پابندیوں کا انتباہ؛ کولمبیا امریکہ سے تارکینِ وطن واپس لینے پر رضا مند
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
ویب ڈیسک— امریکہ کی جانب سے پابندیوں کے انتباہ کے بعد جنوبی امریکہ کا ملک کولمبیا امریکی فوجی طیاروں کے ذریعے اپنے تارکینِ وطن کی واپسی پر رضامند ہو گیا ہے۔
وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ دونوں ممالک میں اتفاق ہو گیا ہے کہ کولمبیا اپنے تارکینِ وطن کو بغیر کسی رکاوٹ کے قبول کرے گا اور یہ امریکی فوجی طیاروں کے ذریعے ہی کولمبیا پہنچائے جائیں گے۔
اس سے قبل کولمبیا کے صدر گستاؤ پیٹرو نے دو امریکی فوجی طیاروں کے ذریعے اپنے تارکینِ وطن کو واپس لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اُسی صورت میں اپنے تارکینِ وطن کو واپس لیں گے جب امریکہ ان کے ساتھ عزت کے ساتھ پیش آئے گا اور انہیں سویلین طیاروں کے ذریعے واپس بھیجا جائے گا۔
تارکین وطن کی واپس پر اتفاق کے بعد وائٹ ہاؤس نے اتوار کو رات گئے جاری ایک بیان میں کہا کہ امریکہ نے کولمبیا پر پابندیاں اور ٹیرف عائد کرنے کے معاملے کو ابھی روک دیا ہے تاہم ان پابندیوں کا مسودہ موجود رہے گا۔
وائٹ ہاؤس نے متنبہ کیا کہ کولمبیا کی جانب سے معاہدے پر عمل نہ کرنے کی صورت میں اس مسودے پر دستخط ہو سکتے ہیں۔
دوسری جانب کولمبیا کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ معاہدے کے بعد تعطل دُور ہو گیا ہے جب کہ وزیرِ خارجہ اور امریکہ میں کولمبیا کے سفیر اس معاملے پر مزید بات چیت کے لیے واشنگٹن میں اعلٰی حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔
کولمبیا نے کہا ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی واپسی کا خیر مقدم کرتا ہے اور ان شہریوں کو اچھے حالات کی ضمانت دے گا۔
امریکہ اور کولمبیا میں تارکینِ وطن کی واپسی پر اتفاق سے قبل دونوں ممالک کے رہنماؤں میں بیانات نے شدت اختیار کر لی تھی۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عندیہ دیا تھا کہ کولمبیا سے آنے والی مصنوعات پر فوری طور پر 25 فی صد ٹیرف عائد کیا جا رہا ہے جو ایک ہفتے میں 50 فی صد تک بڑھایا جائے گا جب کہ کولمبیا کے دارالحکومت بگوٹا میں امریکہ کا سفارت خانہ ویزا پروسیسنگ بند کر دے گا۔
دوسری جانب کولمبیا کے صدر گستاؤ پیٹرو نے امریکی مصنوعات پر 25 فی صد ٹیرف کے اطلاق کا اعلان کیا تھا۔
لاطینی امریکہ کے ممالک میں کولمبیا امریکہ کا تیسرا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ سب تارکینِ وطن جرائم پیشہ نہیں ہیں۔ ان سے عزت کے ساتھ پیش آنا چاہیے جس کے تمام انسان حق دار ہیں۔
انہوں نے تارکینِ وطن کو لانے والے امریکہ کے طیاروں کے حوالے سے کہا کہ یہی وجہ تھی کہ کولمبیا کے تارکینِ وطن کو واپس لانے والے امریکہ کے فوجی جہازوں کو واپس بھیجا۔
ان کا کہنا تھا کہ عام جہازوں میں، مجرموں جیسا سلوک کیے بغیر واپس لائے جانے والے ہم وطنوں کو کولمبیا قبول کرے گا۔
امریکہ اور کولمبیا میں یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب امریکی حکام نے غیر قانونی تارکینِ وطن کو واپس ان کے ممالک بھیجنے کا عمل شروع کیا۔
اتوار کو امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس نے نشریاتی ادارے ‘سی بی ایس’ سے گفتگو میں کہا کہ امریکہ میں امیگریشن کا قانون نافذ کرنے جا رہے ہیں۔
امریکہ کے امیگریشن اینڈ کسٹم انفورسمنٹ نے کہا ہے کہ اتوار کو امریکہ میں 956 غیر قانونی تارکینِ وطن کو حراست میں لیا گیا۔
