پاک بنگلہ دیش،دفاعی تعاون کی اہمیت
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
(گزشتہ سےپیوستہ)
اسی پراکتفانہیں کیاگیابلکہ شیخ حسینہ کے خصوصی حکم پر2015ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں پاکستانی طلبہ کے داخلے پرپابندی عائدکردی گئی تھی لیکن آج قدرت اورتاریخی مکافاتِ عمل کایہ فیصلہ سامنے آیاہے کہ اسی یونیورسٹی سے حسینہ کے تمام احکامات کو منسوخ کرتے ہوئے ڈھاکہ یونیورسٹی نے پہل کرتے ہوئے انقلابی اقدامات اٹھاتے ہوئے نہ صرف پاکستانی طلباء کے لئے داخلوں کی اجازت دے دی ہے بلکہ ملک کے تمام اداروں کوپاکستان دشمنی کے تمام اقدامات کوختم کرنے کامشورہ بھی دیاہے۔
مودی سرکاربنگلہ دیش میں بری طرح ناکامی کے بعدشب وروزمختلف قسم کے پروپیگنڈہ پھیلانے کی کوششوں میں مصروف ہے جس میں اس نے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت پر اقلیتوں خصوصاً ہندوؤں پرحملے کروانے اوراسلامی انتہاپسندوں کی حمایت کرنے کے الزامات بھی لگائے جارہے ہیں۔ڈونلڈٹرمپ نے بھی اپنی انتخابی مہم میں بھارتی ہندوووٹرزکی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے تشویش کااظہارکیا تھا۔
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر محمد یونس نے18نومبرکوبھارتی انگریزی اخبار’’دی ہندو‘‘کودئیے گئے ایک انٹرویو میں ہندوئوں پرحملے سے متعلق سوالات کو پروپیگنڈہ قراردیا۔محمدیونس نے کہا کہ ’’ٹرمپ کے پاس بنگلہ دیش اوراس کی اقلیتوں کے بارے میں مناسب معلومات نہیں ہیں لیکن جب ٹرمپ کوحقیقت کاعلم ہوگاتووہ بھی حیران رہ جائیں گے۔میں یہ نہیں مانتاکہ امریکامیں نئے صدرکے آنے سے سب کچھ بدل جائے گا۔اگر امریکامیں اقتدارمیں تبدیلی ہوئی ہے توبنگلہ دیش میں بھی ایساہی ہواہے۔ایسی صورتحال میں آپ کوتھوڑا انتظارکرناچاہیے۔ہماری معیشت درست راستے پرہے اورامریکااس میں بہت دلچسپی لے گا‘‘۔
’’دی ہندو‘‘نے ان سے سوال کیاکہ یہ صرف ٹرمپ کامعاملہ نہیں ہے۔انڈیانے بھی کئی بارپریس کانفرنسزمیں بنگلہ دیش میں ہندوں پرحملوں کامعاملہ اٹھایاہے۔اس کے جواب میں محمدیونس نے کہاکہ 16اگست کومیری وزیراعظم مودی سے فون پرپہلی بات چیت ہوئی تھی۔مودی نے بھی بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے ساتھ برے سلوک کے بارے میں بات کی۔میں نے انہیں واضح طورپربتایاکہ یہ سب پروپیگنڈہ ہے‘‘۔انہوں نے مزیدکہاکہ ’’کئی صحافی یہاں آئے اورکئی لوگوں نے کشیدگی کے بارے میں بات کی لیکن حقیقت وہ نہیں ہے،جومیڈیامیں کہی جارہی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس پروپیگنڈے کے پیچھے کون ہے لیکن اس کاحقیقت سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔بعدازاں تحقیقات کے بعدیہ پروپیگنڈہ بھی بے نقاب ہوگیاکہ دراصل مندرکے ساتھ عوامی لیگ کادفترتھاجہاں سے مظاہرین کے ہجوم پرپتھراؤکیا گیا جس کے جواب میں مشتعل ہجوم نے جوابی طورپرپتھر برسائے جس کومندرپر حملہ قراردے کرجھوٹاپروپیگنڈہ کیا گیا۔
