Jasarat News:
2025-04-26@03:18:51 GMT

پیکا ترمیمی ایکٹ

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

پیکا ترمیمی ایکٹ

پاکستان میں روز اوّل سے آزادی اظہار رائے پر قدغن لگائی جاتی رہی ہے اور جب جب حکمرانوں کو موقع ملا چاہے اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو سب اس حمام میں ننگے پائے گئے۔ موجودہ حکمرانوں نے پیکا ترمیمی ایکٹ کے ذریعے جو آزادی رائے پر کاری ضرب لگائی ہے اس کی تو کوئی مثال نہیں ملتی۔ تماشا یہ کہ اس کالے قانون پر دستخط بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر سے کروائے گئے۔ پیپلز پارٹی جو خود کو جمہوریت کا چمپئن کہتی نہیں تھکتی اوراب یہ بدنما داغ شاید کبھی پیپلز پارٹی کے چہرے سے صاف بھی نہیں ہوسکے گا اور ان کے چہرے سے نقاب بھی اتر چکی ہے۔ اقتدار کی ہوس اور کرسی کے شوق نے ان کے عزائم کو بھی بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے۔ مسلم لیگ کے وزیراعظم لاکھ چاہتے اور پارلیمنٹ، سینیٹ کا ایوان اس کالے قانون کو پاس بھی کر دیتا لیکن صدر آصف زرداری اس کالے قانون پر دستخط نہیں کرتے تو ان کی عزت بچ جاتی۔ ملک بھر میں صحافی برادری اور اخباری صنعت و صحافی تنظیمیں سڑکوں پر نکل آئی ہیں اس کالے قانون کے خلاف پریس کلبوں پر کالے پرچم آویزاں کردیے گئے ہیں اور ملک گیر احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری نے الیکٹرونک کرائمز کی روک تھام ترمیمی بل 2025 پیکا کی توثیق کر کے پاکستان کی سیاست میں ایک بھونچال مچا دیا ہے۔ اس قانون سے اب آن لائن جعلی خبروں کے مرتکب افراد کو سزا دی جائے گی۔ ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ جو بھی شخص جان بوجھ کر جھوٹی معلومات پھیلاتا ہے جس سے معاشرے میں خوف وہراس یا بدامنی پھیل سکتی ہے تو اسے تین سال تک قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزا ئیں ایک ساتھ دی جاسکے گی۔ صدر پاکستان کے دستخط کے بعد یہ کالا قانون اب عملی طور پرنافذ العمل ہوچکا ہے۔ پاکستان میں رہی سہی آزادی رائے اب مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔

پیکا ترمیمی ایکٹ بلاشبہ غیر آئینی اور آئین میں دی گئی آزادی اظہار کے تحفظ سے متصادم ہے۔ پاکستان کی تمام اپوزیشن جماعتوں، صحافی تنظیموں نے اس قانون کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور اسے پاکستان کے نوجوانوں کی سوچ پر قدغن لگانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 کو لاہور ہائی کورٹ میں لاہور پریس کلب کے رکن جعفر بن یار نے اپنے وکیل کے توسط سے چلینج بھی کردیا ہے۔ درخواست گزار کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پیکا بل متعلقہ اسٹیک ہولڈرز اور صحافتی تنظیموںکی مشاورت کے بغیر لایا گیا جو آئین میں دی گئی آزادی اظہار کے تحفظ سے متصاوم ہے لہٰذا عدالت پیکا ترمیمی ایکٹ کو غیر آئینی قرار دے اور عدالت پیکا ترمیمی ایکٹ کے تحت ہونے والی کارروائیوں کو درخواست کے حتمی فیصلے سے مشروط کرے۔ پیکا ایکٹ بل کے مسودے میں ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے جس میں ڈی آر پی اے کو آن لائن مواد ہٹانے کا اختیار حاصل ہوگا۔ اتھارٹی کو ممنوع یا فحش مواد تک رسائی حاصل کرنے کا اختیار ہوگا۔ اتھارٹی کو ممنوع مواد تشہیر کرنے پر ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا اختیار ہوگا۔ ڈی آر پی اے سوشل میڈیا مواد کو ریگولیٹ کرنے کا بھی اختیار ہوگا۔ اتھارٹی پیکا ایکٹ کے تحت شکایات کی تحقیقات اور مواد تک رسائی کو بلاک یا محدود کرنے کی مجاز ہوگی۔ اتھارٹی سوشل میڈیا کمپنیوںکے لیے قائم فریم کا تعین کرے گی۔ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے پاکستان میں دفاتر یا نمائندے رکھنے کے لیے سہولت فراہم کرے گی۔ وفاقی حکومت تین سال کے لیے چیئرپرسن اور تین اراکین کا تقررکرے گی اور یہ اتھارٹی چیئرپرسن سمیت دیگر چھے ارکان پر مشتمل ہوگی۔ سیکرٹری اطلاعات، سیکرٹری آئی ٹی اور چیئرمین پی ٹی اے اتھارٹی کے رکن ہوں گے۔ اتھارٹی کے پاس سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو قواعد کی پاسداری کے لیے رجسٹرڈ کرنے اور ان کے لیے شرائط طے کرنے کا اختیار ہوگا۔ ایکٹ کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل 90 روز میں کیس نمٹانے کے پابند ہوں گے۔ ٹربیونل کے فیصلے کو ساٹھ روز کے اندر عدالت عظمیٰ میں دائر کرنے کا اختیار ہوگا۔ ایکٹ کے تحت وفاقی حکومت نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ این سی سی آئی اے سائبر کرائم سے متعلق مقدمات کی تحقیقات کرے گی۔ مجوزہ ترامیم کے تحت ایف آئی اے کی سائبر کرائم ونگ ختم کرکے ایف آئی اے سائبر کرائم کے تمام اثاثے، بجٹ این سی سی آئی اے کو منتقل ہوجائیں گے۔ اس کے متبادل کے طور پر قائم اتھارٹی آٹھ ارکان پر مشتمل ہوگی اور پانچ ارکان کا تقرر وفاقی حکومت کرے گی۔

پیکا ایکٹ ترمیمی بل پیپلز پارٹی کے لیے چھچھوندر کی شکل اختیار کرچکی ہے نہ نگلی جائے اور نہ ہی اگلی جائے۔ ایک جانب وہ صحافتی تنظیموں اور میڈیا کے افراد سے یکجہتی کا اظہار کرتی رہی اور یقین دہانی کرواتی رہی کہ پیپلز پارٹی آزادی صحافت کی سب سے بڑی علمبردار ہے اور کسی قیمت پر یہ کالا قانون اسمبلی سے پاس نہیں ہوگا اور اگر ہو بھی گیا تو صدر تو پیپلز پارٹی کا ہے وہ اس پر کسی بھی قیمت پر دستخط نہیں کریں گے جس طرح انہوں نے مداراس ایکٹ بل پر دستخط نہ کر کے کیا تھا لیکن پیپلز پارٹی کے صدر تو ایک ہی اشارے پر ڈھیر ہوگئے اور اسمبلی میں بھی پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، متحدہ ودیگر اتحادی جماعتوں نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیکا ایکٹ کے حق میں ووٹ دیا۔ ان سے اچھے تو سابق وزیر اعظم مرحوم میر ظفر اللہ خان جمالی تھے جب انہیں پرویز مشرف کی جانب سے امریکا کے اشارے پر قبائلی علاقہ جات اور طالبان کی آڑ میں شمالی علاقہ جات، سوات، وزیرستان آپریشن کی پالیسوں کا علم ہوا تو وہ مستعفی ہوگئے اور اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اس گندی سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔

پاکستان پہلے ہی بحرانی صورتحال سے دوچار ہے اور پیکا ایکٹ کے نفاذ سے ملک میں افراتفری اور انارکی پھیلنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے لیے اور زیادہ مشکلات پیدا نہ کریں۔ پیکا ایکٹ کے خلاف صحافیوں اور سول سوسائٹی، مزدوروں، طلبہ اور اپوزیشن جماعتوں کی تحریک کا مقابلہ کرنے کی نہ اس میں سکت ہے اور نہ ہمت یہ تحریک وکلا تحریک سے بھی زیادہ زور دار اور توانا ہوگی اور بڑی سے بڑی طاقت اس تحریک کو نہیں روک سکے گی۔

