تھرمل پاور پلانٹس کی ریٹائرمنٹ سے اربوں روپے کی بچت، 200 میگاواٹ کے مزید پلانٹس بند کرنے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) وفاقی وزیر برائے پاور ڈویژن سردار اویس لغاری نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی میں شرکت کی اور پاکستان کے پاور سیکٹر میں جاری ماحول دوست پالیسیوں پر تفصیلی بریفنگ دی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے بجلی کی پیداوار، انرجی کنزرویشن اور اس کے استعمال میں ماحول دوست پالیسی کو اپنایا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت ملک کی 55 فیصد بجلی ماحول دوست ذرائع سے پیدا ہو رہی ہے اور سال 2030 تک یہ شرح 60 فیصد تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ مستقبل میں پاکستان کی بجلی پیداوار کا 88 فیصد ماحول دوست ذرائع سے کرنے کا جامع منصوبہ تشکیل دیا جا چکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں ویلنگ پالیسی متعارف کرائی جا رہی ہے، جس کے ذریعے گرین انرجی کی پیداوار، خرید و فروخت میں اضافہ ہوگا۔
الیکٹرک وہیکل پالیسی اور توانائی کے شعبے میں اصلاحات
وفاقی وزیر نے بتایا کہ پاکستان کی پہلی الیکٹرک وہیکل پالیسی کے تحت خصوصی ٹریف متعارف کرایا گیا ہے، جس میں فی یونٹ نرخ 71 روپے سے کم کر کے 39.
انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ ملک میں اس وقت 30 ملین موٹر سائیکل سالانہ 6 ارب ڈالر کا درآمدی پٹرول استعمال کرتے ہیں، جبکہ موٹر سائیکل اور رکشے ملک کے کل پٹرول کا 40 فیصد استعمال کرتے ہیں۔ موٹر سائیکلوں کی وجہ سے 110kt، رکشوں کی وجہ سے 40kt، چھوٹی گاڑیوں کی وجہ سے 10kt، بسوں کی وجہ سے 22kt اور ٹرکوں کی وجہ سے 24kt کاربن اخراج ہوتا ہے۔
انرجی ٹرانزیشن پلان اور بجلی پر منتقلی
سردار اویس لغاری نے انرجی ٹرانزیشن پلان متعارف کرانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پٹرول پر چلنے والی دو اور تین پہیوں کی سواریاں، ڈیزل پر چلنے والے ٹیوب ویلز کو بجلی پر منتقل کرنے پر کام جاری ہے۔ اس سلسلے میں، حکومت نے نہ صرف پالیسی اور ٹیرف متعارف کرایا ہے بلکہ ان گاڑیوں کو الیکٹرک ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے کے لیے فنانسنگ کے آپشنز پر بھی کام کر رہی ہے۔
توانائی کے موثر استعمال کے لیے اقدامات
وفاقی وزیر نے کہا کہ ملک کے پہلے بلڈنگ کوڈز متعارف کرائے گئے ہیں تاکہ انرجی کے ضیاع کو روکا جا سکے۔ مزید برآں، غیر مؤثر پنکھوں کی تبدیلی کا پروگرام بھی متعارف کرایا جا رہا ہے، جس سے توانائی کی بچت ممکن ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ ان تمام پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔
قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری
وفاقی وزیر نے کہا کہ 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری 2030 تک 60 فیصد بجلی کی پیداوار کو قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے یقینی بنانے کے لیے درکار ہوگی، جبکہ 18 ارب ڈالر نیشنل انرجی کنزرویشن اتھارٹی (نیکا) کے منصوبے کے لیے ضروری ہوں گے۔
نئے پاور پلانٹس اور فرنس آئل پلانٹس کی ریٹائرمنٹ
سردار اویس لغاری نے بتایا کہ ماضی میں پاور پلانٹس مختلف پالیسیوں کے تحت لگائے گئے تھے، مگر اب ایک نیا سسٹم متعارف کرایا گیا ہے جس کے تحت مسابقتی عمل کے ذریعے ہی پاور پلانٹس لگائے جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 200 میگاواٹ کے فرنس آئل کے پاور پلانٹس کو وقت سے پہلے ریٹائر کیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں ملک کو مالی فوائد حاصل ہوں گے۔
انہوں نے بتایا کہ 2500 میگاواٹ کے تھرمل پاور پلانٹس پہلے ہی ریٹائر کیے جا چکے ہیں، جس کی بدولت اربوں روپے کی بچت ہوئی ہے۔
بلوچستان کے ٹیوب ویلز کو سولر پر منتقل کرنے کا منصوبہ
وفاقی وزیر نے اعلان کیا کہ بلوچستان کے ٹیوب ویلز کو سولر انرجی پر منتقل کرنے سے سالانہ 100 ارب روپے کے نقصان سے بچا جا سکے گا۔ اس اقدام سے توانائی کی بچت کے ساتھ ساتھ مالیاتی بوجھ میں بھی نمایاں کمی آئے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو گرین فنانس کی اشد ضرورت ہے تاکہ ماحول دوست توانائی کے منصوبے کامیابی سے مکمل کیے جا سکیں۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ حکومت بجلی کے شعبے میں اصلاحات اور توانائی کے پائیدار استعمال کے لیے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لائے گی۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: انہوں نے مزید وفاقی وزیر نے متعارف کرایا پاور پلانٹس نے بتایا کہ ماحول دوست توانائی کے کی وجہ سے ارب ڈالر کہا کہ گیا ہے کے لیے کی بچت