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی کا عزم ظاہر کیا تھا۔ انہوں نے اپنی دوسری مدت صدارت کا آغاز ایسے احکامات کے ساتھ کیا ہےجن کا مقصد امریکہ میں داخلے کے نظام کی اصلاح کرنا ہے ۔
اس رپورٹ میں شامل بعض معلومات خبر رساں اداروں ایسوسی ایٹڈ پریس اور رائٹرز سے لی گئی ہیں۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل طیاروں کے ذریعے اپنے تارکین وطن کو واپس امریکہ میں کولمبیا کے نے تارکین امریکہ کے کہا ہے کہ کی واپس کے ساتھ نے کہا تھا کہ
پڑھیں:
امریکا: تارکین وطن کے ویزوں کی حد مقرر: ’سفید فاموں کو ترجیح‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2026 کے لیے تارکینِ وطن کے داخلے کی نئی حد مقرر کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ آئندہ سال صرف 7,500 افراد کو امریکا میں امیگریشن کی اجازت دی جائے گی، یہ 1980 کے ”ریفوجی ایکٹ“ کے بعد سب سے کم حد ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ ان کی حکومت امریکی تاریخ میں امیگریشن کی سطح کم کرنے جا رہی ہے، کیونکہ ”امیگریشن کو کبھی بھی امریکا کے قومی مفادات کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔“
انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ جنوبی افریقہ میں سفید فام افریقیوں کو نسل کشی کے خطرات لاحق ہیں، اسی وجہ سے ان افراد کو ترجیحی بنیادوں پر ویزے دیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ فی الحال امریکا کا سالانہ ریفیوجی کوٹہ 125,000 ہے، لیکن ٹرمپ کی نئی پالیسی کے تحت یہ تعداد 7,500 تک محدود کر دی گئی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق نئی پالیسی کے تحت پناہ گزینوں کی سیکیورٹی جانچ مزید سخت کر دی جائے گی، اور کسی بھی درخواست دہندہ کو داخلے سے پہلے امریکی محکمہ خارجہ اور محکمہ داخلہ دونوں کی منظوری لازمی حاصل کرنا ہوگی۔
جون 2025 میں صدر ٹرمپ نے ایک نیا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا جس کے ذریعے غیر ملکی شہریوں کے داخلے کے ضوابط میں بھی تبدیلی کی گئی۔ ان ضوابط کے تحت ”غیر مطمئن سیکیورٹی پروفائل“ رکھنے والے افراد کو امریکا میں داخلے سے روکنے کا اختیار حکومت کو حاصل ہو گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے سابق مشیر کے مطابق یہ اقدام امریکا کی طویل عرصے سے جاری انسانی ہمدردی اور مہاجرین کے تحفظ کی پالیسیوں سے کھلا انحراف ہے۔
نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے اپنے بیان میں کہا کہ ”یہ فیصلہ رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر تفریق کے مترادف ہے، اور امریکا کی امیگریشن تاریخ کو نصف صدی پیچھے لے جا سکتا ہے۔“
سیاسی ماہرین کے مطابق ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی ایک طرف انتخابی وعدوں کی تکمیل ہے، جبکہ دوسری جانب یہ ان کے ووٹ بینک کو متحرک رکھنے کی کوشش بھی ہے، خاص طور پر اُن حلقوں میں جو غیر ملکی تارکینِ وطن کی مخالفت کرتے ہیں۔
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، وائٹ ہاؤس کے اندر بھی اس فیصلے پر اختلافات پائے جاتے ہیں، کیونکہ کئی سینئر حکام کا ماننا ہے کہ اس پالیسی سے امریکا کی عالمی ساکھ اور انسانی حقوق کے میدان میں قیادت کو نقصان پہنچے گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر یہ پالیسی نافذالعمل رہی تو لاکھوں پناہ گزین، بالخصوص مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے افراد، امریکا میں داخلے کے مواقع سے محروم ہو جائیں گے، جبکہ سفید فام جنوبی افریقیوں کو ترجیح دینے کا فیصلہ دنیا بھر میں شدید تنازع کا باعث بن سکتا ہے۔