نارکوٹکس میں ٹرائل چلانا ہوتا ہے تو متعلقہ چیف جسٹس سے سیشن جج مانگا جاتا ہے،کیا ملٹری کورٹس میں ایسا ہوتاہے،جسٹس جمال مندوخیل
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ آئینی بنچ میں سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے حوالے سے اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ نارکوٹکس کا پوراکنٹرول فوج کے پاس ہے،نارکوٹکس میں ٹرائل چلانا ہوتا ہے تو متعلقہ چیف جسٹس سے سیشن جج مانگا جاتا ہے،کیا ملٹری کورٹس میں ایسا ہوتا۔
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے حوالے سے اپیلوں پر سماعت جاری ہے،جسٹس امین الدین کی سربراہی میں بنچ سماعت کررہا ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ ملٹری ٹرائل کرنے والا جج تو اتھارٹیز کے ماتحت ہوتا ہے،خواجہ حارث نے کہاکہ کسی کے پاس شواہد ہیں تو بات کریں، محض تاثر پر اعتراض نہیں اٹھایا جا سکتا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ نہ مجھے کسی پرکوئی شک ہے نہ اعتراض ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کرنے والے کون ہیں؟جسٹس حسن اطہر نے کہاکہ آپ کی جانب سے دیئے گئے ریکارڈ کا جائزہ لیاگیا، تفصیل میں نہیں گیا، 9مئی واقعات میں بظاہر سکیورٹی آف اسٹیٹ کا معاملہ نہیں لگتا،9مئی واقعات کے ملزمان کا ملٹری ٹرائل بہت تفصیل سے چلایا گیا، کیا تمام ریکارڈ پبلک کرنا ممکن نہیں؟9مئی واقعات کے ملزمان کے کارنامے عوام میں بے نقاب ہونے چاہئیں۔
9مئی مقدمات؛ عمرایوب، شبلی فراز، کنول شوزب، فوادچودھری اور خیال کاسترو پر فردجرم عائد
جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ کیا آرٹیکل 175کے تحت ملٹری کورٹس کے قیام کیلئے گنجائش رکھی گئی ہے؟خواجہ حارث نے کہاکہ ایسا ہوا تو ملٹری کورٹس سے متعلق جتنے بھی فیصلے دیئے گئے ان پر نظرثانی کرنا پڑے گی،آئین میں قانون کے تحت عدالتوں کے قیام کا ذکر ہے، کئی ممالک میں ملٹری کورٹس ہیں،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ نارکوٹکس کا پوراکنٹرول فوج کے پاس ہے،نارکوٹکس میں ٹرائل چلانا ہوتا ہے تو متعلقہ چیف جسٹس سے سیشن جج مانگا جاتا ہے،کیا ملٹری کورٹس میں ایسا ہوتا،خواجہ حارث نے کہاکہ تمام عدالتی فیصلوں میں ملٹری کورٹس کو آرٹیکل 175سے الگ رکھا گیا ہے،ایف آئی آر میں ان صاحب کا نام اہمیت نہیں رکھتا۔
ڈی جی آئی ایف آئی اے احمد اسحاق کو عہدے سے ہٹا دیا گیا
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ ملٹری کورٹس میں ہے جسٹس ہوتا ہے
پڑھیں:
روس کا جوہری صلاحیتوں سے لیس بحری ڈرون کا تجربہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اعلان کیا ہے کہ ان کے ملک نے ایک جوہری صلاحیتوں والے بحری ڈرون کا تجربہ کیا ہے جسے پوسائیڈن کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اعلان جوہری طاقت سے چلنے والے کروز میزائل کے کامیاب تجربے کے چند روز بعد آیا ہے۔ پیوٹن نے کہا کہ یہ ایسا ڈرون ہے جسے روکنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ہتھیار بھی جوہری طاقت سے چلتا ہے اور جوہری وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس ڈرون کو ا سٹیٹس 6 کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔یہ ایک بڑا جوہری طاقت سے چلنے والا ٹارپیڈو ہے جو جوہری وار ہیڈ سے لیس ہے اور جو پانی کے اندر طویل فاصلے تک خود مختار طور پر سفر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس منصوبے کے بارے میں پہلی عوامی معلومات 2015 ء میں روسی ٹیلی وژن پر ایک لیک کے ذریعے سامنے آئی تھیں جس میں پانی کے اندر جوہری ڈرون تیار کرنے کے حکومتی منصوبے کا انکشاف ہوا تھا۔ لیک ہونے والی دستاویز میں بتایا گیا تھا کہ اس منصوبے کا مقصد ساحلی علاقوں میں دشمن کی اقتصادی بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچانا اور بڑے پیمانے پر تابکاری آلودگی پیدا کرنا ہے۔ یہ ایسی تابکاری ہوسکتی ہے جو ان علاقوں کو طویل عرصے تک فوجی یا اقتصادی سرگرمیوں کے لیے ناقابل استعمال بنا دے۔ 2018 ء میں امریکی محکمہ دفاع کی جوہری پوزیشن کے جائزے کی مسودہ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ روس ایک بین البراعظمی جوہری ایندھن والا اور جوہری وار ہیڈ سے لیس خود مختار ٹارپیڈو تیار کر رہا ہے۔ برطانیہ کے رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ کے محقق سدھارتھ کوشل کے مطابق اس ٹارپیڈو کی لمبائی تقریباً 20 میٹر ہے۔ یہ تقریباً ایک ہزار میٹر کی گہرائی تک غوطہ لگا سکتا ہے اور اس کی حد کم از کم 10ہزار کلومیٹر ہونے کا اندازہ ہے۔ اس کے برعکس اس کی بہت سی حقیقی صلاحیتیں خفیہ رکھی گئی ہیں ۔ جو بنیادی خصوصیات اس سے منسوب کی جاتی ہیں وہ اس کی گہری گہرائیوں میں اور بہت تیز رفتاری سے کام کرنے کی صلاحیت ہے۔ یہ ایسی رفتار ہے جس کے باعث اسے روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پوسائیڈن کی تیاری میزائل دفاعی نظاموں کو چکما دینے والے ہتھیاروں کے نظام کو دکھانے کے ماسکو کے عزائم کی عکاسی کرتی ہے۔پوسائیڈن کو ڈرون کہا جاتا ہے کیونکہ یہ خود مختار طور پر سفر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ممکنہ طور پر لانچ کے بعد اس کا راستہ تبدیل یا مشن منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ اسے آبدوزوں سے براہ راست لانچ کرنے کے بجائے بعد میں فعال کرنے کے لیے سمندر کی تہ میں نصب کیا جا سکتا ہے جس سے مہنگی اور بڑی آبدوزوں کے ہدف بننے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