شہری معاملات کی بہتری کیلئے چند تجاویز
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
بلاشبہ پنجاب حکومت اور اس کی خاتون وزیراعلیٰ مریم نواز نے صوبہ میں انتظامی معاملات کو احسن طریقے کے ساتھ چلانے کے ساتھ ساتھ عوامی خدمت کی اچھی مثال سیٹ کی ہے لیکن بعض معاملات ایسے ہیں کہ جن کے فوری طور پر نظر آنے والے نتایج کو بہت بھلے معلوم ہوتے ہیں لیکن اگر ان کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان مسائل کا صرف سطحی حل پیش کیا جا رہا ہے ، اور کل کلاں کو حکومت یا انتظامیہ کی تبدیلی کی صورت میں معاملات اسی طرح بگاڑ کا شکار ہو جانے کا اندیشہ ہے۔
وزیر اعلیٰ مریم نواز کی خدمت میں کچھ تجاویز پیش کر رہا ہوں امید ہے وہ ان کا جائزہ ضرور لیں گی۔
سب سے پہلی بات عوام کو مہیا کی جانے والی صحت کی سہولیات کی ہے۔ ائیر ایمبولینس ، کلینک آن ویلزکے علاوہ ہسپتالوں کی سہولیات میں خاطر خواہ اضافہ بالخصوص مفت ادویات ایسے اقدامات ہیں جن کی بہت تعریف کی جانی چاہیے اور یقینا ایسا ہو بھی رہا ہے ۔ لیکن وزیراعلیٰ صاحبہ اس بنیادی نقطہ پر توجہ نہیں دے سکیں کہ لوگوں کی بنیادی صحت کو بہتر بنانے پر غور کیا جائے تاکہ لوگ بیمار ہی کم پڑیں ۔ اگر حکومت ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائے تو ہسپتالوں اور علاج معالجہ کی سہولیات مہیا کرنے پر اٹھنے والے اخراجات میں تو خاطر خواہ کمی واقع ہو گی ہی لیکن اس طریقے سے ہونے والی بچت یقینی طور پر ان اخراجات سے کافی کم ہو گی جو عوام کو پارک، سیر گاہیں، ورزش کے لیے جم ، یوگا کلاسز اور نوجوانوں کو، بالخصوص سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں آوٹ ڈور کھیلوں کے زیادہ اور بہتر مواقع مہیاکرنے پر اٹھیں گے۔ پنجاب حکومت میڈیا پر تشہیر کر کے بڑی تعداد میں عوام کو صحت مند سرگرمیوں میں شامل ہونے کی ترغیب دے سکتی ہے۔ اس کے علاوہ جعلی ڈاکٹروں، حکیموں اور ادویات بنانے والوں کے خلاف بھی زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی جانی چاہیے۔ یعنی حکومت علاج کی بہترین سہولیات تو مہیا کرے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایسے اقدامات بھی کرے کہ لوگ کم از کم بیمار پڑیں۔
پنجاب حکومت کی جانب سے سڑکوں کی تعمیر و مرمت اور انہیں خوبصورت بنانے کا عمل اس وقت گہنا جاتا ہے جب ان سڑکوں پر قانون کی عملداری نا ہونے کے برابر ہو اور ہر کوئی سگنل توڑنے، ون وے اور لائین اور لین کی خلاف ورزی پر آمادہ نظر آئے۔ ہر چوک میں پیشہ ور بھکاریو ں کے جھنڈ نظر آئیںاور ان مسائل کو کنٹرول کرنے والے کسی سائیڈ پر گپ شپ ، چائے پینے یا پھر موبائیل پر سوشل میڈیا پر مصروف نظر آئیں۔
شہری سوچ ، رویوں اور تربیت میں زوال اور ماحولیاتی بدانتظامی کے بڑھتے ہوئے مسئلے کو اکثر سطحی طور پر مثلا عوامی مقامات کی صفائی، غیر قانونی تجاوزات کو ہٹانے اور وال چاکنگ کو مٹانے کے ذریعے حل کیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ اقدامات ڈسپلن کا ایک عارضی بھر م تو پیدا کر سکتے ہیں، لیکن وہ اس طرح کے مسائل کی بنیادی وجوہات اور ذمہ داروں کے طرز عمل کو حل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ عوامی مقامات کی صفائی اور بحالی صرف اس صورت میں بہت کچھ حاصل کر سکتی ہے جب اس میں سخت قوانین اور ان کی عملداری کے ساتھ ساتھ عوام کی تربیت اور ان میں شعور اجاگر کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔
شہروں، گلیوں، محلوں ، گھروں اور اداروں کی حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق صفائی کو یقینی بنانے جیسے اقدامات کے نتائج بالغ شہریوں کے ساتھ ساتھ سکولوں میں جانے والے بچوں اور ایسے بچے جو کسی بھی وجہ سے سکول جانے سے قاصر ہیں کی تربیت کرنے سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
تجاوزات کا عمل، چاہے غیر مجاز سٹالز لگا کر، غیر قانونی ڈھانچے کھڑا کر کے، یا بغیر اجازت کے بینرز اور سٹیمرز آویزاں کر کے، احتساب کے فقدان کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ان خلاف ورزیوں کے ذمہ دار وں کو بھی بھر پور طور پر اندازہ ہے کہ کہ ان کی ان حرکات کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ اسی طرح، وال چاکنگ، بصری آلودگی کی ایک شکل، ایک مستقل مسئلہ ہے جو شہروں کی جمالیاتی کشش کو داغدار کرتا ہے۔