بنگلہ دیش میں انڈین ہائی کمشنرپرنے ورمانے 17نومبرکو ’’بے آف بنگال کنورسیشن‘‘میں بات کرتے ہوئے کہاتھاکہ’’بنگلہ دیش میں اقتدارکی پرتشددتبدیلی کے باوجودانڈیاکے بنگلہ دیش کے ساتھ اقتصادی، ٹرانسپورٹ،توانائی اورعوامی سطح پرتعلقات مثبت ہیں۔ ہمارے تعلقات کثیرالجہتی ہیں اورکسی ایک ایجنڈے پر منحصرنہیں ہیں‘‘۔
تاہم پاکستان میں بنگلہ دیش کی نئی حکومت کامؤقف مثبت طورپرلیاجارہاہے۔میرامانناہے کہ شیخ حسینہ کااقتدارسے باہرہوناپاکستان کے لئے ایک اچھا موقع ہے۔انڈیاشیخ حسینہ کے اقتدارسے باہرہونے پر خوش نہیں ہے۔ انڈین لابی امریکامیں بنگلہ دیش کے خلاف فعال ہوگئی ہے۔یہ لابی ٹرمپ انتظامیہ کوبنگلہ دیش پرپابندیاں عائدکرنے پرآمادہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔بنگلہ دیش سے برآمدہونے والے زیادہ ترگارمنٹس امریکاکوبھیجے جاتے ہیں۔ٹرمپ نے ٹیرف عائد کرنے کی وکالت کی ہے۔اگرٹرمپ ٹیرف لگاتے ہیں تو بنگلہ دیش کوبہت نقصان ہوگا‘‘۔
بنگلہ دیش اورپاکستان کے درمیان سمندری روابط کاآغازایک خوشگوارمعاشی تبدیلی کااشارہ ہے۔یہ پہلاموقع ہے کہ ایک پاکستانی کارگوجہازبراہ راست چٹاگانگ پہنچاہے۔اس سے پہلے دونوں ممالک کے درمیان جتنی بھی تجارت ہوتی تھی وہ سنگاپوراورسری لنکاکے ذریعے کی جاتی تھی۔اس سے انڈیامیں ہلچل اورماتم کاسماں ہے۔بنگلہ دیش کی قیادت اب بہت کھلے ذہن کی حامل ہے۔ایسا نہیں کہ وہ انڈیاکے ساتھ تعلقات بڑھانے کے خلاف ہیں لیکن انہوں نے اپنے مواقع کھلے رکھے ہیں اورپاکستان کے ساتھ تعلقات کیوں نہ بڑھائے جائیں۔اب اگلاقدم یہ ہوگاکہ تجارتی اورصنعتی دنیاکی تنظیمیں بھی ایک دوسرے کے دورے کریں گی اورممکن ہے کہ اگلے سال تک دونوں ممالک کے درمیان خارجہ سیکرٹریز کی سطح پربات چیت شروع ہوجائے۔
بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن پاکستان کے سخت مخالف تھے۔یہاں تک کہ شیخ مجیب نے ذوالفقارعلی بھٹو(جوبعد میں وزیر اعظم بنے)سے اس وقت تک بات کرنے سے انکار کردیاتھاجب تک پاکستان بنگلہ دیش کوتسلیم نہ کرلے۔پاکستان نے بھی ابتدامیں بنگلہ دیش کی آزادی کومستردکردیاتھالیکن پاکستان کے رویے میں اچانک تبدیلی آئی او ر فروری 1974ء میں اسلامی تعاون تنظیم(اوآئی سی)کی کانفرنس لاہورمیں منعقد ہوئی۔اس وقت ذوالفقارعلی بھٹونے بطوروزیر اعظم شیخ مجیب الرحمن کوباضابطہ دعوت بھیجی۔ پہلے تو مجیب نے شرکت سے انکارکردیالیکن بعدمیں اس دعوت کوقبول کرلیاگیا۔
اس کانفرنس کے بعدانڈیا،بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان ایک سہ فریقی معاہدہ ہوا۔ان تینوں ممالک نے9 اپریل1974ء کوایک معاہدے پر دستخط کیے تاکہ1971کی جنگ کے بعدباقی ماندہ مسائل کوحل کیاجاسکے۔پاکستان نے 28اگست 1973ء کے انڈیااورپاکستان کے درمیان معاہدے میں درج چاروں اقسام کے غیربنگالیوں کوقبول کرنے پررضا مندی ظاہرکی۔پاکستان کی وزارت خارجہ اوروزارت دفاع کی جانب سے ایک بیان جاری کیاگیاجس میں کہاگیاکہ اگرپاکستانی فوج نے بنگلہ دیش میں کسی قسم کا جرم کیاہے تویہ قابل افسوس ہے۔
