بھارتی فوج بطور قبضہ گیر قوت: تاریخ کے آئینے میں
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
1971ء کی جنگ، جو مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی اور بنگلا دیش کے قیام کا باعث بنی، یہ نہ صرف جنوبی ایشیا کی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے بلکہ اس کے اثرات آج تک موضوع بحث ہیں۔ مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلا دیش) میں بھارتی فوج کی موجودگی اور جنگ کے اثرات پر مبنی الزامات اور مباحث کئی دہائیوں سے جاری ہیں۔ یہ تنازع محض پاکستان کا ایک داخلی مسئلہ نہیں رہا تھا، بلکہ بھارت کی فعال شمولیت نے اسے ایک بین الاقوامی رنگ دے دیا تھا۔ اس جنگ کے دوران رونما ہونے والے سیاسی، اقتصادی، اور ثقافتی تغیرات نے جنوبی ایشیا کی سمت بدل کررکھ دی۔ بھارتی فوج کی مشرقی پاکستان میں موجودگی اور اس دوران مبینہ لوٹ مار اور وسائل کی مبینہ منتقلی نے اس تنازع کی پیچیدگیوں کو مزید گہرا کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔ بھارتی فوج تقریباً3 ماہ (3 دسمبر 1971 تا فروری 1972) تک مشرقی پاکستان میں موجود رہیں۔ بعض تاریخی حوالوں اور ذرائع کے مطابق اس دوران بھارتی فوج لوٹ مارمیں ملوث رہی۔ اس موقع پر اس نے قدرتی وسائل (لکڑی، چونا اور کوئلہ)، قیمتی دھاتوں، اور ثقافتی ورثے کو اپنے کنٹرول میں لے کر بھارت منتقل کیا۔ یقینا یہ امور نہ صرف تاریخی اہمیت رکھتے ہیں بلکہ پاکستان، بنگلا دیش، اور بھارت کے باہمی تعلقات پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ مشرقی پاکستان قدرتی وسائل، زراعت، اور برآمدات کے لحاظ سے پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کی زبردست زرعی اور برآمدی صلاحیت نے پاکستانی معیشت کو زبردست تقویت دی۔ اس وقت مشرقی پاکستان، ’’پاکستان‘‘ کی کل برآمدات کا تقریباً 60 تا 70 فی صد فراہم کرتا تھا، جن میں زیادہ تر جْوٹ (پٹ سن)، چائے، اور چاول شامل تھے۔ جبکہ چٹاگانگ بندرگاہ تجارتی سرگرمیوں کے لیے مرکزی حیثیت رکھتی تھی اور پاکستان کی بڑی برآمدات یہیں سے ہوتی تھیں۔ ڈھاکا اور چٹاگانگ میں جْوٹ اور ٹیکسٹائل کی صنعتوں کا قیام مشرقی پاکستان کی ترقی کے ایک اہم نشان تھے۔ یہی وجوہات
تھیں کہ مشرقی پاکستان اس وقت قدرتی وسائل، صنعتی ترقی، اور ثقافتی ورثے کے اعتبار سے خطے میں نمایاں حیثیت رکھتا تھا۔
آج کا بنگلا دیش، جو اِس وقت زراعت، جوٹ، اور ٹیکسٹائل کی صنعت میں عالمی شہرت رکھتا ہے، اْس وقت بھی ان شعبوں میں نمایاں مقام رکھتا تھا۔ بنگلا دیش دنیا میں جوٹ (پٹ سن) کا سب سے بڑا پروڈیوسر تھا اور ہے، اور اس کی جوٹ کی صنعت پاکستان کے لیے ایک اہم اقتصادی ستون کی حیثیت رکھتی تھی۔ بھارتی فوج نے جوٹ ملوں کے آلات اور ذخائر کا ایک بڑا حصہ بھارت منتقل کیا۔ مشرقی پاکستان کی کئی فیکٹریاں، خصوصاً ٹیکسٹائل کی مشینری اور خام مال مبینہ طور پر بھارت منتقل کیا گیا تاکہ بھارتی صنعت کو فائدہ پہنچے۔ مشرقی پاکستان کے قدرتی گیس کے ذخائر جنوبی ایشیا کے خطے میں اہمیت کے حامل تھے۔ بھارتی ماہرین نے ان ذخائر کا سروے کیا اور گیس کے ذخائر سے متعلق اہم معلومات بھارت منتقل کیں۔ مشرقی پاکستان کے سیاحتی مقام سلہٹ اور دیگر علاقوں میں موجود کوئلے اور چونا پتھر کے ذخائر اہم تھے۔ بعض مؤرخین کے مطابق ان ذخائر کا ایک حصہ بھارتی کنٹرول میں چلا گیا۔ مشرقی پاکستان چاول کی پیداوار کا ایک اہم مرکز تھا۔ یہاں سے خاص طور پر چاول اور دیگر اجناس کے ذخائر، مبینہ طور پر بھارت منتقل کیے گئے تاکہ بھارتی غذائی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ مشرقی پاکستان کی شوگر ملوں کی مشینری اور خام مال کے بھارت منتقل کیے جانے کی بھی اطلاعات موجود ہیں گندم، گنے اور دیگر زرعی پیداوار کے ذخائر بھی مبینہ طور پر بھارت منتقل کیے گئے۔ اسی طرح چٹاگانگ اور مونگلا بندرگاہوں پر موجود بحری جہازوں اور کشتیوں کو بھی بھارت لے جانے کی بات کہی گئی۔
یہ کہا جاتا ہے کی افراتفری اور انارکی کا بھرپور فائدہ اْٹھاتے ہوئے بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان کی تاریخی اور ثقافتی اشیاء، جیسے کہ نوادرات، کتابیں، اور قیمتی دستاویزات کو بھارت منتقل کیا۔ اس لوٹ مار کو کئی بنگلا دیشی ذرائع اور پاکستانی تاریخ دانوں نے اجاگر کیا ہے، ان کے مطابق، بھارتی فوج کی موجودگی میں وسائل کی منتقلی ہوئی۔ لیکن بھارت کی جانب سے ان گھناؤنی حرکتوں کو انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ مسترد کیا جاتا ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق مشرقی پاکستان میں موجود قیمتی دھاتیں اور ان کے محفوظ ذخائر اور تیار شدہ مصنوعات اور مشینری کے پرزے، بھارت منتقل کیے گئے۔ اس کے علاوہ مشرقی پاکستان کی فیکٹریوں میں موجود مشینری، جن میں دھاتوں کو پروسیس کرنے والے آلات شامل تھے، بھارت منتقل کیے گئے۔ سونے اور چاندی کے زیورات اور دیگرقیمتی اشیاء بھی لوٹ مار کے دوران بھارت منتقل کیں گئیں۔ بعض تاریخی مساجد، مندروں، اور مزارات سے نادر اشیاء اور قدیم نوادرات مبینہ طور پر نکالی گئیں اور بھارت منتقل کی گئیں۔ مشرقی پاکستان کے مختلف مقامات، جیسے ورثائی مقامات اور عجائب گھروں، سے تاریخی مجسمے اور آرٹ کے نمونے خاص طور پر بنگلا دیش کے ہندو مندروں میں موجود سونے، چاندی اور قیمتی دھاتوں سے بنے قدیم بتوں کی منتقلی، ڈھاکا میوزیم میں موجود نادر تاریخی اشیاء، جیسے کہ سونے، چاندی، اور تانبے کے سکے، پرانی کتابیں، اور دستاویزات، کو بھارت منتقل کیا گیا اس کے علاوہ چٹاگانگ اور دیگر اہم شہروں کے نوادرات اور آرٹ کے ذخائر کی منتقلی کا بھی ذکر ملتا ہے۔ بنگالی زبان اور تاریخ سے متعلق اہم ادبی اور تاریخی کتب بھارت لے جائی گئیں۔ مشرقی پاکستان کے حکومتی دفاتر اورآرکائیوز سے قیمتی دستاویزات، جن میں اہم سرکاری ریکارڈ شامل تھے، بھارت منتقل کیے گئے۔ مقامی امیر خاندانوں اور تجارتی مراکز سے سونے اور چاندی کے زیورات کی لوٹ مار کیں گئیں۔ مشرقی پاکستان کے بینکوں میں محفوظ سونا، چاندی، اور دیگر قیمتی ذخائر کو نکال کر بھارت لے جانے کی اطلاعات موجود ہیں۔
1971ء کے بعد پاکستانی معاشی ماہرین کے مطابق، مشرقی پاکستان کو تقریباً 30 بلین امریکی ڈالرز(1971ء) کی قدر کے مطابق کا مجموعی نقصان ہوا۔ بعض مؤرخین اور محققین کے مطابق، مشرقی پاکستان کے قدرتی وسائل، مثلاً جوٹ، قیمتی دھاتیں، اور ثقافتی ورثے کی منتقلی، بھارتی افواج کی موجودگی کے دوران ہوئی، جس کے شواہد مخصوص سیاسی بیانیوں اور دستاویزی حوالوں میں دستیاب ہیں۔ معروف پاکستانی محققین پروفیسر ریاض احمد اور ڈاکٹر سلمان حیدر، نے اپنے تجزیے میں اس مسئلے پرروشنی ڈالی ہے، جبکہ بھارتی مؤرخین جیسے رام چندر گوہا اور شیخار بندھو پادھیائے نے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے اسے ’’جنگی صورتحال میں افواہوں‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔
دوسری جانب بھارت کا موقف ہے کہ اس نے بنگلا دیش کو جنگ کے بعد معاشی اور فوجی امداد فراہم کی اور وسائل کی لوٹ مار کا کوئی ثبوت نہیں ہے، مستزاد یہ کہ بھارت کا یہ بھی موقف ہے کہ اس نے بنگلا دیش کی آزادی کی حمایت کی اور اس کے وسائل اورثقافتی ورثے کا تحفظ کیا۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ 1971ء کے جنگی حالات میں بدامنی اور افراتفری کے دوران مکتی باہنی کے تمام گروپس، شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کے کارکنوں سمیت مقامی اور غیر مقامی گروہوں نے بھی وسائل کی بھرپور لوٹ مار کی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ نہ صرف بھارت کے تضادات کو ظاہر کرتا ہے جو اس نے بنگالی عوام اور اس کے قیمتی وسائل کے ساتھ کیا بلکہ بنگلا دیش کے ابتدائی ایام میں اس کے وسائل کی قدرو قیمت اور بھارت کے مکروہ کردار پر بھی سوالات اٹھاتا ہے۔ جنگ کے اثرات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام دستیاب تاریخی شواہد، تحقیقاتی رپورٹس، اور بین الاقوامی ذرائع کو غیرجانبداری کے ساتھ پرکھا جائے اور وسیع پیمانے پر غیرجانبدارنہ تحقیقات کی جائیں، اس لیے کہ یہ موضوع تینوں ممالک کے تعلقات اور جنوبی ایشیا کی سیاست کے تناظر میں اپنی اہمیت برقرار رکھتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بھارت منتقل کیے گئے مشرقی پاکستان کی مشرقی پاکستان کے بھارت منتقل کیا بھارت منتقل کی ثقافتی ورثے قدرتی وسائل جنوبی ایشیا اور ثقافتی بھارتی فوج بنگلا دیش کی منتقلی وسائل کی کے مطابق کے دوران کے ذخائر کہ بھارت اور دیگر ایک اہم لوٹ مار جنگ کے کا ایک اور اس
پڑھیں:
امریکا بھارت دفاعی معاہد ہ حقیقت یا فسانہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی صدر ٹرمپ اور زی شی پنگ کے درمیان ہونے مذاکرات کے فوری بعد ہی دنیا میں کے سامنے بھارت اور امریکا کے دفاعی معاہدے کا معاہدے کا ہنگا مہ شروع ہو گیا اور بھارتی میڈیا نے دنیا کو یہ بتانے کی کو شش شروع کر دی ہے کہ پاکستان سعودی عرب جیسا امریکا اور بھارت کے درمیان معاہدہ ہے لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے ۔بھارت اور امریکا نے درمیان یہ دفاعی معاہدہ چند عسکری امور پر اور یہ معاہد
2025ءکے معاہدے کا تسلسل ہے ،2025ءکو نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دور جب بھارت نے پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کر نے کی کوشش شروع کر دی تو امریکا نے نے بھارت کو ایشیا کا چوھدری بنانے فیصلہ کر لیا تھا اسی وقت پاکستان نے بھارت کو بتا دیا تھا کہ ایسا نہیں کر نے کی پاکستان اجسازت نہیں دے گا ۔اس معاہدے کی تجدید 2015ءاور اب 2025ءمیں کیا گیا ہے ۔اس کی تفصیہ یہ ہے کہ اس معاہدے کے تحت امریکا بھارت کو اسلحہ فروخت کر گا ،خفیہ عسکری معلامات امریکا بھارت کو فراہم کر گا اور دونوں ممالک کی افواج مشترکہ فوجی مشقیں ساو ¿تھ چائینہ سی میں کر یں گی اور چین کے خلاف جنگ کی تیاری کی جائے گی لیکن اب بھارت دنیا کو یہ ثابت کر ے کی کو شش کر رہا ہے کہ امریکا اور بھارت کا معاہدہ پاکستان کے خلاف بھی لیکن حقیقت اس سے مختلاف ہے
