اسلام آباد — ایران کے وزیرِ خارجہ عباس عراقچی طالبان حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد پہلی مرتبہ کابل کے دورے پر ہیں۔ ماہرین اس دورے کو اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔

دورے کے دوران ایرانی وزیرِ خارجہ نے طالبان حکومت کے وزیرِ اعظم ملا محمد حسن اور وزیرِ خارجہ امیر خان متقی سمیت اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔

ایرانی دفترِ خارجہ کے مطابق ان ملاقاتوں میں فریقین نے اقتصادی تعاون، ایران میں افغان تارکینِ وطن، آبی مسائل، سیکیورٹی، مشترکہ سرحدوں اور علاقائی صورتِ حال پر بات چیت کی۔

ایران نے اب تک طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے لیکن طالبان حکومت کے پہلے روز سے ہی کابل میں ایران کا سفارت خانہ فعال رہا ہے۔

حالیہ برسوں میں ہلمند اور ہریرود دریاؤں پر پانی کے حقوق اور ڈیم کی تعمیر کے تنازعات کی وجہ سے ایران اور افغانستان کے درمیان کشیدگی میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔


‘ایران طالبان حکومت کو واضح پیغام دے رہا ہے’

اسلام آباد میں مقیم ایران امور کے ماہر صحافی افضل رضا کا کہنا ہے کہ ایرانی وزیرِ خارجہ کے دورۂ کابل کا ایک اہم مقصد طالبان حکومت کو یہ واضح پیغام دینا ہے کہ ایران اپنا حق حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن قدم اُٹھائے گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ایران کے اعلٰی فوجی عہدے دار جنرل محمد باقری نے گزشتہ ہفتے اسلام آباد کا دورہ کیا تھا۔ جہاں اُنہوں نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے بھی ملاقات کی تھی۔

افضل رضا کے مطابق یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ ایران اپنے حق کے لیے سفارتی اور فوجی دونوں آپشنز پر غور کر رہا ہے۔

افضل رضا کے بقول ایران اس سے قبل توانائی کے وزیر سمیت کچھ دیگر اہلکاروں کو بھی افغانستان بھیج چکا ہے۔ لیکن کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔

دریاؤں کے پانی کے معاملے پر تنازع

ایرانی حکام کا یہ مؤقف رہا ہے کہ گزشتہ تین برس سے طالبان حکومت آبی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بغیر اطلاع دیے دریائے ہلمند اور ہریرود کا پانی روک رہی ہے۔ دریائے ہریرود پر ڈیم کی تعمیر کے معاملے پر بھی دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات ہیں۔

ایران کا یہ مؤقف رہا ہے کہ طالبان حکومت کے یہ اقدامات پاکستان سے ملحقہ سرحدی صوبے سیستان بلوچستان کے عوام کو براہ راست متاثر کر رہے ہیں۔

دریائے ہلمندافغانستان کا سب سے طویل دریا ہے جس کی لمبائی تقریباً 1150 کلومیٹر ہے۔ یہ دریا ملک کے جنوبی اور جنوب مغربی صوبوں کے لیے روزگارکا ایک اہم ذریعہ ہے۔

دریائے ہلمند ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں واقع ہامون جھیل کو پانی مہیا کرتا ہے جو صوبے کا اہم آبی ذریعہ ہے۔

سن 1973 میں ایران اور افغانستان نے دریائے ہلمند کے پانی کے معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت افغانستان سالانہ ایک خاص مقدار میں پانی فراہم کرنے کا پابند ہے۔ تاہم ایران اس معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کرتا رہتا ہے۔

اس معاملے پر بیان بازی کے دوران جون 2023 میں دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی جھڑپ بھی ہوئی تھی جس میں ایرانی سیکیورٹی فورسز کے دو جب کہ ایک طالبان سیکیورٹی اہلکار کی ہلاکت ہوئی تھی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جس طرح پاکستان کو طالبان حکومت سے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سےمتعلق شکایت ہے۔ اسی طرح پانی کے معاملے پر ایران اور طالبان حکومت کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر رہے ہیں۔

