کراچی:

ایکسپریس میڈیا گروپ کے اشتراک سے کراچی میں یونی لیور فیوچر لیڈرز پروگرام کے تحت نوجوانوں کو پرفارمینس پریشر سے نمٹنے کے عملی طریقے، خود اعتمادی اور بہتر مستقبل کی تشکیل کیلیے رہنمائی فراہم کی گئی۔  

کراچی میں شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں ایکسپریس میڈیا گروپ کے تعاون سے یونی لیور فیوچر لیڈرز پروگرام کے تحت پانچویں سیریز کے پینل ڈسکشن کا اہتمام کیا گیا جس کا موضوع "پرفارمینس پریشر سے کیسے نمٹا جائے" تھا۔

مقررین نے نوجوانوں کو اپنے وسیع تجربے سے مشورے دیے، پینل ڈسکشن کا مقصد نوجوانوں کو کام کے دوران درپیش مسائل سے نمٹنے کیلیے رہنمائی فراہم کرنا تھا، نوجوانوں کو معاشی اور سماجی شعبوں میں خود مختاری اور مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں مثبت تبدیلی لانے کے لیے عملی اقدامات کرنے کی ترغیب بھی دینا تھا۔  

پروگرام کی میزبانی یونی لیور میں بیوٹی اینڈ ویل بینگ کے جنرل مینیجر عادل حسین نے کی، جنہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا آج کل کی دنیا میں بے شمار چیلنجز اور ذہنی دباؤ کا سامنا ہوتا ہے، لیکن ہم اس پروگرام میں ایسے مفید ٹپس اور ٹرکس سیکھنے جا رہے ہیں جو ہمیں اس دباؤ سے نمٹنے میں مدد دے سکتے ہیں۔

اس موقع پر انہوں نے طلبہ سے مخاطب ہوکر کہا کہ ہمیں اسی کام کا انتخاب کرنا چاہیے جس کا ہم شوق رکھتے ہیں تا کہ کام کے دباؤ کا بہتر طریقے سے سامنا کر سکیں۔ خود کو جاننا اور اپنے کام میں ایماندار رہنا بہت ضروری ہے تاکہ اپنی صلاحیتوں کو بہترین طریقے سے استعمال کر سکیں۔ اپنے کام کی تشخیص اور خود ججمنٹ کریں اس سے ذہنی سکون رہتا ہے۔ 

پینل میں شریک پاکستانی جوڑے پتنگیر (امت البویجا اور فہد طارق خان) نے کہا کہ خود کو کبھی بھی دباؤ میں نہیں رکھنا چاہیے، ہم سوشل میڈیا پر کام کرتے ہیں خود سے کام کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ ہمارا کوئی باس نہیں ہے، پریشر محسوس نہیں ہوتا، ہمیں اپنے شعبے میں مسلسل تبدیلیاں نظر آتی ہیں اور ہم ہر بار نئے چیلنجز کا سامنا کرتے ہیں مگر ثابت قدم رہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپنے کام کو منفرد بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے راستے کو تلاش کرتے ہیں، ہر کام کرنے سے پہلے مقصد ہونا چاہیے، پتنگیر نے خود کی دیکھ بھال کی اہمیت پر بھی زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم روزانہ مواد بنانے کا دباؤ نہیں لیتے، کام میں وقفہ ضروری ہے، آرام کرنا انتہائی اہم ہے، جب دل نہیں چاہتا کام نہیں کرتے کیوں کہ ہم لوگوں کو صرف مواد نہیں بلکہ اچھا مواد دکھانا چاہتے ہیں۔

پتنگیر نے کہا اپنی ذاتی زندگی کو عوامی نہیں بناتے، ہم اپنی ذاتی زندگی کو پروفیشنل زندگی سے الگ رکھتے ہیں، جب آپ اپنے راستے پر چلتے ہیں اور اپنے مقصد پر فوکس کرتے ہیں، تو کوئی بھی پریشانی نہیں ہوتی۔ 

