دنیا، بدلے گلوبل چوہدری کے ساتھ ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے۔ٹرمپ نے آنے سے پہلے ہی گردن اکڑائے دنیا کو دھمکانے کا آغاز کر دیا تھا۔’ مشرقِ وسطیٰ میں جہنم بھڑک اٹھے گی‘۔ مگر ساتھ ہی جہنم بھڑک تو اٹھی مگر مدبرِ کا ئنات کی منتخب کردہ جگہ پر۔ کیلی فورنیا میں! امریکہ کا دوسرا بڑا شہر، سیاحتی مقام، امراء کی رہائش گاہیں، ہالی وڈ کا قرب، عشرت گاہوں کو غیر متوقع طور پر آگ چاٹ گئی۔ جہنم ہی کے مناظر اور سب بھسم ۔ اربوں ڈالر کا نقصان جسے پورا کرتے معاشی کمر ٹوٹے گی۔ انٹرٹینمنٹ صنعت کیلی فورنیا کو 43 ارب ڈالر سالانہ دیتی تھی،اس میں خسارے کا سامنا ہے۔ ماحولیات تباہ، گاڑیوں، گھروں، فرنیچر، پینٹ، پلاسٹک، بجلی کے آلات جلنے سے دھواں سخت نقصان دہ۔ آسکر ایوارڈ اور گریمیز کی بڑی تقریبات بھی شاید منعقد بھی نہ ہو سکیں۔اور اب آگ کی ہولناک صفاچٹ سیاہ زمین، تباہ حال بستیاں تو تھیں ، نیا عذاب بدترین طوفانی بارش جس سے کیچڑ بھرے سیلابوں اور آگ کے مچائے کوڑا کرکٹ کے پانی میں بہاؤ سے مزید مسائل۔سو تباہی کا پیمانہ مظہر ہے اس بات کا کہ انسانی گھمنڈ اور تکبر کی اوقات ہی کیا ہے!دنیا بھولی بیٹھی ہے مگر اللہ کی گرفت دہلا کر رکھ دیتی ہے۔ آمدِ عذاب کی منظر کشی کتنی حقیقی ہے۔۔۔۔ (ابنیاء :16-12) غزہ سے زیادہ حد ِنظر تک کالی تباہ حال زمین ۔ مٹی اور راکھ کے بادل، راکھ زہریلے مواد پر مبنی ہیں۔مزید چرکاواشنگٹن میں جہاز گرنے سے لگا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تو اللہ کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچان لیا تھا مگر ٹرمپ اس وقت طاقت کے خمار میں ہے۔ یہی دیکھ لیجئے کہ اس کی صدارتی افتتاحی تقریب 40 سال میں پہلی مرتبہ شمالی منجمد ہواؤں کے تحت شدید سردی کی بنا پر، اندر لے جانا پڑی ۔لاکھوں متوقع جیالوں کی بجائے محض چند سو خصوصی مہمان، قانون دان اور میڈیا والے آپائے۔ غیر معمولی عزائم، ارادے، دھمکیاںجاری رہیں! تکبر یوں بھی عقل کا دشمن ہے۔ چکنے گھڑے پر برف پڑی اور پھسل گئی!