ان سرگرمیوں کو جاری رکھنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ضروری ہے۔ محض اس گندگی کو صاف کرناجو غیر ذمہ دار لوگ پوری بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ پھیلاتے ہیں اور ایسے لوگوں کے خلاف سخت کاروائی نا کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی سنگین بیماری کا علاج محض درد کم کرنے والی ادویات سے کیا جائے۔ حکام کو مستقل مزاجی کے ساتھ قواعد و ضوابط کو نافذ کرنا چاہیے۔ جرمانے، قانونی کارروائیاں، اور دیگر رکاوٹیں دوبارہ ہونے والے جرائم کو روکنے کے لیے ہونے چاہئیں۔ اس کے لیے مقامی حکومتوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور شہری تنظیموں کے درمیان مضبوط کوارڈینیشن کی ضرورت ہے۔ مزید یہ کہ شہریوں کو ماحول اور معاشرے پر ان اقدامات کے اثرات سے آگاہ کرنے کے لیے عوامی آگاہی مہم چلائی جانی چاہیے۔ بنیادی سوک سینس اور شہری ذمہ داری اور ملکیت کا احساس پیدا کرنا اس سلسلہ میں اہم ہو سکتا ہے۔ جب لوگ اپنے اعمال کے اثرات کو سمجھتے ہیں، تو وہ ان سرگرمیوں سے پرہیز کرتے ہیں جو ان کے اپنے علاقوں یا شہروں کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ سخت نفاذ کے ساتھ نظام میں بہتری لانے کی بھی ضرورت ہے۔ مقامی حکومتوں کو اسٹریٹ وینڈرز اور چھوٹے کاروباروں کو مخصوص علاقوں میں کام کرنے کے لیے قانونی متبادل فراہم کرنا چاہیے۔ اسی طرح غیر قانونی وال چاکنگ کی حوصلہ شکنی کے لیے اظہار خیال کے لیے تخلیقی آ¶ٹ لیٹس پیش کیے جائیں۔ اگر لوگوں کے پاس اپنی ضروریات کو پورا کرنے اور اظہار خیال کرنے کے جائز اور قابل رسائی طریقے دستیاب ہوں تو ان کے غیر قانونی طریقوں کا سہارا لینے کا امکان کم ہو جائیں گے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ سڑکوں کو صاف کرنا اور بصری آلودگیوں کو دور کرنا کافی نہیں ہے۔ جب تک مجرموں کا احتساب نہیں کیا جاتا اور نظامی حل پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا، مسئلہ برقرار رہے گا۔یقینا ایک طویل مدتی بہتر، پائیدار، صاف ستھرے اور منظم شہری ماحول کی تخلیق کو یقینی بنانا ہی مسلہ کا حل ہے۔
وزیر اعلیٰ مریم نواز اور ان کی ٹیم کو یہ بات سمجھنی ہو گی کہ ایک مرتبہ کوئی ایکشن کر کے بے فکری کی نیند نہیں سو جانا بلکہ اس سلسلہ کو جاری رکھنے کے لیے پورا پہرا دینا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ عوام کے ذ ہنوں میں اس سوچ اور خیال کی بھی جگہ بنانے کی ضرورت ہے کہ صحت، صفائی، قانون کی عملداری اور ڈسپلن قائم کرنا صرف حکومت کی ہی ذمہ داری نہیں بلکہ اس سلسلہ میں ہر شہری کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: کے ساتھ ساتھ ضرورت ہے کرنے کے کے لیے اور ان
پڑھیں:
ریلیف پیکیج آئی ایم ایف کی اجازت سے مشروط کرنا قابل مذمت ہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-11-10
فیصل آباد(وقائع نگارخصوصی)جماعت اسلامی کے ضلعی امیرپروفیسرمحبوب الزماںبٹ نے کہاہے کہ حکومت کی طرف سے سیلاب متاثرین کیلئے ریلیف پیکیج کو آئی ایم ایف کی اجازت سے مشروط کرنا بھی قابل مذمت اور قومی خود مختاری پر سوالیہ نشان ہے، وزیر اعظم اتنے بے اختیار ہو چکے ہیں کہ وہ آئی ایم ایف سے اجازت لیکر عوام کیلئے بجلی کے بل معاف کر سکیں گے۔ صرف اگست کے بجلی کے بل معاف کرنے کی بجائے اگلے چھ ماہ کے بل معاف کئے جائیں۔انہوںنے کہاکہ سیلاب زدگان کے ریلیف اور امداد کیلئے حکومتی اقدامات ناکافی ہیں۔ حکومت کی طرف سے جامع پیکیج کا اعلان کیا جائے۔صرف بجلی کے بل ہی نہیں متاثرہ علاقوں میں کسانوں کا آبیانہ قرضے اور زرعی انکم ٹیکس معاف کیا جائے، کسانوں کو کھادبیج اور مویشیوں کیلئے چارہ بھی مفت فراہم کیا جائے۔ سیلاب زدہ علاقوں کو آفت زدہ قرار دے کر متاثرین کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے ۔ انہوںنے کہاکہ حکمران فضائی دوروں کی بجائے زمین پر آئیں اور لوگوں کے مسائل حل کریں ۔ متاثرہ علاقوں میں انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے اور نکاسی آب بڑا مسئلہ ہے۔ بحالی کے اقدامات کے دوران سب سے پہلے تباہ شدہ پلوں کی تعمیر اور آبادیوں سے پانی کی نکاسی کا بندوبست کیا جائے۔ انہوںنے کہاکہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں متاثرین کی بحالی کے لیے بھی ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کا آغاز کریں۔ سیلابی علاقوںمیں تعفن پھیلنے کی وجہ سے ڈینگی، ملیریا، ہیضہ اور دیگر خطرناک بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں، لوگوں کو ادویات میسر نہیں اور طبی عملہ کی شدید کمی ہے۔ بچوں اور حاملہ خواتین کے لیے تمام علاقوں میں میڈیکل کیمپ بنائے جائیں۔