پیشہ ور بھکاریوں کی بڑھتی تعداد
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
پاکستان میں پیشہ ور بھکاریوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، جن میں بچوں کی بھی قابل ذکر تعداد شامل ہے۔ کوئی شہر، چوراہا، یا محلہ ان کی موجودگی سے محفوظ نہیں۔ یہ مسئلہ نہ صرف معاشرتی اقدار کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ بچوں کے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی بھی ہے۔ لاہور میں حالیہ کارروائی کے دوران پولیس نے ڈیفنس کے علاقے میں بچوں سے بھیک منگوانے والے دو افراد کو گرفتار کیا۔ ملزمان کے قبضے سے 10 بچوں کو برآمد کیا گیا، جنہیں بعد میں چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے حوالے کردیا گیا۔ یہ واقعہ ان گنت کہانیوں میں سے ایک ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ پیشہ ور بھکاری گروہ معصوم بچوں کو زبردستی یا دھوکا دہی کے ذریعے بھیک مانگنے پر مجبور کرتے ہیں۔ پاکستان میں پیشہ ور بھکاریوں کی اصل تعداد کا تعین مشکل ہے، لیکن مختلف اندازوں کے مطابق صرف لاہور میں روزانہ سڑکوں پر موجود بھکاریوں کی تعداد تقریباً 20 ہزار ہے، جن میں ایک بڑا حصہ بچوں پر مشتمل ہے۔ کراچی میں پیشہ ور بھکاریوں کی تعداد 50 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ چائلڈ پروٹیکشن بیورو پنجاب کے مطابق، صرف 2024 کے ابتدائی چھے ماہ میں 800 سے زائد بچے بھیک مانگتے ہوئے پکڑے گئے۔ یہ بھکاری بچوں کے اغوا سے لے کر کئی اور بھی کئی جرائم میں ملوث ہیں۔ یہ مسئلہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے حل نہیں ہوسکتا۔ عوام اور حکومت کو مشترکہ طور پر مندرجہ ذیل اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ بچوں کو بھکاری مافیا سے بچانے کے لیے سخت قانونی کارروائی ضروری ہے۔ عوام کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ پیشہ ور بھکاریوں کو رقم دینا ان کے جرائم کو فروغ دیتا ہے۔ غریب بچوں کے لیے تعلیم اور ہنر سکھانے کے مراکز کا قیام۔ کے ساتھ حکومت کو روزگار کے مواقع پیدا کرکے غربت کے خاتمے کی کوشش کرنی ہوگی۔ بچوں سے بھیک منگوانا نہ صرف سماجی جرم بلکہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اس مسئلے کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے سخت قوانین، موثر عمل درآمد، اور عوامی تعاون کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اس چیلنج سے نمٹنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو ہم اپنے معاشرے کو بہتر اور محفوظ مستقبل فراہم کرسکتے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
جامشورو: تھانہ بولاخان کے قریب مزدا ٹرک حادثے میں ہلاک افراد کی تعداد 14 ہو گئی
ضلع جامشورو میں تھانہ بولاخان کے قریب کھیر تھر نیشنل پارک کے علاقے میں بلوچستان سے آنے والی تیزرفتار مزدا گاڑی الٹنے سے خواتین اور بچوں سمیت 16 افراد ہلاک اور سترہ زخمی ہوگئے
جاں بحق ہونے والوں میں 6 خواتین 5 بچے اور 3 مرد شامل ہیں جبکہ 30 افراد زخمی ہیں، زخمیوں میں 6 افراد کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔
یہ خوفناک حادثہ تھانہ بولاخان کے پہاڑی سلسلے میں بلوچستان اور سندھ کے سنگم پر واقع دریچی سے تونگ کی طرف آنے والے روڈ پر پیش آیا جہاں مزدا گاڑی تیز رفتاری کے باعث پہاڑی اترتے ہوئے الٹ گئی۔
حادثے کی شدت اس قدر تھی کہ کئی مسافر موقع پر ہی دم توڑ گئے، جبکہ متعدد زخمیوں کو فوری طبی امداد کی اشد ضرورت تھی۔
جاں بحق اور زخمی ہونے والے افراد کا تعلق بدین کے کسی گائوں سے ہے جوکہ ہندوکولہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔
حادثے کی اطلاع ملنے پر ایم پی اے ملک سکندر خان نے فوری طورپر تھانہ بولا خان اور نوری آباد سے ایمبولینیسں جائے وقوعہ پر روانہ کرا دیں
ذرائع کے مطابق تھانہ بولاخان کے مقامی اسپتال میں طبی سہولیات کا فقدان تھا، جس کے باعث متعدد زخمی بروقت علاج نہ ملنے کے سبب جاں بحق ہو گئے۔
زخمیوں میں شامل پانچ بچوں کو سول اسپتال حیدرآباد منتقل کیا گیا، تاہم افسوسناک طور پر چار بچے دوران علاج دم توڑ گئے۔
حادثے کے بعد تونگ اسپتال اور تھانہ بولا خان اسپتال میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے، دوسری طرف اطلاع ہے کہ مقامی افراد کی جانب سے لاشیں اور زخمیوں کو اپنی نجی گاڑیوں میں تونگ اسپتال منتقل کردیا گیا۔
حادثے کے بعد امدادی کارروائیاں فوری شروع کی گئیں، لیکن جائے حادثہ دشوار گزار علاقے میں واقع ہونے کے باعث زخمیوں کو اسپتالوں تک پہنچانے میں 4 سے 5 گھنٹے لگ گئے۔
ریسکیو اہلکاروں، پولیس اور مقامی افراد کی کوششوں سے امدادی کارروائیاں مکمل کی گئیں۔