اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر ویانا میں بین المذاہب رواداری کانفرنس سے خطاب میں منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ میثاق مدینہ اور ریاست مدینہ کا انتظامی ماڈل آج بھی کثیر المذاہب و کثیر الثقافتی معاشروں کیلئے ایک نمونہ ہے۔ عالمی امن کیلئے باہمی اقدار و روایات کا احترام ضروری ہے۔ بطور سربراہ ریاست مدینہ آپ ؐنے بین المذاہب رواداری کی خوبصورت مثال قائم کی۔ اسلام ٹائمز۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر ویانا میں عالمی بین المذاہب ہم آہنگی کانفرنس میں کی نوٹ سپیکر کے طور پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میثاق مدینہ اور ریاست مدینہ کا انتظامی ماڈل آج بھی کثیر المذاہب و کثیر الثقافتی معاشروں کیلئے ایک نمونہ ہے۔ عالمی امن کیلئے باہمی اقدار و روایات کا احترام ضروری ہے۔ بطور سربراہ ریاست مدینہ آپ ؐنے بین المذاہب رواداری کی خوبصورت مثال قائم کی۔ مختلف مذاہب کے نمائندوں اور قبائل کیساتھ نہ صرف معاہدات کئے گئے بلکہ اُنہیں جان و مال کا تحفظ اور مذہبی اقدار و روایات کی پاسداری کی مکمل گارنٹی دی گئی، آج بھی میثاق مدینہ سے اخلاقی اسباق حاصل کئے جا سکتے ہیں۔

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے کہا کہ نجران کے مسیحی وفد کا مدینہ میں خیر مقدم، سینٹ کیتھرین کیساتھ معاہدہ حضور نبی اکرمؐ کی طرف سے رواداری کی اعلیٰ مثال ہے۔ آپؐ غیر مسلموں کے احترام میں کھڑے ہوتے، اسلام کی تعلیمات کا نفرت، انتہا پسندی اور عدم برداشت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کانفرنس میں بین الاقوامی شہرت یافتہ انسانی حقوق کے نمائندگان، تعلیمی شعبہ کی شخصیات اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ممتاز راہ نماؤں نے شرکت کی جن میں مسٹر پیٹر ہیڈر صدر یونیورسل پیس فیڈریشن، اُردن کے سفیر ایچ ای محمد سمیر سالم ہنداوی، پلین الیگزینڈر ریگرسربراہ بین المذاہب مکالمہ فورم، مس کیرولین ہنگرلینڈر ایم ڈی انسٹی ٹیوٹ برائے ماحولیات امن و ترقی نے ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کا بین المذاہب رواداری کے تناظر میں اسلامی تعلیمات کے بیان پر ان کے خطاب کو سراہا۔

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی طرف سے مقرر شرکائے کانفرنس کو اپنی تحقیقی کتاب ”دستور مدینہ اور فلاحی ریاست کا تصور“ مطالعہ کیلئے بطور تحفہ دی۔ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کی اس کتاب کے اُردو، انگریزی اور عربی زبان میں تراجم شائع ہو چکے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ڈاکٹر حسن محی الدین قادری بین المذاہب رواداری ریاست مدینہ

پڑھیں:

کیا سیاست میں رواداری کی کوئی گنجائش نہیں؟

ہم اتنا کیوں سخت دل ہو گئے ہیں کہ رحم دلانہ رویوں سے ہی ناطہ توڑ لیا ہے اور انسانی ہمدردی کے جذبے سے ہی عاری ہو گئے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ میں عمران خان کے طرزِ سیاست اور ان کی غیر جمہوری سوچ کا ناقد ہوں مگر میں پی ٹی آئی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو بھی غلط کہتا ہوں۔

کئی بار کہہ چکا ہوں کہ ہندوستان کے خلاف جنگ میں اﷲ نے ہمیں جو فتح نصیب کی ہے، اسے پوری قوم کو اکٹھا کرنے، اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے اور اس ضمن میں پہلے قدم کے طور پر پی ٹی آئی کی تمام خواتین کو رہا کر دینا چاہیے۔

