کیا اس بار کی وکلا تحریک کامیاب ہو سکتی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
26ویں آئینی ترمیم کے خلاف تو وکلا کی اکثریت متحد نظر آتی ہے جس کا اظہار سپریم کورٹ میں کم و بیش تمام بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے دائر درخواستوں سے کیا جا سکتا ہے لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی تعیناتی پر یہ رائے منقسم ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دوسرے صوبوں سے ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلہ خوش آئند، سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی اس اقدام کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں اور پیر کے روز تو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی اسے درست اقدام قرار دے دیا۔
گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے ایک کنونشن کا انعقاد کیا جس میں ایک قرارداد کی منظوری دی گئی کہ 10 فروری کو 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج کے لیے ملک بھر کے وکلا سپریم کورٹ کی طرف مارچ کریں گے۔ اس تحریک کے روح رواں وکلا کا حامد خان گروپ ہے لیکن کیا یہ گروپ اس بار وکلا کی سنہ 2007 جیسی تحریک کو جنم دے سکتا ہے؟
موجودہ سیٹ اپ پتا نہیں کیوں عدلیہ تباہ کرنے کے درپے ہے، حامد خان ایڈووکیٹسینیئر قانون دان حامد خان ایڈووکیٹ جن کے نام سے وکلا کا یہ دھڑا موسوم ہے شروع دن سے ہی 26 ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کرتے نظر آئے ہیں اور اسے عدلیہ کی آزادی پر شب خون قرار دیتے ہیں۔
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے حامد خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف تو تقریباً سارے وکلا متحد ہیں جس کا اظہار ہمیں اس طرح سے نظر آتا ہے کہ زیادہ تر ضلعی بار ایسوسی ایشنز کے انتخابات میں ہمارے امیدواران جیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ ججز بنیادی طور پر اسی 26 ویں آئینی ترمیم کے بینیفشریز ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 10 فروری کو ہم نے وکلا کو احتجاج کی کال دی ہے کہ سارے سپریم کورٹ کے سامنے جمع ہو کر احتجاج کریں۔
مزید پڑھیے: اسلام آباد ہائیکورٹ کا ڈیوٹی روسٹر جاری، 3 نئے ججز بھی شامل
حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ میں 8 نئے ججز کی تعیناتی کا کوئی جواز ہی نہیں اور ہماری نظر میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی ریٹائرمنٹ کے بعد ایک اسامی خالی ہوئی تھی جس کو پر کرنے کی ضرورت ہے اور ہم یہ کہتے ہیں کہ پہلے آپ 26 ویں آئینی ترمیم پر فل کورٹ سے فیصلہ کروائیں اس کے بعد آپ ججز تعیناتیاں کریں لیکن بظاہر یوں لگتا ہے کہ یہ سپریم کورٹ کو اپنے من پسند ججز سے بھرنا چاہتے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ وکلا کی واضح اکثریت 26 ویں آئینی ترمیم کے مخالف تو نظر آتی ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم سنہ 2007 جیسی تحریک بنتے نہیں دیکھ رہے تو انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت بہت بڑی طاقت اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نبرد آزما ہیں اور حکومت میں شامل اور