Daily Ausaf:
2025-04-25@08:39:35 GMT

پاک بنگلہ دیش،دفاعی تعاون کی اہمیت

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

(گزشتہ سےپیوستہ)
اسی پراکتفانہیں کیاگیابلکہ شیخ حسینہ کے خصوصی حکم پر2015ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں پاکستانی طلبہ کے داخلے پرپابندی عائدکردی گئی تھی لیکن آج قدرت اورتاریخی مکافاتِ عمل کایہ فیصلہ سامنے آیاہے کہ اسی یونیورسٹی سے حسینہ کے تمام احکامات کو منسوخ کرتے ہوئے ڈھاکہ یونیورسٹی نے پہل کرتے ہوئے انقلابی اقدامات اٹھاتے ہوئے نہ صرف پاکستانی طلباء کے لئے داخلوں کی اجازت دے دی ہے بلکہ ملک کے تمام اداروں کوپاکستان دشمنی کے تمام اقدامات کوختم کرنے کامشورہ بھی دیاہے۔
مودی سرکاربنگلہ دیش میں بری طرح ناکامی کے بعدشب وروزمختلف قسم کے پروپیگنڈہ پھیلانے کی کوششوں میں مصروف ہے جس میں اس نے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت پر اقلیتوں خصوصاً ہندوؤں پرحملے کروانے اوراسلامی انتہاپسندوں کی حمایت کرنے کے الزامات بھی لگائے جارہے ہیں۔ڈونلڈٹرمپ نے بھی اپنی انتخابی مہم میں بھارتی ہندوووٹرزکی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے تشویش کااظہارکیا تھا۔
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر محمد یونس نے18نومبرکوبھارتی انگریزی اخبار’’دی ہندو‘‘کودئیے گئے ایک انٹرویو میں ہندوئوں پرحملے سے متعلق سوالات کو پروپیگنڈہ قراردیا۔محمدیونس نے کہا کہ ’’ٹرمپ کے پاس بنگلہ دیش اوراس کی اقلیتوں کے بارے میں مناسب معلومات نہیں ہیں لیکن جب ٹرمپ کوحقیقت کاعلم ہوگاتووہ بھی حیران رہ جائیں گے۔میں یہ نہیں مانتاکہ امریکامیں نئے صدرکے آنے سے سب کچھ بدل جائے گا۔اگر امریکامیں اقتدارمیں تبدیلی ہوئی ہے توبنگلہ دیش میں بھی ایساہی ہواہے۔ایسی صورتحال میں آپ کوتھوڑا انتظارکرناچاہیے۔ہماری معیشت درست راستے پرہے اورامریکااس میں بہت دلچسپی لے گا‘‘۔
’’دی ہندو‘‘نے ان سے سوال کیاکہ یہ صرف ٹرمپ کامعاملہ نہیں ہے۔انڈیانے بھی کئی بارپریس کانفرنسزمیں بنگلہ دیش میں ہندوں پرحملوں کامعاملہ اٹھایاہے۔اس کے جواب میں محمدیونس نے کہاکہ 16اگست کومیری وزیراعظم مودی سے فون پرپہلی بات چیت ہوئی تھی۔مودی نے بھی بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے ساتھ برے سلوک کے بارے میں بات کی۔میں نے انہیں واضح طورپربتایاکہ یہ سب پروپیگنڈہ ہے‘‘۔انہوں نے مزیدکہاکہ ’’کئی صحافی یہاں آئے اورکئی لوگوں نے کشیدگی کے بارے میں بات کی لیکن حقیقت وہ نہیں ہے،جومیڈیامیں کہی جارہی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس پروپیگنڈے کے پیچھے کون ہے لیکن اس کاحقیقت سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔بعدازاں تحقیقات کے بعدیہ پروپیگنڈہ بھی بے نقاب ہوگیاکہ دراصل مندرکے ساتھ عوامی لیگ کادفترتھاجہاں سے مظاہرین کے ہجوم پرپتھراؤکیا گیا جس کے جواب میں مشتعل ہجوم نے جوابی طورپرپتھر برسائے جس کومندرپر حملہ قراردے کرجھوٹاپروپیگنڈہ کیا گیا۔