پڑھیں:
معیشت کی بہتری، مہنگائی پرقابو پانے کے حکومتی دعوے ہوا میں تحلیل ہو رہے ہیں، امیر جماعت اسلامی
کراچی:جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے حکومتی اعداد وشمار کو مصنوعی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ معیشت کی بہتری اور مہنگائی پر قابوپانے کے حکومتی دعوے آہستہ آہستہ ہوا میں تحلیل ہو رہے ہیں۔
ادارہ نور حق کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ معیشت کی بہتری اور مہنگائی پر قابو پانے کے تمام حکومتی دعوے آہستہ آہستہ ہوا میں تحلیل ہو رہے ہیں، مصنوعی بنیادوں پر اعداد و شمار سے معیشت کبھی بہتر نہیں ہو سکتی۔
انہوں نے کہا کہ جب عام آدمی اور تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بڑھے گا اور جاگیرداروں کو چھوٹ ملے گی، ایوان صدر، وزیر اعظم ہاؤس، گورنر ہاؤس اور وزرائے اعلیٰ ہاؤسز کے اخراجات کا بجٹ بڑھ رہا ہو اور حکمران عوام سے قربانی دینے کی باتیں کریں تو معیشت اور عوام کی حالت کیسے بہتر ہوسکتی ہے۔
حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ اس سال بھی تنخواہ دار طبقے نے 499 ارب روپے کا ٹیکس جمع کرایا جبکہ جاگیردار طبقے نے چار، پانچ ارب سے زیادہ ٹیکس جمع نہیں کرایا، ہمارا مطالبہ ہے کہ ایک لاکھ 25ہزاز ماہانہ تنخواہ والے افراد کو ٹیکس سے استشنیٰ دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی مستقل بنیادوں پر کی جائے ، بجلی کی پیداواری لاگت کے حساب سے عوام سے بل وصول کیے جائیں اور بجلی کے بنیادی ٹیرف میں کمی کی جائے۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) 17سال سے سندھ میں حکومت کر رہی ہے، پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے مل کر کراچی کو تباہ و برباد کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کے-الیکٹرک کا تحفہ دیا، تعلیم اور ٹرانسپورٹ تباہ کی، کراچی کی آبادی کم ظاہر کی، فارم 47کے ذریعے مستردشدہ لوگوں کو مسلط کروانے والے جب تک ہوش کے ناخن نہیں لیں گے کراچی کے حالات بہتر اور مسائل حل نہیں ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ کے-الیکٹرک اہل کراچی پر ایک مستقل عذاب بنی ہو ئی ہے، اس شدید گرمی اور حبس کے موسم میں 18،18گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے، چند بجلی چوروں کو پکڑنے کے بجائے پوری پوری آبادیوں کی بجلی بند کردی جاتی ہے۔
حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ جو لوگ بجلی کے بل اداکرتے ہیں ان کا کیا قصور ہے؟ وہ کیوں بجلی سے محروم ہیں۔
کے-الیکٹرک کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلوں کے مطابق اگر ایک آدمی بھی بجلی کا بل ادا کررہا ہے تو آپ وہاں کی بجلی نہیں کاٹ سکتے، جن کے ذمے 71کروڑ روپے کے بل ہیں ان کی بجلی نہیں کٹی ہوئی اور غریب لوگوں کی بجلی کاٹ دی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے علاوہ کوئی بھی جماعت کے-الیکٹرک کے خلاف نہیں بولتی، کے-الیکٹرک سب کونوازتی ہے، ایم کیوایم، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سب نے اپنے پنے ادوار میں کے-الیکٹرک کو سپورٹ کیا اور آج یہ کراچی میں ایک مافیا بن چکی ہے۔
اس موقع پر انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے ذمہ دار ہیں، ٹرمپ نے امن کے بجائے جنگ کو اہمیت دی اور غزہ میں فلسطنیوں کی نسل کشی اور اسرائیل کی حمایت کے لیے اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی قرار داد کو ویٹو کیا۔
انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کو امن کا داعی قرار دینا ذہنی غلامی اور ذہنی بیماری ہے، بھارت کو شکست دینے کے بعد پاکستان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، وزیراعظم اور فیلڈ مارشل مسلم ممالک اور ہمارے ہم خیال ممالک کے حکمرانوں اور فوجی سربراہوں کا اجلاس بلائیں اور غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی رکوانے کے لیے واضح اور دو ٹوک پیغام دیں۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ اس دفعہ پاکستان کے 67ہزار عازمین کے لیے ایک بڑی تکلیف کا پہلو رہا کہ وہ بد انتظامی اور نااہلی کی وجہ سے حج کی سعادت حاصل کرنے سے محروم رہے۔