اس کی اتحادی جماعتیں سب ہمارے خلاف ہیں اس لیے ہمیں وہ مومینٹم بنتا نظر نہیں آتا لیکن تحاریک ایک رات میں کامیاب نہیں ہوتیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انڈیا میں وکلا کی ایک تحریک سنہ 1974 میں شروع ہو کر سنہ 1977 میں کامیاب ہوئی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ موجودہ سیٹ اپ پتا نہیں کیوں جوڈیشری کے ادارے کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ تحریک آہستہ آہستہ زور پکڑ رہی ہے اور ہمیں پوری امید ہے کہ یہ انشاءاللہ کامیاب ہو گی‘۔
یہ سنہ 2007 جیسی تحریک نہ ہی بنے تو اچھا ہے، امان اللہ کنرانیسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج وکلا کا حق ہے اور آئین و قانون کے ساتھ جس طرح کا کھیل کھیلا گیا ہے اور عدلیہ کی آزادی کو زمیں بوس کیا گیا ہے اس بات کو ایک وکیل ہی سمجھ سکتا ہے عام آدمی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ سنہ 2007 میں تو ایک ڈکٹیٹر بیٹھا ہوا تھا اور اس کے خلاف تحریک تھی لیکن اب تو عوام کے پیسوں سے تنخواہیں لینے والے اسمبلی میں بیٹھے ہوئے ہیں اور جس طرح سے پارلیمنٹ سے زبردستی 26 ویں آئینی ترمیم منظور کروائی گئی وہ سب کے سامنے ہے، اس پر شدید ردعمل ہوگا اور ہر دن کے ساتھ بڑھتا چلا جائے گا اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ پارلیمان کو بیٹھ کر اس مسئلے کے حل کے لیے کام کرنا چاہیے۔
مزید پڑھیں: ماضی میں کب کب ججز کا دوسرے صوبوں سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلہ ہوا؟
ان کا کہنا تھا کہ اپنے مفاد کے لیے ترامیم لانا تو کوئی بات نہیں، عوام کے مفاد کے لیے ترامیم لے کر آئیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آپ کو اسلام آباد سے کوئی نہیں ملتا جو آپ لاہور سے لے آتے ہیں، اسطرح کی بدنیتی پر مبنی کام نہیں ہونے چاہییں۔
امان اللہ کنرانی نے کہا کہ 26 ویں ترمیم ہمارے آئین پر ایک داغ ہے جس کو جلد دھل جانا چاہیے۔
ترمیم آئینی طریقہ کار کے مطابق ہوئی ہے، احتجاج نہیں بنتا، شاہ خاور ایڈووکیٹسابق اٹارنی جنرل آف پاکستان شاہ خاور ایڈووکیٹ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس بار وکلا کا احتجاج سنہ 2007 کی طرح سے بالکل بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ موجودہ صورتحال پر بار ایسوسی ایشنز کے اندر بہت اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایڈیشنل ججز کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری
انہوں نے کہا کہ کئی بار ایسوسی ایشنز نے تو 26 ویں آئینی ترمیم اور اس کے نتیجے میں کیے گئے اقدامات کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم ایک باضابطہ پارلیمانی طریقہ کار کے تحت ہوئی ہے اور اس کے خلاف احتجاج بالکل بھی نہیں ہونا چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
26ویں آئینی ترمیم اسلام آباد ہائیکورٹ حامد خان گروپ وکلا تحریک.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 26ویں ا ئینی ترمیم اسلام ا باد ہائیکورٹ حامد خان گروپ وکلا تحریک اسلام ا باد ہائیکورٹ کورٹ بار ایسوسی ایشن ویں ا ئینی ترمیم کے باد ہائیکورٹ میں بار ایسوسی ایشنز انہوں نے کہا کہ کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کورٹ میں وکلا کا نہیں ہو کے خلاف ہیں اور وکلا کی ہے اور اور اس کے لیے
