Express News:
2025-06-02@15:56:04 GMT

ہم نے ہمیشہ تصادم روکنے کی کوشش کی ، علی محمد خان

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

لاہور:

رہنما تحریک انصاف علی محمد خان کا کہنا ہے کہ ہم نے تو ہمیشہ تصادم کو روکنے کی کوشش کی ہے، عمران خان صاحب کی مذاکرات کی جو کوشش تھی، یہ بھی کوشش تھی کہ سیاسی قوتیں ، سرجوڑ کر بیٹھیں اور خود مسائل کا حل نکالنے کی سعی کریں۔ 

ایکسپریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ میں سمجھتا ہوں کہ دو تین چیزوں نے معاملہ بڑا خراب کیا، ایک تو خان صاحب سے ہماری مذاکراتی کمیٹی کی ملاقات کا نہ ہونااور بار بار اس میں تعطل ہونا ، دوسرا اس دوران جو خان صاحب کو سزا سنا دی گئی۔

ماہر قانون حسن رضا پاشا نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 200 جو کہ پانچویں ترمیم کے ذریعے آئین میں لایا گیا جس میں صدر پاکستان کو یہ اختیار دیدیا گیا کہ وہ چیف جسٹس آف پاکستان اور متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان یعنی جہاں سے جج کو لانا اور جہاں پر جج کو بھیجنا ، تینوں کی مشاورت کے بعد ، چوتھی مشاورت اس جج کی ہے جس کو وہ ٹرانسفر کرنا چاہتے ہیں۔ تو ان کی مشاورت کے بعد وہ نوٹیفائی کر سکتے ہیں۔ اب یہ آئین کا حصہ ہے۔

ماہر قانون جہانگیر جدون نے کہاکہ آئین کا آرٹیکل200 دودن پہلے تو آئین میں شامل نہیں کیا گیا یہ تو بہت پہلے کا موجود ہے، اس معاملے میں اس کی ٹائمنگ اور وجہ بہت اہم ہے،آئین میں تو بہت ساری چیزیں لکھی ہوئی ہیں۔ 

آپ بتا دیں کہ آئین کے کون سے آرٹیکل ہیں جن پر یہ حکومت یا صدرمن وعن عمل کررہے ہیں، پوری عدلیہ خود آئین پر عمل نہیں کر رہی،آئین کا حصہ ہے کہ لوگوں کو سستا انصاف ان کی دہلیز تک پہنچایا جائے گا، ہمارے ملک میں کسی کو سستا انصاف مل رہا ہے؟۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ا ئین کا

پڑھیں:

’’انصاف‘‘

نور مقدم کا مقدمہ ایک ایسی کہانی ہے جو صرف ایک لڑکی کی زندگی کے چراغ گل ہونے کی کہانی نہیں بلکہ وہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہم اپنی اس سماجی عدالتی اور اخلاقی بربادی کو دیکھ سکتے ہیں جس پر صدیوں سے گرد جمی ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ انصاف ہوگیا۔ ہمیں کہا گیا کہ قاتل کی پھانسی کی سزا برقرار رکھی گئی ہے، لیکن اس فیصلے میں وہ ریمارکس بھی ثبت ہو چکے ہیں جو مظلوم کو کٹہرے میں لاکھڑا کرتے ہیں اور مجرم کو بالواسطہ ہی سہی ایک بگاڑ کا شکار نوجوان کہہ کرگویا معذور قرار دیتے ہیں؟

جب اس طرح کی رائے سامنے آئے کہ ’’ لڑکی کو بچنے کا موقع ملا، اسے بھاگ جانا چاہیے تھا‘‘ تو یہ کسی مجرم کو فائدہ دینے والی دلیل ہے حالانکہ ایک نہتی لڑکی، ایک نہتی عورت جب کسی جگہ قید ہوتی ہے، جب اس کے پاس بھاگنے کی راہیں مسدود کردی جاتی ہیں، جب اسے جسمانی ذہنی اور نفسیاتی اذیت دی جاتی ہے تب وہ کیسے فرار ہو سکتی ہے؟