افضل رضا کہتے ہیں کہ 2023 میں بھی ایران کے سابق صدر ابراہیم رئیسی نے سیستان بلوچستان کے دورے کے موقع پر دو ٹوک الٖفاظ میں کہا تھا کہ "پانی کے مسئلے پر ایران کے صبر کو اس کی کمزوری نہ سمجھے جائے۔”

افضل رضا کہتے ہیں کہ موجودہ ایرانی صدر نے بھی کچھ روز قبل صوبہ خوزستان کے دورے کے موقع پر کہا تھا کہ افغانستان کے ساتھ پانی کے مسائل پر بات چیت کے لیے سینئر وزیر کو بھیجیں گے۔

اُن کے بقول ایرانی قیادت کے یہ بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ ایران اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے دیکھ رہا ہے۔

افغان مہاجرین کی واپسی کا معاملہ

ایران، افغانستان کے ساتھ 921 کلو میٹر طویل سرحد رکھتا ہے اور وہاں افغان پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد مقیم ہے۔ ان میں سے کئی دہائیوں سے جاری تنازعات کے باعث اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

طالبان حکومت کے نائب ترجمان حمد اللہ فطرت کہتے ہیں کہ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے دستاویزات کے بغیر مقیم افغان باشندوں کی باعزت واپسی کی یقین دہانی کرائی ہے۔

رپورٹس کے مطابق ایران میں افغان شہریوں کی تعداد تقریباً 35 لاکھ ہے۔ تاہم آزاد ذرائع کا دعویٰ ہے کہ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد بڑی تعداد میں افغان شہری ایران منتقل ہوئے جن میں لاکھوں افراد کے پاس کوئی دستاویزات نہیں ہیں۔

ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ‘ارنا’ کے مطابق ایران اس وقت تقریباً 60 لاکھ افغان شہریوں کی میزبانی کر رہا ہے۔

سن 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ایران میں افغان مہاجرین کی آمد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

طالبان حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات میں افغان مہاجرین پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی۔

ملا محمد حسن اخوند نے ایران سے درخواست کی کہ افغان مہاجرین کے ساتھ اسلامی اور انسانی اصولوں کے تحت برتاؤ کیا جائے اور ان کی بتدریج واپسی کے لیے تعاون کیا جائے۔

بیان کے مطابق انہوں نے ایران میں مہاجرین کی گرفتاری اور ان کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مہاجرین کے مسائل کے حل کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنائی جائے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان حکومت کے وزیرِ اعظم نے پانی کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان ایران کے ساتھ خیر سگالی کے جذبے سے پیش آتا ہے اور پانی کی تقسیم کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان ہلمند دریا کے معاہدے پر عمل درآمد کے لیے تیار ہے۔

انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ افغانستان کبھی بھی ایران کو نقصان پہنچانے کی نیت نہیں رکھتا اور اس مسئلے کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کیا جائے گا۔

‘ایران، افغانستان کے ساتھ کشیدگی بڑھانے سے گریز کرے گا’

سابق صدر اشرف غنی کے دور میں ایران میں افغانستان کے سفیر رہنے والے عبدالغفور لیوال کہتے ہیں کہ ایران افغانستان کا ایک اہم ہمسایہ ملک ہے اور وہ کبھی بھی اس کے خلاف جنگ میں نہیں جائے گا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب افغانستان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں، طالبان حکومت نے معاشی طور پر ایران پر انحصار بڑھا دیا ہے جہاں ایران نے چاہ بہار بندرگاہ میں سرمایہ کاری میں بھی اضافہ کیا ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ کے دورۂ کابل کے حوالے سے سابق سفارت کار کا مزید کہنا تھا کہ ایران اور افغانستان کے درمیان پانی کا دیرینہ مسئلہ ہے اور اب جب وزیرِ خارجہ کی سطح پر یہ دورہ ہو رہا ہے، طالبان حکومت یقینی طور پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گی۔

تاہم انہوں نے یہ بھی بتایا کہ طالبان ایران کی جانب سے مہاجرین کی زبردستی واپسی کے فیصلے پر نالاں ہیں۔

سابق سفارت کار کا کہنا تھا کہ طالبان سمجھتے ہیں کہ ایران مہاجرین کی زبردستی واپسی کو ایک’ پریشر ٹیکٹکس’ کے طور پر استعمال کر رہا ہے تاکہ افغانستان پر اضافی دباؤ ڈالا جا سکے۔