یونی لیور میں ڈائریکٹر ٹرانسفارمیشن، کسٹمر ڈیولپمنٹ کی ازکہ وقار نے نوجوانوں سے کہا کہ ہمیں اپنے کیریئر کی ترقی کے دوران ایک مضبوط سپورٹ سسٹم تلاش کرنا ضروری ہے، بات چیت سے مسائل حل ہوتے ہیں، اگر کوئی بات پریشان کرتی ہے تو ڈسکس کریں دوسروں سے توقعات نہیں رکھنی چاہیے، بلکہ آپ کو اپنے گھر یا کام کے ماحول میں جس بات سے پریشانی ہے دباؤ لینے کے بجائے ان پر کھل کر بات کریں۔ ورزش کی اہمیت پر بھی زور دیتے ہوئے ازکہ نے کہا کہ یہ ذہنی سکون اور توانائی کے لیے ضروری ہے۔

روش کی مینیجنگ ڈائریکٹر حفصہ شمسی نے کہا کہ ہمیں اپنے آپ کو سچائی کے ساتھ قبول کرنا چاہیے اس سے ہماری جسمانی، نفسیاتی اور روحانی نشوونما بہتر ہوتی ہے، زندگی بہت مصروف ہوتی ہے مگر اپنے لیے وقت نکالنا سیکھیں اور خود کو ترجیح دیں۔ 

اس موقع پر طلبہ نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یونی لیور نے اس پینل ڈسکشن کے ذریعے ایک اہم کردار ادا کیا ہے، ہم نے سیکھا کہ اگر ہمارا عزم پختہ ہو اور مقاصد واضح ہوں تو ہم کسی بھی چیلنج کا سامنا کر سکتے ہیں۔ سیشن میں طلبہ کو یہ بھی بتایا گیا کہ کس طرح اپنی پیشہ وارانہ اور نجی زندگی کو متوازن کیا جا سکتا ہے۔ 

یونی لیور کے نمائندوں نے اس موقع پر اپنے پروگرامز کے ذریعے نوجوانوں کو مزید معاونت فراہم کرنے کا عزم ظاہر کیا، تاکہ وہ معاشی اور سماجی تبدیلی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ اس پروگرام نے نوجوانوں کو موجودہ چیلنجز سے آگاہ کیا اور مستقبل کے لیے عملی حل فراہم کیے تاکہ وہ ایک مثبت اور پائیدار دنیا کے قیام میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

مقررین نے تجاویز دیں کہ ہمیں اپنی زندگی کو حقیقت پسندانہ انداز میں گزارنا چاہیے اور دوسروں کی توقعات کے مطابق خود کو تبدیل کرنے کی بجائے اپنی شخصیت کو قبول کرنا چاہیے۔ اس سے نہ صرف ذہنی سکون ملتا ہے بلکہ انسان اپنے فیصلوں میں بھی زیادہ پراعتماد رہتا ہے۔

انہوں نے کام کے دوران وقفے لینے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایسی سرگرمیاں اختیار کی جائیں جو آپ کو دوبارہ تازہ دم کر سکیں، مقررین نے کام کو محنت، شوق اور لگن سے کرنے کی نصیحت بھی کی اور کہا کہ اپنی صحت کو ترجیح دیتے ہوئے روزانہ ورزش کریں یا وہ کام کریں جس سے آپ کو خوشی محسوس ہو، اپنے کام اور ذاتی زندگی کے درمیان توازن قائم رکھیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نوجوانوں کو دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے کہا کہ زندگی کو ہوئے کہا اپنے کام کرتے ہیں ضروری ہے کر سکیں کہ ہمیں نے کام خود کو کام کے

پڑھیں:

پوتا پوتی انور کہہ کر بلاتے ہیں، انور مقصود کا بچوں سے دوستی کا انوکھا فلسفہ

پاکستان کے نامور ادیب، مزاح نگار اور دانشور انور مقصود نے حال ہی میں ایک پوڈکاسٹ میں شرکت کی جس میں اُن کی گفتگو نے نہ صرف ناظرین کو مسکرانے پر مجبور کیا بلکہ کئی گہرے معاشرتی پہلوؤں پر سوچنے کی راہیں بھی کھول دیں۔