 اخبار میں پڑھا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ جیل میں زیادہ بیمار ہو گئی ہیں تو میں نے لکھا کہ ڈاکٹر صاحبہ خاتون بھی ہیں، عمر رسیدہ بھی ہیں اور علیل بھی ہیں لہٰذا انھیں انسانی بنیادوں پر رہا کر دیا جائے۔ میرا خیال تھا کہ سیاسی اختلاف کے باوجود حکمران پارٹی کے لوگ بھی اس تجویز سے اتفاق کریں گے، مگر یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ پی ٹی آئی کے مخالفین نے میری تجویز پر نہ صرف تنقید کی بلکہ اس معمّر خاتون کے بارے میں توہین آمیز زبان استعمال کی، جو افسوسناک ہے۔

کچھ لوگوں نے ان کے 9 مئی کے جرم کا ذکر کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 9 مئی کو جب پی ٹی آئی کے ورکر لاہور میں جناح ہاوس جلارہے تھے اور ہمارے شہداء کی شبیہوں اور یادگاروں کو تباہ کررہے تھے تو میرا خون کھول رہا تھا، اُس وقت میں نے فوری طور پر لکھا تھا کہ جناح ہاؤس کی سیکیوریٹی کے ذمّے داروں کو فوری طور پر برخاست کردینا چاہیے۔

اگر میں موقعہ پر سیکیوریٹی کا ذمّے دار ہوتا تو شرپسندوں کے خلاف ہر قسم کی فورس استعمال کرکے انھیں منتشر ہونے پر مجبور کرتا۔ بہرحال جو شرپسند موقعہ پر موجود تھے ان کا ٹرائیل مکمل کرکے انھیں عبرتناک سزا دلوائی جائے۔ مگر اس سلسلے میں انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں، مجرموں کے درمیان ان کے اثرورسوخ اور contacts کی بنیاد پر کوئی فرق روا نہ رکھا جائے۔

کون نہیں جانتا کہ موقعۂ واردات پر موجودگی بڑا جرم قرار پاتی ہے، پی ٹی آئی ہی کی دو اہم خواتین تو کور کمانڈر ہاؤس کے اندر موجود تھیں۔مگر وہ دونوں اِس وقت آزاد ہیں۔ اور ایک تو پھر سے سیاست میں پوری طرح متحرّک ہے، مگر ڈاکٹر یاسمین راشد معمّر بھی ہیں اور بیمار بھی۔ اس کے باوجود جیل میں ہیں۔ اس کا کیا جواز ہے؟ کیا فراخدلی اور رواداری کا یہ تقاضا نہیں تھا کہ ڈاکٹر صاحبہ کو ان کی عمر اور بیماری کے پیشِ نظر رہا کردیا جاتا۔ آخر ایسا کیوں نہیں کیا جارہا۔ کیا سیاست میں انسانی ہمدردی کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔ کیا سیاست میں رواداری کی کوئی گنجائش نہیں ہے؟

اس ملک میں پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا، ایوب خان نے جماعتِ اسلامی پر پابندی لگا دی اور اس کے امیر مولانا مودودیؒ کو جیل میں بند کردیا۔ مگر جب دشمن ملک کے خلاف جنگ میں اُسی ایوب خان نے سیاسی قیادت کا تعاون مانگا تو مولانا مودودی ؒنے ایک لمحے کے لیے بھی ذاتی رنجش کو آڑے نہ آنے دیا۔ اور فوری طور پر اپوزیشن راہنماؤں کے ساتھ ایوب خان کے ساتھ ملاقات کی اور مکمل تعاون فراہم کیا۔

اگر پچھلی نصف صدی میں کسی کو بابائے جمہوریت یا سیاست کا استاد مانا جاتا ہے تو وہ نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے نوابزادہ صاحب کو پانچ سال گھر میں نظر بند رکھّا مگر انھوں نے جب بھی ضیاء الحق کا نام لیا، جمع کا صیغہ استعمال کیا اور نام کے ساتھ ہمیشہ صاحب بھی لگایا۔ وہ سیاست کے نوواردوں کو بتایا کرتے تھے کہ سیاست میں آپ کا حریف دشمن نہیں ہوتا۔ سیاسی مخالفت کبھی مستقل نہیں ہوتی، اور اس میں کل کا مخالف آج کا اتحادی بھی بن سکتا ہے۔