ہم ایک ایسے سماج میں سانس لے رہے ہیں جہاں عورت کا جسم اس کی آواز اس کی مرضی اور اس کی موت تک کو مشکوک سمجھا جاتا ہے، وہ اگر چُپ رہتی ہے تو اس پر الزام ہے۔ وہ بولتی ہے تو گستاخ ٹھہرتی ہے۔ وہ عدالت جاتی ہے تو کٹہرے میں خود ہی کھڑی ہوتی ہے اور جب وہ قتل ہو جاتی ہے تو اس کے بھاگ نہ سکنے پر سوال اٹھایا جاتا ہے۔

یہ ہماری ہر اس بیٹی کی پکار ہے جو اس سماج میں سانس لیتی ہے، جسے کبھی غیرت کے نام پر مارا جاتا ہے کبھی ونی کردیا جاتا ہے، کبھی ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور جب وہ انصاف مانگتی ہے تو اسے کردارکے آئینے میں پرکھا جاتا ہے۔ جس نظامِ عدل کو مظلوم کا سہارا ہونا چاہیے وہ اکثر و بیشتر طاقتورکا ہتھیار بن کر سامنے آتا ہے۔

ہم نے مختاراں مائی کو دیکھا، ہم نے قندیل بلوچ کی موت کو دیکھا اور ہم نے نور مقدم کا لہو بھی زمین پر بہتا دیکھا، لیکن کیا ہم نے ریاست، عدلیہ اور سماج کی جانب سے کسی اجتماعی توبہ ،کسی سچے خراج عقیدت یا کسی سنجیدہ اصلاحی قدم کو دیکھا؟ نہیں۔ کیونکہ اس نظام کی جڑوں میں وہ زہر موجود ہے جو عورت کو دوسرے درجے کی مخلوق سمجھتا ہے۔ وہ قانون جو طاقتور مرد کے سامنے جھکتا ہے، وہ ضابطے جو بااثر خاندانوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن جاتے ہیں اور وہ فیصلے جو ظالم کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، اس سماج کی عورت کوکبھی انصاف نہیں دے سکتے۔

پاکستان کی اشرافیہ اور خاص طور پر مرد اشرافیہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ تصاویر تو بناتی ہے، انھیں سوشل میڈیا پر فخر سے ظاہرکرتی ہے لیکن جب کسی مجرم کا تعلق اس اشرافیہ سے ہوتا ہے تو پھر یہ پورا طبقہ انصاف کی راہوں میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ بااثر امیر ملزمان کے گھر پر پولیس نہیں پہنچتی، ان کے خلاف بیانات بدل دیے جاتے ہیں اور ذہنی مریض ہونے کی جعلی گواہیاں عدالتوں میں پیش کی جاتی ہیں۔ پھر بھی ہمیں بتایا جاتا ہے کہ انصاف اندھا ہے، سب برابر ہیں۔

کاش کہ یہ اندھا انصاف ایک لمحے کو وہ آنکھ کھولتا جو صرف عورتوں کے دکھ دیکھ سکے۔ ان کے زخموں کو محسوس کرسکے، ان کی چیخوں کو سن سکے۔ لیکن یہاں تو نظام انصاف بھی پدر سری نظام کے پروردہ ہے۔ وہ بھی وہی زبان بولتا ہے جو اس سماج کی گلی کوچوں میں عورت کے خلاف بولی جاتی ہے۔
انصاف صرف سزا دینے کا نام نہیں۔ انصاف سماجی سوچ بدلنے مظلوم کو سینے سے لگانے اور طاقتور کو کٹہرے میں لا کھڑا کرنے کا نام ہے۔

