Jasarat News:
2025-06-18@21:01:41 GMT

والدین خوفزدہ،کراچی سے اغوا ، لاپتا بچوں کی تعداد14 ہوگئی

اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT

کراچی (رپورٹ /محمد علی فاروق) کراچی میں بچوں کے اغوا کے بڑھتے ہوئے واقعات نے شہر میں خوف کی فضا کی قائم کردی۔ پولیس کا ناقص تفتیشی نظام، سیف سٹی پروجیکٹ کی تکمیل میں تاخیر اور گمشدگی کی ایف آئی آر درج کرنے سے انکار ان کے واقعات میں اضافہ کی بڑی وجہ ہے۔ کراچی کے کم آمدنی والے علاقوں سے لاپتا ہونے والے بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔ واقعات کی روک تھام کے لیے تھانوں کی سطح پر کمیٹیاں اور اسپیشل برانچ انٹیلی جنس یونٹ کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ تفصیلات کے مطابق دسمبر 2024ء سے اب تک مجموعی طور پر کراچی سے14 بچے اغوا اور لاپتا ہوچکے ہیں‘ ویسٹ زون سے 3 بچے لاپتا ہوئے، بلال کالونی سے مبینہ اغوا ہونے والے بچے کو قتل کیا گیا۔ گلبہار سے لاپتا ہونے والابچہ بازیاب کیا گیا جبکہ منگھو پیر سے لاپتا بچہ خود گھر آیا۔ ایسٹ زون سے6 بچے لاپتا ہوئے تھے، گلستان جوہر کی 2 سالہ کنیز تاحال لاپتا ہے جبکہ مبینہ ٹائون سپرہائی وے سے لاپتا 2 بچوں اور زمان ٹائون اور شاہ لطیف سے لاپتا 3 بچوں کو بازیاب کرایا گیا۔ سائوتھ زون سے 3 بچے لاپتہ ہوئے تھے جبکہ سعیدآباد سے لاپتا 4 سالہ بچے کا تاحال کچھ پتہ نہ چل سکا۔ سعودآباد میں پولیس نے اغوا کی گئی 8 سال کی بچی کو چند گھنٹوں میں بازیاب کروا لیا تھا ،کورنگی نمبر ڈھائی سے 2 سگے بھائی4 سالہ زین علی اور7 سالہ اعظم لاپتا ہوگئے، والدہ کا کہنا ہے کہ بچوں کو نامعلوم موٹرسائیکل سوار شخص اغوا کر کے لے گیا۔ نارتھ کراچی میں مدرسہ جانے والے بچہ صارم کی لاش اپارٹمنٹ کے ٹینک سے برآمد ہوئی تھی۔ پولیس اب تک بچے کے قاتلوں کی گرفتاری سے قاصر ہے۔ اگر نومولود بچے سے لیکر چار سال کا بچہ گمشدہ ہے تو وہ گروپ انہیں اٹھانے میں ملوث ہو رہے ہیں جو بچوں سے گداگری کراتے ہیں یا پھر بے اولاد جوڑوں کو فروخت کردیتے ہیں۔ اگر 5 سے 10 سال کی عمر کا بچہ لاپتا ہے تو اس کو گداگری میں ملوث گروپ لے جا سکتا ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے خاندانی مسائل ہوں یعنی والدین میں سے کوئی ایک سوتیلا ہو یا والدین میں علیحدگی ہو رہی ہو۔ بچے اس وجہ سے بھی غائب ہو جاتے ہیں جو بعد میں مل بھی جاتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ 12 سے 18 سال کی عمر کے بچے رن اوے کیٹگری میں آتے ہیں جن اگر کوئی خواہش پوری نہیں ہوئی یا گھر میں تشدد ہوا تو وہ نکل گئے۔ ان میں کئی جرائم پیشہ افراد کے ہاتھ بھی چڑھ جاتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر فوری بچوں کی گمشدگی کی رپورٹس درج ہوتیں اور پولیس تحقیقات کرتی تو کسی نہ کسی طرح وہ ملزمان تک پہنچ جاتی اور اتنے بچے ہلاک نہیں ہوتے۔ ادھر شہر قائد میں والدین اغوا کے پے درپے واقعات کے بعد اپنے بچوں کی حفاظت کے حوالے سے سے تشویش کا شکار ہیںجبکہ والدین بچوں کے اغوا کے خطرات اور واقعات کی فوری اطلاع دینے کی اہمیت سے بھی لاعلم ہیں۔ شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ ان واقعات کی روک تھام کے لیے تھانوں کی سطح پر کمیٹیاں اور اسپیشل برانچ انٹیلی جنس یونٹ کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سے لاپتا بچوں کی