پاکستان نے امریکا،بھارت دفاعی معاہدے کا جائزہ لے رہے ہیں
مسلح افواج کی بھارتی مشقوں پر نظر ، افغانستان نے دہشتگردوں کی موجودگی تسلیم کی:دفترخارجہ امریکا اور بھارت کے درمیان 10 سالہ دفاعی معاہدہ ، راج ناتھ سنگھ اور پیٹ ہیگسیتھ کے دستخط کیے
اسلام آباد،کوالالمپور(اے ایف پی ،رائٹرز،مانیٹرنگ ڈیسک)امریکا اور بھارت کے درمیان 10سالہ دفاعی معاہدہ طے پا گیا ،امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے گزشتہ روز تصدیق کردی کہ امریکا نے بھارت کے ساتھ 10 سالہ دفاعی فریم ورک معاہدے پر دستخط کر دئیے ہیں ،پاکستانی دفترخارجہ کے ترجمان کا کہناہے کہ پاکستان نے امریکا اور بھارت کے درمیان ہونے والے دفاعی معاہدے کا نوٹس لیا ہے اورخطے پر اس کے ہونیوالے اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ طاہر اندرابی نے کہا کہ مسلح افواج بھارتی فوجی مشقوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں، بھارت کی کسی بھی مہم جوئی کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ ان کاکہنا کہ یہ سوال کہ پاکستان نے کتنے بھارتی جنگی جہاز گرائے ؟ ،یہ بھارت سے پوچھنا چاہئے ، حقیقت بھارت کے لئے شاید بہت تلخ ہو۔ پاک افغان تعلقات میں پیشرفت بھارت کو خوش نہیں کرسکتی لیکن بھارت کی خوشنودی یا ناراضی پاکستان کے لئے معنی نہیں رکھتی۔ افغان طالبان حکام نے کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد تنظیموں کی افغانستان میں موجودگی کو تسلیم کیا اور ان تنظیموں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے مختلف جواز پیش کئے ،پاکستان کو امید ہے کہ 6 نومبر کو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے اگلے دورکا نتیجہ مثبت نکلے گا، پاکستان مصالحتی عمل میں اپنا کردار جاری رکھے گا اور امن کے قیام کیلئے تمام سفارتی راستے کھلے رکھے گا۔ طاہر اندرابی نے واضح کیا کہ پاکستان اپنی خودمختاری اور عوام کے تحفظ کیلئے ہر ضروری اقدام اٹھائے گا، انہوں نے قطر اور ترکیہ کے تعمیری کردارکو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو 6 نومبر کے مذاکرات سے مثبت اور پائیدار نتائج کی امید ہے۔
سرحد کی بندش کا فیصلہ سکیورٹی صورتحال کے جائزے پر مبنی ہے ، سرحد فی الحال بند رہے گی اور مزید اطلاع تک سرحد بند رکھنے کا فیصلہ برقرار رہے گا،مزید کشیدگی نہیں چاہتے تاہم مستقبل میں کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ادھر پاکستان کی وزارت خارجہ نے ایک پریس ریلیز میں انڈین میڈیا کے دعوو ¿ں کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ پر ‘اسرائیل کیلئے “ناقابل استعمال”کی شق بدستور برقرار ہے ، اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ خبر رساں اداروں رائٹرز اور اے ایف پی کی رپورٹس کے مطابق امریکی وزیردفاع پیٹ ہیگسیتھ نے ایکس پوسٹ میں بتایا کہ بھارت کیساتھ دفاعی فریم ورک معاہدہ خطے میں استحکام اور دفاعی توازن کیلئے سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے ، جس سے دونوں ممالک کے درمیان تعاون، معلومات کے تبادلے اور تکنیکی اشتراک میں اضافہ ہوگا،ہماری دفاعی شراکت داری پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق بھارتی وزیردفاع راج ناتھ سنگھ اور پیٹ ہیگستھ کی ملاقات کوالالمپور میں ہونے والے آسیان ڈیفنس منسٹرز میٹنگ پلس کے موقع پر ہوئی جس کا باقاعدہ ا?