پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے دو چہرے ہیں۔ ایک چہرہ تعمیر و ترقی کا ہے۔ ملک ریاض نے ڈی ایچ ایز کے بعد پاکستان کے جدید ترین ہاو¿سنگ پراجیکٹس دئیے ہیں۔ ان ہاو¿سنگ پراجیکٹس نے عام پاکستانیوں کو بہترین رہائشی سہولتیں ہی نہیں دیں بلکہ ملک کی جی ڈی پی کو بھی بہترکیاہے، ملک کے چہرے کو بھی نکھارا ہے مگر دوسرا چہرہ اس کے پیچھے ہے کہ یہ سب کچھ کس طرح کیا گیا، کس قیمت پر کیا گیا۔ میرے بہت سارے دوست کہتے ہیں کہ ملک ریاض نے اسی طرح اچھا کام کیا جس طرح عمران خان نے القادر یونیورسٹی بنا کے روحانیت کی خدمت کی ہے۔ یہ ایک دلچسپ نکتہ نظر ہے جس پر ایک طویل بحث ہوسکتی ہے کہ کیا آپ ناپاک پانی سے کپڑے کو پاک کر سکتے ہیں۔ کیا قبضے کی زمین پر ملک کی سب سے بڑی مسجد بنائی جا سکتی ہے اور کیا رشوت کی جگہ پر اور کمائی سے روحانیت کی یونیورسٹی کھولی جا سکتی ہے۔ کیا قبضے کر کے بہترین شہری اور رہائشی سہولتیں دی جا سکتی ہیں۔ اسی بحث میں آگے یہ سوال بھی آتا ہے کہ جب ملک میں کاروبار کرنے کا طریقہ ہی یہ ہو تو پھر ملک ریاض اس کے سوا کیا کرتا۔ اوپر سے لے کر نیچے تک ہر محکمہ رشوت لے کر فائلوں کوپہئے لگاتا ہے اور اگر رشوت نہ دی جائے تو پانچ مرلے کاایک گھر بنانا بھی ناممکن ہوجاتا ہے۔
یہ بات پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ملک ریاض پر ہاتھ ڈالنا کتنا مشکل ہے۔ اتنا مشکل کہ سوشل میڈیا کی ریگولیشن کے لئے آنے والے قانون کوآزادی صحافت کے لئے خطرہ قرار دینے والا سب سے بڑا میڈیا گروپ ملک ریاض کا نام نہیں لے سکتا۔ اس کا پرائم ٹائم اینکر جو اس وقت فوج کے بڑے ناقدین میں شامل ہے اور اس ایجنڈے میں وہ بنگلہ دیش اور انڈیا تک کا ترجمان بن جاتا ہے خود کے ملک ریاض کا نام لینے پر ٹوں ٹوں لگ جاتی ہے اور اس سے پہلے والا اینکرایس او پیز کو فالو کرتے ہوئے پراپرٹی ٹائیکون، پراپرٹی ٹائیکون کی تکرار کرتا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف ملک ریاض کے خلاف پریس کانفرنس کرتے ہیں تو اسے بھی پراپرٹی ٹائیکون کے نام سے شائع کیا جاتا ہے اور بہت سارے اخبارات تو اس سے پہلے ملک ریاض کے خلاف نیب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آنے والی پریس ریلیز ہی ہضم کرجاتے ہیں اور ڈکار تک نہیں لیتے۔ ان میں ہمارے بڑے بڑے حاجی نمازی اور پرہیز گار صحافتی تھانیدار بھی شامل ہیں جو اسلام اور پاکستان کے نام پر ہمیں بڑے بڑے بھاشن دیتے ہیں۔کسی نے کہا تھا کہ مافیا وہ ہے جس کا تم نام نہ لے سکو سو آج حکمرانوں سے فوج تک تو سب کا سافٹ ٹارگٹ ہے جس کا دل چاہتا ہے اس پر حملہ کر دیتا ہے، الزام لگا دیتا ہے۔ مجھے تو یہ کہنے میں عار نہیں کہ پہلے صرف دو اینکر ننگے ہوئے تھے اور اب ملک ریاض نے پوری صحافت کے کپڑے اتار کے اسے چوک میں کھڑا کر دیا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اس ملک میں حقیقی صحافت وہی کر رہے ہیں جو ملک ریاض کا نام خبر کی اہمیت اور تقاضوں کے مطابق لے رہے ہیں جیسے کہ ڈان نے نیب کی پریس ریلیز کو لیڈ سٹوری بنایا اور اسی طرح روزنامہ ’نئی بات ‘نے بھی اسے صفحہ اول پر پیشانی کے ساتھ واضح شائع کیا کہ یہی اس کی خبری اہمیت تھی۔
اس وقت ایک سیاسی دھڑا ملک ریاض کی ’ قومی خدمات‘ اور ’ تعمیر و ترقی‘ کے ایجنڈے پر اس کی تعریفیں کر رہا ہے مگر یہ وہی سیاسی دھڑا ہے جو بدترین اخلاقی اور ثابت شدہ مالی جرائم پر بھی اپنے لیڈر کو کلین چٹ دیتا ہے۔آپ کے سیاسی نظریات کچھ بھی ہوں مگر آپ وزیراعظم شہباز شریف اور سپہ سالار جنرل عاصم منیر کا کریڈٹ روکنے کی بددیانتی نہیں کرسکتے کہ انہوں نے سمگلرز اور پراپرٹی مافیا کو لگا دی ہے۔ ہمیں پراپرٹی سیکٹر میں بہت ساری اصلاحات کی ضرورت ہے۔ مجھے رئیل اسٹیٹ کی تنظیم کے سابق صدرمیجر ریٹائرڈ رفیق حسرت بتا رہے تھے کہ یواے ای میں اس وقت تک کوئی ہاو¿سنگ سکیم لانچ نہیں ہوسکتی جب تک اس سکیم کے مالک کے پاس مکمل زمین اور چالیس فیصد ڈویلپمنٹ ( یااس کے برابر سرمایہ) موجود نہ ہو۔یہ کام پاکستان میں ہی ہو رہا ہے کہ ایک بورڈ لگا کے اس پر لوگوں سے رقمیں بٹورنی شروع کردیتے ہیں۔ اس طریقہ کار نے مارکیٹ میں فائلیں لانچ کیں اور ان کے ذریعے گھر کا خواب دیکھنے والے لاکھوں پاکستانیوں سے کھربوں روپے لوٹ لئے ہیں۔ فائلیں محض کاغذ کے ٹکڑے ہیں۔ جنرل عاصم منیر کے آنے کے بعد ڈی ایچ اے کا کوئی نیا پراجیکٹ نہیں آیا اوراس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سمگلنگ کا بھی قلع قمع کیا ہے جس کی وجہ سے وہ صحافی بھی ان سے نالاں ہیں جو اس سے فائلیں بغل میں دباتے تھے اور منظوری کروا کے واپس آجاتے تھے۔ وہ سب اس وقت جمہوریت پسند بلکہ عمرانڈوز بنے ہوئے ہیں۔
کسی نے مجھ سے پوچھا کہ کیا ملک ریاض کو پکڑا جاسکتا ہے تو میرا جواب تھا کہ اگر جنرل فیض حمید کا فیلڈ جنرل کورٹ مارشل ہوسکتا ہے تو ملک ریاض عدالت میں کیوں نہیں لایا جاسکتا۔ یہ سوال بھی ہوا کہ اگر دوبئی کی ایڈمنسٹریشن المکتوم ائیرپورٹ کے پاس بی ٹی پراپرٹیز کو ہاو¿سنگ پراجیکٹ بنانے کی اجازت دے سکتی ہے تو پاکستان کا نیب کیسے اس میں سرمایہ کاری کو منع کر سکتا ہے یا منی لانڈرنگ قرار دے سکتا ہے تو اس کا جواب تھا کہ نیب کی یہ ذمے داری ہے کہ اگر وہ اشتہاری ملزمان بارے ایسی اطلاع پائے یا پہلے پراجیکٹس میں قبضوں سمیت دیگر الزامات ہوں تو وہ عوام کو خبردار کرے۔ اگر وہ عوام کو خبردار نہیں کرے گا تو وہ اپنے فرائض سے روگردانی کرے گا۔ ہمیں جاننا، ماننا اور سمجھنا ہوگا کہ ملک ریاض اور عمران خان پر جو مقدمات ہیں جو نواز شریف جیسے نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے لئے کسی ثاقب نثار نے بلیک لاءڈکشنری کی ڈیفی نیشنز کا سہارا لیا ہے بلکہ یہ دو جمع دو چار کی طرح کرپشن کے واضح مقدمات ہیں۔ ناجائز فنڈنگ سے توشہ خانے کی چوریوں تک اور ایک سو نوے ملین پاو¿نڈ ملی بھگت سے ملک ریاض کو دے کر فرح گوگی اور بشریٰ بی بی کے ساتھ مل کر سینکڑوں کنال زمین لینے تک ہر طرح کی کرپشن واضح ہے۔ دلچسپ امر تو یہ ہے کہ ایک جدی پشتی صنعتی خاندان سے تو یہ پوچھا جاتا ہے کہ اس نے اسی اور نوے کی دہائی میں لندن میں فلیٹس کس طرح بنائے مگر یہ کلٹ عمران خان سے نہیں پوچھتا کہ پچھلے پچیس تیس برس سے تمہارامعلوم اور اعلان کردہ کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے تو تم اپنی شاہانہ زندگی کیسے گزار رہے ہو۔ پہلے زمانے میں ڈاکو امیروں کو لوٹ کر غریبوں کو دیا کرتے تھے اور ملک ریاض نے غریبوں کو لوٹ کر امیروں کو محلات بنا کے دئیے ہیں۔ قبضے کئے ہیں اور مسجدیں بنائی ہیں۔ جامعات بنانے کے دعوے کئے ہیں لہٰذا وہ بہت اچھا آدمی ہے؟
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے ملک ریاض نے ہاو سنگ سکتی ہے کہ ملک ہے اور نیب کی ہیں جو
پڑھیں:
تاریخ کی نئی سمت
ایک امیدکی کرن تھی، غزہ کا امن معاہدہ کہ اس کے بعد جنگ کے بادل چھٹ جائیں گے، مگر ایسا لگ نہیں رہا ہے۔ غزہ امن معاہدے کے فوراً بعد امریکا نے روسی تیل کمپنیوں پر پابندی عائد کردی، یوں ٹرمپ اور پیوتن کے مابین ہنگری میں ہونے والی ملاقات ملتوی ہوگئی۔
پیوتن صاحب اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ پچھلے دورکا صدر ٹرمپ واپس آئے گا لیکن ایسا نہ ہوسکا کیونکہ صدر ٹرمپ جو پہلے روس کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں تھا، تھک گیا اور اب وہ یوکرین کے ساتھ اسی طرح کھڑے ہیں جیسے جوبائیڈن کھڑا تھا۔
نیٹو آج بھی یوکرین کے ساتھ ہے۔ روس کی تیل کمپنیوں پر امریکی پابندی کے بعد، ہندوستان نے اندرونی طور پر امریکا کو یہ یقین دلایا ہے کہ وہ روس سے تیل نہیں خریدیں گے اور ایسا ہی وعدہ چین نے بھی کیا ہے، توکیا ایسا کہنا درست ہوگا کہ جو اتحاد چین نے امریکا کے خلاف بنایا تھا۔
لگ بھگ دو مہینے قبل تقریباً تیس ممالک کے سربراہان کی بیجنگ میں میزبانی کی وہ اس امیج کو برقرار نہ رکھ سکا۔ البتہ چین کی تیز رفتار ٹیکنالوجی نے امریکا کو پریشان ضرورکردیا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی میں امریکا کے بعد چین ہی سب سے بڑا نام ہے۔ اس سال کی سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ صدر ٹرمپ اور چین کے صدرکی ملاقات ہے۔
