ایم کیو ایم اراکینِ اسمبلی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر سندھ اسمبلی نے کہا کہ قیادت پر بات ہوگی تو خطرناک ری ایکشن آئے گا، بلاول کی وزارتِ عظمی کا دروازہ ایم کیو ایم سے ہوکر گزرے گا، ہمارے پاس سے جانے والے لوگ بتاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی میں کیا چل رہا ہے۔ متعلقہ فائیلیںاسلام ٹائمز۔ سندھ اسمبلی میں اپویشن لیڈر علی خورشیدی نے کہا ہے کہ سندھ کا ہر محکمہ بھتہ لیتا ہے، بھتے کی رقم وزیروں تک جاتی ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم اراکینِ اسمبلی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے علی خورشیدی نے کہا کہ لیاری گینگ وار کو لوگ نہیں بھولے، شناختی کارڈ دیکھ کر ٹکڑے کیے جاتے تھے، پیپلز پارٹی میں ننھے منے ترجمانوں کا مقابلہ چل رہا ہے۔ علی خورشیدی نے کہا کہ ایم کیو ایم کی مرکزی قیادت اور چیئرمین نے پریس کانفرنس کی، 17 سالوں سے قائم پیپلز پارٹی کی حکومت کے بارے میں بتایا، کرپشن اور نااہلی کے بارے میں سب کو بتایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پریس کانفرنس پر سندھ حکومت کے 10 روپے کے 12 ترجمان بول پڑے، قیادت کسی بھی جماعت کی رول ماڈل ہوتی ہے، 100 روپے کے 22 اسپیشل اسسٹنٹس اور ترجمانوں نے ہماری قیادت کو ٹارگٹ کیا، پیپلز پارٹی کے پاس بتانے کو کچھ نہیں، اس لیے ہماری قیادت پر حملہ کیا۔

ایم کیو ایم رہنما نے کہا کہ ایک سینئر وزیر کہہ رہے تھے کہ ایم کیو ایم کو اہمیت نہیں دیتے، ایم کیو ایم کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی حکومت چل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو نے کچھ عرصہ پہلے کہا کہ ان کے گھر پانی نہیں اور اب تک وہاں پانی نہیں آتا، یہ اتنے نااہل ہیں کہ اپنے چیئرمین کے گھر پانی کی فراہمی بحال نہ کرسکے۔ علی خورشیدی نے کہا کہ پہلی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ پیپلز پارٹی اچھا کام کرے گی تو ساتھ دیں گے لیکن ایک سال میں کچھ بھی نہیں بدلا مسائل جوں کے توں ہیں، جہاں ضرورت پڑے احتجاج ہوگا، سندھ کے عوام کی فلاح کے لیے کوئی کام نہیں ہو رہا، کیا صحت اور تعلیم کا نظام بہتر ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قیادت پر بات ہوگی تو خطرناک ری ایکشن آئے گا، بلاول کی وزارتِ عظمی کا دروازہ ایم کیو ایم سے ہوکر گزرے گا، ہمارے پاس سے جانے والے لوگ بتاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی میں کیا چل رہا ہے۔ علی خورشیدی نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے پیپلز پارٹی جوائن کرلی لیکن وہ ہمارے ہیں، لیاری گینگ وار نہیں بھولے ان کو اسلحہ لائسنس کس نے دیئے سب کو پتہ ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: علی خورشیدی نے کہا کہ پریس کانفرنس پیپلز پارٹی ایم کیو ایم انہوں نے ایم کی ہیں کہ

پڑھیں:

اساتذہ کا وقار

کراچی یونیورسٹی کے سینئر استاد پروفیسر ڈاکٹر آفاق احمد صدیقی کے ساتھ ایک جونیئر سرکاری اہلکار کی بدسلوکی کا واقعہ اساتذہ کے وقار کی پامالی کی مثال ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر آفاق صدیقی کراچی یونیورسٹی کے اسٹاف ٹاؤن میں مقیم ہیں، ان کے گھر کے سامنے ایک اور افسر بھی رہتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے ڈاکٹر آفاق مغرب کی نماز کے بعد گھر واپس آئے تو کچرا جلتے دیکھا،جس پر انھوں نے وہاں پر موجود افسر کے سیکیورٹی گارڈ سے درخواست کی کہ وہ لکڑیوں کا کچرا نہ جلائے کیونکہ دھواں ان کے گھر میں آتا ہے اور سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے،جس پر تلخ کلامی کے بعد گارڈ نے نہ صرف بدتمیزی کی بلکہ انھیں تھپڑ بھی مارا جس سے ان کا چشمہ ٹوٹ گیا اور آنکھ میں خون جمع ہوگیا۔ بعدازاں پروفیسر صاحب سے بدتمیزی کرنے والے سرکاری اہلکار کو معطل کرکے اس کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ 

کراچی یونیورسٹی کے اسٹاف ٹاؤن میں  کئی دفعہ اس قسم کے واقعات ہوئے ہیں۔ سینئر استاد و معروف ادیب ڈاکٹر طاہر مسعود جب اسٹاف ٹاؤن میں رہتے تھے تو ان کے بقول وہ علی الصبح اپنے گھر کے سامنے اس وجہ سے ورزش نہیں کرسکتے تھے کہ ان کے گھر کے سامنے ایک بڑے صاحب رہتے تھے۔