دنیا اب ٹرمپ کے ہاتھوں کس رخ جائے گی؟ اس کی ٹیم کا انتخاب، ابتدائی احکام بہت کچھ کہہ رہے ہیں! اس دور کا رئیسِ اعظم، قارون ای لون مسک اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ افتتاحیے میں نائب صدر نظر نہیں آ رہا تھا۔ ای لون مسک سٹیج پر تھا۔ نمایاں ترین، متنازعہ حرکت اس کی یہ تھی کہ ہٹلر والا سلوٹ کر ڈالا۔ دو مرتبہ ایسا کرنا بلا سبب نہ تھا۔ فاشسٹ اٹلی اور بعد ازاں یہی علامتی سلوٹ نازی جرمنی کے انتہاپسندانہ نظریات کی علامت تھی۔ جب فوری کان کھڑے ہوئے اس غیر متوقع حرکت پر تو اسے غیر معمولی خوشی سے تعبیر کرکے جھٹک دینے کی کوشش کی گئی۔ حالانکہ یہ مغربی دنیا میں بڑھتی ہوئی سفید فام (انتہا پسند) برتری کی علامت ہے۔ نیو یارک ٹائمز (25
جنوری) کیٹرین بین ہولڈ نے لکھا ہے حوالوں کے ساتھ، کہ ایسے مقام پر کھڑے ہو کر قصداً علی الاعلان یہ سلوٹ سفید فام برتری سے اظہار یک جہتی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ ہٹلر سلوٹ ہی ہے۔ اس تقریب میں جرمنی، اٹلی، فرانس، برطانیہ سے انتہا پسند دائیں بازو کے متعلقین( Far Right) موجود تھے۔ یہ انہیں باقوت؍با اختیار بنانے کی علامت تھی۔ ای لون کے چہرے کا تاثر شدت پسندی، کروفر، فوں فاں، والا اکٹر خانی تھا۔ اسی رویے نے کھوج پر مجبور کیا کہ قضیہ کیا ہے تو دیکھا کہ مغرب میں بھی اس پر بہت بات ہو رہی ہے۔ یہ ایک بدلتے رجحان، سیاسی رویے کی علامتیں ہیں۔ جمہوریت کے نام پر فاشزم کا فروغ۔ اس وقت فار رائٹ جنونی بہت شہ پارہے ہیں یورپ امریکہ میں (ای لون مسک نے سفید فام انتہا پسند AfD جرمن پارٹی کے سربراہ سے 70 منٹ کی چیٹ لائیو سٹریم کی تھی۔) یہ پوری ڈھٹائی سے جو امریکہ یورپی ممالک اسرائیل کے غزہ میں قتل عام میں شریک رہے اسی کا تسلسل ہے۔
یہ تمہید طولانی غزہ بارے ٹرمپ پالیسی،اسلاموفوبیا کو قوی ترکرنے کے تناظر میں ہے۔ ایک طرف یہ ہیں تو دوسری جانب انتہا پسند مذہبی ہندوؤں کی طویل فہرست اہم مناصب پر ہے۔ نائب صدر وینس کی بیوی اوشا، کٹر ہندو ہے۔ اور وینس بیوی کا تابعدار نیم ہندو! اب ٹرمپ نے اہم ترین 6مناصب پر ہندو تعینات کیے ہیں۔ FBI سربراہ کاش پٹیل،سینیئر ڈائریکٹر جنوبی اور وسطی ایشیائ، نیشنل سیکورٹی کونسل، رکی گل ہیں۔ ڈپٹی پریس سیکرٹری اور صدارتی عملے کے دفتر میں اہم کردار شرما کو دیا گیا۔ مزید 6 کانگریس ممبران منتخب ہوئے ہیں۔ امریکہ بھارتی رشتے کی مضبوطی، پاکستان کے لیے اہم نتائج کی حامل ہے۔ ہندوؤں کی بڑھتی ہوئی تعداد امریکی پالیسی سازی، داخلی و خارجی بالخصوص جنوبی ایشیا پر اثر انداز ہوگی۔
