Nai Baat:
2025-06-09@16:47:32 GMT

ترقی ےافتہ اقوام کے معاشی حربے

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

ترقی ےافتہ اقوام کے معاشی حربے

آج ساری دنیا دہشت گردی کا ہر وقت واویلہ تو کرتی رہتی ہے لیکن کےا کبھی ترقی ےافتہ اور امےر ممالک نے اس کے خاتمے کے لئے حقےقی اقدامات کرنے کی کوشش کی ہے اس کا جواب ےقےناً نہ مےں ہے۔ اگر دےکھا جائے تو اس دہشت گردی کی وباءکے پےچھے مادی وسائل مےں عدم مساوات ہے ایک طرف تو دنےا مےں لکڑےاں کاٹنے اور مشکوں کے ذرےعے پانی پہنچانے والے ہےں تو دوسری طرف وہ لوگ ہےں جنہےں اس کرہ¿ ارض کے وسائل پر مکمل اختےار حاصل ہے اور اگر تےسری دنےا کے چھوٹے ممالک کے پاس کچھ وسائل ہےں بھی تو ان پر بھی ان طاقتور ممالک کی نظر رہتی ہے بلکہ بہانے بہانے سے انہےں ہتھےانے کے لئے سازشےں کی جاتی رہتی ہےں۔ ےہ اےک انوکھی صورتحال ہے جو تقاضا کرتی ہے کہ قوموں کے ان دو طبقوں کے درمےان اےک تعمےری گفت و شنےد ہونی چاہئے اور اس کے ساتھ منصفانہ بےن الاقوامی اقتصادی نظاموں کی تعمےر کے اس عمل کو اصلاحات کا جامہ پہناےا جائے جن مےں شمال ےا جنوب ، مشرق ےا مغرب کی بہت سی قوموں کی قےادتےں اس وقت اپنے ملکوں مےں الجھی ہوئی ہےں۔ اس مےں کوئی شک نہےں ہے کہ اقوامِ متحدہ کے زےرِ اہتمام بےن الاقوامی پلےٹ فارموں پر ترقی پذےر ممالک آپس مےں ےک جہتی کے مظاہرے کرتے رہتے ہےں لےکن تےسری دنےا کے نفاق انگےز حالات تو اس حقےقت سے ہی عےاں ہےں کہ ترقی پذےر ملکوں کے سارے موجودہ گروپوں کی بنےاد اپنے ارکان کے علاقائی اور سےاسی تعلق پر ہے اور چونکہ وہ سب اپنی ذات کے اندر اس حد تک محدود ہےں اس لئے وہ اس مسئلے پر پوری طرح توجو نہےں دے سکتے جو سارے علاقوں پر محےط ہے اور سےاسی ےا نظرےاتی اختلافات سے بالا تر ہے۔ اسلامی کانفرنس، سارک کانفرنس، عرب لےگ، افرےقی اتحاد کی تنظےم اور اس طرح کی دوسری علاقائی اقتصادی تنظےمےں اپنے محدود منشوروں کی وجہ سے اےک خاص برِ اعظم، علاقے ےا عقےدے کے ملکوں تک محدود ہےں لہٰذا ےہ دعویٰ نہےں کر سکتی ہےں کہ ترقی پذےر ملکوں کے اقتصادی مفادات کے بحےثےت مجموعی ادراک کرتی ہےں۔ ساری تےسری دنےا اس وقت اپنی سےاسی اور اقتصادی قوت کو منظم کرنے مےں مصروفِ عمل ہو کر استحصال کے پرانے طرےقوں کو تبدےل کر سکتی ہے۔
