سندھ میں چینی شہریوں کی حفاظتی تدابیر کارگر ہیں یا نہیں لیکن سندھ ہائی کورٹ میں ان کی جانب سے درخواست وہ بھی پولیس کے حوالے سے حیران کن ہے۔ غیر ملکیوں کے لیے قوانین و ضوابط ملکی باشندوں کے حوالے سے زیادہ حساس اور کچھ الجھے بھی ہوتے ہیں لیکن یوں براہ راست خود سے انصاف کے لیے اعلیٰ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا خبروں کو گرما گیا۔
پاکستان میں سی پیک کے حوالے سے دنیا بھر میں خاص کر مخالفین ملک میں چین اور پاکستان کو بگاڑنے اور اس اہم منصوبے میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے جی جان سے کوشش کی جاتی رہی ہے۔
اب چاہے وہ چینی باشندوں کی ٹارگٹ کلنگ ہو یا پرتشدد کارروائی، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس منصوبے کو اعتماد بخشنے کے لیے مل کرکام کرنا چاہیے تھا کہ اس سے فائدہ ہمیں ہی حاصل ہونا ہے پر ایسا ہوا نہیں، یہاں تک کہ پچھلے سال بھی پرتشدد کارروائی ہوگئی۔ کون کیسے آیا، کب آیا اورکہاں جائے گا ساری معلومات سے دہشت گرد بخوبی واقف تھے اور وہ کرگزرے۔
یوں چین کی جانب سے اپنے شہریوں کی جانی اور مالی حفاظت کے لیے سوال ابھرے اور چین اپنے شہریوں کی سیکیورٹی کو بھرپور بنانے اور پریقین رکھنے کے لیے اڑ گیا۔ پاکستان کے لیے یہ صورت حال خاصی تشویشناک تھی ایسے ماحول میں جب کہ پاکستان کی اندرونی حالت سیاسی اور غیر سیاسی حوالے سے غیر مستحکم ہے ایسے میں غیر ملکیوں کی سیکیورٹی وہ بھی فول پروف کے ساتھ خاصا دشوار تھا۔
ایک طویل عرصے سے بلوچستان کی جانب سے چینی شہریوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں شک کی نظروں سے دیکھی جا رہی تھیں، سرکاری طور پر تو خاموشی رہتی ہی ہے لیکن غیر سرکاری طور پر اس کی ناپسندیدگی کا ٹھوس ثبوت ان پر ہونے والی چھوٹی موٹی جھڑپوں اورکارروائیوں سے ظاہر ہو ہی جاتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ تو اس کا جواب سب جانتے ہیں کہ اس طرح بلوچ قوم میں مایوسی اور ناکامی کی لہر دوڑ رہی ہے، ان کے خیال میں سی پیک منصوبہ روایتی بلوچ کو پیچھے کی جانب دھکیل دے گا۔ اس پورے منصوبے کے ساتھ ترقی کی سوچ کو پرکھنے والے دلوں کی فکر اور الجھن کو نہ سمجھ سکے۔
بی ایل اے جن مایوسیوں میں گھری ہے اسے اس کا حل جس صورت میں نظر آ رہا ہے وہی اسے بہتر لگ رہا ہے کیا وہ غلط سوچ رہے ہیں؟ دراصل یہ تو انسان کی فطرت ہے کہ وہ آگے بڑھنا چاہتا ہے کسی بھی منزل پر مستقل قیام اور ٹھہراؤ اس کی فطرت کے خلاف ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے زمین پر نہ اتارا جاتا، پر قدرت نے انسانی فطرت کو ہی اس طرح بنایا ہے کہ وہ کسی ایک جگہ نہیں رکتا۔
انسانی فطرت اپنے تقاضوں پر چلتی ہے اور اس کے مخالف یعنی اول دن کا دشمن اپنی روش پر چلتا ہے اور یوں دنیا عمل اور بے عمل کے کھیل سے رچی بسی اپنی مدت پوری کر رہی ہے نہ کوئی قدرت کے فیصلے کے خلاف ختم ہو سکتا ہے اور نہ ہی پنپ سکتا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ جو فیصلہ اوپر والا کر چکا ہے اس تک پہنچانے کے لیے بندوں کو خود اپنے ہی عمل اور سرگرمیوں سے آگے آنا ہی پڑتا ہے چاہے اس میں دل چاہے یا نہ چاہے، لڑے یا جھگڑے، ڈرے یا گھبرا کر سر جھکا لے یہ سارے اعمال انسان کے اپنے اختیار میں ہیں کہ اب وہ طے کردہ فیصلوں تک کس طرح پہنچتا ہے۔
بات ہو رہی تھی چینی شہریوں کی، سندھ ہائی کورٹ میں دائرکردہ درخواست کے مطابق جو توجہ طلب ہے، یقینا اس میں قانونی پیچیدگیاں ہیں لیکن سوال اہم ہے کہ اس بات کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی۔ کیا سارے چینی باشندے اس درخواست کے زمرے میں آتے ہیں، تو اس کا جواب ہے کہ نہیں۔ کیونکہ بہت سے چینی باشندے ہمارے ملک میں برسوں سے رہ رہے ہیں، پر وہ مذکورہ باشندوں کی طرح متمول نہیں ہیں۔