ذوالفقارعلی بھٹونے جون1974ء میں ڈھاکہ کا دورہ کیا۔اس دورے کے دوران بنگلہ دیش نے اثاثوں کی تقسیم کامعاملہ اٹھایا۔اس دورے سے دونوں ممالک کے تعلقات میں برف پگھلنے لگی۔پاکستان نے22 فروری 1974ء کو او آئی سی کے اجلاس میں بنگلہ دیش کوتسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ذوالفقارعلی بھٹونے کہاکہ’’اللہ کے نام پراوراس ملک کے شہریوں کی جانب سے ہم بنگلہ دیش کوتسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ کل ایک وفدآئے گااورہم انہیں7 کروڑمسلمانوں کی جانب سے گلے لگائیں گے‘‘۔ اس مشرکہ اعلامیہ کے بعد انڈیا کوبنگلہ دیش بنانے کے سلسلے میں تمام سرمایہ کاری کے ساتھ اپنادل بھی ڈوبتانظرانے لگااوراسی دن یہ فیصلہ کرلیا گیاکہ بظاہر بنگلہ دیش کوایک آزاد ملک رہنادیاجائے لیکن اس کی تمام ڈوراپنے ہاتھ میں رکھی جائے جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش میں مجیب الرحمان کے قتل سے لے کر جنرل ضیاء الرحمان، جنرل حسین محمدارشاداوربیگم ضیا سے لیکر حسینہ واجد کے اقتدار میں آنے تک کی تمام حکومتوں کو مسلسل اندرونی اورداخلی مسائل میں مبتلارکھا گیااور اس سارے عرصے میں مجیب الرحمان کی بیٹی حسینہ واجد جواپنے والدکے قتل کے موقع پرانڈیامیں موجودتھی،کی انڈیامیں پرورش کی گئی اوربالآخرحسینہ واجدکواقتدار میں لاکرانڈیانے خودکوخطے کی سپرپاور بنانے کے لئے دیگرہمسایہ چھوٹی ریاستوں پراپنی پالیسیوں کوجبرانافذکرنے کی کوششوں کامیں اضافہ کردیا۔
ادھرپہلی مرتبہ14جنوری2025کوبنگلہ دیش کے آرمڈ فورسزڈویژن کے پرنسپل سٹاف آفیسر لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمر الاسلام نے جی ایچ کیوراولپنڈی میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیرسے ملاقات کے دوران خطے کے بدلتے سکیورٹی حرکیات پر مفصل بات چیت کی اوردونوں ممالک کے درمیان مزیدفوجی تعاون کی راہیں نکالنے پرغورکیا اورمضبوط دفاعی تعاون کی اہمیت پرزوردیتے ہوئے دونوں برادرممالک کے درمیان شراکت داری اورتعاون بیرونی اثرات سے بالاترہونے کی یقین دہانی کروائی۔
دوسری طرف سری لنکانے بہادری کے ساتھ انڈیا کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے اپنی خودمختاری کوقائم رکھتے ہوئے پاکستان اورچین کے ساتھ اپنے تعلقات کواک نئی جہت دی ہے ۔