ترقی ےافتہ و طاقتور ملک ترقی پذےر ملکوں کے وسائل اپنی ترقی اور آسائشوں کے لئے اپنے کنٹرول مےں رکھتے ہےں، انہےں کوڑےوں کے مول خرےداجاتا ہے اور بڑی بے دردی سے خرچ کےا جاتا ہے۔ اب گزشتہ تےن دہائےوں سے صورتحال ہی بدل گئی ہے کہ ترقی ےافتہ ممالک ان ملکوں کے اندرونی معاملات مےں مداخلت کے ذرےعے ےا ان پر چڑھ دوڑنے کے بہانے پےدا کر کے ان ملکوں کے وسائل اپنے کنٹرول مےں کر لےتے ہےںاس کی واضح مثالےں ےورپ اور امرےکہ کا عراق، کوےت، سعودی عرب، لےبےا، شام، ےمن، افغانستان اور دوسرے ملکوں مےں فوجی اور سےاسی مداخلت کر کے ان کے وسائل اپنے تصرف مےں لانا ہے۔ ان تمام باتوں کا منطقی نتےجہ ےہ ہے کہ جب قومےں اپنے مفادات کے تحفظ کا اتحاد نہےں کر سکتی ہےں تو نہ صرف موجودہ بے انصافےوں کا برابر شکار رہتی ہےں بلکہ عالمی اقتصادی قوتوں کے عمل سے ان مےں مزےد اضافہ بھی ہو جاتا ہے۔تےسری دنےا کے نئے آزاد ہونے والے ملکوں کے لئے بےن الاقوامی اقتصادی ماحول تو اس وقت بھی سازگار نہ تھا جب انہےں خود مختار مملکت کی حےثےت حاصل ہوئی لےکن ان کی سےاسی آزادی کے عشروں کے دوران ان کے اور مالدار ملکوں کے درمےان اقتصادی ناہمواری حد سے زےادہ بڑھ گئی ہے ۔ اس صورتحال مےں جب اوپر بےان کئے گئے گروپوں مےں سے کوئی گروپ ان بے انصافےوں کو ختم کرنے کے لئے مشترکہ کوششوں کا آغاز کرنے لگتا ہے تو مالدار ملکوں کی زبردست اقتصادی طاقت، تجارت اور سرمائے کے اداروں پر اپنی اجارہ دارےوں کے سہارے ےہ ممالک اندرونی اور بےرونی رد و بدل کے اثرات کو غرےب تر قوموں کی جانب دھکےل دےتے ہےں جےسے کہ تےل کی قےمت بڑھانے پر ترقی ےافتہ قوموں نے صنعتی مصنوعات کی قےمتےں بڑھا کر تےل کے نام نہاد بحران کے بوجھ کو غرےب ملکوں کی طرف موڑ دےا اور ساتھ ہی ان تحرےکوں کے محرک افراد کو عبرت ناک سزا دےنے سے بھی نہےں چوکتے جےسے کہ پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو اور سعودی عرب کے شاہ فےصل کے ساتھ کےا گےا سلوک جنہوں نے اےٹمی قوت کے حصول مےں پےش رفت کے ساتھ تےل کو بطور ہتھےار اور اسلامی بلاک کو منظم کرنے کی کوشش کی۔ دوسری طرف جب تےسری دنےا کی برآمدات کی بات آتی ہے تو ترقی ےافتہ ممالک مارکےٹوں پر اجارا دارےوں کی بنا پر مختلف حربوں سے اپنے مفادات کے تحت قےمتوں کا تعےن کرتے ہےں۔ اگر ہم گزشتہ پانچ چھ دہائےوں سے تےسری دنےا کی جانب سے کی جانے والی برآمدات کا مشاہدہ کرےں تو تےل کو چھوڑ کر بنےادی اشےاءکی قےمتوں مےں حقےقی معنوں مےں کافی حد تک کمی ہوئی ہے اور قےمتوں مےں سالانہ بنےادوں پر شدےد اتار چڑھاو¿ اس کے علاوہ ہے۔