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان کھیل طالبان حکومت کے ایران میں افغان افغان مہاجرین کہ افغانستان دریائے ہلمند افغانستان کے ہیں کہ ایران ایرانی وزیر مہاجرین کی ان کے ساتھ ایران اور کرتے ہوئے کہ طالبان کے درمیان میں ایران معاملے پر کے مطابق افضل رضا انہوں نے کہ افغان خارجہ کے ایران کے ایران اس پانی کے کے وزیر کا کہنا ہے اور تھا کہ رہا ہے کے لیے

پڑھیں:

طالبان نے غیر اخلاقی سرگرمیوں کی روک تھام کیلیے انٹرنیٹ پر پابندی عائد کردی

افغانستان کی طالبان حکومت نے اعلان کیا ہے کہ کئی صوبوں میں انٹرنیٹ پر پابندی لگا دی گئی ہے تاکہ غیر اخلاقی سرگرمیوں کی روک تھام کی جا سکے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق پہلے مرحلے میں انٹرنیٹ پابندی شمالی افغانستان کے پانچ بڑے صوبوں قندوز، بدخشاں، بغلان، تخار اور بلخ میں نافذ العمل ہوگی۔

طالبان حکام کا کہنا ہے کہ یہ پابندی فی الحال صرف فائبر آپٹک انٹرنیٹ کنکشنز پر ہوگی موبائل فون کے ڈیٹا پیکجز کے ذریعے انٹرنیٹ استعمال کرنے کی سہولت فی الحال دستیاب رہے گی۔

طالبان حکام کی جانب سے کاری سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ان صوبوں میں فائبر کنکشن منقطع کر دیے گئے ہیں۔ جس کے باعث گھروں، دفاتر اور کاروباری مراکز میں انٹرنیٹ دستیاب نہیں ہوگا۔

طالبان حکومت کے بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدام غیر اخلاقی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ ضروریات کے لیے متبادل فراہم کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس طالبان نے اخلاقی ضابطوں پر مشتمل قانون نافذ کیا تھا جس کے تحت خواتین کے لیے چہرہ ڈھانپنا اور مردوں کے لیے داڑھی رکھنا لازمی جب کہ عوامی مقامات پر موسیقی چلانے پر پابندی لگائی گئی تھی۔

طالبان نے 2021 کو اگست کے وسط میں افغانستان کا اقتدار سنبھالا اور تب سے خواتین کے ملازمتوں اور لڑکیوں کے سیکنڈری اسکولوں پر پابندی عائد ہے۔

ملک میں خواتین کے بیوٹی پارلرز بھی بند کردیئے گئے ہیں اور بڑی عمر کی لڑکیوں پر مدرسے جانے پر بھی پابندی ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • طالبان نے غیر اخلاقی سرگرمیوں کی روک تھام کیلیے انٹرنیٹ پر پابندی عائد کردی
  • افغان حکومت کی سخت گیر پالیسیاں، ملک کے مختلف علاقوں میں فائبر آپٹک انٹرنیٹ بند
  • اینڈی پائیکرافٹ تنازع، پاکستان اور یو اے ای کے درمیان میچ نہ ہونے کا امکان،ٹیم ایشیاء کپ سے دستبردار ہو سکتی ہے:ذرائع
  • وزیر تجارت جام کمال خان کی ایرانی اول نائب صدر سے ملاقات، پاک ایران تجارتی تعلقات کے فروغ پر تبادلہ خیال
  • ٹی ٹی پی اور را کی افغانستان میں موجودگی، پاکستان کا طالبان کو سخت پیغام
  • ٹی ٹی پی اور ’’را‘‘ کی افغانستان میں موجودگی، پاکستان کا طالبان حکومت کو سخت پیغام
  • ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس؛ وزیراعظم کی ایرانی صدر سے ملاقات، امت مسلمہ کے اتحاد پر زور
  • شہباز شریف کی ایرانی صدر سے ملاقات
  • وزیراعظم شہباز شریف کی ایرانی صدر سے ملاقات، قطر سے مکمل یکجہتی کا اعادہ
  • پاکستان کا صنعتی شعبہ بہتر ہو رہا ہے، آئی ٹی اور سروسز میں ترقی ہو رہی ہے اور غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کررہے ہیں ، جام کمال خان