اس منظر نامے میں روس اب نیوکلیئر جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ روس کا یہ اسٹیٹمنٹ دنیا کو ایک خطرناک موڑ پر لاسکتا ہے اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔ روس کبھی یہ بیان جاری کرتا ہے کہ انھوں نے اپنے ایٹمی میزائلوں کا رخ برطانیہ کے مخصوص شہروں کی طرف کردیا ہے، پھر وہ جرمنی کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیتے ہیں۔
نیٹو اور یورپین یونین کی تیاری مکمل ہے اگر روس نے کوئی پہل کی۔ کچھ ہی دن قبل روس کے ڈرون نے پولینڈ کی سرحدیں پارکیں اور ایک دو دن پہلے ہی نیٹو نے یورپین یونین کی حدود میں داخل ہوتا روس کا ڈرون مارگرا یا۔
ہندوستان اور پاکستان کشیدگی میں اب افغانستان بھی حصہ دار بن گیا ہے ۔ ہم نے جو ماضی میں غلطیاں کی تھیں، ان سے ہم سبق تو ضرور سیکھ رہے ہیں لیکن وقت بہت گزر چکا ہے۔ پاکستان کے بارے میں یہ خیال آرائی کی جاتی ہے کہ اندرونی مسائل کے باعث جنگ جھیل نہیں سکے گا اور (خاکم بدہن) پاکستان ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔
یہ تمام خیالات افغان پالیسی سے جڑے تھے۔ جس طرح سے انگریز یہاں اپنے وفاداروں کو جاگیریں بطور انعام بانٹتے تھے، اسی طرح سے ہم نے بھی افغانوں اور ان کے پاکستانی ہم نشینوں اور حامی شرفاء کی ایک نسل تیارکی جنھیں پڑھایا اور یقین دلایا گیا کہ افغانستان کبھی غلام نہیں رہا اور افغان جنگجو قوم ہے۔
ہم نے یہاں مدرسوں میں افغانوں اور پاکستانیوں کی ایک ایسی نسل تیارکی جوکل تک سائیکل چلاتے تھے اور آج درجنوں مسلح محافظوں کے ہجوم میں لگژری گاڑیوں اورڈالوں پر سواری کرتے ہیں ۔
افغان پالیسی کا دیمک ہمیں اندرونی طور پر لگا،اب ہمارے ہر شہر، قصبوں اور گاؤں میں ان کے مفادات کا تحفظ کرنے والے لوگ موجود ہیں، افغان تو حکومت افغانستان میں کرتے تھے، ان کے کاروبار پاکستان میں تھے اور وہ رہتے بھی پاکستان میں تھے۔
پاکستان کے خلاف قوتیں جہاں بھی موجود تھیں، وہاں ہندوستان نے اپنے مراسم بڑھائے۔ ہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھائے ، جب ٹرمپ صاحب نے اپنے کارڈزکھیلے تو پتا چلا کہ دوست کو ن اور دشمن کون! جو دوست بن کرکام کررہے تھے، وہ ڈبل گیم کھیل رہے تھے ۔
فرض کریں کہ اگر امریکا کی پالیسی ہندوستان کے حوالے سے اب بھی ویسی ہی ہوتی جیسی کہ جوبائیڈن کے دورِ میں تھی تو یقیناً پاکستان آج بہت مشکل میں ہوتا ، آج پاکستان کے ساتھ امریکا بھی ہے اور چین بھی۔ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ ہی اچھے رہے لیکن اب ان میں مزید مضبوطی پیدا ہوئی ہے۔
اپنی صف میں ہم نے دراصل ایک دشمن کی پہچان کی ہے۔ وہ دشمن جو بھائی بنا رہا لیکن اب ہندوستان کی گود میں بیٹھا ہے ۔ اور طالبان کو یہ سمجھ آگیا ہے کہ اگر وہ حدیں پارکرتا ہے تو پاکستان ان کی حکومت کو ختم کرسکتا ہے۔ اب ہندوستان میں آنے والے انتخابات میں مودی کی شکست واضح نظر آرہی ہے ۔