پڑھیں:
مولانا نے اتحاد کیوں نہیں بنایا
تحریک انصاف کو ایک اور سیاسی دھچکا ملا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی جماعت جے یو آئی (ف) نے فی الحال تحریک انصاف کے ساتھ کسی بھی قسم کا سیاسی اتحاد نہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف کا گرینڈ اپوزیشن الائنس بنانے کا خواب بھی ٹوٹ گیا۔ اگر دیکھا جائے تو مولانا کے انکار نے تحریک انصاف کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس سے تحریک انصاف کے سیاسی وزن میں کمی ہوگی۔ اور ان کی سیاسی تنہائی میں اضافہ ہوگا۔
تحریک انصاف کے سیاسی نقصان پر بعد میں بات کرتے ہیں، پہلے اس پہلو پر غور کریں کہ اگر گرینڈا پوزیشن الائنس بن جاتا؟ تحریک انصاف اور جے یو آئی (ف) کا سیاسی اتحاد بن جاتا تو کیا ہوتا؟ یہ پاکستان کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی ہوتی۔ پی ٹی آئی کے سیاسی وزن میں بہت اضافہ ہوتا۔ حکومت کے مقابلہ میں اپوزیشن مضبوط ہوتی۔ میں ابھی احتجاجی سیاست کی بات نہیں کر رہا۔ یہ اتحا د نہ بننے سے تحریک انصاف کی پارلیمانی سیاست کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اپوزیشن تقسیم رہے گی۔
آپ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلا س کی مثال سامنے رکھ لیں۔ مولانا اجلا س میں پہنچ گئے۔ حکومت کے مطابق اپوزیشن کی نمائندگی موجود تھی۔ تحریک انصاف کے بائیکاٹ کا وہ اثر نہیں تھا۔ جو مشترکہ بائیکاٹ کا ہو سکتا تھا۔ اسی طرح 26ویں آئینی ترمیم کی ساکھ بھی تب بہتر ہوئی جب اس کو اپوزیشن نے بھی ووٹ ڈالے۔ چاہے مولانا نے ہی ڈالے۔ اس لیے میری رائے میں مولانا کے اتحاد نہ کرنے کے فیصلے کا تحریک انصاف کی پارلیمانی سیاست کو بھی کافی نقصان ہوگا۔
وہ بھی کمزور ہوگی۔ یہ الگ بات ہے کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تو پہلے ہی کئی دن سے اس اتحاد کے نہ بننے کا اعلان کر رہے ہیں۔ وہ بار بار بیان دے رہے تھے کہ اگر مولانا نے اتحاد نہیں کرنا تو نہ کریں، ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایسے بیانات بنتے اتحاد کو بھی توڑ دیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں تحریک انصاف کے اندر ایک دھڑا جہاں یہ اتحاد بنانے کی کوشش کر رہا تھا، وہاں تحریک انصاف کا ہی ایک اور دھڑا روز اس اتحاد کو بننے سے روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اگر اسد قیصر اتحاد بنانے کی کوشش کر رہے تھے تو گنڈا پور اور عمر ایوب اس کے حق میں نہیں تھے۔
جے یو آئی (ف) کے رہنما کامران مرتضیٰ کا بہت سادہ موقف سامنے آیا ہے۔ان کے مطابق اسد قیصر جو اس اتحاد کے لیے تحریک انصاف کی طرف سے فوکل پرسن مقرر ہو ئے تھے، وہ لندن چلے گئے اور سیاسی طو رپر بھی خاموش ہو گئے۔ جب اعظم سواتی نے اسٹبلشمنٹ سے بات چیت کے بیانات دیے تو کامران مرتضیٰ نے فوری بیان دیا کہ تحریک انصاف سے یہ بات طے ہوئی ہے کہ دونوں جماعتوں میں سے کوئی اکیلا اسٹبلشمنٹ سے بات نہیں کرے گا۔ جب بھی بات کی جائے مشترکہ بات کی جائے گی، آپ دیکھیں ابھی باقاعدہ اتحاد بنا ہی نہیں ہے اور تحریک انصاف کی طرف سے طے شدہ اصولوں سے انحراف شروع ہو گیا۔
