیے مالی وسائل مہیا کیے جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

(اے سی اے بی کیو) جنرل اسمبلی کا ذیلی مشاورتی ادارہ ہے جو ان تجاویز کا جائزہ لینے کے بعد اپنی سفارشات جنرل اسمبلی کی پانچویں کمیٹی کو پیش کرے گا جہاں اقوام متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک انتظامی اور میزانیے (بجٹ) کے امور پر فیصلے کریں گے۔

مالی کٹوتیاں اور اضافے

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے رکن ممالک کے نام خط میں کہا ہے کہ یہ کٹوتیاں ان اقدامات کے بعد کی گئی ہیں جو اس بات کا جائزہ لینے کے لیے اٹھائے گئے تھے کہ اقوام متحدہ کی ذمہ داریوں کا نفاذ کیسے ہو رہا ہے اور ان کے لیے وسائل کس طرح مختص کیے جا رہے ہیں۔

ادارے کے چارٹر کے تین بنیادی ستونوں یعنی امن و سلامتی، انسانی حقوق اور پائیدار ترقی کے درمیان توازن کو برقرار رکھتے ہوئے سیکرٹریٹ کی مختلف اکائیوں نے خدمات کی فراہمی بہتر بنانے کے طریقے ڈھونڈے تاکہ وسائل کے استعمال کو مؤثر بنایا جا سکے۔

انہوں نے واضح کیا کہ یہ کٹوتیاں ہر شعبے پر یکساں طور سے لاگو کرنے کے بجائے سوچ سمجھ کر اور مخصوص جگہوں پر کی گئی ہیں۔ رکن ممالک بالخصوص کم ترین ترقی یافتہ، خشکی سے گھرے اور چھوٹے جزائر پر مشتمل ترقی پذیر ممالک کی مدد اور براعظم افریقہ کی ترقی سے متعلق پروگراموں اور سرگرمیوں کے لیے مالی وسائل میں کٹوتیاں نہیں کی گئیں۔ اسی طرح، قیام امن کے لیے فنڈ اور رکن ممالک میں ریذیڈنٹ کوآرڈینیٹر کے نظام کے لیے بھی وسائل کو برقرار رکھا گیا ہے۔

علاقائی اقتصادی کمیشن کے لیے وسائل میں معمولی ردوبدل ہو گا جبکہ تکنیکی تعاون کے لیے باقاعدہ پروگرام (آر پی ٹی سی) کے لیے وسائل میں اضافہ جاری رہے گا تاکہ ترقی پذیر ممالک کی صلاحیت بڑھانے میں مزید مدد فراہم کی جا سکے۔

سیکریٹری جنرل نے کہا ہے کہ اس پیمانے کی کٹوتیاں لازمی طور سے بعض سمجھوتوں کا تقاضا کرتی ہیں۔ اداروں نے ان کے ممکنہ اثرات کی نشاندہی بھی کی ہے تاہم بنیادی ذمہ داریوں اور خدمات کے معیار کو برقرار رکھ کر ان اثرات کی تلافی کی جائے گی۔

اس ضمن میں اعلیٰ اثرات کے حامل نتائج کو ترجیح دینا، مختلف اداروں کے درمیان مہارتوں کو جمع کرنا اور ورچوئل ذرائع و خودکاری پر انحصار بڑھانا شامل خاص طور پر اہم ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ آج اقوام متحدہ ایک ایسے عالمی ماحول میں کام کر رہا ہے جو سیاسی اور مالیاتی لحاظ سے مسلسل غیر یقینی کا شکار ہے۔ ایسے حالات میں 'یو این 80' اقدام کا مقصد اقوام متحدہ کو مزید مضبوط و مستحکم بنانا ہے۔

نظرثانی شدہ تخمینے اسی عزم کی عکاسی کرتے ہیں اور ان میں یہ تجاویز شامل ہیں کہ ادارہ بہتر طریقے سے کیونکر کام کر سکتا ہے۔اصلاحاتی اقدامات

نظرثانی شدہ تخمینے 'یو این 80' اقدام کے تحت اقوام متحدہ کے سیکریٹریٹ کے لیے اولین تجاویز بھی پیش کرتے ہیں جس کا تعلق ادارے کے انتظام و انصرام سے ہے۔ یہ اقدامات درج ذیل ہیں:

تنخواہوں کی ادائیگی کا نظام نیویارک، اینٹیبے اور نیروبی کے درمیان ایک واحد عالمی ٹیم میں ضم کرنا اور چند ذمہ داریاں نیویارک اور جنیوا جیسے مہنگے مراکز سے کم لاگت والے مراکز میں منتقل کرنا۔

مزید بچت املاک میں کمی کے ذریعے کی جائے گی اور ادارہ 2027 تک نیویارک میں کرائے پر لی گئی دو عمارتوں کو خالی کر دے گا جس کی بدولت 2028 سے سالانہ سطح پر بچت متوقع ہے۔