ہندوستان کے اندر متبادل قیادت ابھرنے والی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں برِصغیر ہیں، دونوں کی تاریخ ایک ہے، دونوں نے حملہ آوروں کا مقابلہ کیا ہے، لہٰذا دونوں ممالک کے درمیان امن ہونا چاہیے۔ دونوں ممالک کے درمیان جنگ میں دنیا خوش ہوگی لیکن دونوں ممالک کی عوام نہیں۔ افغانستان بھی امن کے ساتھ رہنا چا ہتا ہے، ’ہاں‘ اگر طالبان اور انتہاپسند افغانستان کا ماضی بن جائیں۔
مودی صاحب جو ہندوستان کو دنیا کی چوتھی طاقت بنانا چاہتا تھا وہ اب ہندوستان کی معیشت کے لیے خود مسئلہ بن چکے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ نریندر مودی کے دور میں ہندوستان کی معیشت مضبوط ہوئی مگر اب ہندوستان کی تجارت کو مشکلات کا سامنا ہے اور وجہ ہے امریکا کی ناراضگی۔
گزشتہ تین چار برسوں میں پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ بہتری کے حوالے سے ہماری معیشت نے وہ ٹارگٹ تو حاصل نہیں کیا لیکن مستحکم ضرور ہوئی ہے اور ترقی کی رفتار بھی بہتر ہے۔
افغانستان والے گوریلا وار کے ماہر ہیں۔ وہ پاکستان کے ساتھ روایتی جنگ نہیں لڑ سکتے۔ ہندوستان کا افغانستان کے ساتھ مل کر جنگ لڑنا آسان نہیں۔ جنگ کے لیے جذبہ ہونا لازمی ہے اور اس حوالے سے ہندوستان کی فوج بہت کمزور ہے۔
اسی جذبے کی تحت پاکستان کے افواج آج دنیا میں سرخرو ہیں۔ مودی صاحب کی ہٹ دھرمی کو ٹرمپ صاحب ایک ہی وار میں توڑ دیا۔ یہ چرچا پوری دنیا میں عام ہے۔ہندوستان نے اپنے اتحادیوں کو بری طرح سے نالاں کیا ہے، جن پتوں پر ان کو ناز تھا آج وہ ہی پتے ہوا دینے لگے۔
نادرن افغانستان، محمد شاہ مسعود اب ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ ایک لبرل اور اعتدال پسند افغانستان کی نگاہیں ہم پر مرکوز ہیں۔ ہمیں ان ماڈرن افغانستان کی بات کرنے والی قوتوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔
پاکستان کی سیاست میں ایک نئی فالٹ لائن پیدا ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت یقینا ایک ہائبرڈ گورنمنٹ ہے اور بری حکمرانی ہے سکہ رائج الوقت لیکن اس وقت کوئی نعم البدل نہیں اور اگر ہے بھی تو تباہی ہے،کیونکہ ان کے تانے بانے بھی طالبان سے ملتے ہیں۔
نو مئی کا واقعہ یا اسلام آباد پر حملے ان تمام کاروائیوں میں افغان بھی ملوث تھا۔نئے بین الاقوامی اتحاد بن بھی رہے ہیں اور ٹوٹ بھی رہے ہیں۔ یوکرین کی جنگ کے تناظر میں یہاں بہت کچھ بدل گیا ہے۔
ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے اس دور میں ہمیں اپنی بقاء کے لیے اتنی ہی تیزی سے تبدیلیاں لانی ہونگی۔ یقینا پاکستان آگے بڑھے گا، بہ شرط کہ ہم اپنی تاریخ کی سمت درست کریں۔