بنگلہ دیش میں انڈین ہائی کمشنرپرنے ورمانے 17نومبرکو ’’بے آف بنگال کنورسیشن‘‘میں بات کرتے ہوئے کہاتھاکہ’’بنگلہ دیش میں اقتدارکی پرتشددتبدیلی کے باوجودانڈیاکے بنگلہ دیش کے ساتھ اقتصادی، ٹرانسپورٹ،توانائی اورعوامی سطح پرتعلقات مثبت ہیں۔ ہمارے تعلقات کثیرالجہتی ہیں اورکسی ایک ایجنڈے پر منحصرنہیں ہیں‘‘۔
تاہم پاکستان میں بنگلہ دیش کی نئی حکومت کامؤقف مثبت طورپرلیاجارہاہے۔میرامانناہے کہ شیخ حسینہ کااقتدارسے باہرہوناپاکستان کے لئے ایک اچھا موقع ہے۔انڈیاشیخ حسینہ کے اقتدارسے باہرہونے پر خوش نہیں ہے۔ انڈین لابی امریکامیں بنگلہ دیش کے خلاف فعال ہوگئی ہے۔یہ لابی ٹرمپ انتظامیہ کوبنگلہ دیش پرپابندیاں عائدکرنے پرآمادہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔بنگلہ دیش سے برآمدہونے والے زیادہ ترگارمنٹس امریکاکوبھیجے جاتے ہیں۔ٹرمپ نے ٹیرف عائد کرنے کی وکالت کی ہے۔اگرٹرمپ ٹیرف لگاتے ہیں تو بنگلہ دیش کوبہت نقصان ہوگا‘‘۔
بنگلہ دیش اورپاکستان کے درمیان سمندری روابط کاآغازایک خوشگوارمعاشی تبدیلی کااشارہ ہے۔یہ پہلاموقع ہے کہ ایک پاکستانی کارگوجہازبراہ راست چٹاگانگ پہنچاہے۔اس سے پہلے دونوں ممالک کے درمیان جتنی بھی تجارت ہوتی تھی وہ سنگاپوراورسری لنکاکے ذریعے کی جاتی تھی۔اس سے انڈیامیں ہلچل اورماتم کاسماں ہے۔بنگلہ دیش کی قیادت اب بہت کھلے ذہن کی حامل ہے۔ایسا نہیں کہ وہ انڈیاکے ساتھ تعلقات بڑھانے کے خلاف ہیں لیکن انہوں نے اپنے مواقع کھلے رکھے ہیں اورپاکستان کے ساتھ تعلقات کیوں نہ بڑھائے جائیں۔اب اگلاقدم یہ ہوگاکہ تجارتی اورصنعتی دنیاکی تنظیمیں بھی ایک دوسرے کے دورے کریں گی اورممکن ہے کہ اگلے سال تک دونوں ممالک کے درمیان خارجہ سیکرٹریز کی سطح پربات چیت شروع ہوجائے۔
بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن پاکستان کے سخت مخالف تھے۔یہاں تک کہ شیخ مجیب نے ذوالفقارعلی بھٹو(جوبعد میں وزیر اعظم بنے)سے اس وقت تک بات کرنے سے انکار کردیاتھاجب تک پاکستان بنگلہ دیش کوتسلیم نہ کرلے۔پاکستان نے بھی ابتدامیں بنگلہ دیش کی آزادی کومستردکردیاتھالیکن پاکستان کے رویے میں اچانک تبدیلی آئی او ر فروری 1974ء میں اسلامی تعاون تنظیم(اوآئی سی)کی کانفرنس لاہورمیں منعقد ہوئی۔اس وقت ذوالفقارعلی بھٹونے بطوروزیر اعظم شیخ مجیب الرحمن کوباضابطہ دعوت بھیجی۔ پہلے تو مجیب نے شرکت سے انکارکردیالیکن بعدمیں اس دعوت کوقبول کرلیاگیا۔
اس کانفرنس کے بعدانڈیا،بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان ایک سہ فریقی معاہدہ ہوا۔ان تینوں ممالک نے9 اپریل1974ء کوایک معاہدے پر دستخط کیے تاکہ1971کی جنگ کے بعدباقی ماندہ مسائل کوحل کیاجاسکے۔پاکستان نے 28اگست 1973ء کے انڈیااورپاکستان کے درمیان معاہدے میں درج چاروں اقسام کے غیربنگالیوں کوقبول کرنے پررضا مندی ظاہرکی۔پاکستان کی وزارت خارجہ اوروزارت دفاع کی جانب سے ایک بیان جاری کیاگیاجس میں کہاگیاکہ اگرپاکستانی فوج نے بنگلہ دیش میں کسی قسم کا جرم کیاہے تویہ قابل افسوس ہے۔