غاز آج ہوگا۔معاہدے پر دستخط کے بعد پیٹ ہیگسیتھ نے بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا کی سب سے اہم امریکی بھارتی شراکت داریوں میں سے ایک ہے ، یہ 10 سالہ دفاعی فریم ورک ایک وسیع اور اہم معاہدہ ہے ، جو دونوں ممالک کی افواج کیلئے مستقبل میں مزید گہرے اور بامعنی تعاون کی راہ ہموار کرے گا۔
امریکا اور بھارت نے 10 سالہ دفاعی فریم ورک معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ امریکی وزیرِ دفاع پِیٹ ہیگسیتھ نے کہا ہے کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون، ٹیکنالوجی کے تبادلے اور معلومات کے اشتراک کو مزید مضبوط بنائے گا۔
ہیگسیتھاس بعد چین چ؛ی گئیں اور وہاں انھوں تائیوان کا ذکر دیا جس کے ایسا محسوس ہوا کہ
ہیگسیتھ کے ایشیا میں آتے ہیں امریکا چین کے درمیان ایک تناو ¿ پیدا ہو گیا ۔ہیگسیتھ کے مطابق، یہ فریم ورک علاقائی استحکام اور مشترکہ سلامتی کے لیے سنگِ میل ثابت ہوگا۔ انہوں نے ایکس (سابق ٹوئٹر) پر کہا: “ہمارے دفاعی تعلقات پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔”
بھارتی وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ کے ساتھ یہ ملاقات آسیان دفاعی وزرائے اجلاس پلس کے موقع پر کوالالمپور میں ہوئی۔ معاہدے پر دستخط کے بعد امریکی وزیرِ دفاع نے بھارت کے ساتھ تعلقات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “یہ تعلقات دنیا کے سب سے اہم شراکت داریوں میں سے ایک ہیں۔”ہیگسیتھ نے اس معاہدے کو “مہتواکانکشی اور تاریخی” قرار دیا اور کہا کہ یہ دونوں افواج کے درمیان مزید گہرے اور بامعنی تعاون کی راہ ہموار کرے گا۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے حال ہی میں بھارتی وزیرِ خارجہ سبرامنیم جے شنکر سے ملاقات کی تھی۔ دونوں رہنماو ¿ں نے دوطرفہ تعلقات اور خطے کی سلامتی پر گفتگو کی۔
یاد رہے کہ حالیہ مہینوں میں امریکا اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی دیکھی گئی تھی، جب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت پر 50 فیصد تجارتی محصولات عائد کیے تھے اور نئی دہلی پر روس سے تیل خریدنے کے الزامات لگائے تھے۔
اسی سلسلے میں بھارت کو امریکا 2025ءمیں خطے میں چین کی فوجی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے ڈیجیٹل خفیہ معلومات کا نظام بھی دیا تھا لیکن اس کے بعد چین نے خاموشی سے گلوان ویلی اور لداخ کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر تھا۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے 10مئی 2025ءکو جب پاکستان نے بھارت پر جوابی حمہ کی اتھا اس وقت بھی امریکا اور بھارت کا دفاعی معاہدہ ای طرح قائم تھا لیکن پاکستان نے جم کر بھارت کی خوب پٹائی کی اور امریکا اس وقت سے آج تک یہی کہہ رہا ہے اگر صدر ٹرمپ جنگ نہ رکوائی ہوتی تو بھارت کو نا قابل ِحد تک تباہ کن صورتحال کا سامنا کر نا پڑتا۔اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکا بھارت دفاعی معاہد ہ حقئقت یا فسانہ ہے ۔