Nai Baat:
2025-07-26@09:30:25 GMT

پیکا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے لئے نہیں

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

پیکا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے لئے نہیں

پیکاایکٹ پر صدر مملکت نے دستخط کر دیئے ہیں جس کے بعد یہ قانون کا حصہ بن گیا ہے۔ ایسے میں صحافیوں نے اس پر احتجاج ریکارڈ کرایا ہے اور اس ایکٹ پر تحفظات کا اظہار کیاہے۔ جہاں صحافی برادری اس ایکٹ کے خلاف آوازیں اٹھا رہی ہے وہیں چند عناصر گمراہ کن پراپیگنڈا پر اتر آئے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اظہار رائے کی آزادی ہر فرد ، جماعت اور گروہ کا حق ہے۔ آئین پاکستان اس کی مکمل آزادی دیتا ہے مگر ریاست اور ریاست کے مفادات کا تحفظ سب سے بڑھ کررہا ہے بالخصوص بے لگام سوشل میڈیا کو صحافتی اصول سکھانا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پیکا ایکٹ پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے لئے ہے ہی نہیں۔ پیکا ایکٹ میں کی گئی ترامیم کا مقصد فیک نیوز اور جھوٹے پروپیگنڈا کے بڑھتے ہوئے مسئلے کا تدارک کرنا ہے، جو کہ نہ صرف معاشرے میں افراتفری ، انتشار پھیلاتا ہے بلکہ اکثر فیک نیوز اور جھوٹی خبریں ملک و قوم کے لیے سنگین نتائج کا سبب بھی بنتی ہیں۔ فیک نیوز کے ذریعے بے بنیاد اور من گھڑت خبریں پھیلانا ملک کے تشخص اور استحکام کو نقصان پہنچاتا ہے اور اس سے عوام میں بے اعتمادی اور تنازعات بڑھتے ہیں۔ آج کل مصنوعی ذہانت (AI) کی بڑھتی ہوئی استعمال کی وجہ سے فیک ویڈیوز اور آڈیوز کا پھیلنا زیادہ آسان ہو گیا ہے۔ یہ تمام مسائل حکومتی سطح پر سنجیدہ اقدامات اور جھوٹ کے پھیلائو کو روکنے کے لئے سخت قوانین کی اشد ضرورت کے متقاضی تھے۔ الیکٹرانک جرائم کی روک تھام (ترمیمی) ایکٹ کا مقصد ڈیجیٹل سکیورٹی اور قانونی اظہار کو یقینی بناتے ہوئے پاکستان کے سائبر قوانین کو عالمی بہترین طریقوں سے ہم آہنگ کرتا ہے۔ سخت نگرانی اور قوانین کے نفاذ کے ذریعے، یہ ایکٹ پاکستان کی سائبر پالیسیوں کو مضبوط کرتا ہے تاکہ غلط معلومات اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کو روکا جا سکے۔پیکا ایکٹ ترامیم اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پھیلنے والی فیک نیوز کو قانون کی عملداری سے روکا جا سکے۔ اس ایکٹ میں سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (SMPRA) کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی نگرانی کرے گی اور ان پر قوانین کے نفاذ کو یقینی بنائے گی۔ یہ اتھارٹی غیر قانونی مواد کی شناخت کرکے سوشل میڈیا سے جھوٹا اور بے بنیاد منفی پروپیگنڈے کی روک تھام اور ایسامواد ہٹانے کے لئے اہم اقدامات کرے گی تاکہ عوام کو گمراہ کرنے والی معلومات کا پھیلاؤ روکا جا سکے۔اس کے ساتھ ساتھ کمپلینٹ کونسل کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے تاکہ جھوٹ پر مبنی مواد کے خلاف درج شکایات کا ازالہ کیا جا سکے۔ اسی طرح اس ایکٹ کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبونل قائم کیا گیا ہے، جو سائبر کرائم سے متعلق اہم مقدمات کا فیصلہ کرے گا اور فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ، نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی (NCCIA) کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا، جو وفاقی تحقیقاتی ادارہ (FIA) کے سائبر کرائم ونگ کی جگہ لے گی۔ NCCIA کو وسیع تفتیشی اختیارات دیئے جائیں گے تاکہ وہ سائبر کرائمز کی موثر تحقیقات کر سکے اور مجرموں کو سزا دلوانے میں کردار ادا کر سکیں۔پیکا ایکٹ کی ترامیم میں یہ بات بھی شامل کی گئی ہے کہ اگر کسی کے ساتھ ناانصافی ہو تو اسے اپیل کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ اس سے شہریوں کو انصاف حاصل کرنے کا موقع ملے گا اور اگر کسی کے خلاف غلط فیصلہ صادر ہو تو وہ عدالت میں اپنے حقوق کی حفاظت کر سکے گا۔ دْنیا بھر میں ریگولیٹری اتھارٹیز کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مثال کے طور پر برطانیہ میں آفس آف کمیونیکیشنز، جسے عام طور پر آف کام کہا جاتا ہے نشریات، ٹیلی کمیونیکیشنز اور پوسٹل انڈسٹریز کے لیے حکومت سے منظور شدہ ریگولیٹری اور مسابقتی اتھارٹی ہے۔ آف کام برطانیہ میں سوشل میڈیا اور آلات کے استعمال کی نگرانی کرتا ہے۔براڈکاسٹ میڈیا، ٹیلی کمیونیکیشن، اور پوسٹل سروسز بھی آف کام کے ذریعے ریگولیٹ ہوتے ہیں۔امریکہ میں بھی عوامی نشریاتی اداروں پر ضابطے موجود ہیں جیسا کہ فیڈرل کمیونکیشن کمیشن (ایف سی سی) جو غیر مہذب مواد کی نشریات کو روکنے کے لئے کام کرتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کا اس ترامیم کی حمایت کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ دنیا بھر میں حکومتیں اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے اس طرح کے اقدامات کرتی ہیں۔ ان ترامیم کا مقصد آزادی اظہار کو دبانا نہیں، بلکہ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ عوامی رائے کو گمراہ کن اور جھوٹے پروپیگنڈے سے بچایا جائے۔ بعض عناصر کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ فیک نیوز پھیلانے کا اپنا کاروبار جاری رکھ سکیں اور ریاستی اداروں کو بدنام کر کے اپنے سیاسی فائدے حاصل کر سکیں۔ یہ ترامیم ایک مثبت قدم ہے جو نہ صرف عوام کو سچائی فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے بلکہ ملک کے استحکام اور ترقی کے لیے بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس کے ذریعے ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جو معلومات کی صحت اور درستی کو اہمیت دے اور جہاں جھوٹ کو شکست دی جا سکے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ملک کا مین سٹریم میڈیا اس سے کیسے متاثر ہوگا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ پیکا لاء مین سٹریم میڈیا اور مین سٹریم صحافیوں کو مضبوط کریگا۔ جس میں لاء کے مطابق ڈیجیٹل میڈیا اتھارٹی، کونسل آف کمپلینٹ اور ٹربیونل میں زیادہ تر صحافی اور پرائیویٹ لوگ شامل ہیں جس سے اس قانون کی شفافیت کا پتہ چلتا ہے۔ لہٰذا اس قانون کا مقصد سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنا ہے نہ کہ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا، کیونکہ وہ پہلے ہی پیمرا قانون کے تحت چلتا ہے اس پر پیکا لاء لاگو نہیں ہوتا۔ ابھی اس لاء کے رولز بننے باقی ہیں جس میں تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے اس لاء کے رولز پر تمام حلقوں سے بات چیت بھی جاری رہے گی اور صحافتی اداروں اور مین سٹریم کی مشاورت سے سوشل میڈیا کی ریگولیشن کے معاملے پر آگے بڑھا جائے گا۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: سوشل میڈیا پیکا ایکٹ فیک نیوز کے ذریعے کو یقینی کرتا ہے کا مقصد اس ایکٹ کے خلاف جا سکے گیا ہے کے لیے کے لئے

