آئی ایم ایف کی ٹیم اگلے ماہ کے وسط میں پاکستان کا دورہ کرے گی
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
آئی ایم ایف کی ٹیم اگلے ماہ کے وسط میں پاکستان کا دورہ کرے گی جس دوران مارچ میں پہلے جائزے کیلئے معاشی کارکردگی کا جائزہ لے گی ۔
ٹاپ لائن ریسرچ کے مطابق آئی ایم ایف ٹیم مارچ میں پہلے جائزے کیلئے معاشی کارکردگی کا جائزہ لے گی، پاکستان میں آئی ایم ایف کےنمائندے نے مجوزہ شیڈول پر فی الحال تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے ۔وزیرخزانہ محمد اورنگزیب آئی ایم ایف وفد کے آئندہ ماہ دورہ پاکستان کا عندیہ دے چکے ہیں ۔
جائزے کے کامیاب اختتام کی صورت میں ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط ملنے کا امکان ہے، 3سالہ قرض پروگرام 2024 سے ستمبر 2027 تک محیط ہے، 7 ارب ڈالر کے ای ایف ایف پروگرام کے تحت 6ششماہی جائزے مکمل کئے جائیں گے، اگلی قسط کی ادائیگی کئی شرائط پر عملدرآمد سے مشروط ہے۔
آئی ایم ایف کے 7 نئے اہداف میں سے زیادہ تر پر حکومت کی کارکردگی مثبت ہے، حکومت نے ستمبر اور دسمبر 2024 کے زرمبادلہ اہداف کو پورا کیا، اسٹیٹ بینک کے ڈومیسٹک ایسٹس کا ہدف بھی پورا ہو رہا ہے، پہلا بجٹ خسارہ اور نئے ٹیکس فائلرز کے اہداف بھی قابلِ حصول ہیں، بعض اہداف پر معمولی انحراف کے ساتھ درست اقدامات پر بورڈ چھوٹ دے سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایف بی آر کے کچھ ریونیو اہداف پورے نہ ہونے کا خدشہ ہے، تاجر دوست اسکیم کے تحت ٹیکس وصولی ان اہداف میں سے ایک ہے، ٹارگٹڈ کیش ٹرانسفر کے حوالے سے ڈیٹا اب تک دستیاب نہیں ہے، حکومت کی موجودہ کارکردگی زیادہ تر معیارات پر پوری اتر رہی ہے، یہ کارکردگی آئندہ قسط کے حصول کے لیے امید افزا ہے، ٹیکس اہداف پورا کرنے سمیت بعض کمزوریاں توجہ طلب ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف
پڑھیں:
اے آئی کی کارکردگی 100 گنا بڑھانے والی جدید کمپیوٹر چپ تیار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکہ کی سرزمین سے ایک انقلابی اختراع سامنے آئی ہے جو مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی دنیا کو نئی جہت دے سکتی ہے۔
فلوریڈا یونیورسٹی، یو سی ایل اے اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ماہرین کی مشترکہ کاوشوں سے تیار کردہ یہ نئی آپٹیکل کمپیوٹر چپ، بجلی کی جگہ روشنی کی توانائی استعمال کرتے ہوئے اے آئی کی پروسیسنگ کو 10 سے 100 گنا تیز تر بنا سکتی ہے۔ یہ تحقیق 8 ستمبر کو معتبر جریدہ ‘ایڈوانسڈ فوٹوونکس’ میں شائع ہوئی، جو ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایک سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔
امریکی انجینئرنگ ٹیم نے ایک ابتدائی ماڈل (پروٹوٹائپ) تیار کیا ہے جو موجودہ جدید ترین چپس سے کئی گنا زیادہ کارآمد ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ ایجاد اے آئی کے میدان میں طوفان برپا کر دے گی، کیونکہ مشین لرننگ کے پیچیدہ حساب کتاب—جیسے تصاویر، ویڈیوز اور تحریروں میں پیٹرنز کی تلاش (کنوولوشن)—روایتی پروسیسرز پر بھاری بجلی کا استعمال کرتے ہیں۔ اس مسئلے کا حل تلاش کرتے ہوئے، تحقیق کاروں نے چپ کے ڈیزائن میں لیزر شعاعیں اور انتہائی باریک مائیکرو لینسز کو سرکٹ بورڈز سے براہ راست مربوط کر دیا ہے، جس سے توانائی کی بچت کے ساتھ ساتھ رفتار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
لیبارٹری کے تجربات میں اس چپ نے کم سے کم توانائی خرچ کرتے ہوئے ہاتھ سے لکھے گئے ہندسوں کی پہچان 98 فیصد درستگی سے کر لی، جو اس کی افادیت کا واضح ثبوت ہے۔ فلوریڈا یونیورسٹی کے تحقیقاتی ایسوسی ایٹ پروفیسر اور مطالعے کے شریک مصنف ہانگبو یانگ نے اسے ایک تاریخی لمحہ قرار دیا اور کہا، “یہ پہلی بار ہے کہ آپٹیکل کمپیوٹنگ کو براہ راست چپ پر نافذ کیا گیا اور اسے اے آئی کے نیورل نیٹ ورکس سے جوڑا گیا۔ یہ قدم مستقبل کی کمپیوٹیشن کو روشنی کی طرف لے جائے گا۔”
اسی تحقیق کے سرکردہ ماہر، فلوریڈا سیمی کنڈکٹر انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر وولکر جے سورجر نے بھی اس ایجاد کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا، “کم توانائی والے مشین لرننگ حسابات آنے والے برسوں میں اے آئی کی صلاحیتوں کو وسعت دینے کا بنیادی ستون ثابت ہوں گے۔ یہ نہ صرف ماحولیاتی فوائد لائے گی بلکہ اے آئی کو روزمرہ استعمال کے لیے مزید قابل رسائی بنا دے گی۔”
یہ پروٹوٹائپ کیسے کام کرتی ہے؟
یہ جدید ڈیوائس دو ستاروں کے انتہائی پتلے فرینل لینسز کو یکجا کرتی ہے، جو روشنی کی شعاعوں کو کنٹرول کرنے کا کام انجام دیتے ہیں۔ کام کا عمل انتہائی سادہ مگر موثر ہے: مشین لرننگ کا ڈیٹا پہلے لیزر کی روشنی میں تبدیل کیا جاتا ہے، پھر یہ شعاعیں لینسز سے گزر کر پروسیس ہوتی ہیں، اور آخر میں مطلوبہ ٹاسک مکمل کرنے کے لیے دوبارہ ڈیجیٹل سگنلز میں بدل دیا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار سے نہ صرف بجلی کی کھپت کم ہوتی ہے بلکہ حسابات کی رفتار بھی روشنی کی رفتار کے قریب پہنچ جاتی ہے، جو روایتی الیکٹرانک سسٹمز سے کئی گنا تیز ہے۔
یہ ایجاد ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، مگر ماہرین کا خیال ہے کہ آنے والے وقت میں یہ اے آئی کی ایپلی کیشنز—صحت، ٹرانسپورٹیشن اور انٹرٹینمنٹ—کو بدل ڈالے گی، اور توانائی بحران کا سامنا کرنے والے عالمی چیلنجز کا بھی حل پیش کرے گی۔ مزید تفصیلات کے لیے جریدہ ‘ایڈوانسڈ فوٹوونکس’ کا تازہ شمارہ دیکھیں۔