گورنر کے پی کو آئی ایم سائنسز کے بورڈ آف گورنرز کے عہدے سے بھی فارغ کرنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
بل میں گورنر سے بورڈ آف گورنر چیئرمین کا عہدہ لے کر وزیر علی کو دیا جائے گا جس کے لیے آئی ایم سائنسز آرڈیننس 2002ء کی شق 10 کلاز ون میں ترمیم تجویز کی گئی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جامعات کی چانسلر شپ کے بعد گورنر خیبر پختونخوا کو آئی ایم سائنسز کے بورڈ آف گورنرز کے عہدے سے بھی فارغ کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق اس سلسلے میں خیبر پختونخوا اسمبلی میں انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز (ترمیمی) بل 2025ء پیش کردیا گیا ہے جس میں آئی ایم سائنسز آرڈیننس 2002ء کو ترامیم کے ساتھ ایکٹ میں تبدیلی کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ بل میں گورنر سے بورڈ آف گورنر چیئرمین کا عہدہ لے کر وزیر علی کو دیا جائے گا جس کے لیے آئی ایم سائنسز آرڈیننس 2002ء کی شق 10 کلاز ون میں ترمیم تجویز کی گئی ہے۔
ترمیم کے بعد گورنر خیبرپختونخوا کے بجائے وزیر اعلی خیبرپختونخوا بورڈ آف گورنرز کے چئیرمین اور 13 ممبرز بورڈ آف گورنرز میں شامل ہوں گے۔ دریں اثنا کے پی اسمبلی پاک آسٹریا فاشو خولے انسٹی ٹیوٹ آف اپلائیڈ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی ہری پور بل 2025ء پیش کیا گیا۔ ایم پی اے اکبر ایوب نے اس حوالے سے تحریک پیش کی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: آئی ایم سائنسز بورڈ آف گورنرز بورڈ آف گورنر
پڑھیں:
کامران ٹیسوری نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:۔ گورنر ہائوس سندھ اور اسپیکر سندھ اسمبلی کے درمیان اختیارات اور رسائی کے تنازع نے بالآخر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا دیا ہے۔
موجودہ گورنر کامران ٹیسوری نے سندھ ہائی کورٹ کا وہ فیصلہ چیلنج کر دیا ہے جس میں عدالت نے قائم مقام گورنر کو گورنر ہائوس کی مکمل رسائی دینے کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے مطابق، جسٹس امین الدین کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ اس مقدمے کی پیر 3 نومبر کو سماعت کرے گا۔
سندھ ہائی کورٹ نے حالیہ فیصلے میں قرار دیا تھا کہ قائم مقام گورنر کو آئینی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لیے گورنر ہاو ¿س کے تمام حصوں تک بلا تعطل رسائی ہونی چاہیے۔
تاہم گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے موقف اختیار کیا ہے کہ یہ فیصلہ آئینی اختیارات اور انتظامی دائرہ کار سے تجاوز کے مترادف ہے، لہٰذا اسے کالعدم قرار دیا جائے۔
سیاسی و قانونی حلقوں کی نظر اب سپریم کورٹ کی سماعت پر مرکوز ہے، جو اس اختیاراتی تنازع کے مستقبل کا تعین کرے گی۔