جب پاکستان بنگلہ دےش جےسے دوسرے ترقی پزےر ممالک اپنے ہاں پےدا ہونے والے خام مال کو استعمال مےں لا کر مصنوعات پےدا کرنے کی صلاحےت پےدا کر لےتے ہےں اور مصنوعات فروخت کرنے کے قابل ہو جاتے ہےں تو ان کی مصنوعات کو امتناعی کوٹے کے ذرےعے امےروں کی منڈےوں سے خارج کر دےا جاتا ہے اور مصنوعات سے متعلق ان کی ےہ پوزےشن ان کے خود کفالت حاصل کرنے کے مقصد کو ناکام بنا دےتی ہے۔ امےر ملکوں سے انہےں درآمدات کے لئے زےادہ سے زےادہ رقم ادا کرنے کی ضرورت ان مےں سے اکثر کو قرض کی دلدل مےں پھنسا دےتی ہے اس طرح توازنِ ادائےگی کو درست رکھنے کے لئے اےسے ترقی پذےر ملک قرضوں کی آکاس بےل مےں الجھتے جاتے ہےں اور اس بات کا پروپےگنڈہ کچھ اس طرح کےا جاتا ہے کہ غرےبوں کی ترقی کا دارومدار ترقی ےافتہ اقوام کی مسلسل تےز رفتار ترقی پر ہے۔ترقی ےافتہ ملکوں مےں ےہ اےک اےسی سوچ پےدا ہو رہی ہے کہ ترقی پذےر ملکوں کی بقاءکے لئے ترقی ےافتہ اور ترقی پذےر ملکوں کے درمےان فرق بڑھتا رہنا چاہئے ےعنی امےرممالک کو کرہ¿ ارض کی دولت کا بڑا حصہ اپنے تصرف مےں لاتے رہنا چاہئے۔ اب تو ےہ بھی دلےل سننی پڑ رہی ہے کہ کم ترقی ےافتہ ممالک اپنی غربت اور افلاس کے خود ہی ذمہ دار ہےں نہ کہ ترقی ےافتہ ممالک کے معاشی استحصال کی بدولت۔ امےر ممالک اپنے گروپوں اور اتحادوں کو مضبوط سے مضبوط تر بنا رہے ہےں اور اب وہ تمام توجہ اپنے مفادات کو مستحکم کرنے پر مرکوز کر رہے ہےں چنانچہ ےہ ممالک بےن الاقوامی مالی اصلاحات اور تجارت و وسائل کی منتقلی کے سلسلے مےں زےادہ تر آپس مےں ہی معامالات طے کر لےتے ہےں اور اس ضمن مےں ترقی پزےر ملکوں کا حصہ محض برائے نام ہے۔ اگر ترقی ےافتہ ممالک اپنی دولت اور ٹےکنالوجی کے بل بوتے پر اپنا غلبہ برقرار رکھنے کے لئے متحد ہو سکتے ہےں تو غرےب اقوام اپنی صفوں مےں پےدا شدہ انتشار ختم کر کے اےک پلےٹ فارم پر اکٹھے ہو کر غےر انسانی سلوک کے خلاف مشترکہ جدو جہد کےوں نہےں کر سکتے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: ترقی پذےر ملکوں کے بےن الاقوامی کے وسائل کہ ترقی کرنے کی جاتا ہے ہےں اور ہےں تو کے لئے ہے اور اور اس

