پورٹ قاسم میں کیمیکل کا بڑے پیمانے پر اخراج ، سمندر میں آلودگی
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
٭مختلف کیمیکلز کی طے شدہ حد سے کہیں زیادہ بحری جہازوں سے کیمیکلزکا اخراج
٭اعلیٰ حکام کی سمندری آلودگی کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی سفارش
(جرأت نیوز) پورٹ قاسم اتھارٹی کی نااہلی، کیمیکل کے بڑے پیمانے پر اخراج کے سبب سمندر میں آلودگی پھیل گئی، اعلیٰ حکام نے سمندری آلودگی کو کم کرنے کے لئے فوری طور پر اقدامات کرنے کی سفارش کردی۔ جرأت کی رپورٹ کے مطابق نیشنل انوائرمنٹل کوالٹی اسٹینڈرڈ کی طے کیے گئے معیار کے تحت بائیو کیمیکل آکسیجن ڈیمانڈ (بی او ڈی) 5 کی حد 80پوائنٹس، کیمیکل آکسیجن ڈیمانڈ (سی او ڈی) کی حد 150، آئل اور گریس کی حد 10 پوائنٹس طے کی گئی ہے ۔ پورٹ قاسم اتھارٹی پر ایل این جی اور کول ٹرمینل پر کیمیکل کے اخراج کا ٹیسٹ میسرز ای ایم سی پاکستان پرائیویٹ لمیٹڈ، میسرز اینگرو الینگی ٹرمینل پرائیویٹ لمیٹڈ نے کیا ہے ، بحری جہازوں سے خارج ہونے والے بی او ڈی، سی او ڈی، ٹی ڈی ایس، ٹی ایس ایس، آئل اور گریس کی حد طے کردہ حدود سے زیادہ ہے ، بی او ڈی 5کی حد 80 پوائنٹ ہے لیکن پورٹ پر 137پوائنٹس ہے ، سی او ڈی کی حد 150پوائنٹس ہے لیکن پورٹ پر سی او ڈی 275پوائنٹ ہے ، آئل اینڈ گریس کی حد 10پوائنٹس ہے لیکن پورٹ پر آئل اینڈ گریس کا اخراج 20 پوائنٹس ہے جس کے باعث سمندر میں شدید آلودگی پھیل گئی ہے ۔ پورٹ قاسم اتھارٹی کو اپریل 2020میں آگاہ کیا گیا لیکن پورٹ انتظامیہ نے کوئی جواب نہیں دیا، ڈی اے سی کے اجلاس کے لئے تحریری درخواست کی گئی لیکن اجلاس طلب نہیں کیا گیا، اعلیٰ حکام نے سفارش کی ہے کہ پورٹ قاسم اتھارٹی کی انتظامیہ نیشنل انوائرمنٹل کوالٹی اسٹینڈرڈ کے تحت بی او ڈی 5 اور سی او ڈی کو کم کرنے لئے فوری اقدامات اٹھائیں۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
عید کے تیسرے روز کراچی کی مویشی منڈیوں میں سناٹا، جانوروں کی قیمتیں آدھی ہو گئیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی میں عیدالاضحیٰ کے تیسرے دن قربانی کے جانوروں کی قیمتوں میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی، مگر خریداروں کی عدم دلچسپی کے باعث شہر کی بڑی مویشی منڈیاں سنسان پڑی ہیں۔
یونیورسٹی روڈ پر قائم شہر کی مرکزی منڈی میں قربانی کے بعد گہما گہمی کی جگہ ویرانی نے لے لی ہے۔ بیوپاریوں نے جانوروں کی قیمتوں میں تقریباً 50 فیصد تک کمی کر دی ہے، لیکن اس کے باوجود منڈی میں خریدار نہ ہونے کے برابر ہیں۔
بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ قربانی کے ایام ختم ہوتے ہی شہری کم قیمت پر جانور خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کے باعث وہ بھاری نقصان میں جا رہے ہیں۔ ایک بیوپاری نے شکایت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ لاڑکانہ سے ڈیڑھ کروڑ روپے مالیت کا جانور لے کر آیا تھا، لیکن 70 لاکھ روپے میں بھی خریدار میسر نہیں آ رہا۔
بیوپاریوں نے منڈی میں انتظامی سہولیات کی کمی پر بھی ناراضی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کی جانب سے پینے کے صاف پانی تک کا بندوبست نہیں کیا گیا، اور وہ مجبوری میں 1500 روپے میں پانچ ڈرم پانی خریدنے پر مجبور ہوئے۔
ایک اور بیوپاری نے بتایا کہ انہوں نے 4 لاکھ روپے صرف کرایے میں خرچ کیے تاکہ جانور کراچی لا سکیں، لیکن یہاں کے شہری ان سے 4 لاکھ کا جانور محض 2 لاکھ میں خریدنے پر بضد ہیں، جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔
بیوپاریوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر جانور مناسب نرخوں پر فروخت نہ ہوئے تو وہ انہیں واپس آبائی علاقوں کو لے جانے پر مجبور ہوں گے۔ بعض بیوپاریوں نے دل برداشتہ ہو کر آئندہ کراچی میں مویشی منڈی نہ لگانے کا مشورہ بھی دیا، تاکہ شہریوں کو جانوروں کی اصل قیمت کا اندازہ ہو سکے۔