ذوالفقارعلی بھٹونے جون1974ء میں ڈھاکہ کا دورہ کیا۔اس دورے کے دوران بنگلہ دیش نے اثاثوں کی تقسیم کامعاملہ اٹھایا۔اس دورے سے دونوں ممالک کے تعلقات میں برف پگھلنے لگی۔پاکستان نے22 فروری 1974ء کو او آئی سی کے اجلاس میں بنگلہ دیش کوتسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ذوالفقارعلی بھٹونے کہاکہ’’اللہ کے نام پراوراس ملک کے شہریوں کی جانب سے ہم بنگلہ دیش کوتسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ کل ایک وفدآئے گااورہم انہیں7 کروڑمسلمانوں کی جانب سے گلے لگائیں گے‘‘۔ اس مشرکہ اعلامیہ کے بعد انڈیا کوبنگلہ دیش بنانے کے سلسلے میں تمام سرمایہ کاری کے ساتھ اپنادل بھی ڈوبتانظرانے لگااوراسی دن یہ فیصلہ کرلیا گیاکہ بظاہر بنگلہ دیش کوایک آزاد ملک رہنادیاجائے لیکن اس کی تمام ڈوراپنے ہاتھ میں رکھی جائے جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش میں مجیب الرحمان کے قتل سے لے کر جنرل ضیاء الرحمان، جنرل حسین محمدارشاداوربیگم ضیا سے لیکر حسینہ واجد کے اقتدار میں آنے تک کی تمام حکومتوں کو مسلسل اندرونی اورداخلی مسائل میں مبتلارکھا گیااور اس سارے عرصے میں مجیب الرحمان کی بیٹی حسینہ واجد جواپنے والدکے قتل کے موقع پرانڈیامیں موجودتھی،کی انڈیامیں پرورش کی گئی اوربالآخرحسینہ واجدکواقتدار میں لاکرانڈیانے خودکوخطے کی سپرپاور بنانے کے لئے دیگرہمسایہ چھوٹی ریاستوں پراپنی پالیسیوں کوجبرانافذکرنے کی کوششوں کامیں اضافہ کردیا۔
ادھرپہلی مرتبہ14جنوری2025کوبنگلہ دیش کے آرمڈ فورسزڈویژن کے پرنسپل سٹاف آفیسر لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمر الاسلام نے جی ایچ کیوراولپنڈی میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیرسے ملاقات کے دوران خطے کے بدلتے سکیورٹی حرکیات پر مفصل بات چیت کی اوردونوں ممالک کے درمیان مزیدفوجی تعاون کی راہیں نکالنے پرغورکیا اورمضبوط دفاعی تعاون کی اہمیت پرزوردیتے ہوئے دونوں برادرممالک کے درمیان شراکت داری اورتعاون بیرونی اثرات سے بالاترہونے کی یقین دہانی کروائی۔
دوسری طرف سری لنکانے بہادری کے ساتھ انڈیا کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے اپنی خودمختاری کوقائم رکھتے ہوئے پاکستان اورچین کے ساتھ اپنے تعلقات کواک نئی جہت دی ہے ۔یادرہے کہ سری لنکا جوبرسوں سے انڈیاکی پراکسی’’تامل دہشت گردوں‘‘ کی بناپرخانہ جنگی جیسی مشکلات میں مبتلاتھا،پاکستانی کمانڈوزکی خصوصی مددسے سری لنکاکو اس مصیبت سے مکمل نجات ملی ہے جس کی بناپرہرشعبے میں دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی خوشگواراوردوستانہ ہیں اوراب بنگلہ دیش میں آنے والی تبدیلی کودیکھتے ہوئے انڈیا پریہ خوف طاری ہے کہ نیپال،بھوٹان،مالدیپ اورمیانمارکے چین اورپاکستان سے بڑھتے ہوئے تعلقات مہابھارت کا خواب چکنا چورکرنے کے لئے تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انڈیاپھرسے افغان طالبان اورایران کی سرزمین کوپاکستان کے خلاف استعمال کررہاہے۔سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان ان حالات سے اپنے ہمسایہ ملک چین کے ساتھ سر جوڑ کر مکمل طور پر استفادہ کرنے کے لئے کوشاں ہے؟