ان اقدامات کے ذریعے کام کی تکرار کو کم کیا جائے گا، معیار میں بہتری لائی جائے گی، ذمہ داریوں کی انجام دہی کو تحفظ ملے گا اور رکن ممالک کی ہدایات کے تحت اقوام متحدہ کو زیادہ موثر اور کفایت شعار ادارہ بنایا جائے گا۔

یو این 80 اقدام

مارچ 2025 میں شروع کیا گیا 'یو این 80' اقدام تین بنیادی ورک سٹریم (سلسلہ ہائے کار) کے گرد تشکیل دیا گیا ہے۔

ورک سٹریم 1: انتظامی بہتری اور تاثیر

اس کے تحت انتظامی اصلاحات اور مؤثر طریقہ کار سے متعلق تجاویز کو پہلی بار نظرِ ثانی شدہ تخمینوں میں شامل کیا گیا ہے جبکہ مزید اصلاحاتی تجاویز بعد میں پیش کی جائیں گی۔

ورک سٹریم 2: ذمہ داریوں پر عملدرآمد کا جائزہ

اس کے تحت تیار کردہ جائزہ رپورٹ اگست میں پیش کی گئی جو اب ایک نئے قائم کردہ غیر رسمی ایڈ ہاک ورکنگ گروپ کے پاس زیر غور ہے۔ اس گروپ کا اجلاس آج ہو رہا ہے۔

ورک سٹریم 3: ساختیاتی و عملی ہم آہنگی

اس کے تحت اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کے درمیان ساختیاتی اور عملی ہم آہنگی بڑھانے پر غور کیا جا رہا ہے۔

اس ضمن میں ابتدائی تجاویز اسی ہفتے کے آخر میں رکن ممالک کو پیش کیے جانے کی توقع ہے۔

سیکریٹری جنرل کے مطابق، یہ تینوں ورک سٹریم مل کر اقوام متحدہ کے کام کرنے کے انداز میں ایک بڑی تبدیلی لائیں گی تاکہ ادارہ موثر، قابل بھروسہ اور مستحکم رہے۔

آئندہ اقدامات

سب سے پہلے مشاورتی کمیٹی ان نظر ثانی شدہ تخمینوں کا جائزہ لے گی جس کی سماعتیں اسی ہفتے سے شروع ہونے کی توقع ہے۔

اس کے بعد یہ تجاویز جنرل اسمبلی کی پانچویں کمیٹی کو بھیجی جائیں گی، جہاں اقوام متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک انتظامی اور بجٹ سے متعلق معاملات پر بات چیت اور فیصلے کریں گے۔

منظوری ملنے کی صورت میں یہ تبدیلیاں 2026 میں مرحلہ وار نافذ ہونا شروع ہوں گی جبکہ مختلف ورک سٹریم سے جڑی آئندہ اصلاحات کو مستقبل کے بجٹ میں شامل کیا جائے گا۔

سیکرٹری جنرل کا خط

اقوام متحدہ کے عملے کے نام ایک خط میں سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ یہ تبدیلیاں ان کے روزمرہ کام اور پیشہ ورانہ زندگی کو متاثر کریں گی، لیکن انہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ عملے کو اس تمام عمل میں پوری طرح شامل کیا جائے گا اور ان کی معاونت کی جائے گی۔

انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ اس معاملے میں ادارے کے عملے کو معلومات کی متواتر فراہمی، مشاورت کے مواقع اور ہر مرحلے پر عملی رہنمائی فراہم کی جائے گی۔

سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ ان فیصلوں پر سب سے پہلے وہ خود جوابدہ ہوں گے۔ تبدیلیوں کو انصاف، ہمدردی اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ نافذ کیا جانا چاہیے اور ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس عمل کے دوران اقوام متحدہ کی اقدار کا تحفظ کرے۔

متعلقہ مضامین

  • آئرلینڈ کا غزہ میں نسل کشی پر اسرائیل اور اسے اسلحہ فراہم کرنیوالے ممالک کو اقوام متحدہ سے نکالنے کا مطالبہ
  • ایک ملک کے خلاف جارحیت دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور ہو گی، پاک سعودیہ معاہدہ
  • اقوام متحدہ: 2026 کے مجوزہ بجٹ میں اصلاحات اور 500 ملین ڈالر کٹوتیاں
  • سابق نگراں وفاقی وزیر گوہر اعجاز نے معاشی بحالی کا روڈ میپ پیش کردیا
  • ایجادات کرنے والے ممالک کی فہرست جاری، جانئے پاکستان کا کونسا نمبر ہے؟
  • اسلامی ملکوں کے حکمران وسائل کا رخ عوام کی جانب موڑیں: حافظ نعیم 
  • یورپی ملک لکسمبرگ کا فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان
  • پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح صفر ہو جانے کا خدشہ
  • صنفی مساوات سماجی و معاشی ترقی کے لیے انتہائی ضروری، یو این رپورٹ
  • اسرائیل کی معاشی تنہائی شروع