Express News:
2025-06-09@18:52:48 GMT

کیا صحیح کیا غلط

اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT

سندھ میں چینی شہریوں کی حفاظتی تدابیر کارگر ہیں یا نہیں لیکن سندھ ہائی کورٹ میں ان کی جانب سے درخواست وہ بھی پولیس کے حوالے سے حیران کن ہے۔ غیر ملکیوں کے لیے قوانین و ضوابط ملکی باشندوں کے حوالے سے زیادہ حساس اور کچھ الجھے بھی ہوتے ہیں لیکن یوں براہ راست خود سے انصاف کے لیے اعلیٰ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا خبروں کو گرما گیا۔

 پاکستان میں سی پیک کے حوالے سے دنیا بھر میں خاص کر مخالفین ملک میں چین اور پاکستان کو بگاڑنے اور اس اہم منصوبے میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے جی جان سے کوشش کی جاتی رہی ہے۔

اب چاہے وہ چینی باشندوں کی ٹارگٹ کلنگ ہو یا پرتشدد کارروائی، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس منصوبے کو اعتماد بخشنے کے لیے مل کرکام کرنا چاہیے تھا کہ اس سے فائدہ ہمیں ہی حاصل ہونا ہے پر ایسا ہوا نہیں، یہاں تک کہ پچھلے سال بھی پرتشدد کارروائی ہوگئی۔ کون کیسے آیا، کب آیا اورکہاں جائے گا ساری معلومات سے دہشت گرد بخوبی واقف تھے اور وہ کرگزرے۔ 

یوں چین کی جانب سے اپنے شہریوں کی جانی اور مالی حفاظت کے لیے سوال ابھرے اور چین اپنے شہریوں کی سیکیورٹی کو بھرپور بنانے اور پریقین رکھنے کے لیے اڑ گیا۔ پاکستان کے لیے یہ صورت حال خاصی تشویشناک تھی ایسے ماحول میں جب کہ پاکستان کی اندرونی حالت سیاسی اور غیر سیاسی حوالے سے غیر مستحکم ہے ایسے میں غیر ملکیوں کی سیکیورٹی وہ بھی فول پروف کے ساتھ خاصا دشوار تھا۔

ایک طویل عرصے سے بلوچستان کی جانب سے چینی شہریوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں شک کی نظروں سے دیکھی جا رہی تھیں، سرکاری طور پر تو خاموشی رہتی ہی ہے لیکن غیر سرکاری طور پر اس کی ناپسندیدگی کا ٹھوس ثبوت ان پر ہونے والی چھوٹی موٹی جھڑپوں اورکارروائیوں سے ظاہر ہو ہی جاتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ تو اس کا جواب سب جانتے ہیں کہ اس طرح بلوچ قوم میں مایوسی اور ناکامی کی لہر دوڑ رہی ہے، ان کے خیال میں سی پیک منصوبہ روایتی بلوچ کو پیچھے کی جانب دھکیل دے گا۔ اس پورے منصوبے کے ساتھ ترقی کی سوچ کو پرکھنے والے دلوں کی فکر اور الجھن کو نہ سمجھ سکے۔

بی ایل اے جن مایوسیوں میں گھری ہے اسے اس کا حل جس صورت میں نظر آ رہا ہے وہی اسے بہتر لگ رہا ہے کیا وہ غلط سوچ رہے ہیں؟ دراصل یہ تو انسان کی فطرت ہے کہ وہ آگے بڑھنا چاہتا ہے کسی بھی منزل پر مستقل قیام اور ٹھہراؤ اس کی فطرت کے خلاف ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے زمین پر نہ اتارا جاتا، پر قدرت نے انسانی فطرت کو ہی اس طرح بنایا ہے کہ وہ کسی ایک جگہ نہیں رکتا۔

انسانی فطرت اپنے تقاضوں پر چلتی ہے اور اس کے مخالف یعنی اول دن کا دشمن اپنی روش پر چلتا ہے اور یوں دنیا عمل اور بے عمل کے کھیل سے رچی بسی اپنی مدت پوری کر رہی ہے نہ کوئی قدرت کے فیصلے کے خلاف ختم ہو سکتا ہے اور نہ ہی پنپ سکتا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ جو فیصلہ اوپر والا کر چکا ہے اس تک پہنچانے کے لیے بندوں کو خود اپنے ہی عمل اور سرگرمیوں سے آگے آنا ہی پڑتا ہے چاہے اس میں دل چاہے یا نہ چاہے، لڑے یا جھگڑے، ڈرے یا گھبرا کر سر جھکا لے یہ سارے اعمال انسان کے اپنے اختیار میں ہیں کہ اب وہ طے کردہ فیصلوں تک کس طرح پہنچتا ہے۔