جے یو آئی (ف) کے بیانات کہتے رہے اسد قیصر وضاحت کریں۔ ہم صرف ان کی وضاحت قبول کریں گے۔ کامران مرتضیٰ بیان دیتے رہے کہ وضاحت دیں ۔ لیکن اسد قیصر چپ رہے۔ ہ لندن سے واپس بھی نہیں آئے۔ ان کے علاوہ کسی نے (جے یو آئی ف )سے ملاقات کی کوشش بھی نہیں کی۔ ایسے میں آپ دیکھیں جے یو آئی (ف) کے پاس کیا آپشن رہ جاتے ہیں۔ وہ ایسے میں اتحاد نہ بنانے کا اعلان کرنے کے سوا کیا فیصلہ کر سکتے تھے۔
تحریک انصاف کا وہ دھڑا جو اسٹبلشمنٹ سے مفاہمت چاہتا ہے۔ وہ اس اتحاد کی راہ میں رکاوٹ نظر آرہا تھا۔ وہ دھڑا جو کے پی میں حکومت میں ہے، وہ اس اتحادکے حق میں نظر نہیں آرہا تھا۔ عمر ایوب بھی زیادہ پرجوش نہیں تھے۔ یہ سب سامنے نظر آرہا تھا۔
یہ اتحاد نہ بننے سے تحریک انصاف کا سڑکیں گرم کرنے کا خواب بھی چکنا چورہو گیا ہے۔ تحریک انصاف اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اب اس میں سڑکیں گرم کرنے طاقت نہیں رہی ہے۔ پنجاب میں مزاحمتی طاقت ختم ہو گئی ہے۔
کے پی میں تقسیم بڑھتی جا رہی ہے۔ اس لیے اگر مولانا ساتھ مل جاتے اور احتجاجی تحریک شروع کی جاتی تواس میں زیادہ طاقت ہوتی۔ مولانا کا ورکر زیادہ طاقتور ہے۔ مولانا کی احتجاجی سیاست کی طاقت آج بھی تحریک انصاف سے زیادہ ہے۔ لیکن یہ بھی تو تسلیم کریں کہ مولانا نے اگر اپنا ورکر باہر نکالنا ہے تو تحریک انصاف سے کچھ طے ہونا ہے۔ جے یو آئی کا ورکرکوئی کرائے کا ورکر تو نہیں جو تحریک انصاف کو کرائے پر دے دیا جائے۔
میں سمجھتا ہوں شاید اسٹبلشمنٹ مولانا کو تو اس اتحاد بنانے سے نہیں روک سکتی تھی لیکن اس لیے تحریک انصاف ہی کو استعمال کر کے اس اتحاد کو بننے سے روکا گیا ہے۔ تحریک انصاف نے اس اتحاد کے خدو خال بھی واضح نہیں کیے تھے۔
تحریک انصاف نے اگر قائد حزب اختلاف کے عہدے اپنے پاس رکھنے تھے تو کم از کم اتحاد کی سربراہی کی پیشکش مولانا کو کی جانی چاہیے تھی۔ کیا تحریک انصاف چاہتی تھی کہ وہ اپوزیشن کو ملنے والے تمام عہدے بھی اپنے پاس رکھے اور مولانا سڑکیں بھی گرم کر دیں۔ مجھے لگتا ہے کہ تحریک انصاف میں لوگوں کو یہ خوف پڑ گیا کہ اگر مولانا آگئے تو ان کا عہدہ چلا جائے گا۔ کے پی خوف میں آگئے کہ مولانا کی جماعت کو اقتدار میں حصہ دینا ہوگا۔ قومی اسمبلی سینیٹ میں تحریک انصاف کی قیادت اپنے خوف میں پڑ گئی۔ اس لیے تحریک انصاف نے یہ اتحاد نہ بننے کی راہ خود ہموار کی۔
ایک اور بات جو جے یو آئی (ف) کے لیے شدید تشویش کی بات تھی کہ بانی تحریک انصاف نے ابھی تک اس اتحاد کو بنانے اور مولانا فضل الرحمٰن کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ ان کی پالیسی اور سوچ واضح نہیں تھی۔
بانی تحریک انصاف مولانا کے بارے میں خاموش ہیں۔ وہ نہ حق میں بات کر رہے ہیں نہ خلاف بیان کر رہے ہیں۔ جے یو آئی چاہتی تھی کہ کم از کم اس اتحاد کو بنانے کے لیے بانی کا خط ہی آجائے کہ وہ مولانا کو اتحاد بنانے کی دعوت دیں۔ اس بات کی کیا گارنٹی تھی کل بانی تحریک انصاف کہہ دیں کہ میں نے تو اس اتحاد کی منظوری نہیں دی تھی۔ میں نہیں مانتا۔ ایسا کئی مواقع پر ہو بھی چکا ہے۔ لیکن تحریک انصاف بانی تحریک انصاف کا خط لانے میں بھی ناکام رہی۔ اسد قیصر باہر تھے۔ خط آیا نہیں، کوئی ملنے کو تیار نہیں تھا، پھر اتحاد کیسے بنتا۔