 گوہر رشید کے ساتھ اس بےتکلف نشست میں انور مقصود نے زندگی، رشتوں، تنقید، تعریف اور معاشرے کے رویوں پر اپنے مخصوص شائستہ انداز میں خیالات کا اظہار کیا۔

گفتگو کے دوران انور مقصود نے بتایا کہ ان کا اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں سے رشتہ محض ایک بزرگ کا نہیں بلکہ دوستی پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب بچے انہیں اُن کے نام سے پکارتے ہیں تو انہیں خوشی ہوتی ہے، عجیب نہیں لگتا۔ ان کے بقول، جب وہ بچوں سے پوچھتے ہیں کہ "مجھے انور کیوں کہتے ہو؟" تو وہ معصومیت سے جواب دیتے ہیں کہ "آپ ہمیں ہمارے نام سے کیوں پکارتے ہیں؟" انور صاحب نے کہا کہ بچوں کے ساتھ دوستی کرنا ہی اُن سے محبت کا سب سے خوبصورت طریقہ ہے، اور یہی ہر رشتے کی بنیاد ہونی چاہیے۔

تنقید کے رویے پر بات کرتے ہوئے انور مقصود نے کہا کہ اکثر لوگ دوسروں پر تنقید اس لیے کرتے ہیں تاکہ اپنی کمزوریاں چھپا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ خود کچھ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے، وہ دوسروں کی کامیابی کو دیکھ کر تنقید کا راستہ اپناتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر کسی شعبے کا ماہر شخص تعمیری تنقید کرے تو وہ قابل غور ہوتی ہے، لیکن اگر تنقید کرنے والا متعلقہ فن سے ناواقف ہو تو وہ صرف حسد کی علامت ہے۔

معاشرتی تضادات پر بات کرتے ہوئے انور مقصود نے ایک دلچسپ مشاہدہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان میں دیواروں پر نظر دوڑائی جائے تو مردانہ طاقت کے اشتہارات عام نظر آتے ہیں، لیکن کہیں یہ نہیں لکھا ہوتا کہ خواتین کی طاقت بڑھائیں۔ ان کے بقول یہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ معاشرے میں مرد خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ طاقت کے دعوے صرف مردوں کے لیے کیے جاتے ہیں۔

انور مقصود کی یہ گفتگو سوشل میڈیا پر بھی موضوعِ بحث بنی، جہاں ناظرین نے ان کے انداز، بصیرت اور معاشرتی تنقید کو سراہا۔ ان کے جملے، چاہے طنز کے پیرائے میں ہوں یا محبت بھرے انداز میں، ہمیشہ سننے والوں کے دلوں کو چھو جاتے ہیں اور دیر تک سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • تحفظ ماحول: سرسبز زمین کے لیے صاف نیلا سمندر ضروری
  • وزیراعلیٰ پنجاب نے ٹیکس بڑھانے کی تجاویز مسترد کردیں
  • عید پر گندگی: عظمیٰ بخاری کا سندھ حکومت کی کارکردگی پر مرتضیٰ وہاب کو کرارا جواب
  • پوتا پوتی انور کہہ کر بلاتے ہیں، انور مقصود کا بچوں سے دوستی کا انوکھا فلسفہ
  • اکنامک سروے کو حتمی شکل دیدی گئی، اہداف اور کارکردگی کیا رہی؟
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • نو لُک شاٹ پر ہونیوالی تنقید پر صائم بھی بول اُٹھے
  • ٹرمپ نے مسک کو خبردار کر دیا، ڈیموکریٹس کی حمایت کی تو سنگین نتائج کیلیے تیار رہو
  • ایم کیو ایم کو ہمارے کام سے مرچیں لگتی ہیں تو لگیں، میں کیا کروں، مرتضیٰ وہاب
  • تم ہمارے جیسے کیسے ہو سکتے ہو؟