کراچی (رپورٹ :قاضی جاوید) سابق صدر ایف پی سی سی آئی اور بی ایم جی کے سربراہ زبیر طفیل نے جسار ت کے سوال ’’شرح سود کم ہو نے سے عوام کی معاشی حالت کیوں تبدیل نہیں ہورہی ہے؟ ‘‘ کے جواب میں کہا کہ تاجر اور صنعتکارحکومت کی جانب سے شرحِ سود میں مسلسل کمی کوعوام تک منتقل نہیں کر رہے ہیں اور سارا منافع خود اپنے پاس رکھ لیتے ہیںاور وہ اس کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچنے دے رہے ہیں جس کی وجہ سے سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ ثمرات عام آدمی تک کب پہنچیں گے؟ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں مزید ایک فیصد کمی کا اعلان کیا ہے، جو13سے کم ہو کر 12 فیصد تک آ گئی ہے۔ 7 ماہ میں مسلسل پانچویں مرتبہ شرح سود میں کمی کی گئی ہے اور مستقبل میں مزید کمی کی توقع کی جا رہی ہے اس کے باوجود تاجر اور صنعتکار اپنی ذمے داری پوری نہیں کر رہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہ شرح سود کم ہونے سے حکومت پر قرضوں اور سود کی ادائیگی کا بوجھ فوری کم ہو جائے گا۔ ایک اندازے کے مطابق اس سے تقریباً 1300 ارب روپے کی بچت ہو سکتی ہے۔رواں مالی سال کے لیے سود کا ہدف 9 ہزار 800ارب روپے تھا جو تقریباً 18 فیصد شرح سود کے حساب سے بنایا گیا تھا، لیکن شرح سود میں تاریخی کمی کے بعد سود کا خرچ ساڑھے 8ہزار ارب روپے تک ہو سکتا ہے۔ حکومت اسے بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا شرح سود کم ہونے سے عام آدمی کی معاشی حالت بھی بدلے گی؟ اس کا جواب تاجروں اور صنعتکاروں سے طلب کر نا چاہیے ۔ نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم و آل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر، ایف پی سی سی آئی پالیسی ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین اورسابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے جسار ت کے سوال کے جواب میں کہا کہ’شرح سود کم ہونے کا فائدہ عام آدمی کو اس وقت ہو گا جب افراط زر آج کے ریٹ پر مستحکم رہے۔ اس وقت افراط زر تقریباً4سے 5 فیصد ہے۔ اس کا برقرار رہنا مشکل ہے۔ اگلے چند ماہ اہم ہیں۔ مارچ میں آئی ایم ایف کا جائزہ مشن پاکستان آ رہا ہے۔ ایکسچینج ریٹ میں اضافہ نہ کرنا اور افراط زر بھی نہ بڑھانا شاید آئی ایم ایف کو قابل قبول نہ ہو۔ انہوںنے کہا کہ یہ بات بھی کسی حد تک درست ہے کہ تاجر اور صنعتکارحکومت کی جانب سے شرحِ سود میں مسلسل کمی کوعوام تک منتقل نہیں کر رہے ہیں اور سارا منافع خود اپنے پاس رکھ لیتے ہیںاور وہ اس کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچنے دے رہے ہیں۔ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر میاں ابوزر شاد نے جسار ت کے سوال کے جواب میں کہا کہ شرح سود کم ہونے کا مثبت اثر عام آدمی تک پہنچنے میں کم از کم 3 ماہ لگ سکتے ہیں۔ حکومت کا شرح سود 22 سے12 فیصد پر لانا بڑی کامیابی ہے۔ شرح سود اگر 11 یا 10 فیصد پر آ جائے تو یہ آئیڈیل ہے۔ 3 فیصد بینک بھی لیتا ہے۔ 14 یا 15 فیصد پر کاروبار آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ یہ نہ صرف بزنس کمیونٹی بلکہ عام آدمی کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں تقریباً 45 لاکھ نوجوان بے روزگار ہیں۔ کاروبار بڑھے گا تو بے روزگاری میں کمی آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی کم ہونے کی وجہ ڈیمانڈ اور سپلائی میں فرق بھی ہے۔ پچھلے سالوں میں عوام کی قوت خرید کم ہو گئی ہے۔ شرح سود کم ہونے سے معاشی ایکٹیوٹی بڑھنے کی صورت میں ڈیمانڈ میں اضافہ ہو سکتا ہے اور مہنگائی بڑھ سکتی ہے۔ شرح سود 12 فیصد سے نیچے آنا مشکل ہے، یعنی اس کے سنگل ڈیجٹ میں آنے کے امکانات کم ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ثمرات عام ا دمی تک شرح سود کم ہونے شرح سود کم ہو کے جواب میں تاجر اور رہے ہیں

پڑھیں:

ایف بی آر کو مزید ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں ہے‘ چیئرمین راشد لنگڑیال

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251104-08-28

 

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے کہا ہے کہ ایف بی آر کو مزید ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں وزیر خزانہ و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ ٹیکس سے متعلق بجٹ میں منظور ہونے والے اقدامات پر عمل پیرا ہیں، مؤثر اقدامات کے باعث ٹیکس وصولیوں میں اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ ٹیکس اصلاحات میں وقت درکار ہوتا ہے، پہلی بار ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح میں 1.5 فیصد اضافہ ہوا ہے، انفرادی ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، ہمیں ٹیکس وصولی کو جی ڈی پی کے 18 فیصد پر لے کر جانا ہے، ٹیکس اصلاحات ایک سال میں مکمل نہیں ہو سکتی، اس سال انکم ٹیکس گوشواروں میں 18 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھ کر 59 لاکھ ہوگئی ہے، ایف بی آر کو مزید ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں ہے، وفاق سے 15فیصد اور صوبوں سے 3 فیصد ریونیو اکٹھا کرنا ہے، ریونیو کے لیے  صوبوں کے اوپر اتنا دباؤ نہیں جتنا وفاق پر ہے۔ راشد لنگڑیال نے کہا کہ اس سال انفرادی ٹیکس ریٹرنز فائلنگ میں 18 فیصد اضافہ ہوا، ٹیکس ریٹرن فائلرز کی تعداد 49 سے بڑھ کر 59 لاکھ ہو گئی ہے، ایف بی آر کو تمام اداروں کا تعاون حاصل ہے۔

 

مانیٹرنگ ڈیسک

متعلقہ مضامین

  • ایف بی آر کو مزید ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں ہے‘ چیئرمین راشد لنگڑیال
  • حیدری ماڈل مارکیٹ بنانے پر تاجر حافظ نعیم کے شکر گزار ہیں،محمود حامد
  • علی امین گنڈاپور کو کیوں ہٹایا گیا؟ گورنرخیبر پختونخوا کا سوال
  • گنڈاپور کو کیوں نکالا، کرپٹ تھے، نااہل یا میر جعفر؟ گورنر خیبر پختونخوا کا سوال
  • نئے ٹیکس نہیں لگانے پڑیں گے، ایف بی آر چیئرمین کا مؤقف
  • چیئرمین ایف بی آر نے منی بجٹ کے کسی امکان کو مسترد کردیا
  • مقبوضہ کشمیر، زعفران کی پیداوار میں 90 فیصد کمی، کاشتکار پریشان
  • خطے کے استحکام کا سوال
  • نریندر مودی کی ریلی سے پہلے 6 صحافیوں کو نظربند کرنا اُنکی گھبراہٹ کا مظہر ہے، کانگریس
  • پاک افغان طورخم بارڈر آج بیسویں روز بھی ہر قسم کی سرگرمیوں کیلئے بند