نوابزادہ صاحب سیاسی مخالفین کے بارے میں کبھی اوئے توئے نہیں کرتے اور نہ کبھی توہین آمیز زبان استعمال کرتے تھے، وہ اپنے کٹڑ مخالفین کے بارے میں بھی انتہائی شائستہ اور شُستہ زبان استعمال کیا کرتے تھے۔ موجودہ سیاستدانوں میں سے اگر نوابزادہ صاحب سے سیاست کی اعلیٰ اقدار کسی نے سیکھی ہیں تو وہ مولانا فضل الرحمن صاحب ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنا نقطۂ نظربڑے عمدہ دلائل اور جرأت کے ساتھ بیان کرتے ہیں مگر الفاظ کا بہترین چناؤ کرتے ہیں اور ہمیشہ شائستہ زبان استعمال کرتے ہیں۔

ابھی چند سال پہلے جب ایک انتخابی مہم کے دوران عمران خان گر کر زخمی ہوگئے تھے اور اسپتال میں داخل ہوگئے تو ان کے سب سے بڑے سیاسی حریف میاں نواز شریف صاحب نے اپنی انتخابی مہم معطل کردی اور وہ عمران خان صاحب کی تیمارداری کے لیے خود اسپتال پہنچ گئے تھے۔

2024کے انتخابات میں پی ٹی آئی زیرِ عتاب تھی۔ نہ جانے ’کس کی‘ ہدایات پر پولیس اُن کے امیدواروں کے گھروں پر ریڈ کررہی تھی اور امیدواروں کو گرفتار کیا جارہا تھا۔ میرے آبائی شہر وزیرآباد میں میرے بھائی ڈاکٹر نثار احمد چیمہ مسلم لیگ ن کے امیدوار تھے۔ ان کے مخالف امیدوار کو پولیس جب ہراساں کررہی تھی تو ڈاکٹر نثار چیمہ نے میڈیا کے ذریعے اور میں نے کالموں کے ذریعے مخالف امیدوار کے خلاف ہونے والی پولیس کارروائیوں کی سخت مذمّت کی۔ ڈاکٹر صاحب نے تو واضح طور پر کہا کہ اگر انھیں گرفتاری کا خطرہ ہوتو وہ اپنے انتخابی کاغذات (Nomination papers) مجھے بھجوادیں، میں خود ان کے کاغذات منظور کراؤں گا۔ اسی طرح انتخابی نتائج آنے کے بعد انھوں نے جعلی کامیابی حاصل کرنے سے انکار کردیا اور اپنے سیاسی حریف محترم حامد ناصر چٹھہ کو کامیابی کی مبارکباد دی۔

 سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں کو مذکورہ بالا واقعات سے سبق سیکھنا چاہیے اور اپنے طرزِ عمل میں بہتری لانی چاہیے۔ سیاسی مخالفین کو اپنا دشمن ہرگز نہ سمجھیں، ان کی خوشی، غمی میں شریک ہوا کریں اور ان کے ساتھ اچھے سماجی مراسم قائم رکھیں۔ ڈاکٹر نثار چیمہ صاحب انتخابی مہم کے دوران پولیس افسروں کو جب پی ٹی آئی کے امیدواروں کو تنگ کرنے، اور ان کے خلاف کیس درج کرنے یا ان کے گھروں پر ریڈ کرنے سے منع کرتے تو وہ جواب دیتے کہ ’’ہمیں اوپر سے ہدایات ہیں‘‘ اوپر سے اگر غیر قانونی ہدایات ملیں تو سول سرونٹس کا فرض ہے کہ اوپر والوں کو عزّت اور احترام کے ساتھ بتائیں کہ یہ غیر قانونی ہدایات ہیں، ان پر ہم عمل نہیں کرسکیں گے۔ کسی کی بھی ہدایات ہوں مگر کسی سیاسی کارکن کے گھر میں گھس کر ان کا فرنیچر توڑ دینا اور خواتین کی بے حرمتی کرنا انتہائی شرمناک حرکت ہے۔جس پولیس افسر کا ضمیر بالکل مردہ نہیں ہوگیا، وہ ایسی حرکت کبھی نہیں کرتا اور سینئر افسروںسے ملکر اپنا تبادلہ کرالیتا ہے مگر شہریوں کے ساتھ کوئی ایسی زیادتی نہیں کرتا جس سے اس کی یونیفارم پر داغ لگے اور اس کا پورا محکمہ بدنام ہو۔