پڑھیں:

فضل الرحمان کے بیٹے کے اغوا کی کوشش،کیا خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع نو گو ایریاز بن گئے؟

خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں نامعلوم مسلح افراد نے جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے بیٹے کو اغوا کرنے کی کوشش کی۔

یہ بھی پڑھیں:ڈی آئی خان: وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا رشتہ دار فائرنگ سے جاں بحق

اس واقعے کے بعد یہ سوال شدت سے اٹھنے لگا ہے کہ کیا صوبے کے جنوبی اضلاع سکیورٹی کے حوالے سے ’نو گو ایریا‘ بن چکے ہیں؟

اغوا کی کوشش کی تصدیق

جے یو آئی (ف) اور ڈی آئی خان پولیس دونوں نے واقعے کی تصدیق کر دی ہے۔ پارٹی رہنما اور مولانا فضل الرحمان کے بھائی سینیٹر مولانا عطا الرحمان نے سینیٹ کو بتایا کہ ان کے بھتیجے اور جے یو آئی (ف) کے رہنما اسجد محمود کو کس طرح اغوا کرنے کی کوشش کی گئی۔

پولیس کے مطابق واقعے کی رپورٹ سی ٹی ڈی نے درج کر کے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے، تاہم تاحال کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔

نیشنل ہائی وے پر 50 مسلح افراد کی جانب سے قافلے پر حملہ

مولانا عطا الرحمان نے سینیٹ میں بتایا کہ چند روز قبل اسجد محمود ایک جنازے میں شرکت کے لیے ڈی آئی خان سے لکی مروت جا رہے تھے۔ اسی دوران نیشنل ہائی وے پر تقریباً 50 مسلح افراد نے ان کا قافلہ روک لیا۔

مولانا اعطا الرحمان

انہوں نے مزید بتایا کہ اسجد محمود عام انتخابات میں لکی مروت سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار شیر افضل مروت کے مدمقابل تھے، اور وہ پارٹی کے سرگرم کارکن بھی ہیں۔

مسلح تصادم کی صورتحال، لیکن بات چیت سے رہائی

مولانا اسجد کے ساتھ موجود محافظوں نے مزاحمت کی اور دونوں طرف سے ایک دوسرے پر بندوقیں تان لی گئیں، جس سے صورتحال کشیدہ ہو گئی۔

تاہم اسجد محمود کی طرف سے کی گئی بات چیت کے بعد شدت پسندوں کے کمانڈر نے انہیں جانے دیا۔

یہ بھی پڑھیں:ڈی آئی خان: نامعلوم افراد کی فائرنگ اور بم دھماکے کے نتیجے میں بلوچستان لیویز کے 4 اہلکار شہید

عطا الرحمان نے یہ وضاحت نہیں کی کہ گفتگو میں کیا بات ہوئی یا کس بنیاد پر رہائی ملی، لیکن بعد ازاں شدت پسندوں کی طرف سے موصول پیغام میں اسجد کو چھوڑنے کو ’غلطی‘ قرار دیا گیا۔

جے یو آئی کا تحفظ کا مطالبہ

عطا الرحمان نے سینیٹ میں زور دیا کہ جے یو آئی (ف) ہمیشہ ریاست پاکستان کے ساتھ کھڑی رہی ہے، لیکن اب ان کے رہنماؤں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے حکومت سے اپنے رہنماؤں کے لیے تحفظ کا مطالبہ کیا اور خبردار کیا کہ اگر ایسی کارروائیاں جاری رہیں تو جماعت خاموش نہیں رہے گی۔