مگر ہمیں اندرونی جھگڑوں سے ہی فرصت نہیں! اسلام دشمنی کے حوالے سے ٹرمپ، ای لون اپنے سفید فام برتری کے خمار، ہندو، بھارتی ہندو توا ایجنڈوںکے ہمراہ ہیں۔ کشنر(یہودی داماد)، اسرائیل میں شدت پسند یہودی امریکی سفیر، سیکرٹری خزانہ، سنیٹر پالیسی،مشیر، کئی مزید یہودی اہم مناصب پر بٹھا دیئے گئے ہیں۔ اسلام دشمنی ہر خطے میں روبہ عمل رہے گی۔ مثلاً اسرائیل کے تمام ایجنڈے پورے کرنے کوٹرمپ نے یہودی آباد کاروں پر لگائی پابندیاں فوراً اٹھا دیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اب مغربی کنارہ ان آباد کاروں کے ہاتھوں غزہ کے مناظر پیش کر رہا ہے۔ گھر، بزنس، فلسطینی سبھی نشانے پر۔ آگ لگا کر، گولیاں برساکر۔ اسرائیلی فوج مدد پر ہے۔ جنین مہاجر کیمپ کا محاصرہ ہے۔ تمام شہروں کو آپس سے کاٹ کر محصور کر دیا گیا ہے اور اب بڑی یلغار متوقع ہے۔ 2 ہزار افراد بے دخل، گرفتاریاں جاری۔
ٹرمپ نے صدارت سنبھالتے ہی غزہ کے سمندر کنارے بہترین محلِ وقوع، بہترین موسم پر رال ٹپکاتے ہوئے بار بار کہا کہ غزہ کی تعمیر نو ہونی چاہیے۔مگر حماس کے علاوہ کوئی اور یہ کام کرے گا۔ اور یہ کہ مجھے اعتماد نہیں کہ غزہ ڈیل قائم رہ سکے گی۔اس پر گردوپیش سے خوشی سے قہقہے لگے۔ اگلے بیان میں غزہ کے لیے کہا بس اسے صاف کر دو۔ مصر اور اردن کے لیے حکم جاری ہوا کہ مزید فلسطینی لو۔ ہم اس پورے علاقے کو صاف کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سب ختم ہو چکا ہے۔ یہ واضح نسلی خاتمے ؍صفایا کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اسرائیل کو 2 ہزار پائونڈ کے بموں کی کھیپ بھیج دی۔حالانکہ سوا سال قیامتوں سے گزر کر مضبوط عزم وارادہ، صبر و ثبات کی حامل فلسطینی قوم اور اٹل فاتح حماس ثابت کر چکے کہ اس سرزمین کو ان کے لہو سے سیراب تو کیا جا سکتاہے، خالی کر دینا، ان کی لغت میں نہیں ہے۔ کٹ مر جائیں گے، فلسطین نہ چھوڑیں گے۔
یہ ہمہ نو دنیا کے خونخوار جو کر اکٹھے ہو گئے ہیں مگر اللہ کا قہر ہم نے کیلی فورنیا میں دیکھ لیا۔ آدھا امریکہ غیر متوقع طور پر منجمد شمالی بنا ہوا ہے آدھا نذرِآتش۔ ذی شعور نوجوان نسل، یونیورسٹیوں کے اساتذہ، طلباء قہر آلود ہیں سیاست دانوں کی قصابی، دنیا بھر کے کمزوروں کے استحصال پر۔ وحشت تو یہ ہے کہ غزہ بمباری کے کئی مقامات پر لاشیں پگھل کر ختم ہو گئیں۔7تا 9ہزار ڈگری کا درجہ حرارت پیدا ہوا۔ عرب دنیا میں مصر اور ار دن پہلے ہی مزید فلسطینی لینے سے انکار کر چکے ہیں۔ مصر میں لاوا ابل رہا ہے۔ عرب بہار اندر ہی اندر پھلنے پھولنے پھٹنے کو تیار ہے جابجا۔ سب چہرے کھل چکے۔ مزید دھو کے ممکن نہیں۔ افغانستان کو دھمکیاں دینے والے آڑے ہاتھوں لیے جاتے اور کڑے جواب ان سے سنتے ہیں۔گرین لینڈ، کینیڈا، میکسیکو، پاناما کو چومکھی للکاریں دے کر، ٹرمپ کی کیفیت یہی ہے کہ:
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!