عام پاکستانی باشندوں کی طرح روزی روٹی کی خاطر خوار ہونے والے، بسوں ویگنوں اور چنگ چی رکشاؤں میں سفر کرنے والے غریب چینی۔ جن کی پرواہ کسی کو نہیں۔ کیونکہ غریب کا سکہ اکثر کھوٹا ہی ہوتا ہے۔ چین سے پاکستان آئے کام کرنے والے چاہے اعلیٰ درجے کے افسران ہوں یا مزدور، کاریگر حضرات، انھوں نے شروع سے ہی اپنی سیکیورٹی اور خدشات کے حوالے سے اعلیٰ حکام کو آگاہ کیا ہوگا یا نہیں لیکن کرپشن کے چکر کا شاخسانہ امیر غریب کے مرتبے کو واضح کرتا ہے۔ اب ان کا عائد کردہ الزام درست ہے یا نہیں لیکن کرپشن کی صدا تو بلند ہوئی ہی ہے جو سندھ کی حکومت کے لیے سوالات پیدا کر رہی ہے۔
دوسری جانب چینی شہری جو پاکستان میں کاروباری مقاصد کے تحت آئے ہیں بخوبی تمام سفارتی کارروائیوں یعنی کسی دوسرے ملک میں غیر ملکیوں کے حوالے سے کاروبار، مالی مسائل اور شکایات و عدالتی کارروائیوں کے لیے اپنے سفارت خانے کو کس طرح منسلک کرتا ہے اور کس انداز سے کام کرتے ہیں بخوبی واقف ہی ہوں گے لیکن ان کا براہ راست سندھ ہائی کورٹ میں اپنی درخواست دائر کرنا عجیب ہے۔
کیا انھوں نے اس امر سے پہلے اپنے سفارت خانے سے کوئی بات کی تھی یا کیا ان کی جانب سے گرین سگنل دیا گیا تھا۔ ایسا عمل ایک پیچیدہ صورت حال کو ابھارتا ہے یہ درست ہے کہ ملک بھر میں اور خاص کر کراچی میں چینی باشندوں کی سیکیورٹی کے حوالے سے بہت سے تحفظات تو پیدا ہوتے ہی ہیں۔
ہمیں سوچنا ہے کہ ہمارے ادارے اور عوام کے درمیان بڑھتے فاصلے، خدشات، نفرتیں اور عداوتیں کس طرح ختم ہو سکتی ہیں، ہم کس طرح ملکی اور غیر ملکی باشندوں کے لیے موافق حالات اور سازگار ماحول پیدا کریں کہ دل و دماغ کی الجھنیں، سوالات ہو جائیں اور ہم سب کھل کر مسکرا سکیں، ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر اپنے ملک و قوم کو آگے بڑھا سکیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے حوالے سے باشندوں کی کی جانب سے شہریوں کی ہیں لیکن ہے اور رہی ہے کے لیے
پڑھیں:
ایشوریہ رائے 52 سال کی ہوگئیں؛ جواں نظر آنے کا راز بھی بتادیا
1994 میں مس ورلڈ بننے اور دہائیوں سے فلم بینوں کے دلوں پر راج کرنے والی ایشوریہ رائے آج اپنی 52 ویں سال گرہ منا رہی ہیں۔
ہم دل چکے صنم اور دیو داس جیسی سپر ہٹ فلمیں دینے والی ایشوریہ رائے نے اپنے کیریئر میں کبھی پیچھے مڑ کو نہیں دیکھا۔
انھوں نے نہ صرف بھارتی فلم انڈسٹری کے تما بڑے اعزاز اور انعامات اپنے نام کیے بلکہ بین الاقوامی ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔ فرانس حکومت نے ایشوریہ رائے کو آرڈر آف آرٹس اینڈ لیٹرز نے نوازا تھا۔
ایشوریہ رائے کی کامیابی صرف ان کی خوبصورتی کے مرہون منت نہیں ہے بلکہ ان کی پُراعتماد شخصیت اور باوقار انداز کا بھی ہے۔ وہ بیک وقت ایک اچھی اداکارہ، ماں اور بیوی ہیں۔
اداکارہ ایشوریہ کا حسن 52 سال کی ہونے کے باوجود تاحال تازگی اور کشش سے بھرپور ہے جس کا مقابلہ کوئی نووارد اداکارہ بھی نہیں کرسکتیں۔
بین الااقوامی جریدے سے گفتگو میں ایشوریہ رائے نے اپنے سدا بہار حسن کا راز بتاتے ہوئے کہا کہ میری زندگی مصروف ترین ہے اور مجھے اس پر توجہ دینے کا وقت نہیں مل پاتا۔
انھوں نے کہا کہ ہم خواتین سارا دن مختلف کردار نبھاتی ہیں اور اسکن کیئر روٹین کا وقت نہیں مل پاتا لیکن ایک سادہ طریقے سے اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔
ایشوریہ رائے نے مشورہ دیا کہ سب سے آسان اور مؤثر چیز ہے صفائی اور ہائیڈریشن کو برقرار رکھنا ہے۔ صاف رہیں، پانی پئیں اور باقی سب خود ہی ٹھیک ہوجائے گا۔
انھوں نے مزید بتایا کہ میں چاہے گھر پر ہوں یا شوٹنگ پر موئسچرائزنگ نہیں بھولتی۔ جِلد کی نمی برقرار رکھنا فلمی کیریئر کے آغاز سے ہی میری روزمرہ کی عادت ہے۔
اداکارہ نے مزید کہا کہ موئسچرائزنگ جِلد کے لیے سانس لینے جتنا ضروری ہے۔ زیادہ سے زیادہ پانی پئیں، جِلد کو صاف رکھیں اور سب سے بڑھ کر خود سے محبت کریں۔
View this post on InstagramA post shared by AishwaryaRaiBachchan (@aishwaryaraibachchan_arb)