ڈی آئی خان اور جنوبی اضلاع دہشتگردی کی لپیٹ میں

ڈی آئی خان، جو کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا آبائی ضلع بھی ہے، کافی عرصے سے دہشتگردی کا شکار ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق صوبے کے جنوبی اضلاع، جیسے ڈی آئی خان، لکی مروت، بنوں، ٹانک وغیرہ میں دہشتگردوں کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔

مولانا اسجد محمود

یہ علاقے اغوا، بھتہ خوری، اور حملوں جیسے جرائم کے لیے مشہور ہوتے جا رہے ہیں۔

ڈی آئی خان دہشتگردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ کیوں؟

سینیئر صحافی رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق، ڈی آئی خان میں دہشت گردوں کی موجودگی 2004 سے ہے۔

ان کے مطابق ڈی آئی خان چار یا اس سے زائد اطراف سے جنوبی وزیرستان، بلوچستان اور پنجاب سے جڑا ہوا ہے، جس کی وجہ سے دہشتگردوں کے لیے یہاں سے فرار ہونا آسان ہے۔

یہ بھی پڑھیں:گورنر خیبرپختونخوا کا ڈی آئی خان اور سکھر ایئرپورٹس جیسے منصوبے جلد شروع کرنے کا مطالبہ

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ڈی آئی خان کے نواحی علاقے پسماندہ ہیں، جہاں شدت پسند گروپوں کے لیے کارروائیاں کرنا اور چھپنا آسان ہے۔

گنڈاپور گروپ کی سرگرمیاں کلاچی میں جاری ہیں اور وہ پورے ضلع میں متحرک ہے۔

گنڈاپور گروپ کی طاقت میں اضافہ کیسے ہوا؟

رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق، طالبان کی موجودگی اس علاقے میں پرانے وقتوں سے ہے، کیونکہ طالبان کے بانیوں میں کچھ افراد کا تعلق انہی علاقوں سے تھا۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد کئی طالبان جنگجو پاکستان آئے اور جنوبی اضلاع میں مقامی گروپوں سے مل گئے، جس سے ان گروہوں کی طاقت میں نمایاں اضافہ ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ 2 سال قبل لکی مروت میں سرگرم ٹیپو گروپ نے طالبان سے الحاق کیا، جس کے بعد اس کی طاقت میں کئی گنا اضافہ ہوا۔

تشویشناک سیکیورٹی صورتحال

رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق، طالبان کی موجودگی کا اندازہ ان اضلاع میں دہشتگردی کے واقعات سے لگایا جا سکتا ہے، جو صوبے کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اغوا ڈی آئی خان گنڈاپور گروپ مولانا اسجد محمود مولانا عطا الرحمان مولانا فضل الرحمان

متعلقہ مضامین

  • کراچی: فائرنگ کے مختلف واقعات میں تین افراد زخمی
  • کراچی؛ تین بچوں کا باپ گھر میں پانی کی موٹر چلاتے ہوئے کرنٹ لگنے سے جاں بحق
  • فضل الرحمان کے بیٹے کے اغوا کی کوشش،کیا خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع نو گو ایریاز بن گئے؟
  • کراچی: ملیر جیل سے فرار ایک اور قیدی گرفتار، مجموعی تعداد 172 ہوگئی‎
  • کراچی : 37 ہزار سے زائد والدین کا پولیو ویکسین پلانے سے انکار
  • پشین میں زلزلے کے شدید جھٹکے، شہری خوفزدہ
  • ہزاروں والدین نے بچوں کو پولیو ویکسین پلانے سے انکار کردیا
  • کراچی: فائرنگ کے واقعات میں خاتون سمیت دو  افراد زخمی
  • کراچی: والدین کا انسداد پولیو ویکسین پلانے سے مسلسل انکار، ریفیوزل کیس بڑھنے لگے
  • بھارتی فلمساز طیارہ حادثے کے بعد سے پُراسرار طور پر لاپتا