شام کی نئی حکومت اگرچہ محتاط ہے مگر وہ نرم چارہ، جمہوری انقلاب نہیں، جنگجو، بندوق کی نوک پر دمشق پہنچے ہیں۔ حماس اپنی پوری آب و تاب اور قوت کے ساتھ قائم و دائم ہے۔ سفیدفام برتری والوں کی نیوزی لینڈ کی مسجد میں قتلِ عام کی وحشت سے آپ ان کا مزاج بھی سمجھ سکتے ہیں۔ تا ہم اللہ کے سچے وعدے اہل ایمان کو کافی ہیں۔ اپنے اپنے گھر سنبھالیں۔ سپر پاور آگ زدہ علاقوں میں پانی کی عدم موجودگی کی بدانتظامی، پانی کے خشک ذخیرے اور آگ بجھانے والے آلات کی کس مپرسی کی تحقیق فرمائیں۔
حسبنا اللہ ونعم الوکیل، ہمارے لیے کل اور آج اللہ کافی ہے! پاکستان میں خود جابجارفو کا بہت کام باقی ہے۔ اپنی سرحدوں کے اندر کا امن ہم بحال کریں۔ افغانستان کو زیادہ نہ للکاریں۔افہام و تفہیم کا راستہ تلاش کریں۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: انتہا پسند سفید فام
پڑھیں:
اے اللہ! فلسطینیوں کی مدد فرما!
ریاض احمدچودھری
مسجد الحرام کے امام شیخ ڈاکٹر صالح بن عبد اللّٰہ نے خطبہ حج میں دعا کی کہ اے اللہ فلسطین کے بھائیوں کی مدد فرما، ان کے شہدا کو معاف فرما، زخمیوں کو شفا دے اور ان کے دشمنوں کو تباہ و برباد کر دے، فلسطین کے دشمن بچوں کے قاتل ہیں، ان قاتلوں کو تباہ کر دے۔حج کے رکن اعظم وقوف عرفہ کے دوران میدان عرفات کی مسجد نمرہ میں خطبہ حج دیتے ہوئے شیخ ڈاکٹر صالح بن عبد اللّہ نے کہا کہ اے ایمان والوں اللہ سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو، تقویٰ اختیار کرنا ایمان والوں کی شان ہے، اے ایمان والوں عہد کی پاسداری کرو، اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
زمین اور آسمان کا مالک صرف رب ہے، تقویٰ اختیار کرنے والوں کو جنت کی نوید سنائی گئی ہے، اے ایمان والوں اپنے ہمسائیوں کے حقوق کا خیال رکھو، شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے اس سے دور رہو، اللہ اور اس کے دین پر قائم رہو، اللہ اور اس کے رسول ۖ کی تعلیمات پر عمل کرو۔’بدعت اور غیبت سے دور رہو۔ رب کے سوا غیر کو مت پکارو۔ رب کے سوا کسی غیر کی عبادت مت کرنا۔ نبی اکرم ۖ اللہ کے آخری رسول ہیں، وہ خاتم النبین ہیں۔ اللہ اور بندے کا تعلق نجات کا ذریعہ ہے۔ اللہ نے فرمایا تعاون کرو اور تقویٰ اختیار کرو۔ اپنے والدین سے نیکی کرنا اور سچ بولنا ہے۔’خطبہ حج میں کہا گیا کہ یتیموں، مساکین، بیواؤں اور ہمسایوں کے ساتھ شفقت فرماؤ، اللہ کسی تکبر اور غرور کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا، اے ایمان والوں عہد کی پاسداری کرو، شیطان تمہارے درمیان دوریاں ڈالتا ہے۔’نماز قائم کرو، زکوة ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور حج کرو۔ روزہ صبر اور برداشت کا درس دیتا ہے۔ ضرورت مندوں کو کھانا کھلاؤ، اللہ تمہارا حج قبول کرے۔ خادم الحرمین شریفین نے ضیوف الرحمان کیلیے بہترین انتظامات کیے۔ حجتہ الوداع میں نبی پاک ۖ نے حج کرنے کا طریقہ سکھایا۔ حضرت محمد ۖ نے مزدلفہ میں کھلے آسمان تلے قیام کیا۔ حضرت محمد ۖ نے شیطان کو کنکریاں مار کر تزکیہ نفس کے بارے میں بتایا۔’