پڑھیں:

چین سب سے جدید اور متحرک مارکیٹ کے طور پر ترقی کر رہا ہے،سیمنز اے جی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین رولینڈ  بش

چین سب سے جدید اور متحرک مارکیٹ کے طور پر ترقی کر رہا ہے،سیمنز اے جی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین رولینڈ  بش

بیجنگ :کچھ عرصہ قبل چینی صدر شی جن پھنگ نے بیجنگ کے عظیم عوامی ہال میں بین الاقوامی کاروباری برادری کے نمائندوں سے ملاقات کی تھی ، جن میں جرمنی کے سیمنز اے جی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے
چیئرمین رولینڈ بش شامل تھے۔

حال ہی میں چائنا میڈیا گروپ  کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ یہ ملاقات بہت حوصلہ افزا رہی ۔ان کا کہنا تھا کہ اس ملاقات میں  چینی صدر شی جن پھنگ کی شرکت   سے  مارکیٹ کو مزید کھولنے اور غیر ملکی  صنعتی و  کاروباری اداروں کا چین میں سرمایہ کاری اور کاروبار کرنے کا خیرمقدم کرنے کا پیغام دیا گیا۔

رولینڈ بش  کے مطابق بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے اور ترقی پذیر ممالک   کے لئے قدر پیدا کرنے کے لئے اہم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کیونکہ بیلٹ  اینڈ روڈ انیشی ایٹو ترقی پذیر ممالک کے درمیان رابطوں کی تکمیل کے حوالے سے مددگار ہے اور  تجارت کو آسان بنانے اور مارکیٹ کے کھلے پن کو فروغ دینے کے لئے نہایت اہم ہے.اس کے علاوہ یہ  تحفظ پسندی کی مخالفت کرتا ہے اور عالمی معیشت کو تیزی سے ترقی دینے میں مدد کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیمنز 150 سال سے زائد عرصے سے چینی مارکیٹ میں موجود ہے۔ اس وقت، سیمنز کے چین میں 30،000 ملازمین ہیں، جن میں سے 5،000 آر اینڈ ڈی  سیکٹر میں مصروف عمل ہیں. سیمنز کے پاس 12,000 فعال پیٹنٹ ہیں اور مستقبل میں سیمنز  کمپنی نا صرف  چین کے لئے  مزید موزوں مصنوعات تیار کرنا جاری رکھےگی  بلکہ مناسب موقع پر ان مصنوعیات کو پوری دنیا میں متعارف  بھی کروائےگی .

بش کے مطابق  سیمنز  کے لئے  چین دنیا  میں  سب سے بڑی مارکیٹوں میں سے ایک ہے  اور کمپنی نے کبھی بھی چینی مارکیٹ سے دستبرداری پر غور نہیں کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ   چین سب سے جدید اور متحرک مارکیٹ کے طور پر ترقی کر رہا ہے  اور اگر سیمنز بین الاقوامی سطح پر مسابقتی عمل میں  رہنا چاہتا ہے  تو اسے  چین مین مقابلہ کرنا ہوگا.

ان کا کہان تھا کہ چین میں  شاندار ٹیلنٹ موجود ہے ۔ اس وقت، چین نئے معیار کی پیداواری  قوتوں کو فروغ دے رہا ہے، جو کئی سالوں کی ترقی کا تسلسل ہے.

سی ایم جی کو دیے گئے اس خصوصی انٹرویو میں مسٹر رولینڈ بش نے کہا کہ چین دنیا کی جدید ترین مارکیٹوں میں سے ایک ہے او ر چین  کے اعلیٰ معیار کے کھلے پن میں  وسعت  غیر ملکی کاروباری اداروں کے لئے اچھے مواقع فراہم کرتی ہے۔ مسٹر بش  نے   چین کی مستقبل کی ترقی پر اعتماد  کا اظہار کیا ۔

Post Views: 5

متعلقہ مضامین

  • تحریک انصاف نے معاشی ترقی کے اعدادوشمار کو ’فارم 47‘ کی مانند قرار دے دیا
  • معاشی اصلاحات اور ترقی کا عمل فوری طور پر مکمل نہیں ہو سکتا، وفاقی وزیر خزانہ
  • قومی اقتصادی سروے آج پیش کیا جائے گا، حکومت معاشی ترقی کا ہدف حاصل میں ناکام
  • قومی اقتصادی سروے کل پیش کیا جائے گا، معاشی ترقی کا ہدف حاصل نہ ہو سکا
  • اسرائیل غزہ کے حقائق کو دنیا بھر سے چھپا رہا ہے، اقوام متحدہ کا اعلان
  • چین سب سے جدید اور متحرک مارکیٹ کے طور پر ترقی کر رہا ہے،سیمنز اے جی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین رولینڈ  بش
  • مودی کو بڑا جھٹکا، برکس ممالک کی بھارت کو اپنے اتحاد سے نکالنے کی تیاریاں
  • پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک غیر مؤثر ہے، ان کے پاس تیاری ہے نہ عوامی حمایت،رانا ثنا
  • فلسطین میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر اقوام عالم کی خاموشی لمحہ فکریہ ہے، سردار عتیق
  •   یکجہتی، قربانی اور ایثار کے جذبے کو اپنانا ہو گا، شہباز شریف کا عید پر قوم کے نام پیغام