ہم کب سمجھیں گے کہ عورت کے خلاف یہ جنگ صرف کسی ایک مجرم یا ایک کیس کی بات نہیں بلکہ پورے نظامِ ظلم کے خلاف اعلانِ بغاوت ہے؟ یہ بغاوت ہم تبھی کامیابی سے کر سکیں گے جب ہم اپنی عدلیہ اپنے نظامِ تعلیم اپنے میڈیا اپنے گھروں اور مساجد میں عورت کو برابری کا درجہ دیں گے۔ جب ہم اس پدرسری ذہنیت کے خلاف علم بلند کریں گے جو عورت کو یا تو چادر میں لپیٹ کر دفن کرنا چاہتی ہے یا بازار میں نیلام کرنا چاہتی ہے۔

عورت کی آزادی اس کے تحفظ اور اس کی عزت کا سوال صرف انسانی حقوق کا سوال نہیں بلکہ ایک سیاسی طبقاتی اور معاشی سوال بھی ہے۔ جب تک اس ملک کی اکثریتی غریب عورتیں، غربت، جہالت اور پدرسری کی تکون میں پھنسی رہیں گی، تب تک نور مقدم جیسے کیسز آتے رہیں گے اور عدلیہ انھیں صرف سزا دے کر بری الذمہ ہو جائے گی، ان زخموں کو بھرنے کی کوئی کوشش نہیں کرے گا۔

ہمیں انصاف چاہیے لیکن وہ انصاف جو عورت کی خاموشی کو آواز دے اس کے آنسوؤں کو عدالتی تحریروں میں شامل کرے اور ججوں کو یہ سکھائے کہ آپ کی کرسی پر بیٹھ کر آپ کے الفاظ بھی انصاف کے ترازو میں تولے جاتے ہیں، اگر آپ کا ایک ریمارک مجرم کو تقویت دے یا مظلوم کو مزید مجرم بنا دے تو وہ ریمارک صرف ایک لفظ نہیں بلکہ ایک سند بن جاتا ہے۔

ہمیں آپ کو اور اس پورے سماج کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا ظالم کی زبان بولنے والوں کے ساتھ۔ کیونکہ تاریخ خاموش نہیں رہتی وہ ہر لفظ کو محفوظ کرتی ہے۔
ہم تمہیں یاد رکھیں گے، ہر اُس بیٹی کو جس کے خواب اس سماج نے تاریک راہوں میں دفن کیے اور ہم لڑیں گے اس دن تک جب تک انصاف واقعی انصاف بن کر عورت کے قدم چومے گا نہ کہ اس کے زخموں پر سوالیہ نشان بنے گا۔
 

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ، ماحولیاتی انصاف کو فروغ دینے کیلئے کمیٹی کی تشکیل نو
  • سکھوں کی دو اہم مذہبی تقریبات کے شیڈول کا اعلان کر دیا گیا
  • عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مذاکرات،متضاد بیانات صورتحال کوپیچیدہ بنارہے ہیں ،تنویراحمد
  • سپریم کورٹ نے ماحولیاتی انصاف کو فروغ دینے کی کمیٹی کی تشکیل نو کردی
  • سندھ بلوچستان کے عوام کا جینامرناایک ساتھ ،آبپاشی مسائل مشاورت سے حل کیے جائیںگے : وزیراعلی سندھ
  • کرپشن و غیر قانونی بھرتیوں کا معاملہ، ایف آئی اے کا پی اے آر سی ہیڈ آفس پر رات گئے چھاپہ، ریکارڈ تلف کرنے کی کوشش ناکام، چیئرمین آفس سیل، تفصیلات سب نیوز پر
  • جنوبی ایشیائی خطے میں نیوکلیئر تصادم یا دوستانہ تعلقات
  • جنوبی ایشیائی خطے میں نیوکلیئر تصادم کا خطرہ موجود ہے، جنرل شمشاد مرزا
  • ’’انصاف‘‘
  • آئندہ تصادم ہوا تو پورے پاکستان، بھارت میں ہو گا: جنرل ساحر