 بات ہو رہی تھی چینی شہریوں کی، سندھ ہائی کورٹ میں دائرکردہ درخواست کے مطابق جو توجہ طلب ہے، یقینا اس میں قانونی پیچیدگیاں ہیں لیکن سوال اہم ہے کہ اس بات کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی۔ کیا سارے چینی باشندے اس درخواست کے زمرے میں آتے ہیں، تو اس کا جواب ہے کہ نہیں۔ کیونکہ بہت سے چینی باشندے ہمارے ملک میں برسوں سے رہ رہے ہیں، پر وہ مذکورہ باشندوں کی طرح متمول نہیں ہیں۔

عام پاکستانی باشندوں کی طرح روزی روٹی کی خاطر خوار ہونے والے، بسوں ویگنوں اور چنگ چی رکشاؤں میں سفر کرنے والے غریب چینی۔ جن کی پرواہ کسی کو نہیں۔ کیونکہ غریب کا سکہ اکثر کھوٹا ہی ہوتا ہے۔ چین سے پاکستان آئے کام کرنے والے چاہے اعلیٰ درجے کے افسران ہوں یا مزدور، کاریگر حضرات، انھوں نے شروع سے ہی اپنی سیکیورٹی اور خدشات کے حوالے سے اعلیٰ حکام کو آگاہ کیا ہوگا یا نہیں لیکن کرپشن کے چکر کا شاخسانہ امیر غریب کے مرتبے کو واضح کرتا ہے۔ اب ان کا عائد کردہ الزام درست ہے یا نہیں لیکن کرپشن کی صدا تو بلند ہوئی ہی ہے جو سندھ کی حکومت کے لیے سوالات پیدا کر رہی ہے۔

دوسری جانب چینی شہری جو پاکستان میں کاروباری مقاصد کے تحت آئے ہیں بخوبی تمام سفارتی کارروائیوں یعنی کسی دوسرے ملک میں غیر ملکیوں کے حوالے سے کاروبار، مالی مسائل اور شکایات و عدالتی کارروائیوں کے لیے اپنے سفارت خانے کو کس طرح منسلک کرتا ہے اور کس انداز سے کام کرتے ہیں بخوبی واقف ہی ہوں گے لیکن ان کا براہ راست سندھ ہائی کورٹ میں اپنی درخواست دائر کرنا عجیب ہے۔

کیا انھوں نے اس امر سے پہلے اپنے سفارت خانے سے کوئی بات کی تھی یا کیا ان کی جانب سے گرین سگنل دیا گیا تھا۔ ایسا عمل ایک پیچیدہ صورت حال کو ابھارتا ہے یہ درست ہے کہ ملک بھر میں اور خاص کر کراچی میں چینی باشندوں کی سیکیورٹی کے حوالے سے بہت سے تحفظات تو پیدا ہوتے ہی ہیں۔

 ہمیں سوچنا ہے کہ ہمارے ادارے اور عوام کے درمیان بڑھتے فاصلے، خدشات، نفرتیں اور عداوتیں کس طرح ختم ہو سکتی ہیں، ہم کس طرح ملکی اور غیر ملکی باشندوں کے لیے موافق حالات اور سازگار ماحول پیدا کریں کہ دل و دماغ کی الجھنیں، سوالات ہو جائیں اور ہم سب کھل کر مسکرا سکیں، ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر اپنے ملک و قوم کو آگے بڑھا سکیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے حوالے سے باشندوں کی کی جانب سے شہریوں کی ہیں لیکن ہے اور رہی ہے کے لیے

پڑھیں:

وفاق کو قرض دینے کی حیثیت بھی رکھتے ہیں ، وزیراعلیٰ خیبرپختونخواکادعویٰ

ڈیرہ اسماعیل خان: خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ صوبے کے ریونیو میں اضافہ ہوا ہے اور اب ہم وفاق کو قرض دینے کی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ہمارا بجٹ ٹیکس فری بجٹ ہوگا جس میں عوام کو ریلیف دیں گے اور روزگار کے نئے مواقع فراہم کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ روزگار کے پہلے جو پراجیکٹس چل رہے ہیں جن میں لوگوں کو بلاسود قرضہ دے کر اپنے پیروں پر کھڑا کررہے ہیں، اس پر بھی کام ہوگا اور ہم ہیومن ڈیولپمنٹ پر دوبارہ فوکس کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے صوبے کے جو ایسے پراجیکٹس جن سے معیشت بہتر ہوگی اور روزگار میں اضافہ ہوگا، اس پر فوکس کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے میگا پراجیکٹس میں تعلیم شامل ہے، تعلیمی ایمرجنسی لگائیں گے جس کے تحت اسکول نہ جانے والے طلبہ کی تعداد کم کریں گے اور ساتھ ہی تعلیم کا معیار بھی بہتر کریں گے، صرف ڈگری دینا ہمارا مقصد نہیں ہے بلکہ اس ڈگری کی قدر بڑھانی ہے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے کہا کہ اس کے علاوہ ہم صحت پر بھی فوکس کریں گے اور جن علاقوں میں صحت کی ضروریات کی کمی ہے اس کو فوری طور پر پورا کریں گے جب کہ ہم ذراعت پر بھی فوکس کریں گے اور بجلی سے متعلق پراجیکٹس بھی شامل ہیں اور سوات سمیت دیگر موٹرویز پر بھی کام ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اس وقت جو معاشی حالات ہیں ان کو دیکھ کر تمام صوبوں کو عمران خان کے ویژن کے مطابق اپنے پیروں پر کھڑا ہونا پڑے گا کیوں کہ مقروض قومیں کبھی بھی خود مختار اور خدار نہیں ہوسکتی۔
انہوں نے کہا کہ شکر ہے ہمارا صوبہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا ہے اور وفاقی حکومت کی تو یہ حالت ہے کہ وہ ہم سے امداد مانگ رہی ہے اور ہم امداد دینے کی حیثیت بھی رکھتے ہیں کیوں کہ خیبر پختونخوا کے ریونیو میں اضافہ ہوا ہے، اب تو ہم وفاق کوبھی قرضہ دے سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ این ایف سی بہت ضروری ہے جو 15 سال سے نہیں ہوئی، جس سے ہمارے ضم اضلاع کے پیسے ہمیں نہیں مل رہے، اب فیصلہ ہوا ہے کہ اگست میں این ایف سی ہوگی تو اس میں ہمارے صوبے کا آئینی حق ہمیں مل جائے گا اور اس سے بھی ہمیں پیسے ملیں گے۔
علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ 50 ارب تک کا قرضہ ہم نے پچھلے سال میں اتارا ہے اور ایک روپے بھی مزید قرضہ نہیں لیا جب کہ اس وقت ہم نے اکاؤنٹ میں صرف قرض اتارنے کے لیے ڈیڑھ سو ارب روپے رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کے حوالے سے پہلے دن سے ہمارا یہی ایجنڈا اور ویژن ہے کہ مذاکرات کے ذریعے مسائل حل ہوں، وفاقی حکومت نے جو مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا ، جرگے میں دوبارہ ان سے کہا کہ صوبائی حکومت کو بھی اس عمل میں شامل کیا جائے اور قبائلی مشران کو بھی اس کا حصہ بنایا جائے تاکہ مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کی رہائی عدلیہ سے منسلک ہے اور ہماری عدلیہ آزاد ہی نہیں ہے، ہم بار بار کہہ رہے ہیں ان پر کوئی کیس نہیں، ابھی ہم نے دوبارہ پورے پاکستان میں تحریک شروع کریں گے کیوں کہ ہمیں لگ رہا ہے عدلیہ اپنے فیصلوں میں خودمختار نہیں ، اس لیے ہم انہیں سپورٹ دیں گے کہ آپ اپنے فیصلے خود کریں۔

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • وفاق کو قرض دینے کی حیثیت بھی رکھتے ہیں ، وزیراعلیٰ خیبرپختونخواکادعویٰ
  • بھارت سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کر سکتا، پانی روکنا اعلان جنگ ہوگا، بلاول بھٹو
  • بھارت سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کر سکتا، پانی روکنا اعلانِ جنگ ہوگا، بلاول بھٹو
  • چینی قوم کی وحدت کا تصور ثقافت اور اخلاق سے ہم آہنگ ہے، چینی میڈیا
  • علی ظفر کی بے دردی سے قتل کی گئی ٹک ٹاکر ثنا کے نام جذباتی نظم وائرل
  • عید الاضحی پر صحیح جانور چُننا بچوں کا کھیل نہیں ہے: جرمن سفیر
  • عیدالاضحیٰ پر صحیح جانور چُننا بچوں کا کھیل نہیں ہے: جرمن سفیر
  • عید پر صحیح جانور چننا بچوں کا کھیل نہیں، جرمن سفیر ایلفرڈ گرانیس
  • عیدلاضحیٰ پر صحیح جانور چُننا بچوں کا کھیل نہیں ہے: جرمن سفیر
  • تم ہمارے جیسے کیسے ہو سکتے ہو؟