یادرہے کہ سری لنکا جوبرسوں سے انڈیاکی پراکسی’’تامل دہشت گردوں‘‘ کی بناپرخانہ جنگی جیسی مشکلات میں مبتلاتھا،پاکستانی کمانڈوزکی خصوصی مددسے سری لنکاکو اس مصیبت سے مکمل نجات ملی ہے جس کی بناپرہرشعبے میں دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی خوشگواراوردوستانہ ہیں اوراب بنگلہ دیش میں آنے والی تبدیلی کودیکھتے ہوئے انڈیا پریہ خوف طاری ہے کہ نیپال،بھوٹان،مالدیپ اورمیانمارکے چین اورپاکستان سے بڑھتے ہوئے تعلقات مہابھارت کا خواب چکنا چورکرنے کے لئے تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انڈیاپھرسے افغان طالبان اورایران کی سرزمین کوپاکستان کے خلاف استعمال کررہاہے۔سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان ان حالات سے اپنے ہمسایہ ملک چین کے ساتھ سر جوڑ کر مکمل طور پر استفادہ کرنے کے لئے کوشاں ہے؟
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ممالک کے درمیان دونوں ممالک کے میں بنگلہ دیش بنگلہ دیش میں بنگلہ دیش کے بنگلہ دیش کی پاکستان کے کرتے ہوئے کرنے کے کے ساتھ نے بھی کے لئے
پڑھیں:
90 فیصد افراد کا ماننا ہے کہ چین امریکہ تجارتی تنازع کو حل کرنے کے لئے بات چیت اور تعاون ہی واحد درست انتخاب ہے، سی جی ٹی این سروے
90 فیصد افراد کا ماننا ہے کہ چین امریکہ تجارتی تنازع کو حل کرنے کے لئے بات چیت اور تعاون ہی واحد درست انتخاب ہے، سی جی ٹی این سروے
بیجنگ: چائنا میڈیا گروپ کے تحت سی جی ٹی این کی جانب سے دنیا بھر کے انٹرنیٹ صارفین کے لیے کیے گئے ایک حالیہ سروے کے مطابق 74.7 فیصد جواب دہندگان کا ماننا ہے کہ چین اور امریکہ کے سربراہان مملکت کے درمیان ٹیلیفونک بات چیت چین امریکہ تعلقات کو درست راستے پر واپس لانے کے لیے مثبت اشارہ ہے۔
سروے میں 93.3 فیصد جواب دہندگان کا کہنا ہے کہ چین اور امریکہ کے تجارتی تنازع کو حل کرنے کے لئے بات چیت اور تعاون ہی واحد درست انتخاب ہے۔ 94 فیصد جواب دہندگان کا ماننا ہے کہ چین اور امریکہ کو ایک دوسرے کے خدشات کا احترام کرتے ہوئے تجارتی تنازعات کو مساوی بنیادوں پر حل کرنا چاہئے اور مشترکہ کامیابیوں کے حصول کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔ سروے میں 95.7 فیصد جواب دہندگان کا خیال ہے کہ امریکہ کو چین اور امریکہ کے درمیان طے پانے والے اتفاق رائے کی پاسداری کرنا چاہیے اور جنیوا مذاکرات میں طے پانے والے معاہدوں پر سختی سے عمل درآمد کرنا چاہیے۔ 95.5 فیصد جواب دہندگان کا ماننا ہے کہ چین اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری باہمی احترام اور مساوی سلوک کی بنیاد پر قائم ہونی چاہئے
جبکہ 97 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ چین امریکا تعلقات زیرو سم گیم نہیں ہیں اور دوسرے کو تبدیل کرنے اورمحدود کرنے کی کوئی بھی کوشش غیر حقیقی ہے۔ساتھ ہی کسی بھی فریق کو دوسرے فریق کے جائز ترقیاتی حقوق سے محروم نہیں کرنا چاہئے۔
سی جی ٹی این کا یہ سروے اس کے انگریزی، ہسپانوی، فرانسیسی، عربی اور روسی پلیٹ فارمز ز پر کیا گیا، جس میں 12 گھنٹوں میں 5,610 جواب دہندگان نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
Post Views: 5