بجھا سکو تو دیا بجھا دو
دبا سکو تو صدا دبا دو
دیا بجھے گا تو سحر ہوگی
صدا دبے گی تو حشر ہوگا

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پیکا ترمیمی ایکٹ پیپلز پارٹی کے کا اختیار ہوگا اس کالے قانون پیکا ایکٹ کے ایکٹ کے تحت سوشل میڈیا کرنے کا کے خلاف ا ئی اے دیا ہے ہے اور کرے گی کے لیے

پڑھیں:

نہروں کے ایشو پر پی پی ن لیگ کا اتحاد متاثر نہیں ہوگا، عرفان صدیقی

لاہور:

پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ نہروں کے ایشو پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا اتحاد متاثر نہیں ہوگا، پیپلز پارٹی ایک سنجیدہ سیاسی جماعت ہے۔

الحمرا آرٹس کونسل میں تقریب میں شرکت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ انہوں ںے کہا کہ حکومت بانی پی ٹی آئی عمران خان سے خوف زدہ نہیں ہے بلکہ پی ٹی آئی خود اپنے جال میں پھنس چکی ہے، ہمارے مقدمات سپریم کورٹ میں شروع ہوتے تھے اور یہیں ختم ہو جاتے تھے مگر پی ٹی آئی رہنماؤں کے مقدمات ماتحت عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔

عرفان صدیقی نے کہا کہ نہروں اور پانی کی تقسیم کے مسائل مل بیٹھ کر حل ہوں گے، دونوں جماعتوں نے میثاق جمہوریت کیا ہوا ہے،نہروں کے ایشو پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا اتحاد متاثر نہیں ہوگا، تحفظات کہیں بھی ہوسکتے ہیں جو بات چیت کے ذریعے حل ہوسکتے ہیں، پیپلز پارٹی ایک سنجیدہ سیاسی جماعت ہے، وہ بھی عوام کے ووٹ لے کر آتی ہے۔

بھارتی دہشت گردی کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ بھارت کا ٹریک ریکارڈ ہے جب بھی کوئی غیر ملکی مہمان آتا ہے تو اس طرح کے واقعات کر کے پراپیگنڈا کرتا ہے، بھارت نے کشمیریوں کی زمینوں پر قبضہ کیا، انہیں قتل کیا مقبوضہ کشمیر میں ہونے والا واقعہ فالس فلیگ ہے، بھارت پاکستان میں دہشت گردی کرتا چلا آرہا ہے، بھارتی جاسوس ہم نے پکڑے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • نازیبا ویڈیوز کی تشہیر پر کریک ڈاؤن، لاہور میں پیکا ایکٹ کے تحت 23 مقدمات درج
  • لاہور: اہم شخصیات کی نازیبا ویڈیو بنانے پر پیکا ایکٹ کے تحت 23 مقدمات درج
  • پیکا ایکٹ؛ ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث افراد کیخلاف 24 گھنٹوں میں 23 مقدمات درج
  • نہروں کے ایشو پر پی پی ن لیگ کا اتحاد متاثر نہیں ہوگا، عرفان صدیقی
  • قومی اسمبلی کمیٹی برائے داخلہ میں پاکستان سیٹیزن شپ ایکٹ ترمیمی بل منظور،پاکستانیوں کو شہریت نہیں چھوڑنی پڑے گی،ڈی جی پاسپورٹس
  • حساس اداروں سمیت سربراہ کیخلاف توہین آمیز پوسٹ، پیکا ایکٹ کے تحت شہری پر مقدمہ درج
  • قومی اسمبلی کمیٹی برائے داخلہ میں پاکستان سیٹیزن شپ ایکٹ ترمیمی بل منظور
  • پیکا ایکٹ میں ترمیم کیخلاف درخواست: حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری
  • حساس اداروں سمیت سربراہ کیخلاف توہین آمیز پوسٹ؛ پیکا ایکٹ کے تحت شہری پر مقدمہ درج
  • حساس اداروں سمیت سربراہ کیخلاف توہین آمیز پوسٹ؛ پیکا ایکٹ کے تحت شہری پر مقدمہ درج