پڑھیں:

غیر ملکی سوشل میڈیا کمپنیوں کو پاکستان میں دفاتر کھولنے کی دعوت

ڈیجیٹل دہشتگردی کیخلاف عالمی تعاون کی اپیل،ڈیٹا شیٔرنگ اور دہشت گردوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ڈیلیٹ کرنے کا مطالبہ
دہشت گرد تنظیمیں سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کو بھرتی کر رہی ہیں، طلال چوہدری کی بیرسٹر عقیل ملک کے ہمراہ پریس کانفرنس

حکومت کی غیر ملکی سوشل میڈیا کمپنیوں کو پاکستان میں دفاتر کھولنے کی دعوت، پاکستان نے ڈیجیٹل دہشتگردی کیخلاف عالمی تعاون کی اپیل کردی، حکومت نے ڈیٹا شیٔرنگ اور دہشت گردوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ڈیلیٹ کرنے کا مطالبہ کر دیا، اسلام آباد میں وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے وزیر مملکت برائے قانون و انصاف بیرسٹرعقیل ملک کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد تنظیمیں سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کو بھرتی کر رہی ہیں۔آزادی اظہار کو خاموش نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف دیوار بنا رہے ہیں۔دہشتگردی سے منسلک سیکڑوں سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا پتہ لگایا۔ حکومت نیشنل ایکشن پلان کے تحت ڈیجیٹل دہشت گردوں کیخلاف ایکشن لے رہی ہے۔دہشت گردوں کو اظہار رائے کے نام پر اپنا بیانیہ پھیلانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ پاکستان عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف ایک مضبوط مورچہ ہے۔پاکستان نے دہشت گردی سے منسلک سوشل میڈیا کے سینکڑوں اکاؤنٹس کا پتہ لگایا۔ پاکستان نے ڈیجیٹل دہشتگردی کیخلاف عالمی تعاون کی اپیل کردی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز خودکار بلاکنگ سسٹم بنائیں، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز صارفین کے ڈیٹا تک رسائی دیں۔وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ نے آئی ایس کے پی، ٹی ٹی پی پر پابندی لگائی۔امریکہ اور برطانیہ نے بی ایل اے کو دہشتگرد تنظیم قرار دیا۔ ٹی ٹی پی، آئی ایس کے پی، بی ایل اے اور بی ایل ایف سوشل میڈیا کے ذریعے پراپیگنڈہ اور نوجوانوں کی بھرتی کر رہی ہیں۔سوشل میڈیا پر دہشتگردی سے متعلق 2 ہزار 417 شکایات زیر غور ہیں۔ سوشل میڈیا کمپنیوں کو اے آئی کے ذریعے دہشتگرد مواد فوراً ہٹانا ہوگا۔طلال چوہدری نے کہا کہ سوشل میڈیا پر دہشت گردی سے متعلق 2,417 شکایات زیر غور ہیں۔سوشل میڈیا کمپنیوں کو اے آئی کے ذریعے دہشت گرد مواد فوراً ہٹانا ہوگا۔اس موقع پر وزیر مملکت برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ دہشت گرد پراپیگنڈا پیکا کے تحت قابل سزا جرم ہے۔ پاکستان نے ڈیجیٹل دہشت گردی کے خلاف عالمی تعاون کی اپیل کی ہے۔ ان کاکہناتھا کہ حکومت نے سوشل میڈیا کمپنیوں سے ڈیٹا شیٔرنگ اور تعاون کا مطالبہ کیا ہے۔پاکستان نے غیر ملکی سوشل میڈیا کمپنیوں کو ملک میں دفاتر کھولنے کی دعوت دی ہے۔ پاکستان نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے دہشت گرد اکاؤنٹس کی بندش، خود کار بلاکنگ اور ڈیٹا تک رسائی کا مطالبہ کیا ہے۔ دہشتگردی پراپیگنڈہ پیکا ایکٹ کے تحت قابل سزا جرم ہے۔

متعلقہ مضامین

  • غیر ملکی سوشل میڈیا کمپنیوں کو پاکستان میں دفاتر کھولنے کی دعوت
  • ایک اور معروف ٹک ٹاکر گھر میں مردہ پائی گئیں؛ 2 افراد گرفتار
  • بنگلہ دیش کے خلاف شکست کے بعد کوچ مائیک ہیسن کا سوشل میڈیا پر اہم بیان
  • ’بلیک پرل‘ نامی گھوڑا پیانو بجا کر بچی کو ہوش میں لے آیا، سوشل میڈیا پر وڈیو وائرل
  • بھارتی سوشل میڈیا انفلوئنسر کو چلتی کار پر ڈانس کرنا مہنگا پڑ گیا
  • عائزہ خان کے نیدرلینڈز میں سیر سپاٹے، دلکش تصاویر وائرل
  • سوشل میڈیا اور ہم
  • 16 سال سے کم عمر بچوں نے سوشل میڈیا اکاؤنٹ بنایا تو کتنی سزا ہوگی؟
  • کون ہارا کون جیتا
  • ڈرامہ "گونج" میں کومل میر کی ظاہری تبدیلی اور اداکاری سوشل میڈیا پر زیر بحث