ایک بار لاہور پولیس نے ایسی ہی مہم کے دوران ریڈ لائن کراس کردی اور مفکّرِ پاکستان حضرت علّامہ اقبالؒ کے گھر گھس گئی۔ جس پر ہمارے عظیم محسن علّامہ اقبالؒ کی بہو ڈاکٹر جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال نے شدید احتجاج کیا۔ اس پر میں نے اس وقت کے آئی جی کو بڑا سخت میسج بھیجا کہ ’’تمہیں اور پوری پنجاب پولیس کو شرم آنی چاہیے۔ جانتے ہو تم نے اُس گھر کی چاردیواری کی حرمت پامال کی ہے کہ یہ ملک پاکستان جن کے خواب کی تعبیر ہے۔ اگر آزادی نہ ملتی تو زیادہ تر پولیس افسرآر ایس ایس کے گھروں میں نوکر ہوتے یا ہندو پولیس افسروں کے اردلی ہوتے‘‘ اُس وقت کے آئی جی کوفوراً غلطی کا احساس ہوگیا اور اس نے جسٹس صاحبہ سے معافی مانگ لی۔

 بہت سے لوگوں کی طرح مجھے بھی توقّع تھی کہ میاں نواز شریف صاحب اپنی پرانی وضعداری اور رواداری کے باعث اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ کو رہا کروائیں گے۔ اگر انھوں نے ایسا نہیں کیا تو یہ حیران کن ہے ۔ پی ٹی آئی کے مخالفین نے بھی ڈاکٹر صاحبہ کے بارے میں نامناسب زبان استعمال کی ہے، جب کہ پی ٹی آئی کے حامی اور ورکر بھی مریم نواز صاحبہ کے بارے میں نامناسب زبان استعمال کرتے ہیں، جس پر انھیں شرم آنی چاہیے۔

عدم برداشت، تنگدلی، بیہودگی ، غیراخلاقی اور غیرشائستہ زبان نے پاکستانی سیاست کا چہرہ مکروہ اور بدصورت بنادیا ہے۔ سیاست کا حُسن، وقار اور اعتبار بحال کرنے کے لیے سیاسی قائدین اور ورکروں کو اس کا چہرہ ، برداشت، تحمّل، رواداری، فراخدلی، باہمی احترام اور انسانی ہمدردی کے پھولوں سے کشید کیے گئے پانی سے دھونا ہوگا۔ سیاسی قائدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے ورکروں کی صحیح تربیّت کریں۔

آج کے حکمران ٹھنڈے دل سے سوچیں اور یہ ذہن میں رکھّیں کہ ہم اس عظیم ترین راہبر و راہنماؐ کے پیروکار ہیں جس نے اپنے ساتھ ظلم اور زیادتی کرنے والوں سے بدلے نہیں لیے۔انھیں معاف کردیا تھا۔ اﷲ اور رسولؐ اﷲ نے معاف کردینے کو زیادہ پسند فرمایا ہے، کیا ہم بیمار اور معمّر خواتین کے معاملے میں بھی اﷲ اور رسولؐ کے احکامات ماننے اور انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار نہیں؟

متعلقہ مضامین

  • فرانس کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان
  • فرانس کا تاریخی قدم، فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان
  • ریاست آسام میں بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ آف انڈیا برہم، توہین عدالت کا نوٹس جاری
  • یو ای ٹی لاہور ، عالمی رینکنگ میں شاندار کارکردگی دکھانے پرمختلف شعبہ جات اور فیکلٹی ممبران کو ایوارڈز سے نوازنے کیلئے تقریب
  • بلوچستان کا پاکستان کے ساتھ الحاق اتفاق رائے سے ہوا تھا: وزیرِاعلیٰ بلوچستان
  • ریاست سے ناراضی کا مطلب یہ نہیں کہ ہتھیار اٹھا لئے جائیں، سرفراز بگٹی
  • برطانوی رکنِ پارلیمان کا اپنے ملک سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مطالبہ
  • بھارت میں خود ساختہ ریاست کا جعلی سفارتخانہ بے نقاب، ملزم گرفتار
  • اسرائیل ہماری کارروائیاں روکنے سے قاصر ہے، رہنماء انصار الله
  • کیا سیاست میں رواداری کی کوئی گنجائش نہیں؟