ان بڑے صاحب کے سیکیورٹی گارڈز کا موقف تھا کہ گھر کی سیکیورٹی متاثر ہوتی تھی۔ یہ تمام مکانات کراچی یونیورسٹی کی ملکیت ہیں۔ کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی نے ایک سینئر استاد کے ساتھ بدسلوکی پر سخت ردعمل میں کہا ہے کہ ایک معزز استاد جنھوں نے اپنی زندگی تعلیم و تحقیق کے لیے وقف کی ہے، انھیں ایسے رویے کا سامنا کرنا پڑا جو کسی مہذب ادارے یا معاشرے میں ناقابل قبول ہے۔ جامعہ کے اساتذہ علم ، تحقیق اور تہذیب کے نمایندے ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ عزت و احترام کا رویہ نہ صرف اخلاقی ضرورت ہے بلکہ ادارہ جاتی روایت کا تقاضہ بھی ہے۔

 80 کی دہائی میں کراچی بھر میں تشدد کے واقعات عام ہوگئے تھے، بوری بند لاشیں ملنے لگیں اور سیاسی، لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کی لہر آئی تو اس کے اثرات کراچی یونیورسٹی پر بھی پڑے۔ 1980کے آغاز کے ساتھ ہی کراچی یونیورسٹی اور اس سے متصل این ای ڈی یونیورسٹی میں طلبہ تنظیموں کے کارکنوں کے درمیان جھڑپیں ہونا شروع ہوگئیں۔ ان جھڑپوں میں کئی طالب علم جاں بحق بھی ہوئے اور دونوں یونیورسٹیوں میں 6 ماہ سے زیادہ عرصے تک تدریس کا سلسلہ معطل رہا ۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت کو طلبہ گروہوں میں تصادم کے فوری فائدے نظر آئے۔ اسی بناء پر اس وقت کی حکومت نے صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے سنجیدگی سے کوئی اقدام نہیں کیا۔

 1988میں وفاق اور سندھ میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ متحدہ قومی موومنٹ بھی وفاق اور سندھ میں حکومتوں میں شامل ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو شہید نے سینئر بیوروکریٹ غلام اسحاق خان کو صدارت کا عہدہ سونپا اور جنرل مرزا اسلم بیگ سپہ سالار بن گئے۔

تاریخی حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ غلام اسحاق خان اور اسلم بیگ کے کچھ اور مقاصد تھے اور ان مقاصد کے حصول کے لیے کراچی میدانِ جنگ بن گیا۔ اگرچہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اتحادی تھے مگر عملی طور پر ایک دوسرے کے حریف تھے۔ اس زمانے میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی طلبہ تنظیموں کے کارکنوں میں مسلسل مسلح جھڑپیں ہوتی تھیں۔ کراچی یونیورسٹی میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے تین کارکن ایک تصادم میں جاں بحق ہوئے۔ اس وقت سندھ کے گورنر جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم تھے، وہ پہلے گورنر تھے جو سندھ کی یونیورسٹیوں کے معاملات کو براہِ راست دیکھتے تھے۔

کراچی یونیورسٹی کے استاد کے ساتھ ناروا سلوک کے واقعے پر سوشل میڈیا پر خوب بحث ہوئی ہے۔ فی الحال یہ معاملہ داخلِ دفتر ہوا مگر مسئلے کا دائمی حل نہیں نکل سکا۔ دنیا بھرکی یونیورسٹیوں کی طرح کراچی کی یونیورسٹیوں میں بھی اپنی سیکیورٹی فورس ہونی چاہیے۔ اس فورس میں ایسے افراد کو بھرتی کیا جانا چاہیے جو اساتذہ اور طلبہ کے وقار کو ملحوظ رکھیں اور یونیورسٹی کی اہمیت کو سمجھتے ہوں۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال کے سینکڑوں ملازمین کئی ماہ سے تنخواہ سے محروم
  • عمران خان کے ساتھ عدل نہیں ہو رہا ہے
  • آن لائن سسٹم تاخیر کا شکار، پراپرٹی ٹیکس وصولی شروع نہ ہو سکی
  • سینیٹ انتخاب میں ن لیگ، پیپلز پارٹی، جے یو آئی کا کردار شرمناک ہے: نعیم الرحمٰن
  • پیپلز پارٹی، ن لیگ، جے یو آئی اور اے این پی کا پی ٹی آئی کی اے پی سی میں شرکت سے انکار
  • دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی 10 زبانوں میں اردو کا نمبر کونسا ہے؟
  • شاہ محمود قریشی پارٹی کی قیادت سنبھالیں گے یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا. سلمان اکرم راجہ
  • یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ شاہ محمود قریشی پارٹی کی قیادت سنبھالیں گے: سلمان اکرم راجہ
  • یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ شاہ محمودقریشی پارٹی قیادت سنبھالیں گے،سلمان اکرم راجہ 
  • اساتذہ کا وقار