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ممالک کے درمیان دونوں ممالک کے میں بنگلہ دیش بنگلہ دیش میں بنگلہ دیش کے بنگلہ دیش کی پاکستان کے کرتے ہوئے کرنے کے کے ساتھ نے بھی کے لئے

پڑھیں:

ٹرمپ سعودی عرب کو 100 بلین ڈالر سے زائد کا اسلحہ پیکج دینے کو تیار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 اپریل 2025ء) خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق اس معاملے کی براہ راست معلومات رکھنے والے چھ ذرائع نے اسے بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ سعودی عرب کو 100 بلین ڈالر سے زیادہ مالیت کے ہتھیاروں کے پیکج کی پیشکش کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس کا اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مملکت کے دورے کے دوران کیا جائے گا۔

صدر ٹرمپ کا عنقریب سعودی عرب کا دورہ، مقصد 'بڑا کاروباری معاہدہ'

ہتھیاروں کے پیکج کی پیشکش کی یہ خبر اس پس منظر میں سامنے آئی ہے جب سابق صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے ایک وسیع معاہدے کے حصے کے طور پر ریاض کے ساتھ دفاعی معاہدے کو حتمی شکل دینے کی ناکام کوشش کی تھی، جس میں سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی بات بھی کہی گئی تھی۔

(جاری ہے)

ٹرمپ کے غزہ منصوبے نے سعودی اسرائیل تعلقات کو پٹڑی سے اتار دیا، تجزیہ کار

بائیڈن کی تجویز میں چینی ہتھیاروں کی خریداری کو روکنے اور ملک میں بیجنگ کی سرمایہ کاری کو محدود کرنے کے بدلے مزید جدید امریکی ہتھیاروں تک رسائی کی پیشکش کی گئی تھی۔ روئٹرز اس بات کا تعین نہیں کر سکا کہ آیا ٹرمپ انتظامیہ کی تجویز میں بھی ایسی ہی شرائط شامل ہیں۔

وائٹ ہاؤس اور سعودی حکومت کے مواصلاتی دفتر نے اس خبر کے متعلق فوری طور پر تبصرہ کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

امریکہ سعودی دفاعی تعلقات میں اضافہ

ایک امریکی دفاعی اہلکار نے کہا، "صدر ٹرمپ کی قیادت میں مملکت سعودی عرب کے ساتھ ہمارے دفاعی تعلقات پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔ ہمارے سکیورٹی تعاون کو برقرار رکھنا اس شراکت داری کا ایک اہم جزو ہے اور ہم سعودی عرب کی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ان کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے۔

"

اپنے پہلے دور میں، ٹرمپ نے سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت کو امریکی ملازمتوں کے لیے اچھا قرار دیا تھا۔

روئٹرز فوری طور پر اس بات کا تعین نہیں کر سکا کہ اس پیشکش میں کتنے سودے نئے ہیں۔ دو ذرائع نے بتایا کہ ان میں سے بہت سے پر کچھ عرصے سے بات چیت چل رہی ہے۔ مثال کے طور پر، سعودی عرب نے پہلی بار 2018 میں جنرل اٹامکس کے ڈرونز کے بارے میں معلومات کی درخواست کی تھی۔

ذرائع میں سے ایک کے مطابق، سی گارڈین طرز کے ایم کیو۔ نائن بی ڈرونز اور دیگر طیاروں کے متعلق کی 20 بلین ڈالر کی ایک ڈیل پر گزشتہ 12 مہینوں سے بات چیت ہو رہی ہے۔