امام مسجد الحرام نے کہا کہ ان دنوں میں اللہ کا تذکرہ کرو یہی تمہارے دن ہیں، اللہ خوش ہوتا ہے کہ میری خاطر جمع ہوئے ہیں، آپ اس مقام پر ہیں جس میں دعا قبول ہوگی، اللہ ہمارے مناسک حج کو قبول فرما، اے اللہ ہمارے گھروں میں عافیت فرما وطن کی حفاظت فرما۔ امت مسلمہ اسی صورت میں بام عروج تک پہنچ سکتی ہے جب قرآن و سنت کو مضبوطی سے تھامے اورہرپہلومیں انہیں سرچشموں سے راہ ہدایت حاصل کریں ۔ امت مسلمہ اپنے اصلی منصب تبلیغ و دعوت کی طرف پلٹ کر اورجہادوقتال کے راستے کواپناکر اس دنیامیں اپنا ایک مقام حاصل کر سکتی ہے۔
آنحضرت محمد ۖ محسن انسانیت ہیں، انسان کامل ہیں اور ہر لحاظ سے قابلِ تقلید ہیں۔ آپۖ کی زندگی قیامت تک کے انسانوں کے لئے بہترین نمونہ ہے۔ بطور مسلمان ہمیں ہر وقت اللہ کریم کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے کہ اْس نے ہمیں آپۖ کا اْمتی بنایا۔ جو شخص دنیا میں آپۖ پر ایمان لائے گا اور آپۖ کی اطاعت و پیروی کرے گا اْسے دونوں جہانوں میں آپۖ کی رحمت سے حصہ ملے گا۔ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم سیرتِ نبوی ۖکا مطالعہ کریں اور اپنی زندگی کے ہر پہلو میں نبی کریم ۖ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوں۔ آپ ۖکی سیرتِ طیبہ کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنائیں تا کہ ہماری دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں۔اسلام کی اس سچائی اور عظمت شان کی وجہ یہ ہے کہ اس کا پیغام اور اس کا انداز ِفکر انسانوں تک دنیا کے مفکر ین وعقلاء کے واسطہ سے ،دنیا کے قانون دانوں اور حقوق کی آواز بلند کرنے والے انسانوں کے ذریعہ یا فلاسفہ وخیالی تانے بانے جوڑنے والوں یا سیاسی قائدین ورہنمائوں کے ذریعہ یا سماجی کارکنوں اور تجربات سے گزرنے والے ماہر نفسیات کی جانب سے نہیں پہنچا بلکہ نبیوں اور رسولوں کے واسطہ سے پہنچا ہے جن کے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی آتی تھی۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ « بیشک آپ کو اللہ حکیم وعلیم کی طرف سے قرآن سکھایا جارہا ہے۔”(النمل6)
آج امت کی زبوں حالی کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ اشرافیہ کی غفلت، نادانی، عیاشی اور ملت فراموشی ہی ہے۔ جہاں تک متوسط و نادار طبقے کا تعلق ہے تو یہ بے چارے کسی طرح دو وقت کی روٹی کما کر باعزت زندگی گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں اور حتیٰ الامکان اپنے معاملات کو اسلامی نہج پر ڈھالنے کا خیال بھی رکھتے ہیں۔ انہیں نہ تو بڑے بڑے مذہبی فلسفوں سے غرض ہے نہ دین کے مقابلے میں دولت کا گھمنڈ، نہ ہی سیاست کے نام پر دین و ملت کی سودا گری کا ڈھنگ۔ اسلام کا سب سے بہتر گروہ عام مسلمان ہیں ،یعنی مسلمان عوام۔ وہ اسلام سے متعلق بحیثیت دین اور فلسفہ کے بہت کم جانتے ہیں اور ان کی بہت سی چیزیں اسلام سے مطابقت نہیں رکھتیں، لیکن وہ ایک قابلِ شناخت اسلامی زندگی گزارتے ہیں ،جس کا سبب ان کا اسلام پر پختہ یقین ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