تین ذرائع نے بتایا کہ امریکی دفاعی کمپنیوں کے کئی ایگزیکٹوز وفد دفاعی سودوں کے سلسلے میں خطے کا سفر کرنے پر غور کر رہے ہیں۔

امریکہ سعودی دیرینہ دفاعی تعلقات

امریکہ طویل عرصے سے سعودی عرب کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔

2017 میں، ٹرمپ نے مملکت کو تقریباً 110 بلین ڈالر کی فروخت کی تجویز پیش کی تھی۔ لیکن سن دو ہ‍زار اٹھارہ تک، صرف 14.5 بلین ڈالر کی فروخت شروع ہوئی تھی اور کانگریس نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد ان سودوں پر سوال اٹھانا شروع کر دیے تھے۔

خاشقجی کے قتل کے بعد سن دو ہزار اکیس میں بائیڈن انتظامیہ کے دوران، کانگریس نے سعودی عرب کو جدید ترین مہلک ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی عائد کر دی تھی اور مملکت پر یمن جنگ، جس میں بھاری شہری ہلاکتیں ہوئی تھیں، کو ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔

امریکی قانون کے تحت، ہتھیاروں کے بڑے بین الاقوامی سودوں کو حتمی شکل دینے سے پہلے کانگریس کے اراکین کو ان کا جائزہ لینا چاہیے۔

بائیڈن انتظامیہ نے 2022 میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد عالمی تیل کی سپلائی متاثر ہونے کے بعد سعودی عرب کے بارے میں اپنا موقف نرم کرنا شروع کر دیا۔ جارحانہ ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی 2024 میں ہٹا دی گئی تھی، کیونکہ واشنگٹن نے حماس اسرائیل جنگ شروع ہونے کے بعد ریاض کے ساتھ زیادہ شراکت کے ساتھ کام کرنے کا فیصلہ کیا۔

تین ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ مئی میں صدر ٹرمپ کے دورے کے دوران لاک ہیڈ مارٹن کے ایف تھرٹی فائیو جیٹ طیاروں کی فروخت کا معاہدہ بھی ہو سکتا ہے، جس میں سعودی عرب برسوں سے اپنی دلچسپی کا اظہار کرتا رہا ہے۔ تاہم ایک ذرائع کا کہنا تھا کہ اس سودے کا امکان ذرا کم ہے۔

ادارت: صلاح الدین زین

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ سعودی عرب کو 100 بلین ڈالر سے زائد کا اسلحہ پیکج دینے کو تیار
  • جنرل ساحر شمشاد مرزا سے زمبابوے کے فضائیہ کمانڈر کی ملاقات،سیکیورٹی و دفاعی شعبوں میں تعاون بڑھانے کے عزم کا اعادہ
  • قومی سلامتی کمیٹی اجلاس؛شملہ معاہدہ  سمیت تمام دو طرفہ معاہدے معطل کرنے کا فیصلہ ،بھارتی دفاعی مشیروں کو فوری پاکستان چھوڑنے کا حکم
  • انڈیا نے پاکستان کے ساتھ سند طاس معاہدہ معطل کر دیا، پاکستانیوں کو واپس جانے کا حکم، سرحد بند کر دی
  • بھارت نے انڈس طاس معاہدہ معطل اور پاکستان کے ساتھ سرحد بند کردی
  • این ڈی ایم اے کی جانب سے خطرات کی پیشگی آگاہی کے ذریعے رپورٹنگ کو موئثر بنانے کے عنوان پر سیمینار کا انعقاد
  • چین دہشتگردی کے خلاف کارروائیوں میں آذربائیجان کے ساتھ تعاون کے لئے تیار ہے، چینی صدر
  • دفاعی شعبے میں مشترکہ منصوبے شروع کرنا چاہتے ہیں، اردگان: دہشت گردی کیخلاف تعاون پر شکریہ، شہباز شریف
  • روانڈا کے وزیر خارجہ کی وزیراعظم سے ملاقات
  • وزیراعظم شہباز شریف سے گلیکسی اسپیس وفد کی ملاقات، اسپیس ٹیکنالوجی میں تعاون پر اتفاق